• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری اور امام احمد سے رو گردانی

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
http://www.islamic-belief.net/صحیح-بخاری-اور-امام-احمد-سے-رو-گردانی/

[/CENTER]
تحقیق درکار ہے


صحیح بخاری اور امام احمد سے رو گردانی


ابن خلفون کتا ب شیوخ البخاری و المسلم میں لکھتے ہیں

و روی البخاری فی الجامع الصحیح عن احمد بن الحسن الترمذی عنہ عن معتمر بن سلیمان التیمی فی آخر المغازی بعد ذکر وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم


قال ابو نصر الکلاباذی و لم یحدث عنہ البخاری نفسہ فی الجامع بشیء و لا اورد من حدیث فیہ شیئا غیر ھذا الواحد الا ما لعلہ استشھد بہ فی بعض المواضع


قال محمد قال البخاری فی کتاب النکاح و قال لنا احمد بن حنبل ثنا


اور بخاری نے الجامع الصحیح میں ان (امام احمد) سے روایت نقل کی ہے احمد بن الحسن الترمذی سے معتمر بن سلیمان التیمی کے واسطے سے کتاب المغازی کے آخر میں

ابو نصر الکلاباذی کہتے ہیں ان سے بخاری نے فی نفسہ کچھ بھی الجامع صحیح میں روایت نہیں کیا سوائے اسکے اور بعض جگہ استشہاد کیا ہے، ابن خلفون کہتے ہیں بخاری کتاب النکاح میں کہتے ہیں قال لنا احمد بن حنبل

ابن خلفون یہ بھی کہتے ہیں

و قد روی عنہ فی غیر الجامع غیر شیء


اور امام احمد سے صحیح بخاری کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی کوئی روایت نہیں لی


معلوم ہوا کہ بخاری نے امام احمد سے براہ راست روایت نقل نہیں کی اور بخاری نے کہیں بھی حدثنی یا حدثنا کہہ کر روایت نہیں لی جو تحدیث کے خاص لفظ ہیں

پہلا حوالہ

بخاری باب كم غزا النبي صلى الله عليه و سلم میں روایت لکھتے ہیں

حدثني أحمد بن الحسن حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال حدثنا معتمر بن سليمان عن كهمس عن ابن بريدة عن أبيه قال : غزا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ست عشرة غزوة


یہاں امام احمداور امام بخاری کے درمیان احمد بن حسن ہیں جو ایک عجیب بات ہے اتنے مشھور امام سے صحیح میں صرف یہ ایک روایت سندا نقل کی اور اس میں بھی واسطہ رکھا

دوسرا حوالہ




باب مَا يَحِلُّ مِنَ النِّسَاءِ وَمَا يَحْرُمُ
وَقَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِى حَبِيبٌ عَنْ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حَرُمَ مِنَ النَّسَبِ سَبْعٌ ، وَمِنَ الصِّهْرِ سَبْعٌ . ثُمَّ قَرَأَ ( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ) الآيَةَ .

ہم سے احمد بن حنبل نے بیان کیا .. امام بخاری نے یہاں بھی قال لنا کے الفاظ سے ظاہر کیا ہے امام احمد نے یہ ایک مجمع میں سنائی نہ کہ خاص ان کو لہذا امام بخاری نے اپنے اپ کو امام احمد کے خاص شاگرد کی خصوصیت سے پاک رکھا

تیسرا حوالہ

حدثني محمد بن عبد الله الأنصاري قال حدثني أبي عن ثمامة عن أنس : أن أبا بكر رضي الله عنه لما استخلف كتب له وكان نقش الخاتم ثلاثة أسطر محمد سطر ورسول سطر والله سطر


قال أبو عبد الله وزادني أحمد حدثنا الأنصاري قال حدثني أبي عن ثمامة عن أنس قال كان خاتم النبي صلى الله عليه و سلم في يده وفي يد أبي بكر بعده وفي يد عمر بعد أبي بكر فلما كان عثمان جلس على

بئر أريس قال فأخرج الخاتم فجعل يعبث به فسقط قال فاختلفنا ثلاثة أيام مع عثمان فننزح البئر فلم نجده


اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی انگوٹھی کا ذکر ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں روایت پر وزادني أحمد کہ احمد نے اضافہ کیا

لیکن یہ امام احمد بن حنبل ہی ہیں واضح نہیں کیا

چوتھا حوالہ


قال أبو عبد الله قال علي بن عبد الله سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث قال فإنما أردت أن النبي صلى الله عليه و سلم كان أعلى من الناس فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث . قال فقلت إن سفيان بن عيينة كان يسأل عن هذا كثيرا فلم تسمعه منه ؟ قال لا

صحیح میں امام بخاری نے روایت بیان کی کہ امام نماز میں کہاں کھڑا ہو گا

اس کے بعد امام علی المدینی اور امام احمد کی گفتگو نقل کی اور امام علی نے امام احمد سے کہا کہ اس روایت کو سفیان نے کئی دفعہ بیان کیا تم نے سنا نہیں امام احمد نے کہا نہیں

ان چار مقامات پر امام بخاری نے امام احمد بن حنبل کا ذکر کیا ہے تو ظاہر ہے امام بخاری ان کو اپنا استاد ماننے کے لئے تیار نہیں

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط دوم میں لکھا تھا کہ امام بخاری ، امام احمد کو رحمہ الله علیہ لکھتے تھے اور پھر كتاب الضعفاء کا ایک نسخہ بھی دکھایا لیکن افسوس كتاب الضعفاء جو حال ہی میں٢٠٠٥ میں أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين کی تحقیق کے ساتھ مكتبة ابن عباس سے چھپی ہے اس میں سے یہ الفاظ حذف کر دے گئے

حفص بن سليمان الأسدي: أبو عمر، عن علقمة بن مرثد، تركوه، قال أحمد بن حنبل وعلي: قال يحيى: أخبرني شعبة، قال: أخذ مني حفص بن سليمان كتابا، فلم يرده، قال: وكان يأخذ كتب الناس، فينسخها.


