• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام سے محبت ایمان کی علامت ہے۔

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
صحابہ کرام سے محبت ایمان کی علامت ہے


مقام صحابہ:ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم ایسا مسئلہ نہیں کہ اس سے بے اعتنائی برتی جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائےبلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا مسئلہ ہےاور اصول دین کا ایک اہم اصول ہے،چنانچہ جن ائمہ سلف نے عقیدہ واصول پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم،ان کی صداقت و عدالت کو دین کا اصل الاصول قرار دیا ہے،
چنانچہ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ’’کتاب السنۃ‘‘،امام ابوبکر احمد بن محمد الخلال رحمہ اللہ کی’’السنۃ‘‘امام ابوبکر محمد بن الحسین الاجری رحمہ اللہ کی’’کتاب الشریعۃ‘‘،امام اسحاق بن مندہ رحمہ اللہ کی’’الایمان‘‘،امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ کی’’السنۃ‘‘،امام ابو القاسم اللالکائی رحمہ اللہ کی’’شرح اصول الاعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ‘‘،امام طحاوی رحمہ اللہ کی’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘،امام ابومحمد الحسن بن علی البربھاری رحمہ اللہ کی ’’شرح السنۃ‘‘،امام ابن بطہ رحمہ اللہ کی’’کتاب الشرح والابانۃ،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی’’العقیدۃ الواسطیۃ‘‘،امام ابو عثمان اسماعیل بن عبدالرحمن الصابونی رحمہ اللہ کی’’عقیدۃ السلف و اصحاب الھدیث‘‘علامہ بن ہمام رحمہ اللہ’’المسامرۃ بشرح المسایرۃ‘‘،امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی’’لمعۃ الاعتقاد الھادی الی سبیل الرشاد‘‘،امام ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری رحمہ اللہ کی’’الابانۃ عن اصول الدیانۃ‘‘،علامہ محمد بن احمد السفارینی رحمہ اللہ کی’’شرح الفقۃ الاکبر‘‘،علامہ تفتازنی رحمہ اللہ کی’’شرح العقائد‘‘اور علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی ’’قطف الثمر فی بیان عقیدۃ اھل الاثر‘‘میں اس مسلمہ اصول کو دیکھا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ بھی اپنی الجامع الصحیح‘‘میں کتاب الایمان کے تحت باب قائم کیا ہے’’علامۃ الایمان حب الانصار‘‘کہ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت ہےجس کے تحت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
((آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ))
’’ایمان کی علامت انصار سے محبت کرنا ہےاور نفاق کی علامت انصار رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنا ہے‘‘(صحیح البخاری:۱۷)
انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اس بنا پر ہےکہ انھوں نے بڑے مشکل وقت میں رسول اللہﷺکی بیت کی،اپنی جان پر کھیل کرآپﷺکو مدینہ طیبہ میں لائے،سارا عرب ان کا بھی دشمن بن گیا،منافقین مدینہ ان سے اسی بنا پر بغض رکھتے تھے،ان سے محبت رسول اللہﷺسے رشتہ داری کی بنا پر نہیں بلکہ خادم اسلام ہونے کے ناطے اور رسول اللہﷺکی خدمت گزاری اور وفاشعاری کے نتیجہ میں ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جو انصار سے محبت کرتا ہےوہ میرے ساتھ محبت کے باعث ان سےمحبت کرتا ہےاور جو اس سے بغض رکھتا ہےوہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے‘‘(المجمع:10/39،مصنف عبدالرزاق:11/59)
یہ روایت طبرانی میں ثقہ راویوں سے مروی ہے۔
اسی مفہوم کی حدیث حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سےصحیح بخاری میں اور ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مسلم میں بھی موجود ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حکم تمام اعیان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی ہے کہ ان سے محبت ایمان کی اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے‘‘(عمدۃ القاری:۱۵۲/۱)
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺنے میرے بارے میں فرمایا:
’’مجھ سے وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نےبھی تمام قریبی رشتہ داروں کے علی الرغم صغر سنی کے باوصف رسول اللہﷺکا ساتھ دیا،بایں طور پر ان سے محبت ایمان کی علامت قرار دی گئی۔دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت بھی رسول اللہﷺسے نسبت اور آپﷺکی رفاقت کے اعتبار سےہے اور ان سے بغض و عداوت بھی دراصل رسول اللہﷺسے بغض کا نتیجہ ہے،
