محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,797
- پوائنٹ
- 1,069
صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ،،، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے:
ایک ویب سائٹ پر عزیز اللہ بوہیو کا مضمون شائع ہوا جس میں ایک حدیث کو خلاف از قرآن و اسلام گردانا گیا۔ عادل سہیل بھائی نے اس کا جواب تحریر کیا۔ لیکن چونکہ جب تک اصل مضمون سامنے نہ ہو تب تک اس کا جواب پڑھنے اور سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کوفت سے بچنے کے لیے میں عادل سہیل بھائی کے مضمون سے اوپر ہی متعلقہ مضمون کے وہ حصے پیش کر رہا ہوں جو نیت والی حدیث سے متعلق ہیں۔اگر کسی کو محسوس ہو کہ کوئی اہم حصہ شامل ہونے سے رہ گیا ہے تو مجھے پی ایم کر کے رابطہ کر سکتا ہے۔ تمام ممبرزاصل مضمون اور اس کا جواب ملاحظہ کر کے خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حیدر
خلاف قرآن حدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل
اعمال (کے نتائج) نیتوں سے ہیں، ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔
نیک نیتی کی بنیاد پر Mercy Killing لیگل بن جاتی ہے۔
میں یہاں پوپ بینی ڈکٹ کے اس الزام کہ دین اسلام نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو، اسے سہارا دینے والی ایک حدیث کا حوالہ دیتاہوں جو اس دشمن اسلام کے الزام کا بنیاد بنتی ہے، اور حدیث قرآن حکیم کی طرف سے سمجھائے ہوئے ”اصلاح کائنات“ کے فلسفہ کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دینی ہے۔
ویسے اس حدیث بنانے والوں کا غرض و غایت بھی کثیر الجہالت سے اسلام کی بیخ کنی کرنا مقصود ہے، جو اس میں جناب رسول علیہ السلام کے ہجرت والے انقلابی عمل میں ساتھ دینے والے انقلابی ساتھیوں اصحاب رسول کے کردار کشی کی بھی تلمیح کی گئی ہے۔
یہ حدیث امام بخاری نے اپنی کتاب جس کو ان لوگوں نے صحیح کا لقب دیا ہوا ہے اس کے شروع شروع میں پہلے نمبر پر لائی ہے۔
حدیث کا متن ہے:
ترجمہ :
اعمال (کے نتائج) نیتوں سے ہیں، ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ پھر جس کی نیت ہجرت کرنے سے دنیا کے لئے ہوگی وہ اسے ملے گی، یا اگر عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا پھر ہر کسی کی ہجرت اسی چیز والی شمار کی جائے گی جس کے لئے ہجرت کی ہوگی۔ (ترجمہ ختم)
جناب قارئین !
آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ حدیث سازوں نے اعمال کے رزلٹ اور نتیجہ کونتھی کیا ہے نیت کے ساتھ۔
اور نیت ایسی شے ہے جسے ظاہر میں پرکھا نہیں جا سکتا اس لئے کہ اس کا تعلق انسان کے اندر سے ہے۔
اندر کی شے کے لئے عدالت کسی بدکار اور بد عمل شخص پر اس کا جرم ثابت نہیں کرسکے گی، اس لئے کہ وہ عدالت کو یہ کہہ سکے گا کہ یہ جو جرم ہوا ہے اس سے کسی کو ایذاء پہنچانا، میری نیت میں نہیں تھا یہ اتفاق سے ہوگیا ہے یا کسی کا مال جو میں نے اٹھایا ہے اس میں میری نیت یہ تھی کہ یہ میں ابھی اٹھاکر بعد میں اسے واپس کردوں گا، چوری کی نیت سے میں نے مال نہیں اٹھایا، یا اس کے جیب سے جو موبائل سیٹ یا پیسے نکالے ہیں، یہ مذاق کی نیت سے کیا ہے اور دوستی کے طور پر اسے گھڑی بھر کےلئے پریشان کرنے کے بعد اس کی یہ چیز اسے واپس دینے کی نیت سے میں نے نکالی تھی۔
جناب قارئین!