امام بخاری نے امام احمد کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا واضح نہیں لیکن شاید یہ امام احمد کا امام بخاری کے خلاف فتوی ہو

ہمارے سلف بھی فتوی بازی کرتے تھے ملاحظہ ہو


امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق


میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں


یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کا الفاظ قرآن مخلوق ہیں تلاوت مخلوق ہے لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے مسئلہ خلق قرآن پر عباسی خلفاء کی خاص توجہ امام احمد پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوۓ اور پھر اسی شہرت کے سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے کے لئے امام بخاری نے کتاب خلق أفعال العباد لکھی جس میں نہ صرف معتزلہ بلکہ امام احمد کے موقف سے ہٹ کر وضاحت کی گئی


ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٦٠ مجموع الفتاوى مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية میں دعوی کرتے ہیں سلف میں کس نے نہیں کہا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں

وَلَا قَالَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ وَلَا أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَنَّ شَيْئًا مِنْ صِفَاتِ الْعَبْدِ وَأَفْعَالِهِ غَيْرُ مَخْلُوقَةٍ وَلَا صَوْتِهِ بِالْقُرْآنِ وَلَا لَفْظِهِ بِالْقُرْآنِ


اور امام احمد اور سلف میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ بندے کی صفات اور افعال غیر مخلوق ہیں اور نہ قرآن کی آواز (قرات) اور اس کے لفظ


امام الْأَشْعَرِيِّ کہتے تھے کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنےسے کراہت کرتے تھے. ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٥٩ میں لکھتے ہیں

وَصَارَ بَعْضُ النَّاسِ يَظُنُّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ وَهَؤُلَاءِ خَالَفُوا أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ وَجَرَتْ لِلْبُخَارِيِّ مِحْنَةٌ بِسَبَبِ ذَلِكَ حَتَّى زَعَمَ بَعْضُ الْكَذَّابِينَ أَنَّ الْبُخَارِيَّ لَمَّا مَاتَ أَمَرَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ أَلَّا يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَذَا كَذِبٌ ظَاهِرٌ فَإِنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْبُخَارِيَّ – رَحِمَهُ اللَّهُ – مَاتَ بَعْدَ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ بِنَحْوِ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَإِنَّ أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – تُوُفِّيَ سَنَةَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ وَمِائَتَيْنِ وَتُوُفِّيَ الْبُخَارِيُّ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يُحِبُّ الْبُخَارِيَّ وَيُجِلُّهُ وَيُعَظِّمُهُ وَأَمَّا تَعْظِيمُ الْبُخَارِيِّ وَأَمْثَالِهِ لِلْإِمَامِ أَحْمَد فَهُوَ أَمْرٌ مَشْهُورٌ وَلَمَّا صَنَّفَ الْبُخَارِيُّ كِتَابَهُ فِي خَلْقِ أَفْعَالِ الْعِبَادِ وَذَكَرَ فِي آخِرِ الْكِتَابِ أَبْوَابًا فِي هَذَا الْمَعْنَى؛ ذَكَرَ أَنَّ كُلًّا مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ الْقَائِلِينَ: بِأَنَّ لَفْظَنَا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ وَالْقَائِلِينَ بِأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ يُنْسَبُونَ إلَى الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ

وَيَدَّعُونَ أَنَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ وَكِلَا الطَّائِفَتَيْنِ لَمْ تَفْهَمْ دِقَّةَ كَلَامِ أَحْمَد – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -. وَطَائِفَةٌ أُخْرَى: كَأَبِي الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيِّ وَالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى وَغَيْرِهِمْ مِمَّنْ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْحَدِيثِ قَالُوا: أَحْمَد وَغَيْرُهُ كَرِهُوا أَنْ يُقَالَ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ؛ فَإِنَّ اللَّفْظَ هُوَ الطَّرْحُ وَالنَّبْذُ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى كَأَبِي مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ يَقُولُ أَيْضًا: إنَّهُ مُتَّبِعٌ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ إلَى غَيْرِ هَؤُلَاءِ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إلَى السُّنَّةِ وَمَذْهَبُ الْحَدِيثِ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَنَحْوِهِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا حَقِيقَةَ مَا كَانَ يَقُولُهُ أَئِمَّةُ السُّنَّةِ؛ كَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَأَمْثَالِهِ وَقَدْ بَسَطْنَا أَقْوَالَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ: أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ. وَأَمَّا الْبُخَارِيُّ وَأَمْثَالُهُ فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ أَعْرَفِ النَّاسِ بِقَوْلِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ