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’کہ جو صحابہ سے محبت کرتا ہےوہ میرے ساتھ محبت کی بنا پران سے محبت کرتا ہےاورجو ان سے بغض رکھتا ہےوہ میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سےان سے بغض رکھتا ہے‘‘
یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ(الجامع:۳/۳۶۰)،امام احمد رحمہ اللہ(مسند احمد،:۴/۸۷)نے نقل کی ہےاورامام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن غریب کہا ہےمگر اس میں عبدالرحمن بن زیاد راوی کے بارے میں امام ابن معین نے کہا ہےکہ میں اسے نہیں جانتا،جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ’’کتاب الثقات‘‘میں اسے ذکر کیا ہے(تھذیب:6/176)اور اپنی الصحیح میں(صحیح ابن حبان؛9/189)میں یہ روایت بیان کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہےکہ وہ مقبول ہے(تقریب:ص،202)
اس لیے یہ روایت متروک کے درجہ کی نہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی دیگر روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے ایمان کی بڑی کوشش کی مگر وہ اسلام نہ لائیں تو انھوں نے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوکروالدہ کے ایمان کے لیےدعا کی التجا کی،آپ نے دعا کردی تو اسے دولتِ ایمان حاصل ہوگئی،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خوشی خوشی اس کی بشارت لے کر آپﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئےاور والدہ کے ایمان کی بشارت دی اور مزید عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ، فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي(صحیح مسلم:2492)
’’اے اللہ کے رسولﷺآپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں پیدا کر دےاور مومنوں کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے،چنانچہ رسول اللہﷺنے دعا کی اور فرمایا:اے اللہ اپنے اس بندے،یعنی ابوہریرہ اوراس کی والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دےاوران کے دلوں میں مومنوں کی محبت ڈال دے(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ)پھر ایسا ہوا کہ کوئی مسلمان پیدا نہیں ہواجو میرا ذکر سن کر یامجھے دیکھ کر مجھ سے محبت نہ کرے‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہمیں آپ کے اس ارشاد پراتنی خوشی ہوئی کہ اتنی خوشی کسی اور بات سے نہیں کہ’’اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ‘‘تم اس کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ(صحیح بخاری:3688)
’’پس میں نبی کریمﷺسے،ابوبکروعمر سے محبت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان سے محبت کی بنا پران کے ساتھ ہوں گااگرچہ میں ان کے اعمال جیسے عمل نہیں کر سکا‘‘
لہذا رسول اللہﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اور آخرت میں ان کی مرافقت ومصاحبت کا باعث ہے،جبکہ رسول اللہﷺسے بغض کفر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد منافقت کی علامت ہے۔
مشہور تابعی امام مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((حب ابی بکر و عمر و معرفۃ فضلھما من السنۃ))’’کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اور ان کی فضلیت کی معرفت سنت ہے‘‘(العلل والمعرفۃ الرجال امام احمد:453،452/1)
بلکہ المعرفۃ للفسوی میں ہےکہ خالد بن سلمہ نے امام مسروق کا یہی قول ابن شبرمہ سے طواف کے دوران ذکر کیا۔
مگر جب امام حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
((حب ابی بکروعمر سنۃ؟)کہ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سے محبت سنت ہے؟تو انھوں نے فرمایا:’’لا،فریضۃ‘‘نہیں بلکہ فرض ہے(کتاب الرقائق والحکایات،ص:171،لخثیمۃ بن سلیمان)
اما م ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہےکہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت فرض ہے’’حُبُّھُم فَرْض‘‘(الجمھرۃ:ص:3)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(کان صالح السلف یعلمون اولادھم حب ابی بکر و عمر کما یعلمون السورۃ أوالسنۃ)
