عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
صحابہ کرام سے محبت ایمان کی علامت ہے
مقام صحابہ:ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
چنانچہ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ’’کتاب السنۃ‘‘،امام ابوبکر احمد بن محمد الخلال رحمہ اللہ کی’’السنۃ‘‘امام ابوبکر محمد بن الحسین الاجری رحمہ اللہ کی’’کتاب الشریعۃ‘‘،امام اسحاق بن مندہ رحمہ اللہ کی’’الایمان‘‘،امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ کی’’السنۃ‘‘،امام ابو القاسم اللالکائی رحمہ اللہ کی’’شرح اصول الاعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ‘‘،امام طحاوی رحمہ اللہ کی’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘،امام ابومحمد الحسن بن علی البربھاری رحمہ اللہ کی ’’شرح السنۃ‘‘،امام ابن بطہ رحمہ اللہ کی’’کتاب الشرح والابانۃ،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی’’العقیدۃ الواسطیۃ‘‘،امام ابو عثمان اسماعیل بن عبدالرحمن الصابونی رحمہ اللہ کی’’عقیدۃ السلف و اصحاب الھدیث‘‘علامہ بن ہمام رحمہ اللہ’’المسامرۃ بشرح المسایرۃ‘‘،امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی’’لمعۃ الاعتقاد الھادی الی سبیل الرشاد‘‘،امام ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری رحمہ اللہ کی’’الابانۃ عن اصول الدیانۃ‘‘،علامہ محمد بن احمد السفارینی رحمہ اللہ کی’’شرح الفقۃ الاکبر‘‘،علامہ تفتازنی رحمہ اللہ کی’’شرح العقائد‘‘اور علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی ’’قطف الثمر فی بیان عقیدۃ اھل الاثر‘‘میں اس مسلمہ اصول کو دیکھا جا سکتا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم ایسا مسئلہ نہیں کہ اس سے بے اعتنائی برتی جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائےبلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا مسئلہ ہےاور اصول دین کا ایک اہم اصول ہے،چنانچہ جن ائمہ سلف نے عقیدہ واصول پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم،ان کی صداقت و عدالت کو دین کا اصل الاصول قرار دیا ہے،
امام بخاری رحمہ اللہ بھی اپنی الجامع الصحیح‘‘میں کتاب الایمان کے تحت باب قائم کیا ہے’’علامۃ الایمان حب الانصار‘‘کہ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت ہےجس کے تحت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
((آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ))
’’ایمان کی علامت انصار سے محبت کرنا ہےاور نفاق کی علامت انصار رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنا ہے‘‘(صحیح البخاری:۱۷)
انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اس بنا پر ہےکہ انھوں نے بڑے مشکل وقت میں رسول اللہﷺکی بیت کی،اپنی جان پر کھیل کرآپﷺکو مدینہ طیبہ میں لائے،سارا عرب ان کا بھی دشمن بن گیا،منافقین مدینہ ان سے اسی بنا پر بغض رکھتے تھے،ان سے محبت رسول اللہﷺسے رشتہ داری کی بنا پر نہیں بلکہ خادم اسلام ہونے کے ناطے اور رسول اللہﷺکی خدمت گزاری اور وفاشعاری کے نتیجہ میں ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
یہ روایت طبرانی میں ثقہ راویوں سے مروی ہے۔’’جو انصار سے محبت کرتا ہےوہ میرے ساتھ محبت کے باعث ان سےمحبت کرتا ہےاور جو اس سے بغض رکھتا ہےوہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے‘‘(المجمع:10/39،مصنف عبدالرزاق:11/59)
اسی مفہوم کی حدیث حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سےصحیح بخاری میں اور ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مسلم میں بھی موجود ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺنے میرے بارے میں فرمایا:علامہ عینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حکم تمام اعیان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی ہے کہ ان سے محبت ایمان کی اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے‘‘(عمدۃ القاری:۱۵۲/۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نےبھی تمام قریبی رشتہ داروں کے علی الرغم صغر سنی کے باوصف رسول اللہﷺکا ساتھ دیا،بایں طور پر ان سے محبت ایمان کی علامت قرار دی گئی۔دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت بھی رسول اللہﷺسے نسبت اور آپﷺکی رفاقت کے اعتبار سےہے اور ان سے بغض و عداوت بھی دراصل رسول اللہﷺسے بغض کا نتیجہ ہے،’’مجھ سے وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا‘‘