اور بعض لوگوں نے گمان کیا کہ بخاری نے احمد بن حنبل کی مخالفت کی اور دوسرے اہل سنت کے ائمہ کی اور بخاری کے لئے آزمائش شروع ہوئی اسکی وجہ سے حتی کہ بعض کذابوں نے دعوی کیا کہ جب بخاری کی وفات ہوئی تو احمد نے نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا اور اس جھوٹ کا واضح ہونا ظاہر ہے کیونکہ بخاری رحمہ الله علیہ احمد سے ١٥ سال بعد فوت ہوئے سن ٢٤١ میں اور بخاری سن ٢٥٦ ھ میں مرے . اور بے شک احمد بن حنبل امام بخاری سے محبت کرتے اور انکی تعظیم کرتے اور جہاں تک امام بخاری کا امام احمد کی تعظیم کی مثالیں ہیں تو وہ ایک مشھور بات ہے اور جب بخاری نے کتاب خلق أَفْعَالِ الْعِبَادِ لکھی اور کتاب کے آخری ابواب میں اس معنی کا ذکر کیا اور دونوں گروہوں کے قائلین کا ذکر کیا کہ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں . اور غیر مخلوق کے قائلین اس کی نسبت امام احمد سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان کے قول پر ہیں اور ان دونوں قائلین نے امام احمد کے دقت کلام کو نہ سمجھا اور دوسرا گروہ جسے ابی حسن الْأَشْعَرِيِّ اور َالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ اور َالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى اور دیگر جو کہتے ہیں کہ ہم امام احمد اور ائمہ اہل سنت کے عقیدے پر ہیں کہتے ہیں کہ امام احمد کراہت کرتے تھے کہ قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہا جائے اور اسی طرح امام ابن حزم بھی جو اپنے اپ کو امام احمد کے عقیدے پر بتاتے ہیں حقیقت کو نہیں جانتے کہ امام احمد اور ان کے جسے ائمہ سنت کیا کہتے ہیں … اور بخاری اور ان کے جسے جانتے ہیں کہ امام احمد اور ائمہ سنت کیا کہتے ہیں

ایک طرف تو اتنے سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو بھی غیر مخلوق کہتے تھے اور پھر بخاری کی کتاب خلق افعال سب شاہد ہیں ان کے عقائد پر لیکن

بخاری تو واضح طور پر قرآن کی تلاوت کو مخلوق کہتے ہیں لیکن احمد تلاوت کو مخلوق کہنے والے کو جہمیہ کے مذھب پر بتاتے ہیں


امام احمد کی فتوی بازی کی وجہ سے امام بخاری پر خرتنگ کی بستی تنگ ہو گئی اور الله کے اس بندے کو الله نے واپس بلا لیا

امام بخاری اور امام احمد کے اس مناقشہ کو چھپانا علماء کا طریقہ نہیں
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
http://www.islamic-belief.net/

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط دوم میں لکھا تھا کہ امام بخاری ، امام احمد کو رحمہ الله علیہ لکھتے تھے اور پھر كتاب الضعفاء کا ایک نسخہ بھی دکھایا لیکن افسوس كتاب الضعفاء جو حال ہی میں٢٠٠٥ میں أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين کی تحقیق کے ساتھ مكتبة ابن عباس سے چھپی ہے اس میں سے یہ الفاظ حذف کر دے گئے

حفص بن سليمان الأسدي: أبو عمر، عن علقمة بن مرثد، تركوه، قال أحمد بن حنبل وعلي: قال يحيى: أخبرني شعبة، قال: أخذ مني حفص بن سليمان كتابا، فلم يرده، قال: وكان يأخذ كتب الناس، فينسخها.
امام بخاری نے امام احمد کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا واضح نہیں لیکن شاید یہ امام احمد کا امام بخاری کے خلاف فتوی ہو
لولی صاحب اس اقتباس کا معنی مجھے سمجھا دیں ، پھر میں آپ کے مکمل مراسلے کا جواب لکھوں گا ۔
یعنی
دامانوی صاحب کا اصل کلام نقل کردیں ۔
بخاری نے احمد کے خلاف کیسا رویہ اختیار کیا ؟
احمد کا بخاری کےخلاف کیا فتوی ہے ۔؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لولی صاحب اس اقتباس کا معنی مجھے سمجھا دیں ، پھر میں آپ کے مکمل مراسلے کا جواب لکھوں گا ۔
یعنی
دامانوی صاحب کا اصل کلام نقل کردیں ۔
بخاری نے احمد کے خلاف کیسا رویہ اختیار کیا ؟
احمد کا بخاری کےخلاف کیا فتوی ہے ۔؟

یہی بات میں آپ سے پہلے ان سے پوچھ چکا ہوں - لیکن ابھی تک ان لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا

لنک

http://www.islamic-belief.net/صحیح-بخاری-اور-امام-احمد-سے-رو-گردانی/
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
Your comment is awaiting moderation.