’’سلف صالحین اپنی اولاد کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اس طرح سکھاتے تھےجیسے قرآن پاک کی سورت یا سنت سکھاتے تھے‘‘(مسند الامام ابی القاسم الجوھری،ص:110)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ومن توقیرہ و برہﷺتوقیر اصحابہ و برھم و معرفۃ حقھم و الاقتداء بھم و حسن الثناء علیھم والاستغفار لھم۔الخ)(الشفاء:2/41)
’’رسول اللہﷺتعظیم و توقیراور آپ سے حسن سلوک کا تقاضا ہےکہ آپﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی توقیر کی جائے اور ان سے حسن سلوک کا اظہار کیا جائے،ان کے حق کو سمجھا جائے،ان کی اقتداءکی جائےاوران کی تعریف کی جائےاوران کے لیے بخشش کی دعا کی جائے‘‘
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس کے بعد چند احادیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے ،امام ایوب السختیانی رحمہ اللہ جو بصرہ کے کبار فقہاءوعباد میں شمار ہوتے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں’’ثقہ ثبت حجۃ‘‘کہا ہے،کا قول ذکر کیا ہےکہ:
(و من احسن الثناء علی اصحاب محمدﷺفقد بری من النفاق و من انتقص أحداً منھم فھو مبتدع مخالف للسنۃ و السلف الصالح واخاف ان لا یصعد لہ عمل الی السماء حتی یحبھم جمیعا و یکون قلبہ سلیماً)
’’جو صحابہ کرام کی اچھی تعریف کرتا ہےوہ نفاق سے بری ہےاور جو ان میں سے ایک کی بھی تنقیص کرتا ہےوہ بدعتی ہے،سنت اور سلف صالحین کے طریقے کے مخالف ہے،مجھے خطرہ ہےکہ اس کا کوئی عمل(قبولیت کے لیے)اس وقت تک آسمان پر نہیں جائے گاجب تک وہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت نہ کرےاوراس کا دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض سے بچا ہوا نہ ہو‘‘(الشفاء:42/2)
اسی طرح انہوں نےحضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا ہےکہ انھوں نے فرمایا:
’’لَمْ یُوْمِنْ بِالرسول من لم یو قیر اصحابہ‘‘
کہ جورسول اللہﷺکے صحابہ کی توقیر نہیں کرتااس کاآپﷺپر ایمان ہی نہیں۔(الشفاء:44/2)
امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ نےامام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ سے نقل کیا ہےکہ انھوں نے فرمایا:
((انی احب من احبھم اللہ،وھم الذین یسلم منھم اصحاب محمدﷺ،وابغض من ابغضہ اللہ وھم اصحاب الاھواء والبدع))حلیۃ الاولیاء:103/8،بسند صحیح
’’میں ان سے محبت کرتا ہوں جن سے اللہ محبت کرتے ہیں اور وہ وہی ہیں جن کی زبان درازیوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محفوظ ہیں اور میں ان سے بغض رکھتا ہوں جن سے اللہ بغض رکھتے ہیں اور وہ خرافی اور بدعتی ہیں‘‘
امام ابو حفض عمر بن سلیم رحمہ اللہ المتوفی264ہجری جو شیخ خراسان اورالامام القدوۃ الربانی کے لقب سےیاد کیے جاتے ہیں،فرماتے ہیں:
((لوان رجلا ارتکب کل خطیئۃ ما خلا الشرک باللہ، وخرج من الدنیا سلیم القلب لااصحاب رسول اللہﷺ غفر اللہ لہ))
’’اگر کوئی شرک کے علاوہ دوسرے گناہ کا مرتکب ہو اور دنیا سے جائےکہ اس کا دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں پاک صاف ہواللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا‘‘
ان سے کہا گیا کہ کیا اس کی کوئی دلیل ہےتو انھوں نے فرمایا:ہاں،اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:اے میرے نبیﷺکہہ دیں اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہوتو میری اتباع کرو،آپﷺکی اتباع یہ ہےکہ آپﷺکی وجہ سےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےمحبت کی جائے(آپﷺبھی اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتےتھے)حضرت ابو سعید احمد بن محمد نیسا بوری رحمہ اللہ جو اس قول کے راوی ہیں،فرماتے ہیں:کہ میں فارس میں تھاتو مجھ سے امام ابو حفض رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں پوچھا گیاتو میں نے ایک دن میں ان کا یہ قول ایک ہزار مرتبہ ذکر کیا اور لوگوں کو املاء کروایا‘‘(الجز الاول،الفوائد الاخبار والحکایات،رقم:44،الامام ابی علی الحسن بن الحسین الھمزانی المتوفی405ھ)
امام بشر بن الحارث الحافی رحمہ اللہ،جو کبار اہل علم میں شمار ہوتے ہیں،فرماتے ہیں:
((اوثق عملی فی نفسی حب اصحاب محمدﷺ))
’’میرے نزدیک میرا سب سے پختہ عمل محمدﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے‘‘(الحلیۃ:338/8)
امام بشر حافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نظرت فی ھذا الامر فو جدت لجمیع الناس توبۃ الا من تناول اصحاب محمدﷺفان اللہ عزوجل حجز عنھم التوبۃ
