عبداللہ شاکر
رکن
- شمولیت
- دسمبر 01، 2013
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 36
- پوائنٹ
- 43
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بشکریہ صالح حسن سلفی
آلِ تقلید نے جہاں عوام الناس کو عقائد کے باب میں گمراہ کیا وہاں اپنے مخالفین سے بغض و عناد نے انہیں تاریخ سازی سے بھی باز نہ رہنے دیا۔ اپنے تقلیدی جمود کو برقرار رکھنے کے لیئے تاریخ کو مسخ کر کے بھولے بھالے تقلیدی عوام کو خوش فہمیوں بلکہ غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیا۔شیخ عبدالحق بنارسی شیعہ تھے؟
بشکریہ صالح حسن سلفی
اسی طرح کی ایک کاوش مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنی کتاب شاہ ولی اللہ اور انکی سیاسی تحریک میں دکھائی ہے۔
اپنے مسلکی تعصّب میں شیخ عبدالحق بنارسی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:
( شاہ ولی اللہ اور انکی سیاسی تحریک ص ۸۳)امیر شہید نے ان کے رہنما کو جو مولانا محمد اسماعیل اور امام شوکانی دونوں کا شاگرد اور زیدی شیعہ تھا ، اپنی جماعت سے نکلوا دیا۔"
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
(ص ۱۰۳)وہ ہندوستانی عالم جو کہ مذہباً زیدی شیعہ تھا اور امیر شہید نے اسے اپنی جماعت سے نکلوا دیا تھا، وہ بھی مولانا ولایت علی کے ساتھ شامل ہو گیا۔ نواب صدیق حسن خان اسی استاد کے توسط سے امام شوکانی کے شاگرد ہیں۔
جواب:
ان ہر دو عبارات کا حاصل یہ ہے کہ
1) شیخ عبدالحق بنارسی زیدی شیعہ تھے۔
2) سیّد احمد شہید نے انہیں اپنی جماعت سے نکلوا دیا تھا۔
اس الزامات کی حقیقت آگے تفصیل سے آ رہی ہے ان شاء اللہ۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے جس بے دریغی اور بے باکی سے علماء اہلحدیث کو شیعہ کہاہے اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:
(مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و خیالات پر ایک نظر ص ۴۰۔۴۱)عام جماعت اہل حدیث کو زیدیت ، شیعیت، رفض اور مختلف القاب سے اس بے دردی کے ساتھ نوازا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور رہ رہ کر تعجب ہوتا ہے۔۔۔ اور اسی لپیٹ میں یمن کے سلفی عالم ا ور محدّث قاضی محمد بن علی شوکانی اور نجد کے مظلوم مصلح محمد بن عبدالوہاب اور ان کے مّتبعین بھی آ گئے ہیں۔
شیخ عبدالحق بنارسیؒ پر زیدیت اور شیعیت کے الزام کا رد کرتے ہوئے مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:
(مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و خیالات پر ایک نظر ص ۷۶)اہلحدیث عالموں کے جس رہنما کو مولانا زیدی شیعہ کہتے ہیں، وہ شیخ عبدالحق بن فضل اللہ بنارسی مہاجر مکّی (ف ذولحجہ ۱۲۸۹ھ) ایک متبع سنّت سلفی عالم ہیں۔ ان پر زیدیت اور شیعت کا الزام عائد کرنا بڑا ظلم ہے۔مولانا ان کا ذکرِ خیر مختلف جگہوں پر کیا ہے دو موقعوں پر زیدی شیعہ،( ص ۱۹۵،۱۶۲) اور ایک مقام پر نواب صدیق حسن خا ن صاحب (ف ۱۳۰۷ھ) کا استاذ بھی بتایا گیا ہے لیکن نام لینے سے احتراز رہا ہے ۔ صرف ایک جگہ کتاب التمہید کے اقتباس میں ان کا نام آتا ہے۔
اس کے بعد وہی اقتباس جو ہم اوپر نقل کر آئے ہیں وہ پیش کر کے لکھتے ہیں:
(مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و خیالات پر ایک نظر ص ۷۶)ہمیں نہیں معلوم کہ امیر شہید نے انہیں کب جماعت سے نکلوا دیا تھا، کیا اس کا کوئی مستند ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے؟