[FONT=Georgia, Bitstream Charter, serif]ابھی تک میرے سوال کو ان لوگوں نے موڈریٹ کیا ہوا ہے [/FONT]​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
http://www.islamic-belief.net/صحیح-بخاری-اور-امام-احمد-سے-رو-گردانی/


تحقیق درکار ہے

[/CENTER]

صحیح بخاری اور امام احمد سے رو گردانی


ابن خلفون کتا ب شیوخ البخاری و المسلم میں لکھتے ہیں

و روی البخاری فی الجامع الصحیح عن احمد بن الحسن الترمذی عنہ عن معتمر بن سلیمان التیمی فی آخر المغازی بعد ذکر وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم

قال ابو نصر الکلاباذی و لم یحدث عنہ البخاری نفسہ فی الجامع بشیء و لا اورد من حدیث فیہ شیئا غیر ھذا الواحد الا ما لعلہ استشھد بہ فی بعض المواضع

قال محمد قال البخاری فی کتاب النکاح و قال لنا احمد بن حنبل ثنا

اور بخاری نے الجامع الصحیح میں ان (امام احمد) سے روایت نقل کی ہے احمد بن الحسن الترمذی سے معتمر بن سلیمان التیمی کے واسطے سے کتاب المغازی کے آخر میں

ابو نصر الکلاباذی کہتے ہیں ان سے بخاری نے فی نفسہ کچھ بھی الجامع صحیح میں روایت نہیں کیا سوائے اسکے اور بعض جگہ استشہاد کیا ہے، ابن خلفون کہتے ہیں بخاری کتاب النکاح میں کہتے ہیں قال لنا احمد بن حنبل

ابن خلفون یہ بھی کہتے ہیں

و قد روی عنہ فی غیر الجامع غیر شیء

اور امام احمد سے صحیح بخاری کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی کوئی روایت نہیں لی

معلوم ہوا کہ بخاری نے امام احمد سے براہ راست روایت نقل نہیں کی اور بخاری نے کہیں بھی حدثنی یا حدثنا کہہ کر روایت نہیں لی جو تحدیث کے خاص لفظ ہیں

پہلا حوالہ

بخاری باب كم غزا النبي صلى الله عليه و سلم میں روایت لکھتے ہیں

حدثني أحمد بن الحسن حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال حدثنا معتمر بن سليمان عن كهمس عن ابن بريدة عن أبيه قال : غزا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ست عشرة غزوة

یہاں امام احمداور امام بخاری کے درمیان احمد بن حسن ہیں جو ایک عجیب بات ہے اتنے مشھور امام سے صحیح میں صرف یہ ایک روایت سندا نقل کی اور اس میں بھی واسطہ رکھا

دوسرا حوالہ



باب مَا يَحِلُّ مِنَ النِّسَاءِ وَمَا يَحْرُمُ
وَقَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِى حَبِيبٌ عَنْ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حَرُمَ مِنَ النَّسَبِ سَبْعٌ ، وَمِنَ الصِّهْرِ سَبْعٌ . ثُمَّ قَرَأَ ( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ) الآيَةَ .

ہم سے احمد بن حنبل نے بیان کیا .. امام بخاری نے یہاں بھی قال لنا کے الفاظ سے ظاہر کیا ہے امام احمد نے یہ ایک مجمع میں سنائی نہ کہ خاص ان کو لہذا امام بخاری نے اپنے اپ کو امام احمد کے خاص شاگرد کی خصوصیت سے پاک رکھا

تیسرا حوالہ

حدثني محمد بن عبد الله الأنصاري قال حدثني أبي عن ثمامة عن أنس : أن أبا بكر رضي الله عنه لما استخلف كتب له وكان نقش الخاتم ثلاثة أسطر محمد سطر ورسول سطر والله سطر

قال أبو عبد الله وزادني أحمد حدثنا الأنصاري قال حدثني أبي عن ثمامة عن أنس قال كان خاتم النبي صلى الله عليه و سلم في يده وفي يد أبي بكر بعده وفي يد عمر بعد أبي بكر فلما كان عثمان جلس على

بئر أريس قال فأخرج الخاتم فجعل يعبث به فسقط قال فاختلفنا ثلاثة أيام مع عثمان فننزح البئر فلم نجده

اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی انگوٹھی کا ذکر ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں روایت پر وزادني أحمد کہ احمد نے اضافہ کیا

لیکن یہ امام احمد بن حنبل ہی ہیں واضح نہیں کیا

چوتھا حوالہ

قال أبو عبد الله قال علي بن عبد الله سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث قال فإنما أردت أن النبي صلى الله عليه و سلم كان أعلى من الناس فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث . قال فقلت إن سفيان بن عيينة كان يسأل عن هذا كثيرا فلم تسمعه منه ؟ قال لا

صحیح میں امام بخاری نے روایت بیان کی کہ امام نماز میں کہاں کھڑا ہو گا

اس کے بعد امام علی المدینی اور امام احمد کی گفتگو نقل کی اور امام علی نے امام احمد سے کہا کہ اس روایت کو سفیان نے کئی دفعہ بیان کیا تم نے سنا نہیں امام احمد نے کہا نہیں

ان چار مقامات پر امام بخاری نے امام احمد بن حنبل کا ذکر کیا ہے تو ظاہر ہے امام بخاری ان کو اپنا استاد ماننے کے لئے تیار نہیں

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط دوم میں لکھا تھا کہ امام بخاری ، امام احمد کو رحمہ الله علیہ لکھتے تھے اور پھر كتاب الضعفاء کا ایک نسخہ بھی دکھایا لیکن افسوس كتاب الضعفاء جو حال ہی میں٢٠٠٥ میں أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين کی تحقیق کے ساتھ مكتبة ابن عباس سے چھپی ہے اس میں سے یہ الفاظ حذف کر دے گئے

حفص بن سليمان الأسدي: أبو عمر، عن علقمة بن مرثد، تركوه، قال أحمد بن حنبل وعلي: قال يحيى: أخبرني شعبة، قال: أخذ مني حفص بن سليمان كتابا، فلم يرده، قال: وكان يأخذ كتب الناس، فينسخها.