قرآن حکیم نہایت ہی بڑی حکمت والی کتاب ہے، اس کتاب میں انسانی اعمال کا ذکر ستر عدد بار سے بھی زیادہ موقعوں پر ذکر کیا گیا ہے اور ہر جگہ لفظ اعمال کے ساتھ صالحات اور صالح کا شرط لگایا گیا ہے، نیت کی شرط نہیں لگائی گئی۔
قرآن حکیم کی یہ کمپوزیشن اور ترکیب یہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ اس عمل سے اصلاح ہوگی یا نہیں اور سوچا جائے کہ اس عمل کا نتیجہ بہتر کس طرح سے ہوسکتا ہے سوچ سمجھ کے بعد میں اس پر عمل کرنا چاہیئے۔
جناب قارئین!
شاید انسان کی اندرونی خلفشار والی اور حیلہ جوئی والی طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ پاک نے سارے قرآن میں عربی زبان کے لفظ نیت کو کسی ایک بھی موقعہ پر استعمال نہیں کیا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک جانتاہے کہ یہ حدیثیں بنانے والے لوگ اعمال میں کرپشن کا دروازہ کھولنے کےلئےاور لوگوں کو ان کے عمل بد کی سزا سے بچنےکےلئےنیت کی آڑ لینے کی حرفت سکھائیں گے، جیسے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب بنامی صحیح بخاری کے اندر شروع شروع میں ہی نیت کے لفظ کو لاکر ایک طرف حیلہ سازی سے گناہ کرنے اور اس سے بچنے کی تعلیم دے دی، دوسری طرف اصحاب رسول کے ہجرت کے عمل میں ان کے خلوص میں شک ڈالنے کےلئے حدیث میں لفظ نیت کی آڑ میں دنیا کےلئے ہجرت کرنے اور بیوی حاصل کرنے کےلئے ہجرت کرنے کے مقاصد کو حدیث میں لاکر، پڑھنے والوں کی ذہن سازی کی کہ جب رسول جیسی شخصیت ہجرت کے مقاصد میں دنیا اور بیویوں کے حصول کی مذمت کر رہی ہے تو یقین سے اصحاب رسول کے اندر ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی ہجرت کرنے کی نیت بگڑی ہوئی ہو لیکن قرآن بڑی حساس کتا ب ہے، اللہ نے ان حدیث سازوں کے اصحاب رسول کے ساتھ بغض وعناد کو، موتوا بغیضکم کے انداز سے جناب رسول کے ساتھیوں کی ہجرت کو اتنا تو سراہا ہے اتنی تو تعریف کی ہے جو ایک جگہ پر فرمایا کہ یہ ہجرت کرنے والے
جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور اللہ بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔(2:21)
یعنی یہ مہاجر اللہ کی رحمت کی امید پر گھروں سے ہجرت کرنے کےلئے نکلے تھے۔
قرآن نےدوسرے موقعہ پر ان اصحاب رسول کے لئے فرمایا کہ
تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔ (3:195)
یعنی ہم ان کی جملہ سیئات برایوں کو مٹا ڈالیں گے کوئی جلتا ہے تو جلتا رہے ۔
آگے جو حدیث سازوں نے اپنی من گھڑت جھوٹی حدیثوں سے جو مشاجرات صحابہ کی حدیثوں کے انبار لگالئے ہیں۔
تو اللہ نے انکا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ:
یہ میرے رسول کے مہاجر و انصار صحابی جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے وہ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہوگی۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہیئے) اور خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔(8:72)
أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
یعنی آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ولی ہیں۔
اس حدیث سے میرا مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں جو نیت کو اعمال کے صحیح اور غلط ہونے کا پیمانہ بنایا گیا ہے، اس پیمانے سے تو کئی لوگ اپنے اعمال بد کے نتائج سے جان چھڑانے کے لئے نیت کو بطور بہانہ پیش کرکے اپنی غلط کاریوں کے خمیازہ سے بچ جائیں گے۔یعنی آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ولی ہیں۔
اس طرح کی حدیثوں سے عدالتوں کے جج تو مجبور ہوکر مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکیں گے۔
انسانیت کے فائدہ والا قانون تو وہ ہوتا ہے جس میں مجرم کو حیلہ کرنے کی راہ ہی نہ ملے۔جناب قارئین!