اب رہا شیخ عبدالحق بن فضل اللہ پر زیدیّت و شیعیّت کا الزام ، اس کی حیثیت ایک بہتان سے زیادہ نہیں۔
مولانا عبدالحق بنارسی ؒ کے حالات تراجم علمائے حدیث ہند میں موجود ہیں ،مصنف لکھتے ہیں:
( تراجم علمائے حدیث ہند ج1 ص 344)عبدالحق بنارسی نسباً عثمانی والد کا نام مولوی فضل اللہ۔۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے حلقہ درس میں شہید علیہ الرحمۃ کے شریک سبق ہو کرحدیث پڑھ رہے ہیں، ۔۔ دہلی سے تکمیل کے بعد یمن جا کر امام محمد بن( علی) قاضی شوکان سے حدیث پڑھ رہے ہیں، سند و اجازہ بنفسہ امام شوکانی سے حاصل ہے۔
مولانا نذیر احمد رحمانی نے بھی عبیداللہ سندھی کے اس الزام کی تردید کی ہے لکھتے ہیں:
(اہلحدیث اور سیاست ص۱۰۱)مولانا سندھی کا ایک افسوسناک بہتان: مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ عبدالحق محدث بنارسی کے مسلک کی بابت یہ نہایت افسوسناک بہتان باندھا ہے کہ وہ مذہباً زیدی شیعہ تھے اور امیر شہید سیّد احمد بریلوی نے انہیں اپنی جماعت سے نکلوا دیا تھا۔
اس کے علاوہ دیگر کئی کتب میں شیخ عبدالحق محّدث بنارسی کے حالات ملتے ہیں۔
تاریخ اہل حدیث ج1 ص 656۔658
جماعت مجاہدین ص 284
تاریخ اہل حدیث ص 391
بر صغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص2 11۔ 125
اس کے علاوہ مقلدین میں سے جناب عبدالحلیم چشتی (حیات وحید الزماں ص 80)اور مولوی رحمان علی نے (تذکرہ علمائے ہند ص 110، فارسی طبع نولکشور لکھنؤ) بھی شیخ عبدالحق کا ذکر کیا ہےاور بعض حالات بیان کیئے ہیں ، لیکن کسی نے بھی آپکے شیعہ یا زیدی ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
عبدالحلیم چشتی لکھتے ہیں:
( حیاتِ وحید الزماں ص 80)عبدالحق بن فضل اللہ نام ہے آپ کے والد کی بود و باش چونکہ بنارس میں تھی اس لیے بنارسی کہلاتے ہیں اور ولادت ۱۲۰۶ھ/۱۷۸۱ء میں قصبہء نیوتن ضلع اناؤ میں ہوئی۔اسی بناء پر نیتنوی سے بھی مشہور ہوئے۔بچپن ہی میں حدیث سے لگاؤ پیدا ہو گیا اور اس کی تحصیل کے لیئے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، دہلی جا کر شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ساتھ شاہ عبدالقادررؒ اور شاہ عبدالعزیز ؒسے حدیث پڑھی۔ سیّد احمد شہیدؒ کی معیت میں حج ادا کیا۔ ۱۲۳۸ھ/۱۸۲۲ء میں صنعاء ، یمن چلے گئے اور قاضی شوکانی سے حدیث کی سند لے کر ہندوستان آئے، ملا عابد سندھی مدنی اور عبداللہ بن محمد اسماعیل الامیر سے بھی روایتِ حدیث کی اجازت ہے۔سنّت کے متبع اور توحید کے بہت دلدادہ تھے۔۔۔
مولانا عبید اللہ سندھی کے اس الزام کا رد کرتے ہوئے تنزدیل الصدیقی لکھتے ہیں:
(برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص 112۔113)شیخ عبدالحق بنارسی یمن کے محدث و فقیہ محمد بن علی شوکانی کے شاگرد تھے اور مولانا عبیداللہ سندھی، امام شوکانی کو بھی زیدی شیعہ سمجھتے ہیں اسی لیئے ان کے تلمیذِ خاص شیخ عبدالحق بنارسی پر زیدیت کا الزام لگایا ہے جبکہ امام شوکانی بھی متبع سنّت اہل حدیث عالمِ دین ہیں ان پر بھی زیدیت کا الزام سراسر بہتان ہے۔
بعض اعتراضا ت مجھے دیوبندی بلاگ اور فورم پر نظر آئے جہاں کچھ حوالے اس ضمن میں دیئے گئے تھے۔ یہاں ان کا بھی ذکر کیئے دیتے ہیں۔
ایک دیوبندی بلاگ پر مضمون بعنوان " اہل حدیث یا شیعہ؟؟" موجود ہے مضمون نگار لکھتا ہے:
لنک:جان لو کہ غیرمفلدین چھوٹے شیعہ ہیں
سید احمد بریلوی شہید کے قافلہ میں مشہور تھا کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں [قصص اکابر ص26]