امام بخاری نے امام احمد کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا واضح نہیں لیکن شاید یہ امام احمد کا امام بخاری کے خلاف فتوی ہو

ہمارے سلف بھی فتوی بازی کرتے تھے ملاحظہ ہو

امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کا الفاظ قرآن مخلوق ہیں تلاوت مخلوق ہے لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے مسئلہ خلق قرآن پر عباسی خلفاء کی خاص توجہ امام احمد پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوۓ اور پھر اسی شہرت کے سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے کے لئے امام بخاری نے کتاب خلق أفعال العباد لکھی جس میں نہ صرف معتزلہ بلکہ امام احمد کے موقف سے ہٹ کر وضاحت کی گئی


ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٦٠ مجموع الفتاوى مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية میں دعوی کرتے ہیں سلف میں کس نے نہیں کہا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں

وَلَا قَالَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ وَلَا أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَنَّ شَيْئًا مِنْ صِفَاتِ الْعَبْدِ وَأَفْعَالِهِ غَيْرُ مَخْلُوقَةٍ وَلَا صَوْتِهِ بِالْقُرْآنِ وَلَا لَفْظِهِ بِالْقُرْآنِ

اور امام احمد اور سلف میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ بندے کی صفات اور افعال غیر مخلوق ہیں اور نہ قرآن کی آواز (قرات) اور اس کے لفظ

امام الْأَشْعَرِيِّ کہتے تھے کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنےسے کراہت کرتے تھے. ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٥٩ میں لکھتے ہیں

وَصَارَ بَعْضُ النَّاسِ يَظُنُّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ وَهَؤُلَاءِ خَالَفُوا أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ وَجَرَتْ لِلْبُخَارِيِّ مِحْنَةٌ بِسَبَبِ ذَلِكَ حَتَّى زَعَمَ بَعْضُ الْكَذَّابِينَ أَنَّ الْبُخَارِيَّ لَمَّا مَاتَ أَمَرَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ أَلَّا يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَذَا كَذِبٌ ظَاهِرٌ فَإِنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْبُخَارِيَّ – رَحِمَهُ اللَّهُ – مَاتَ بَعْدَ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ بِنَحْوِ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَإِنَّ أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – تُوُفِّيَ سَنَةَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ وَمِائَتَيْنِ وَتُوُفِّيَ الْبُخَارِيُّ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يُحِبُّ الْبُخَارِيَّ وَيُجِلُّهُ وَيُعَظِّمُهُ وَأَمَّا تَعْظِيمُ الْبُخَارِيِّ وَأَمْثَالِهِ لِلْإِمَامِ أَحْمَد فَهُوَ أَمْرٌ مَشْهُورٌ وَلَمَّا صَنَّفَ الْبُخَارِيُّ كِتَابَهُ فِي خَلْقِ أَفْعَالِ الْعِبَادِ وَذَكَرَ فِي آخِرِ الْكِتَابِ أَبْوَابًا فِي هَذَا الْمَعْنَى؛ ذَكَرَ أَنَّ كُلًّا مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ الْقَائِلِينَ: بِأَنَّ لَفْظَنَا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ وَالْقَائِلِينَ بِأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ يُنْسَبُونَ إلَى الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ

وَيَدَّعُونَ أَنَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ وَكِلَا الطَّائِفَتَيْنِ لَمْ تَفْهَمْ دِقَّةَ كَلَامِ أَحْمَد – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -. وَطَائِفَةٌ أُخْرَى: كَأَبِي الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيِّ وَالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى وَغَيْرِهِمْ مِمَّنْ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْحَدِيثِ قَالُوا: أَحْمَد وَغَيْرُهُ كَرِهُوا أَنْ يُقَالَ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ؛ فَإِنَّ اللَّفْظَ هُوَ الطَّرْحُ وَالنَّبْذُ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى كَأَبِي مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ يَقُولُ أَيْضًا: إنَّهُ مُتَّبِعٌ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ إلَى غَيْرِ هَؤُلَاءِ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إلَى السُّنَّةِ وَمَذْهَبُ الْحَدِيثِ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَنَحْوِهِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا حَقِيقَةَ مَا كَانَ يَقُولُهُ أَئِمَّةُ السُّنَّةِ؛ كَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَأَمْثَالِهِ وَقَدْ بَسَطْنَا أَقْوَالَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ: أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ. وَأَمَّا الْبُخَارِيُّ وَأَمْثَالُهُ فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ أَعْرَفِ النَّاسِ بِقَوْلِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ

اور بعض لوگوں نے گمان کیا کہ بخاری نے احمد بن حنبل کی مخالفت کی اور دوسرے اہل سنت کے ائمہ کی اور بخاری کے لئے آزمائش شروع ہوئی اسکی وجہ سے حتی کہ بعض کذابوں نے دعوی کیا کہ جب بخاری کی وفات ہوئی تو احمد نے نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا اور اس جھوٹ کا واضح ہونا ظاہر ہے کیونکہ بخاری رحمہ الله علیہ احمد سے ١٥ سال بعد فوت ہوئے سن ٢٤١ میں اور بخاری سن ٢٥٦ ھ میں مرے . اور بے شک احمد بن حنبل امام بخاری سے محبت کرتے اور انکی تعظیم کرتے اور جہاں تک امام بخاری کا امام احمد کی تعظیم کی مثالیں ہیں تو وہ ایک مشھور بات ہے اور جب بخاری نے کتاب خلق أَفْعَالِ الْعِبَادِ لکھی اور کتاب کے آخری ابواب میں اس معنی کا ذکر کیا اور دونوں گروہوں کے قائلین کا ذکر کیا کہ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں . اور غیر مخلوق کے قائلین اس کی نسبت امام احمد سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان کے قول پر ہیں اور ان دونوں قائلین نے امام احمد کے دقت کلام کو نہ سمجھا اور دوسرا گروہ جسے ابی حسن الْأَشْعَرِيِّ اور َالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ اور َالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى اور دیگر جو کہتے ہیں کہ ہم امام احمد اور ائمہ اہل سنت کے عقیدے پر ہیں کہتے ہیں کہ امام احمد کراہت کرتے تھے کہ قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہا جائے اور اسی طرح امام ابن حزم بھی جو اپنے اپ کو امام احمد کے عقیدے پر بتاتے ہیں حقیقت کو نہیں جانتے کہ امام احمد اور ان کے جسے ائمہ سنت کیا کہتے ہیں … اور بخاری اور ان کے جسے جانتے ہیں کہ امام احمد اور ائمہ سنت کیا کہتے ہیں

ایک طرف تو اتنے سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو بھی غیر مخلوق کہتے تھے اور پھر بخاری کی کتاب خلق افعال سب شاہد ہیں ان کے عقائد پر لیکن

بخاری تو واضح طور پر قرآن کی تلاوت کو مخلوق کہتے ہیں لیکن احمد تلاوت کو مخلوق کہنے والے کو جہمیہ کے مذھب پر بتاتے ہیں

امام احمد کی فتوی بازی کی وجہ سے امام بخاری پر خرتنگ کی بستی تنگ ہو گئی اور الله کے اس بندے کو الله نے واپس بلا لیا

امام بخاری اور امام احمد کے اس مناقشہ کو چھپانا علماء کا طریقہ نہیں
بِأَنَّ لَفْظَنَا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ وَالْقَائِلِينَ بِأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ يُنْسَبُونَ إلَى الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ
ان الفاظ کا ترجمہ ہی غلط کیا ہے ،حالانکہ ساری پوسٹ کا دارومدار انہی الفاظ پر ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بخاری تو واضح طور پر قرآن کی تلاوت کو مخلوق کہتے ہیں لیکن احمد تلاوت کو مخلوق کہنے والے کو جہمیہ کے مذھب پر بتاتے ہیں
اس کا حوالہ ،اور اصل عربی عبارت ضرور سامنے لائیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@خضر حیات بھائی اپنے مراسلے میں ان لوگوں نے جو یہ لکھا ہے اس کا جواب بھی ان کو دے دیں - تا کہ اگر یہ باتیں جھوٹی ہیں تو ہم ان عثمانی باطل کا رد کر سکیں

زبیر علی زئی
رحم الله
کتاب تحقیق اصلاحی میں مضمون امام احمد کا مقام محدثین کی نگاہ میں ، میں لکھتے ہیں




امامبخاری نے صحیح میں صرف ایک جگہ سندا روایت لکھی ہے وہ بھی ایک راوی کو بیچ میں ڈالنے کے بعد







مکتبہ الکوثر سے مندرجہ بالا کتاب شائع ہوئی اس میں مولف ابن مندہ المتوفی ٣٩٥ ھ کہتے ہیں کہ احمد سے صرف ایک جگہ ہی روایت لی ہے اس پر تعلق میں محقق ابن حجر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بخاری احمد کو چھوڑ کر امام علی المدینی سے روایت لیتے اور انہوں نے احمد سے تحدیث کرنا منقطع کر دیا تھا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بِأَنَّ لَفْظَنَا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ وَالْقَائِلِينَ بِأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ يُنْسَبُونَ إلَى الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ
ان الفاظ کا ترجمہ ہی غلط کیا ہے ،حالانکہ ساری پوسٹ کا دارومدار انہی الفاظ پر ہے

@اسحاق سلفی بھائی آپ مہربانی کر کے یہ بات ان باطل پرستوں سے پوچھیں- تا کہ ہم ان باطل پرستوں کا رد کر سکیں - میں نے بھی ان سے پوچھا ہوا ہے لیکن ابھی تک ان لوگوں نے میری پوسٹس کو ماڈریٹ کیا ہوا ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لولی صاحب اس اقتباس کا معنی مجھے سمجھا دیں ، پھر میں آپ کے مکمل مراسلے کا جواب لکھوں گا ۔
یعنی
دامانوی صاحب کا اصل کلام نقل کردیں ۔
بخاری نے احمد کے خلاف کیسا رویہ اختیار کیا ؟
احمد کا بخاری کےخلاف کیا فتوی ہے ۔؟

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط دوم میں لکھا تھا کہ امام بخاری ، امام احمد کو رحمہ الله علیہ لکھتے تھے اور پھر كتاب تاریخ الصغیر کا ایک نسخہ بھی دکھایا


