• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیطان کے مریدوں کی مدد کیسے کرتاہے :

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شیطان کے مریدوں کی مدد کیسے کرتاہے
شیطان سب سے پہلے اس ولی کاروپ دھارتا ہے جس سے لوگ مدد کے طالب ہیں پھر ان سے کچھ چیزوں کے بارے میں اس طرح گفتگو کرتاہے جس طرح شیاطین کاہنوں سے مخاطب ہوتے ہیں جیسے کہ اس پر غیبی امور منکشف ہورہے ہیں ، اس میں چند ایک باتیں صحیح ورنہ بیشتر جھوٹی ہی ہوتی ہیں ، پھر شیطان مرید کی بعض ضرورتیں پوری کردیتا اور بعض پریشانیوں سے چھٹکارا دلادیتا ہے ، جس کی انسان عام طور پر قدرت رکھتے ہیں، یہ دیکھ کر سادہ لوح سمجھتے ہیں کہ ولی ہی نے اپنی قبر سے نکل کریہ سارے کام کئے ہیں ، جبکہ حقیقت میں وہ شیطان تھا جس نے غیر اللہ سے فریاد کرنے والے مشرک کوگمراہ کرنے کے لئے ولی کاروپ دھار رکھاتھا۔
اسی طرح شیاطین بتوں کے مجسموں میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کے پجاریوں سے گفتگو کرتے، اور ان کی بعض ضروریات کی تکمیل کردیتے ہیں ، جیسا کہ بیشتر اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے ۔​
۲۔ اگر حاصل شدہ چیز ایسی تھی کہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے پاس اس کی قدرت نہیں مثلاً زندگی عطاکرنا، صحت دینا، مالداری سے نوازنا ، محتاجگی سے دوچار کرنا وغیرہ جو اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ خاص ہیں توہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ تقدیر الہی سے ہوا جسے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس سال پہلے لکھ دیا تھا، اور اس کے وقوع پذیر ہونے کایہی وقت مقرر تھا ، قبر والے کوپکارنے سے ایسا نہیں ہوا جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں ۔​
چنانچہ ایک دانشمند انسان کو اس طرح کے خرافات کو سچ نہیں ماننا چاہیئے بلکہ اپنے دل کو اللہ تعالی سے وابستہ رکھتے ہوئے اپنی تمام حاجات اس پر پیش کرنی چاہیئں تاکہ اللہ تعالی ان حاجات کی تکمیل فرمادے، اور قطعاً کسی مخلوق کی جانب متوجہ نہیں ہونا چاہیئے، اس لئے کہ مخلوق کمزور و عاجز اور نادان ہے۔​
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان اپنی حاجت روائی کامطالبہ اپنی ہی جیسی مخلوق سے کیسے کرتا ہے ، نیز وہ مخلوق کبھی مردہ ، سننے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ، بے اختیار ہوتی ہے، بلکہ وہ اس قدر ناتواں اور کمزور کہ جسم کے اوپر پڑی ہوئی مٹی سے ایک ذرہ بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی ہے، یہ سراسر گمراہی ، جہالت اور راہ حق سے انحراف نہیں تواور کیا ہے ؟!​
لیکن بس شیطان ان گناہوں کو لوگوں کے لئےمزین کرتاہے، اور اس عمل کے گھٹیا ہونے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ ایسا انسان مخلوق کے درکا بھکاری ہوتااور بزرگ و برتر رب سے منحرف نظر آتا ہے ، اللہ کی قسم یہی بصیرتوں کااندھا پن دلوں کی موت ہے۔​
جھوٹے کرامات:​
معجزات و کرامات کی حقیقت سے نابلند ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں پر یہ چیز عجیب و غریب طریقہ سے گڈ مڈ ہوگئی ، چنانچہ وہ حقیقی اور من گھڑت و بے بنیاد معجزات و کرامات میں فرق نہ کرسکے ، جنہیں دھوکہ باز لوگ خود ہی گھڑتے اور پھر انہیں معجزات و کرامات کانام دے کر لوگوں میں پیش کرتے ہیں ، تاکہ لوگوں کو اس میں ملوث کرکے ان کی عقلوں کامذاق اڑائیں اور غلط طریقہ سے ان کے مالوں کوکھائیں۔
حقیقی معجزات و کرامات وہ ہیں جو خالص اللہ تعالی کی جانب سے لوگوں تک اپنے پیغام کے اتمام ، اپنے رسولوں کی تائید اور اپنے بعض حقیقی نیک و صالح اولیاء کی عزت افزائی کے لئے ہوں ۔