غیر مقلد فرقہ کا بانی عبدالحق بنار سی ہے اور اس نے شوکانی یمنی سے علم حاصل کیا اور شوکانی زیدی شیعہ تھا۔
[مقدمہ فتح القدیر مصری ص5]
اور زیدی شیعہ کافر ہیں۔ [ عالمگیری ج2 ص283]
قاری عبدالرحمن محدث پانی پتی لکھتے ہیں ً" بعد تھوڑے عرصہ کے مولوی عبدالحق مولوی گلشن کے پاس گئے اور کہا کہ میں شیعہ ہوں اور میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں ہزارہا اہل سنت کو قید مذہب سے نکال دیا ہے اب انکا شیعہ ہونا بہت آسان ہے چنانچہ مولوی گلشن علی نے تیس روپیہ ماہوار انکی نوکری کروادی۔" (کشف الحجاب ص21)
نواب صدیق حسن غیر مقلد لکھتا ہے کہ عبدالحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصہ میں اسکے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف اسکا رجحان بڑا مشہور ہے۔ (سلسلۃ العسجد)
مولانا عبدالخالق جو غیر مقلدوں کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کے استاذ اور خسر ہیں لکھتے ہیں: "عبدالحق بنارسی کو ایسی ہی نا شائستہ حرکتوں کی وجہ سے اپنی جماعت سے نکال دیا تھا اور علماء حرمین نے اسکے قتل کا فتوی دیا تھا [تنبیہ الضالین ص3] ایک جگہ لکھا کہ عبدالحق بنارسی درمیانی عمر میں رافضی [شیعہ] ہو گیا تھا۔
قاری عبد الرحمن محدث پانی پتی لکھتے ہیں" اس نے میرے سامنے یہ بات کہی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا علی رضی اللہ عنہ سے لڑی اگر توبہ نہیں کی تو مرتد مری" (کشف الحجاب ص21 )
http://raddegm.blogspot.com/2015/04/ahle-hadis-ya-shiaa.html
جواب:
غیر مقلد ین چھوٹے رافضی ہیں؟
مضمون نگار نے یہ تو بتا دیا کہ " سید احمد بریلوی شہید کے قافلہ میں مشہور تھا کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں۔ (قصص اکابر ص 26)"
لیکن اس کی وجہ نہیں بتائی یا شاید اسے معلوم ہی نہیں تھی، چلیں ہم بتلائے دیتے ہیں۔۔
در اصل بات یہ تھی کہ اپنی نوایجاد شدہ تقلیدی دیوبندی تحریک کو تقویت دینے اور لوگوں کو تقلیدی دیوبندی جکڑ بندیوں میں جکڑنے کے لیئے عوام الناس میں یہ بات پوری پلاننگ کے ساتھ مشہور کی گئی تھی کہ جو بھی فقہ حنفی اور تصوّف کا انکار کرے گا وہ شیعہ اور رافضی ہے خود مولانا عبیداللہ سندھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(شاہ ولی اللہ اور کی سیاسی تحریک ص 178۔180)دیوبندی نظام نے پچاس میں جس طرح کامیابی حاصل کی ہے وہ اس تجدید کی صداقت کے لیئے شاہد عدل ہے۔
اس نظام کو پختہ بنانے کے لیئے عوام کو بتلایا گیا کہ جس قدر رہنما فقہ حنفی اور ہندوستانی تصّوف چھوڑنے کی دعوت دیتے ہیں، وہ حقیقت میں شیعہ پارٹی کا کام کرتے ہیں۔ اس زمانے میں حزب ولی اللہ کا متوسط طبقہ ہر ایسے انسان کو جو فقہ (حنفی) اور تصّوف کا انکار کرتا ، چھوٹا رافضی کہتا رہا ہے۔
لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس دیوبندی تقلیدی روایت کی بھی حیثیت کسی افسانے سے زیادہ نہیں اگر بالفرض اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے کسی کا شیعہ یا رافضی ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے، جس پر مقلد اتنی بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں؟
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