’’میں نے دین کے معاملے میں غور کیا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تمام لوگوں کے لیے توبہ ہےمگر جو صحابہ کرام پر حرف گیری کرتا ہےان کی توبہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے توبہ کی توفیق سلب کر لی ہے‘‘(المجالسۃ للدینوری:397/6)
کیونکہ صحابہ کرام پر حرف گیری اہل بدعت کا شعار ہے،ظاہر ہے کہ جب وہ اس بری عادت سے باز آئیں گےتبھی انہیں توبہ کی توفیق ملے گی،
بالکل یہی بات امام بشر حافی رحمہ اللہ نےاپنے شیخ امام فضیل بن عیاض سے نقل کی ہےکہ
’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کی توبہ قبول نہیں کرتے اورسب سے بری بدعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنا ہے۔امام بشر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ بات کہہ کرامام فضیل رحمہ اللہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:اللہ کے ہاں اپنا پختہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کو بناؤ،اگر تو قیامت کے دن ریت کی ذرات کے برابر گناہ لے کر آئے گاتو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کردے گالیکن اگر تیرے دل میں ذرہ بھر صحابہ کرام کے بارے میں بغض ہوا تو تیرہ کوئی عمل تجھے فائدہ نہیں دے گا‘‘(المجالسۃ:5/412)
امام عبداللہ بن مبارک سے بسند حسن امام ابو طاہر السلفی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہےکہ انھوں نے فرمایا:
((خصلتان من کانت فیہ: الصدق وحب اصحاب محمدﷺفارجواان ینجوا ان سلم))
’’ایمان و تسلیم کے بعد دو خصلتیں ہیں جس میں وہ پائی جائیں گے امید ہےوہ نجات پا جائے گا۔ایک سچ و صدق اور دوسری محمدﷺکے صحابہ سے محبت‘‘(الطیوریات:2/331)
امام ابوبکرالآجری رحمہ اللہ نے یہی قول امام الفضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے واسطہ سےامام ابن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہےاور اس قول کو حکایت کرنے سے پہلے خود امام الفضیل فرماتے ہیں:
((حب اصحاب محمد ﷺذخر ادخرہ،رحم اللہ من ترحم علی اصحاب محمدﷺ وانما یحسن ھذا کلہ بحب اصحاب محمدﷺ))
’’میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا ذخیرہ جمع کر رہا ہوں،جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیےرحم وکرم کی دعا کرتا ہےاللہ اس پر رحم فرمائے،یہ سب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت سے درست ہے‘‘(کتاب الشریعۃ:4/1688)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح منقول ہےکہ انھوں نے فرمایا:
((قالوا ان حب عثمان وعلی لا یجتمعان فی قلب مومن وکذبوا قد جمع اللہ عزوجل حبھما بحمد اللہ فی قلوبنا))
’’لوگ کہتے ہیں کہ عثمان وعلی رضی اللہ عنہم سے محبت مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی مگر یہ جھوٹ کہتے ہیں۔بحمد اللہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کی محبت جمع کر دی ہے‘‘(کتاب الشریعۃ:1770/4،المعجم لا بن الاعرابی:125/6)
امام زھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کے بارے میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا انہوں نے فرمایا:
((اسمع یا زھری!من مات محبالاً بی بکر وعمر وعثمان وعلی،وشھد للعشرۃ بالجنۃ و ترحم علی معاویۃ کان حقا علی اللہ الا یناقشہ الحساب))
’’زھری سنو!جو ابوبکر وعمر،عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے محبت کرے،عشرہ مبشرہ کے جنتی ہونے کی شہادت دے۔معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کرے،اللہ تعالی ٰ کے لیے ہےکہ اس سے حساب و کتاب نہ لے‘‘(البدایۃ:8/139)
ابو شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((لا یجتمع حب ابی بکر وعمر و عثمان وعلی الا فی قلوب اتقیاء ھذہ الا مۃ))
’’ابو بکر وعمر و عثمان وعلی کی محبت صرف اس امت کے اتقیاء کے دل میں جمع ہوتی ہے‘‘(کتاب الشریعۃ؛4/1771،المعجم لا ابن الا عرابی:128/2)
یہی بات علامہ ذہبی رحمہ اللہ(السیر:7/273)نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے اور امام ابن الاعرابی رحمہ اللہ نے ابو جعفر ہاشمی رحمہ اللہ سے بھی نقل کی ہے(المعجم:2/128)

اس لیے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالعموم اورخلفائے راشدین سے بالخصوص محبت ایمان کی علامت ہےاور ان سے بغض و عدوات،نفاق اور بدعت کی علامت ہے۔
 
Top