رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم
"كفر الله عنك كذبك بصدقك بلا إله إلا الله" (عبد بن حميد عن أنس) " أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال يا فلان فعلت كذا وكذا قال لا والذي لا إله إلا هو ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلم أنه فعله " قال فذكره.
"اللہ تعالیٰ تمہارے جھوٹ کو تمہاری لا الہ الا اللہ کی سچائی کے ساتھ دھو دیں گے"۔ (عبد بن حمید بروایت انس رضی اللہ عنہ) پس منظر: حضور اکرم ﷺ نے کسی سے پوچھا اے فلاں! تم نے فلاں فلاں کام کیا؟ اس نے کہا نہیں، قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے یہ کام نہیں کیا۔ جبکہ آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ اس نے وہ کام کیا ہے۔ تب آپ ﷺ نے مذکورہ جواب ارشار دفرمایا۔ (کنز العمال 170)
((ضعیف)) أخرجه مسدد (كما في المطالب العالية: 1776)، وعبد بن حميد (1376)، والبزار في مسنده (3068 كشف الأستار) وأبو القاسم البغوي في نسخة طالوت بن عباد (64)، وأبو يعلي (3368 (3355 ارشاد الحق))، والعقيلي في الضعفاء(1/212) وابن عدي في الكامل (2/456)، واللالكائي في شرح أصول الإعتقاد (2037)، والحاكم (كما في إتحاف الخيرة: 4830) وعنه البيهقي في الكبري (19878)، وابن عساكر في مدح التواضع (24)، وابن الجوزي في الموضوعات (3/102) من طريق أبو قدامة الحارث بن عبيد عن ثابت عن أنس مرفوعا۔
اس سند میں ابو قدامہ حارث بن عبید ضعیف الحدیث ہے اور اس حدیث کی سند میں اس نے اس روایت کو انس سے روایت کرنے میں غلطی کی ہے کیونکہ اس سے زیادہ ثقہ اور حافظ راوی حماد بن سلمہ نے بھی اس روایت کو ثابت سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے اور حماد نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ثابت نے یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی لہٰذا یہ منقطع ہے۔
روايته أخرجها ابن أبي شيبة في "مسنده" - كما في "إتحاف الخيرة" (4828) -، وأحمد في"مسنده" (2/68 و70 و118و127 رقم5361 و5380 و5986 و6102) ، وعبد بن حميد في "مسنده" (857/المنتخب) ، وأبو يعلى في "مسنده" (5690) ، والطحاوي في "شرح المشكل" (452) ، والبيهقي في "السنن الكبرى" (10/37)۔
الغرض اس روایت کی اصل انس رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے اور ان سے یہ روایت منقطع ہے کیونکہ ثابت نے ان سے یہ روایت نہیں سنی۔
اس کے علاوہ اس روایت کا ایک شاہد ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی موجود ہے جس کی ظاہری صحت پر اعتماد کرتے ہوئے شیخ البانی، شیخ زبیر علی زئی اور دیگر کئی علماء نے اسے صحیح قرار دے دیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
مسند احمد (2280، 2695، 2956) اور سنن ابی داود (3275، 3620) وغیرہ میں مختلف طرق سے حماد بن سلمہ، سفیان الثوری، ابو الاحوص، عبد الوارث بن سعید وغیرہ سے روایت ہے کہ عطاء بن السائب نے عن ابی یحیی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا کہ: "أن رجلين اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فسأل النبي صلى الله عليه وسلم المدعي البينة، فلم يكن له بينة، فاستحلف المطلوب، فحلف بالله الذي لا إله إلا هو، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنك قد فعلت، ولكن غفر لك بإخلاصك قول: لا إله إلا الله"" ترجمہ " دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپناجھگڑا لے کر آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کاتقاضا کیا ، اس کے پاس گواہ نہیں تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی علیہ سے قسم کا مطالبہ کیا، اس نے یوں قسم کھائی کہ اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ کام کیا ہے لیکن تمہارے " لاالہ الااللہ " کہنے میں اخلاص کی برکت سے تمہارے سارے گناہ معاف ہو گئے۔"
اس روایت کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن عطاء السائب پر ان کے اختلاط کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی خاص اس روایت کو ان کی منکرات میں شمار کیا ہے (دیکھیں میزان الاعتدال: 3/72)، اور اس کے علاوہ اس روایت میں عطاء اضطراب کا شکار بھی ہوئے ہیں چنانچہ امام شعبہ نے بھی ان سے یہ روایت بیان کی ہے لیکن اس میں عطاء نے اسے عن ابو البختری عن عبیدۃ عن ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے (دیکھیں سنن الکبری للنسائی: 6005)۔ لہٰذا یہ روایت بھی مضطرب ومنکر ہے۔ نیز دیکھیں مسند احمد بتحقیق شعیب الارناؤط (2280)۔
مزید یہ کہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ نبی کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی جھوٹ بولا کرتے تھے نعوذ باللہ، جو کہ خود ایک سراسر جھوٹ بات ہے!
واللہ اعلم۔
"كفر الله عنك كذبك بصدقك بلا إله إلا الله" (عبد بن حميد عن أنس) " أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال يا فلان فعلت كذا وكذا قال لا والذي لا إله إلا هو ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلم أنه فعله " قال فذكره.