دامانوی صاحب نے جو حوالہ دیا ہے وہ تاریخ الصغیر کا ہے جبکہ یہ الفاظ بخاری کی کتاب الضعفاء میں ہیں نہ کہ تاریخ الصغیر ہیں

افسوس كتاب الضعفاء جو حال ہی میں ٢٠٠٥ میں أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين کی تحقیق کے ساتھ مكتبة ابن عباس سے چھپی ہے اس میں سے یہ الفاظ حذف کر دے گئے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس کا حوالہ ،اور اصل عربی عبارت ضرور سامنے لائیں

جب آپ کا یہ سوال میں نے ان سے پوچھا تو یہ جواب دیا گیا

لنک

http://www.islamic-belief.net/صحیح-بخاری-اور-امام-احمد-سے-رو-گردانی/#comment-3777


امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق


میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور ہمارے الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں


یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا -الفاظ قرآن مخلوق ہیں تلاوت مخلوق ہے لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے مسئلہ خلق قرآن پر عباسی خلفاء کی خاص توجہ امام احمد پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوۓ اور پھر اسی شہرت کے سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے کے لئے امام بخاری نے کتاب خلق أفعال العباد لکھی جس میں نہ صرف معتزلہ بلکہ امام احمد کے موقف سے ہٹ کر وضاحت کی گئی

بندوں کی تلاوت مخلوق ہے

امام بخاری ، تلاوت جو ہم کرتے ہیں اس کو مخلوق کا فعل کہتے تھے. کتاب کا نام ہی خلق افعال العبآد یعنی بندوں کے افعال کی تخلیق رکھا امام بخاری کتاب میں کہتے ہیں


اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایک قوم نکلے گی جو تمہارے عمل کو اپنے اعمال سے حقیر جانیں گے پس اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ قرآن کی قرات ایک عمل ہے


امام بخاری اور امام احمد دونوں قرآن کو کلام الله غیر مخلوق کہتے تھے لیکن بخاری کہتے ہیں قرآن اللہ کا کلام ہے اور قرات بندے کا فعل ہے

عربی زبان مخلوق ہے

بخاری باب باندھتے ہیں

باب قول االله تعالى { فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين } قال ومـن آياتـه خلـق السماوات و الأرض واختلاف ألسنتكم و ألوانكم فمنها العربي ومنها العجمي فـذكراختلاف الألسنة والألوان وهو كلام العباد


باب الله تعالی کا قول پس جاؤ تورات لے آو اس کی قرات کرو اگر سچے ہو. الله نے کہا اور اس کی نشانیوں میں سے ہے زبانوں کا اختلاف اور رنگوں کا پس کوئی عربی ہے کوئی عجمی ہے پس الله نے زبان اور رنگوں کے اختلاف کا ذکر کیا اور وہ بندوں کا کلام ہے


بخاری کہنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن کے علاوہ تورات بھی الله کا کلام ہے جو عربی میں نہیں اور یہ زبانوں کا اختلاف الله نے پیدا یا خلق کیا ہے .عربی زبان مخلوق ہے

قرآن الله کا علم ہے وہ غیر مخلوق ہے لیکن عربی زبان مخلوق ہے

یاد رہے کہ حدیث کے مطابق قرآن قریش (مکہ) کی زبان میں نازل ہوا ہے اور اختلاف قرات کے مسئلہ پر، جمع قرآن کے وقت قریش کی زبان کو ترجیح دی گئی تھی

کتاب کے آخر میں بخاری نے نہ صرف قرآن بلکہ تورات اور انجیل کا بھی ذکر کیا جو عربی میں نازل نہیں ہوئیں لیکن تورات و انجیل بھی الله کا کلام ہیں غیر مخلوق ہیں

اب دوبارہ امام احمد کا نقطہ نظر دیکھئے

امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق


میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور ہمارے الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے؟ – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں


ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٦٠ مجموع الفتاوى مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية میں دعوی کرتے ہیں سلف میں کس نے نہیں کہا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں

وَلَا قَالَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ وَلَا أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَنَّ شَيْئًا مِنْ صِفَاتِ الْعَبْدِ وَأَفْعَالِهِ غَيْرُ مَخْلُوقَةٍ وَلَا صَوْتِهِ بِالْقُرْآنِ وَلَا لَفْظِهِ بِالْقُرْآنِ


اور امام احمد اور سلف میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ بندے کی صفات اور افعال غیر مخلوق ہیں اور نہ قرآن کی آواز(قرات) اور اس کے لفظ


امام الْأَشْعَرِيِّ کہتے تھے کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنےسے کراہت کرتے تھے. ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٥٩ میں لکھتے ہیں