بعض جاہل و نادان لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ معجزات و کرامات کسبی اور اختیاری چیزیں ہیں ،جن کاصدور انسان کے بس میں ہے کہ وہ جب چاہیں خود ہی معجزات و کرامات کاظہور کرسکتے ہیں ، اسی جہالت کے نتیجہ میں ان لوگوں نے یہ اعتقادات رکھا کہ اولیاء و صالحین کسی بھی وقت معجزات و اعتقادات کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ اپنے رب سے ناآشنا اور اپنے دین کی حقیقت سے نابلد ہیں ۔
ہم نادان اور صحیح دین سے بھٹکے ہوئے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ان جعل سازوں سے جو واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں، پھر وہ اسے لوگوں میں معجزہ یامتعدد اولیاء کی کرامات کی شکل دے کر پیش کرتے ہیں ، یہ ساری چیزی جھوٹ،خلاف حق ہیں ، اسی طرح کے واقعات شیطانی کھیل کود یاجعل ساز ذہنوں کی افترا پردازیاں ہیں ، جنہوں نے اس طرح کے خیالی واقعات کوگھڑ کر معجزات و کرامات کانام دے دیا ہے ، کہ قبر والوں کوہیبت ، عظمت اور بزرگی دی جائیں ان کے لئے مختلف طرح کی برکتیں ثابت کی جائیں ، تاکہ لوگ ان کی تعظیم کریں، او ر یہ چیزیں سادہ لوح عوام کو قبروں کی زیارت ، ان سے تبرک حاصل کرنے اور قبروں سے اپنی حاجات روائی کی جانب کھینچ کرلائیں، پھر اس طرح لوگ نذرو نیاز کے نام پر مال و دولت اور مختلف طرح کے کے ہدیئے لے کر آئیں تاکہ حرام طریقہ سے ان کی کمائی ہوئی جو بے مشغلہ رہ کر زندگی بسر کریں اور ناجائز طریقہ سے لوگوں کامال کھاکر ان کامذاق اڑانا چاہتے ہیں ۔
کوئی بھی صاحب عقل و خرد ، فطرت سلیمہ کاحامل قطعاً اس بات کی تصدیق نہیں کرے گا کہ جسم سے روح کے پرواز کر جانے اس کی حس و حرکت کے ختم ہوجانے بلکہ جسم کوکیڑوں کے کھاجانے اور اس کے بوسیدہ ہڈی ہوجانے کے بعد بھی وہ ہر طرح کے کام انجام دے سکتا ہے اس طرح کے گھٹیا دعوں کی تصدیق نادان و احمق کے سوا کوئی بھی نہیں کریگا، کیونکہ قبر پرست مردوں سے متعلق جس طرح کے دعوے کرتے ہیں ان کاصدور توزندوں ہی سے محال معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ مردے انہیں انجام دیں ، عقل کی عظیم نعمت جس سے اللہ تعالی نے ہمیں نوازا ہے کیا ہم اسے لغو سمجھ کر اس طرح کی خرافات کو سچ مان لیں ؟​
بیشک روشن عقلیں کج روی سے محفوظ فطرتیں انتہائی سختی کے ساتھ اس طرح کے خرافات کو سچ ماننے سے انکار کرتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی کے دستور ارادہ شرعیہ و کونیہ کے خلاف ہیں ۔
مشرکین ماضی و حال کے تناظر میں :​
قبروں اور مزاروں کاچکر کاٹنے والے بیشتر افراد یہ کہتے ہیں کہ دور جاہلیت میں مشرکین بتوں کوپوجاکرتے تھے، ہم تو بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ ہمارے پاس اولیاء و صالحین کی کچھ مخصوص قبریں ہیں ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے لیکن اللہ تعالی سے ان قبر والوں کے اکرام میں اپنی حاجت روائی کاسوال کرتے ہیں اور عبادت و دعا دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔​
ارادہ شرعیہ :​
ضروری نہیں کہ یہ وقوع پذیر ہوجائے مگر اس کی مراد اللہ تعالی کومحبوب اور پسندیدہ ہوتی ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے :​
وَاللہُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ۔(النساء: ۲۷)
'' اللہ تو چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے''۔​
یہ بہرحال وقوع پذیر ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ اس کی مراد اللہ کوپسند بھی ہواور یہ مشیت کے معنی میں استعمال ہوتاہے،جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے: كَفَرَ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا۝۰ۣ وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۝۲۵۳ۧ​
'' اور اگر اللہ چاہتا تویہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے ، لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتاہے''۔