آپ نے پوپ بینی ڈکٹ کا اعتراض پڑھا کہ ” دین اسلام نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو “غور کیا جائے کہ دشمنان اسلام کو ایسے الزامات لگانے کا موقعہ علم حدیث نے ہی تو دیا ہے۔
اور ان حدیث ساز اماموں اور فقہ ساز اماموں نے تو قوانین کی گرفت سے بچنے کے لئے مجرم سازی کی حدیثیں گھڑی ہیں اور زنا جیسے جرائم کو بھی جائز قرار دے کر انہیں تحفظ دیا ہے۔
حوالہ کے لئے پڑہیں کتاب بخاری کے اندر ایک کتاب الحیل نامی ایک حصہ ہے، جس کی معنی ہے کہ حیلہ جات کے ذریعوں سے گناہوں کو جائز بنانے کی حدیثیں۔
جناب عالی!
کتاب الحیل کی اسی حدیث کا نمبر ہے 1856، اور باب کا نمبر ہے 1055 باب کا نام ہے ”باب فی النکاح“۔
حدیث میں ہے کہ :
ان لم تستاذن البکرولم تزوجہا فاحتال رجل فاقام شاھدی زور انہ تزو جھا برضا ہا فائبت القاضی نکاحھا والزوج یعلم ان الشھادۃ باطلة فلا باس ان یطاہا وہو تزویج صحیح
یعنی ایک شخص نے بطور حیلہ کے دو عدد جھوٹے گواہ دستیاب کرکے کسی کنواری لڑکی پر قاضی کے پاس مقدمہ دائر کیا کہ اس نے میرے ساتھ شادی کی ہے، جبکہ اصل صورتحال یہ تھی کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی، لیکن اگر قاضی شاہدوں کے بیانات کے پیش نظر اس جھوٹ کو درست قرار دیتاہے اور مقدمہ کرنے والا مدعی جانتا بھی ہے کہ اس نے یہ جھوٹی دعوی کی ہے اس کے باوجود امام بخاری لکھتا ہے کہ بعض لوگوں کے فتوے کے مطابق کوئی حرج نہیں مدعی اس عورت سے جماع کرسکتا ہے۔ اور امام صاحب نے اس روایت کے اخیر میں لکھا ہے کہ :
وہو تزویج صحیح
یعنی یہ شادی صحیح ہے۔
جناب قارئین!
اس روایت کے جو بعض الناس ہیں ان میں ایک ابو حنیفہ بھی ہے جو ایسے جو ایسی جھوٹی دعوی کو درست شادی قبول کرتا ہے۔
اب قارئين لوگ خود سوچ کر بتائیں کہ پاپاء روم بینی ڈکٹ کے الزام کو مسلم امت کے امامی علوم کی یہ خلاف قرآن روایات کس طرح تو سہارا دے رہی ہیں ۔
70 - حیلوں کا بیان : (2
نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1871 حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 9
مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور نہ بیوہ کا نکاح کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے، کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اجازت کس طرح ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ خاموش رہے اور بعض نے کہا کہ اگر کنواری عورت سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے شادی کی اور ایک شخص نے حیلہ سے دو جھوٹے گواہ پیش کئے کہ اس نے اس عورت کی رضامندی سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے اس کے نکاح کو ثابت رکھا، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹی ہے تو اس سے صحبت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ نکاح صحیح ہے۔