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ(الجامع:۳/۳۶۰)،امام احمد رحمہ اللہ(مسند احمد،:۴/۸۷)نے نقل کی ہےاورامام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن غریب کہا ہےمگر اس میں عبدالرحمن بن زیاد راوی کے بارے میں امام ابن معین نے کہا ہےکہ میں اسے نہیں جانتا،جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ’’کتاب الثقات‘‘میں اسے ذکر کیا ہے(تھذیب:6/176)اور اپنی الصحیح میں(صحیح ابن حبان؛9/189)میں یہ روایت بیان کی ہے۔’’کہ جو صحابہ سے محبت کرتا ہےوہ میرے ساتھ محبت کی بنا پران سے محبت کرتا ہےاورجو ان سے بغض رکھتا ہےوہ میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سےان سے بغض رکھتا ہے‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہےکہ وہ مقبول ہے(تقریب:ص،202)
اس لیے یہ روایت متروک کے درجہ کی نہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی دیگر روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے ایمان کی بڑی کوشش کی مگر وہ اسلام نہ لائیں تو انھوں نے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوکروالدہ کے ایمان کے لیےدعا کی التجا کی،آپ نے دعا کردی تو اسے دولتِ ایمان حاصل ہوگئی،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خوشی خوشی اس کی بشارت لے کر آپﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئےاور والدہ کے ایمان کی بشارت دی اور مزید عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ، فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي(صحیح مسلم:2492)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہمیں آپ کے اس ارشاد پراتنی خوشی ہوئی کہ اتنی خوشی کسی اور بات سے نہیں کہ’’اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ‘‘تم اس کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو۔’’اے اللہ کے رسولﷺآپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں پیدا کر دےاور مومنوں کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے،چنانچہ رسول اللہﷺنے دعا کی اور فرمایا:اے اللہ اپنے اس بندے،یعنی ابوہریرہ اوراس کی والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دےاوران کے دلوں میں مومنوں کی محبت ڈال دے(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ)پھر ایسا ہوا کہ کوئی مسلمان پیدا نہیں ہواجو میرا ذکر سن کر یامجھے دیکھ کر مجھ سے محبت نہ کرے‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ(صحیح بخاری:3688)
لہذا رسول اللہﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اور آخرت میں ان کی مرافقت ومصاحبت کا باعث ہے،جبکہ رسول اللہﷺسے بغض کفر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد منافقت کی علامت ہے۔’’پس میں نبی کریمﷺسے،ابوبکروعمر سے محبت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان سے محبت کی بنا پران کے ساتھ ہوں گااگرچہ میں ان کے اعمال جیسے عمل نہیں کر سکا‘‘
مشہور تابعی امام مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بلکہ المعرفۃ للفسوی میں ہےکہ خالد بن سلمہ نے امام مسروق کا یہی قول ابن شبرمہ سے طواف کے دوران ذکر کیا۔((حب ابی بکر و عمر و معرفۃ فضلھما من السنۃ))’’کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اور ان کی فضلیت کی معرفت سنت ہے‘‘(العلل والمعرفۃ الرجال امام احمد:453،452/1)
مگر جب امام حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
اما م ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہےکہ:((حب ابی بکروعمر سنۃ؟)کہ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سے محبت سنت ہے؟تو انھوں نے فرمایا:’’لا،فریضۃ‘‘نہیں بلکہ فرض ہے(کتاب الرقائق والحکایات،ص:171،لخثیمۃ بن سلیمان)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت فرض ہے’’حُبُّھُم فَرْض‘‘(الجمھرۃ:ص:3)
(کان صالح السلف یعلمون اولادھم حب ابی بکر و عمر کما یعلمون السورۃ أوالسنۃ)
’’سلف صالحین اپنی اولاد کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اس طرح سکھاتے تھےجیسے قرآن پاک کی سورت یا سنت سکھاتے تھے‘‘(مسند الامام ابی القاسم الجوھری،ص:110)