ہم ان لوگوں کے شبہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں سے مدد اور برکت طلب کرنا درحقیقت انہیں پکارنا ہے جیسا کہ دور جاہلیت میں مشرکین ہرضرورت پر اپنے بتوں کوپکارتے تھے ، واضح رہے کہ دور قدیم میں مشرکین کابتوں کی اور دور حاضر میں مشرکین کاقبروں کی پوجا کرنا ، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اسلئے کہ بت ، قبر، طاغوت مختلف نام ہیں لیکن ہر ایک کی مراد ایک ہے یعنی ہر وہ چیز جس کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی چاہے خواہ وہ انسان زندہ یامردہ، پتھر یاحیوان وغیرہ ہوں ۔​
جب دور قدیم میں مشرکین بتوں کے وسیلہ اور ان کو پکارنے کی بابت دریافت کیاجاتا تووہ جواب میں کہتے تھے، جیساکہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا: مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝۰ۭ​
'' ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں''۔​
یعنی یہ بت ہمارے اور اللہ کے درمیان ہماری حاجت روائی کے لئے وسیلہ ہیں ، یہیں سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ دور جاہلیت اور آج اسلام کی جانب منسوب قبر پرستوں کی پکار میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں کے عمل کاخلاصہ اور مقصد ایک ہی نظر آتا ہے ، وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور غیر اللہ کوپکارنا۔
شرک سے محبت :​
محبت و تعظیم کے جذبہ سے سرشار ہوکر دل اور ہر جذبہ و احساس کااللہ کے سوا کسی مخلوق کی جانب پھرجانا اس مخلوق کی عبادت سمجھی جائے گی ، جبکہ یہ چیز اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔​
لہذا جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوت شدہ اولیاء و صالحین سے محبت رکھتے ہیں (اور اولیاء و صالحین سے محبت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے )لیکن ان کی تعظیم و تقدیس میں شریعت کی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں ، درحقیقت یہ لوگ ان کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ محبت میں حد سے تجاوز ہی کی وجہ سے وہ ان کی جانب دلی طور پر اس طرح مائل ہوجاتے ہیں کہ ان کے نام کی میلاد ، ان کے لئے نذر و نیاز ، کعبہ کی طرح ان کی قبروں کاطواف ، ان سے فریاد رسی اور مدد کاسوال کرنے لگتے ہیں اور یہی ساری چیزیں مردوں کی تعظیم اور ان کی محبت میں غلو کی دلیل ہیں ۔​
اس کادوسراثبوت یہ ہے کہ وہ قبر والوں کے لئے سچی ہی قسم کھانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کی جھوٹی مزاحیہ قسم کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں ، اور بعض قبر پرست اپنے کانوں سے سنتے ہیں کہ اللہ تعالی کوگالیاں دی جارہی ہیں لیکن ان کاجذبہ غیظ و غضب سے نہ توبیدار ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے احساس میں کچھ جنبش پیداہوتی ہے ، درآں حالانکہ اگر اپنے کسی پیر یاولی سے متعلق کسی کو دشنام طرازی کرتے سن لیں توغیظ و غضب سے پھٹ پڑتے ہیں ، کیا یہ ساری چیزیں اس بات کابین ثبوت نہیں ہیں کہ ان کے دلوں میں اولیاء و مشائخ کی تعظیم و تقدیس اللہ تعالی سے بڑھ کر اور ان کی محبت اللہ کی محبت سے زیادہ ہے ۔​
اللہ تعالی نے فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ​
'' بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالی کے شریک اوروں کوٹھہرکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ تعالی سے ہونی چاہیئے اور ایمان والے اللہ تعالی کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ''۔
شرک کی بہت سی قسموں میں سے ایک قسم شرک محبت ہے ، جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔​
اللہ تعالی بندوں کے قریب ہے:ارشاد باری تعالی ہے : وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶​
'' جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کوجب کبھی وہ پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری فرمانبرداری کریں، اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کاباعث ہے''۔​