"اللہ تعالیٰ تمہارے جھوٹ کو تمہاری لا الہ الا اللہ کی سچائی کے ساتھ دھو دیں گے"۔ (عبد بن حمید بروایت انس رضی اللہ عنہ) پس منظر: حضور اکرم ﷺ نے کسی سے پوچھا اے فلاں! تم نے فلاں فلاں کام کیا؟ اس نے کہا نہیں، قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے یہ کام نہیں کیا۔ جبکہ آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ اس نے وہ کام کیا ہے۔ تب آپ ﷺ نے مذکورہ جواب ارشار دفرمایا۔ (کنز العمال 170)
((ضعیف)) أخرجه مسدد (كما في المطالب العالية: 1776)، وعبد بن حميد (1376)، والبزار في مسنده (3068 كشف الأستار) وأبو القاسم البغوي في نسخة طالوت بن عباد (64)، وأبو يعلي (3368 (3355 ارشاد الحق))، والعقيلي في الضعفاء(1/212) وابن عدي في الكامل (2/456)، واللالكائي في شرح أصول الإعتقاد (2037)، والحاكم (كما في إتحاف الخيرة: 4830) وعنه البيهقي في الكبري (19878)، وابن عساكر في مدح التواضع (24)، وابن الجوزي في الموضوعات (3/102) من طريق أبو قدامة الحارث بن عبيد عن ثابت عن أنس مرفوعا۔
اس سند میں ابو قدامہ حارث بن عبید ضعیف الحدیث ہے اور اس حدیث کی سند میں اس نے اس روایت کو انس سے روایت کرنے میں غلطی کی ہے کیونکہ اس سے زیادہ ثقہ اور حافظ راوی حماد بن سلمہ نے بھی اس روایت کو ثابت سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے اور حماد نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ثابت نے یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی لہٰذا یہ منقطع ہے۔
- امام بزار فرماتے ہیں: "لا نعلم رواه عن ثابت، عن أنس إلا الحارث بن عبيد أبو قدامة، وخالفه حماد بن سلمة، فرواه عن ثابت، عن ابن عمر"۔
- امام ابن ابی حاتم الرازی اپنے والد امام ابو حاتم الرازی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "حماد بن سلمة يخالفه؛ يقول: عن ثابت، عن ابن عمر، عن النبي (ص) ؛ وهو أشبه من حديث أبي قدامة" (علل الحدیث لابن ابی حاتم: 4/147 ح 1323)۔
- امام عقیلی حارث کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: "ولا يتابع عليه ... ، وهذا المتن يروى بغير هذا الإسناد بإسناد صالح أصح من هذا"۔
- امام بیہقی فرماتے ہیں: "وروي من حديث ثابت، عن أنس، وليس بالقوي"۔
- امام ابن حجر العسقلانی مطالب العالیہ میں فرماتے ہیں: "وصححه الحاكم من طريق مالك بن إسماعيل، عن أبي قدامة - وهو الحارث بن عبيد- به؛ لكن خالفه حماد بن سلمة، وهو أتقن منه في ثابت، فقال: عن ثابت، عن عبد الله ابن عمر، قال حماد: لم يسمع ثابت هذا من ابن عمر ذ؛ بينهما رجل"۔
روايته أخرجها ابن أبي شيبة في "مسنده" - كما في "إتحاف الخيرة" (4828) -، وأحمد في"مسنده" (2/68 و70 و118و127 رقم5361 و5380 و5986 و6102) ، وعبد بن حميد في "مسنده" (857/المنتخب) ، وأبو يعلى في "مسنده" (5690) ، والطحاوي في "شرح المشكل" (452) ، والبيهقي في "السنن الكبرى" (10/37)۔
الغرض اس روایت کی اصل انس رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے اور ان سے یہ روایت منقطع ہے کیونکہ ثابت نے ان سے یہ روایت نہیں سنی۔
اس کے علاوہ اس روایت کا ایک شاہد ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی موجود ہے جس کی ظاہری صحت پر اعتماد کرتے ہوئے شیخ البانی، شیخ زبیر علی زئی اور دیگر کئی علماء نے اسے صحیح قرار دے دیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
مسند احمد (2280، 2695، 2956) اور سنن ابی داود (3275، 3620) وغیرہ میں مختلف طرق سے حماد بن سلمہ، سفیان الثوری، ابو الاحوص، عبد الوارث بن سعید وغیرہ سے روایت ہے کہ عطاء بن السائب نے عن ابی یحیی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا کہ: "أن رجلين اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فسأل النبي صلى الله عليه وسلم المدعي البينة، فلم يكن له بينة، فاستحلف المطلوب، فحلف بالله الذي لا إله إلا هو، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنك قد فعلت، ولكن غفر لك بإخلاصك قول: لا إله إلا الله"" ترجمہ " دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپناجھگڑا لے کر آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کاتقاضا کیا ، اس کے پاس گواہ نہیں تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی علیہ سے قسم کا مطالبہ کیا، اس نے یوں قسم کھائی کہ اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ کام کیا ہے لیکن تمہارے " لاالہ الااللہ " کہنے میں اخلاص کی برکت سے تمہارے سارے گناہ معاف ہو گئے۔"
اس روایت کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن عطاء السائب پر ان کے اختلاط کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی خاص اس روایت کو ان کی منکرات میں شمار کیا ہے (دیکھیں میزان الاعتدال: 3/72)، اور اس کے علاوہ اس روایت میں عطاء اضطراب کا شکار بھی ہوئے ہیں چنانچہ امام شعبہ نے بھی ان سے یہ روایت بیان کی ہے لیکن اس میں عطاء نے اسے عن ابو البختری عن عبیدۃ عن ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے (دیکھیں سنن الکبری للنسائی: 6005)۔ لہٰذا یہ روایت بھی مضطرب ومنکر ہے۔ نیز دیکھیں مسند احمد بتحقیق شعیب الارناؤط (2280)۔
مزید یہ کہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ نبی کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی جھوٹ بولا کرتے تھے نعوذ باللہ، جو کہ خود ایک سراسر جھوٹ بات ہے!
واللہ اعلم۔