( مجالسِ حکیم الامت ص 345)پھر فرمایا کہ بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے نفرت ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ہم خود ایک غیر مقلد کے متعقد اور مقلد ہیں، کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے
اگر غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں تو مقلدین کا اپنے "امام اعظم" کے متعلق کیا خیال ہے؟
اس کے بعد ایک متعّصب مقلد عبدالرحمٰن پانی پتی کی کتاب" کشف الحجاب " کے حوالے دیئے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ مخالفین کی ایسی باتیں باطل اور مردُود ہوتی ہیں جن کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں اور یہ شیخ عبدالحق بنارسی پر سراسر بہتان ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکتا۔
اگر ایسی کوئی بات موجود تھی تو شیخ بنارسی کی کسی تصنیف سے پیش کرتے لیکن مقلدین ایسی کوئی عبارت شیخ کی کتب سے نہیں دکھا سکتے ان شاء اللہ۔
نواب صدیق حسن خان کے ادھورا حوالہ:
دیوبندی مضمون نگار نے لکھا :
ہم کہتے ہیں کہ دیوبندی نے نواب صدیق حسن خان کی عبارت نقل کرنے مین خیانت سے کام لیا ہے اور ادھوری عبارت پیش کر کے اپنی مرضی کا مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔نواب صدیق حسن غیر مقلد لکھتا ہے کہ عبدالحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصہ میں اسکے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف اسکا رجحان بڑا مشہور ہے (سلسلۃ العسجد)
جناب تنزیل الصدیقی اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
( برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص: 114)نواب صاھب اپنے شیخ حدیث شیخ عبدالحق بنارسی سے متعلق لکھتے ہیں:
"وانتقال شیخ عبدالحق بن فضل اللہ محمدری در 1287 ہجری بمقام منیٰ در موسم حج بعد رجوع از عرفات و مزدلفہ اتفاق اقتادہ پس انچہ در اواسط عمر بعض تزلزل در عقائد ایشاں ومیل بسوی تشیع و جز آن معروف ست در آخر عمر ازان انابت نمودہ اقرار صریح بمذہب اہل سنت وجماعت کردہ بر طریقہ اتباع ازیں خاکدان بعالم جاوداں رحلت کردند و انما الاعمال بالخواتیم و ایں قسم نقل بمذاہب وتفرد ببعض اقوال براہ خطای اجتہادی از جمعی از اکابر سلف از فقہاء وغیرہم نیز منقول ست و باصلاح اصل و صحت ثل و استقامت و حسن خاتمہ عافیت عاقبہ ان شاء اللہ تعالیٰ مغفور و متجاوز عنہ باشد وفضل اللہ و اسع۔( سلسلة العسجد ص36)
نواب صاحب کی تحریر سے جو ثابت ہوتا ہے وہ حسبِ ذیل ہے:
1) شیخ عبدالحق اپنی عمر کے درمیانی عرصے میں بعض مسائل میں تشیع کی طرف مائل ہو گئے تھے۔
2)اپنی زنندگی کے آخری ایام میں جن مسائل میں ان اکا رجحان تشیع کی طرف ہوا تھا اس سے رجوع فرما لیا تھا اور اہل سنت والجماعت کے عقیدہ و مسلک پر مستحکم ہو گئے تھے۔
3) ان کا یہ تفرد خطائے اجتہادی کی قبیل سے تھا۔
نواب صاحب نے بالکل واضح الفاظ میں لکھا ہے جن بعض مسائل میں شیخ بنارسی کا رجحان تشیع کی طرف ہوا تھا ان سے بھی آخر کار رجوع فرما کر مذہب اہل سنّت والجماعت پر استقامت اختیار فرما لی تھی، کیا بعض مسائل میں تشیع کی طرف رجحان ہونے سے کوئی شخص شیعہ اور رافضی ہو جاتا ہے جبکہ ان سائل سے بھی بالآخر رجوع کر لیا ہو ؟ ہرگز نہیں۔
اس سلسلہ میں ایک حوالہ اور بھی دیا جاتا ہے ہم قارئین کی آسانی کے لیئے اس کا بھی ذکر کرتے چلیں۔
تنبیہ الضالین میں موجود ہے:
(تنبیہ الضالین و ہدایت الصالحین ص:3، بحوالہ برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص: 115)" سو بانی مبانی اس طریقہ احداث (یعنی ترکِ تقلید) کا عبدالحق ہے جو چند روز سے بنارس میں رہتا ہے اور امیر المومنین نے ایسی ہی حرکات ناشائستہ کے باعث اس کو اپنی جماعت سے نکا ل دیا اور علماء حرمین معظمین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا۔
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
(برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص: 118)تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ مولانا سندھی نے اس رسالے سے استدلال کرتے ہوئے تحقیق اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے اور ان ہی یہ ان کے لیئے کسی مضبوط دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اوّلاًً تو اس کا مرتب ہی گمنام ہے۔ ثانیاً اس کی تائید کسی دوسرے ماخذ سے نہیں ہوتی۔ ثالثاً اس کے وضع ہونے کی دلیل خود اسی میں موجود ہے مولانا محمد علی رام پوری کا اہل حدیث ہونا قطعاً محتاج ثبوت نہیں۔
اس کتاب میں واضعین نے ان کی تحریر ردّ تقلید میں وضع کر ڈالی۔ جبکہ عمل بالحدیث میں انہیں علاقہ دکن میں جن آلائم و مصائب کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیل مولانا محمد کوکن عمری نے اپنی کتاب "خانوادہ قاضی بدر الدولہ " میں رقم کی ہے اور جس کے حوالے سے مولانا نذیر احمد رحمانی نے اپنی کتاب " اہل حدیث اور سیاست " میں مولانا محمد علی رام پوری کے حالات میں لکھے ہیں۔"
(برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص: 116)
مزید لکھتے ہیں: " واقعہ یہ ہے کہ "تنبیہ الضالین " ایک جعلی کتاب ہے جس کے مندرجات ناقابلِ تسلیم ہیں۔ مسلکی عصبیت کی خاطر اسے تبصرہ و تنقید سے بالاتر سمجھنا اور بات ہے لیکن ایک دیانت دار مؤرخ اور سجائی کے متلاشی محقق کے لیئے اسے بطور سند پیش کرنا ناممکن ہے۔
کیا سیّد احمد شہید نے شیخ عبدالحق بنارسی ؒکو اپنی جماعت سے نکال دیا تھا؟
تنزیل الصدیقی الحسینی آگے چل کر لکھتے ہیں:
(برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق ص: 117)یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تردیدِ اہل حدیثیت کے شوق میں من چاہے الزامات کو تاریخ کا حصّہ بنانا اور حقیقت کو مسخ کرنے کے لیئے نت نئی روایات وضع کر لینا مخالفین کا وطیرہ رہا ہے۔
"تنبیہ الضالین" میں لکھا ہے کہ " علماء حرمین معظمین نے اس( عبدالحق ) کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا۔"
شیخ عبدالحق نے اپنی زندگی میں سات مرتبہ فریضہ حج کی سعادت حاصل کی تھی۔ سیّد احمد شہید رحمہ اللہ کے ساتھ ان کے ساتھ دوسرا حج تھا گویا اس کے بعد انہوں نے پانچ مرتبہ فریضہ حج ادا کیا۔حتیٰ کہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد بھی منیٰ کے مقام پر 6 ذی الحجہ 1287ھ میں کی۔ کیا یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ ان پر قتل کا فتویٰ بھی ہو، حکومتِ مکہ سے بھاگ کر انہوں نے اپنی جان بچائی ہو لیکن پانچ مرتبہ دوبارہ اسی دیار یں جائیں۔
شیخ الکل سیّد نذیر حسین کے ساتھ" برادرانِ یوسف "نے دیارِ کعبۃ اللہ میں کیا سلوک کیا تھا؟ کیا ان کی نگاہیں شیخ عبدالحق بنارسی کو معاف کر سکتی تھیں؟
خلاصہ بحث یہ کہ شیخ عبدالحق بنارسی رحمہ اللہ پر مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر مقلدین عبدالرحمٰن پانی پتی وغیرہ کے رفض و تشیع کے الزامات بالکل بے بنیاد اور سراسر بہتان ہیں کیونکہ شیخ عبدالحق بنارسی ایک متبع سنّت اہل حدیث / سلفی عالم و محدّث تھے۔