چنانچہ اللہ اور بندے کے درمیان ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ تعالی کو سیدھا پکارنے اس کی پناہ لینے اور اس سے حاجت روائی کاسوال کرنے میں مانع ہو، یہاں تک کہ انسان قبر والوں کاوسیلہ لینے ان کو اللہ کے یہاں اپنی سفارش کے لئے پکارنے اور ان سے ایسی چیزوں کا سوال کرنے پر مجبور ہوجائے جو ان کی قدرت و اختیار سے باہر ہیں ، بلکہ ایک انسان پر ضروری ہے کہ سیدھا اپنے رب کی پناہ لے اور خود اپنی زبان سے اس سے مانگے اور اس کی بارگاہ میں شرعاً ثابت وسیلہ پیش کرے۔
شرعاً ثابت وسیلہ وہ ہے جو نیکی اور فرمانبرداری کے کاموں اور اللہ تعالی کے اچھےناموں اور بلند صفات کے ذریعہ ہوں، اور اس بات پر اعتقاد جازم رکھے کہ اللہ سبحانہ و تعالی وہی عزت ، زندگی ، موت، رزق ، نفع دینے والا،زندگی کے تمام تر امور کی تدبیر فرمانے والا ، نفع و نقصان کامالک ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی اعتقاد رکھے کہ کوئی بھی انسان خواہ وہ اللہ اور لوگوں کے نزدیک جس قدر بھی مقام و مرتبہ کاحامل ہو اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر کے بغیر کسی کومعمولی نفع و نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا ہے ۔​
جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :'' اور تم جان لو کہ بیشک اگر تمام لوگ جمع ہوکرتجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیاہے اور اگر تمام لوگ جمع ہوکر تجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تونہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تیرے لئے لکھ دیاہے۔​
اگر پوری امت مل کربھی نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتی ہے سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے توایک شخص توبدرجہ اولی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتاہے سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے۔​
پھر ایسی ہستیوں کوپکارنے کاسبب کیاہے جو نہ نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ ہی نقصان ؟ کیا یہ نادانی اور گمراہی کی انتہا نہیں ہے ، ضرور اللہ کی قسم ۔​
لہذا جو شخص بھی قبروں کاطواف ، ان کی تعظیم اور قبر والوں سے اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کاسوال اور اس طرح کے دیگر شرکیہ کاموں اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہو اسے ان تمام گناہوں اور خصوصاً اللہ تعالی کے ساتھ شرک جیسے خطرناک گناہ سے توبہ کرناچاہیئے جس کامرتکب ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے، والعیاذ باللہ ۔​
اللہ تعالی نے فرمایا : اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲​
'' یقین مانو جو اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کاٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا''۔
چنانچہ ایک پکے سچے مسلمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ شرک سے توبہ کرکے اپنی زندگی کے تمام تر امور میں خالص ایک اللہ کی عبادت کرے جس کاکوئی شریک و ساجھی نہیں ہے ، اور اللہ کے سوا کسی بھی مخلوق کی جانب متوجہ نہ ہوخواہ وہ جس قدر عظیم مقام و مرتبہ کاحامل ہو، نہ تواسے پکارے اور نہ ہی ایسے امور میں اس سے مدد کاطالب ہوجس کی قدرت اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے، کتاب و سنت پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہے، اہل بدعت اور اہل شرک کے ساتھ میل جول اختیار نہ کرے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ان سے متأثر ہوکر بلادلیل ان کی پیروی کرنے لگے جس کے نتیجہ میں ان کے ساتھ خود بھی ہلاک اور دنیاو آخرت میں نقصان سے دوچار ہو، اللہ سبحانہ و تعالی بہتر جانتا ہے ۔​
و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین​
 
Top