وَصَارَ بَعْضُ النَّاسِ يَظُنُّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ وَهَؤُلَاءِ خَالَفُوا أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ وَجَرَتْ لِلْبُخَارِيِّ مِحْنَةٌ بِسَبَبِ ذَلِكَ حَتَّى زَعَمَ بَعْضُ الْكَذَّابِينَ أَنَّ الْبُخَارِيَّ لَمَّا مَاتَ أَمَرَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ أَلَّا يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَذَا كَذِبٌ ظَاهِرٌ فَإِنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْبُخَارِيَّ – رَحِمَهُ اللَّهُ – مَاتَ بَعْدَ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ بِنَحْوِ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَإِنَّ أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – تُوُفِّيَ سَنَةَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ وَمِائَتَيْنِ وَتُوُفِّيَ الْبُخَارِيُّ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يُحِبُّ الْبُخَارِيَّ وَيُجِلُّهُ وَيُعَظِّمُهُ وَأَمَّا تَعْظِيمُ الْبُخَارِيِّ وَأَمْثَالِهِ لِلْإِمَامِ أَحْمَد فَهُوَ أَمْرٌ مَشْهُورٌ وَلَمَّا صَنَّفَ الْبُخَارِيُّ كِتَابَهُ فِي خَلْقِ أَفْعَالِ الْعِبَادِ وَذَكَرَ فِي آخِرِ الْكِتَابِ أَبْوَابًا فِي هَذَا الْمَعْنَى؛ ذَكَرَ أَنَّ كُلًّا مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ الْقَائِلِينَ: بِأَنَّ لَفْظَنَا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ وَالْقَائِلِينَ بِأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ يُنْسَبُونَ إلَى الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ

وَيَدَّعُونَ أَنَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ وَكِلَا الطَّائِفَتَيْنِ لَمْ تَفْهَمْ دِقَّةَ كَلَامِ أَحْمَد – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -. وَطَائِفَةٌ أُخْرَى: كَأَبِي الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيِّ وَالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى وَغَيْرِهِمْ مِمَّنْ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْحَدِيثِ قَالُوا: أَحْمَد وَغَيْرُهُ كَرِهُوا أَنْ يُقَالَ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ؛ فَإِنَّ اللَّفْظَ هُوَ الطَّرْحُ وَالنَّبْذُ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى كَأَبِي مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ يَقُولُ أَيْضًا: إنَّهُ مُتَّبِعٌ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ إلَى غَيْرِ هَؤُلَاءِ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إلَى السُّنَّةِ وَمَذْهَبُ الْحَدِيثِ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَنَحْوِهِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا حَقِيقَةَ مَا كَانَ يَقُولُهُ أَئِمَّةُ السُّنَّةِ؛ كَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَأَمْثَالِهِ وَقَدْ بَسَطْنَا أَقْوَالَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ: أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ. وَأَمَّا الْبُخَارِيُّ وَأَمْثَالُهُ فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ أَعْرَفِ النَّاسِ بِقَوْلِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ


اور بعض لوگوں نے گمان کیا کہ بخاری نے احمد بن حنبل کی مخالفت کی اور دوسرے اہل سنت کے ائمہ کی اور بخاری کے لئے آزمائش شروع ہوئی اسکی وجہ سے حتی کہ بعض کذابوں نے دعوی کیا کہ جب بخاری کی وفات ہوئی تو احمد نے نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا اور اس جھوٹ کا واضح ہونا ظاہر ہے کیونکہ بخاری رحمہ الله علیہ احمد سے ١٥ سال بعد فوت ہوئے سن ٢٤١ میں اور بخاری سن ٢٥٦ ھ میں مرے . اور بے شک احمد بن حنبل امام بخاری سے محبت کرتے اور انکی تعظیم کرتے اور جہاں تک امام بخاری کا امام احمد کی تعظیم کی مثالیں ہیں تو وہ ایک مشھور بات ہے اور جب بخاری نے کتاب خلق أَفْعَالِ الْعِبَادِ لکھی اور کتاب کے آخری ابواب میں اس معنی کا ذکر کیا اور دونوں گروہوں کے قائلین کا ذکر کیا کہ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں . اور غیر مخلوق کے قائلین اس کی نسبت امام احمد سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان کے قول پر ہیں اور ان دونوں قائلین نے امام احمد کے دقت کلام کو نہ سمجھا اور دوسرا گروہ جسے ابی حسن الْأَشْعَرِيِّ اور َالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ اور َالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى اور دیگر جو کہتے ہیں کہ ہم امام احمد اور ائمہ اہل سنت کے عقیدے پر ہیں کہتے ہیں کہ امام احمد کراہت کرتے تھے کہ قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہا جائے اور اسی طرح امام ابن حزم بھی جو اپنے اپ کو امام احمد کے عقیدے پر بتاتے ہیں حقیقت کو نہیں جانتے کہ امام احمد اور ان کے جسے ائمہ سنت کیا کہتے ہیں … اور بخاری اور ان کے جسے جانتے ہیں کہ امام احمد اور ائمہ سنت کیا کہتے ہیں


ابن تیمیہ کی نقص بھری تحقیق دیکھئے ایک طرف تو اتنے سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو بھی غیر مخلوق کہتے تھے اور پھر بخاری کی کتاب خلق افعال سب شاہد ہیں ان کے عقائد پر لیکن

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا​

بخاری تو واضح طور پر قرآن کی تلاوت کو مخلوق کہتے ہیں لیکن احمد تلاوت کو مخلوق کہنے والے کو جہمیہ کے مذھب پر بتاتے ہیں

امام بخاری اور امام احمد کے اس مناقشہ کو چھپانا علماء کا طریقہ نہیں . لیکن بعض کے نزدیک یہی خطا ڈاکٹر عثمانی سے ہوئی اور پھر فتوی کی توپیں داغی گئیں


 
Top