محمد عثمان
رکن
- شمولیت
- فروری 29، 2012
- پیغامات
- 231
- ری ایکشن اسکور
- 596
- پوائنٹ
- 86
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
میں پچھلے دنوں ایک کتاب بعنوان "شرعۃ الحق" کے بارہ میں فورم پر کچھ لکھا تھا۔ یہ کتاب گو کہ انداز بیان سے بالکل انکار حدیث کی طرف مائل ھے، مگر لکھنے والوں نے "حنفی مزھب" پر زور دیا ھے، اور حنفی علماء کو یہ پیغام دیا ھے کہ :
"کاش حنفی علماء امام شافعی کہ استقلال حدیث کے مباحث سے مرعوب ھو کر صرف علاج بالمثل میں نہ لگتے اور صحاح ستہ کی جگہ شرع معانی الآثار طحاوی، سنن بھیقی کی جگہ اعلاء السنن، مشکوۃ المصابیح کی جگہ زجاجۃ المصابیح کی محنتوں کے ساتھ ساتھ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابویوسف کی قرآنی کسوٹی والے اصول کو بھی پوری قوت اور مکمل اعتماد کہ ساتھ آگے بڑھاتے" (صفحہ 48-49)
اب یہ حنفی فقھا کی قرآنی کسوٹی کیا ھے، یہ بھی موصوف مندرجہ ذیل الفاظ میں بتاتے ھیں:
"امام ابو یوسف کہ الفاظ ہیں:
جو بات قرآن کریم کہ خلاف ھو وہ حدیث رسول ہو ہی نھی سکتی اگرچہ اسے آپ کی طرف منسوب کر کے ہی کیوں نہ روایت کیا گیا ہو"
گو کہ اصول بذات خود غلط نھیں، مگر اس سے مراد یہ نکالی گئ کہ " تم سے میری حدیث بیان کی جائیگی، تم اسے قرآن پر پیش کرنا، اس کہ خلاف پاو تو رد کر دینا"
ایک عام آدمی کو شاید ان دونوں عبارتوں میں فرق نا دکھے، مگر ان میں زمین آسمان کا فرق موجود ھے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کہ قول کہ مطابق
"جو بات قرآن کریم کہ خلاف ھو" اسے رد کرنا ھے،
، اور دوسرے قول میں
"جو حدیث قرآن کہ خلاف ھو" اسے رد کرنا ھے۔
ایک بات جب صحیح سند کہ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ھو جائے تو وہ حدیث رسول ھے، اور یھی فرق "بات" اور " حدیث" کا ھے، علماء ایسی بات کرتے وقت اکثر الفاظ کے اصطلاحی معانی لیتے ہیں۔
خیر موئلفِ مقدمہ طاہر مکی صاحب نے عبارات کے ہیر پھیر سے کام لے کر غلط مبحث پیدا کرنا چاھا ھے۔
اس کہ بعد موصوف فرماتے ہیں کہ:
"اہل حدیث حضرات اس قرآنی اصول کو وضعہ الزنادقہ کھتے ہیں"
اس کتاب میں اہل حدیث کے بارہ میں بھت تعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا ھے۔
آگے فرماتے ہیں:
" ایسا (حنفی) علماء بھی کم ہیں جنھوں نے آئمہ احناف کی کتب مثلاََ امام جصاص رازی کی احکام القرآن، امام بزدوی اور سرخسی کی اصول فقہ پر کتابوں کا مطالعہ کیا ہو جن میں عرض علی القرآن (قرآنی کسوٹی) کا اصول پیش کیا گیا ھے"
امام شافعی سے تو موصوف کو کچہ خاص ھی چڑ ھے:
"اجماعی متواتر سنت امام شافعی جیسے کٹر روایتی بزرگ کے نزدیک صلوۃ ذکوۃ حج وغیرہ کی متفقہ ہیت تک ہی محدود ھے"
جرح و تعدیل کہ بارہ میں رقم طراز ہیں کہ:
"ایک محدث کسی راوی کہ متعلق اپنے جو تاثرات دیتا ھے وہ اس کے ذوق و رجحان سے بالا نھیں ھوتے (آگے اسی بنا پر امام بخاری پر جرح کی گئی ھے)"
امام اعظم اور امام بخاری، کہ عنوان سے رقم طراز ہیں:
"امام بخاری اپنی کتاب تاریخ صغیر میں نعمان بن ثابت متوفی 150 ھ یعنی امام ابو حنیفہ کے بمتعلق چند سطریں لکھتے ہیں اور قلم توڑ دیتے ہیں،نقل کرتے ہیں:
کان ینقض الاسلام عروۃ عروۃ ما ولد فی الاسلام اشام منہ
وہ اسلام کی ایک ایک کر کہ کڑی توڑتا تھا۔ تاریخ میں اس سے ذیادہ بد ترین شخص پیدا نھی ھوا۔
سبحان اللہ، امام بخاری کے نذدیک مدینہ کے منافق ابن سبا سے لے کر ان کہ اپنے زمانے تک کوئی بھی شخص امام اعظم سے بد تر نھیں آیا"
اس جرح کے بارہ میں مجھے ذیادہ علم نھیں، مگر سنا ھے کہ یہ امام بخاری کا اپنا قول نھیں، کسی اور عالم کا قول ھے۔ واللہ اعلم۔
لکھتے ھیں:
"تاریخ کبیر میں امام بخاری لکھتے ہیں ترکو رائۃ و حدیثہ یعنی امام ابو حنیفہ کی حدیثی تحقیقات ہوں یہ فقھی تحقیقات، اہل علم نے کسی کو قبول نھیں کیا"
ان تمام اقتباسات کا مقصد حنفی بھایوں کو امام بخاری کے خلاف کر کہ صحیح بخاری کا مقام کم سے کم پاکستان کے حنفیوں کے نزدیک گرانا، اور اس انداز سے فتنۃ انکار حدیث کی جدید تخم ریزی کرنا ھے۔
موصوف بیان کرنا چاھتے ہیں کہ کیونکہ امام اعظم سے امام بخاری کو بھت بغض تھا، اس لئے
"اپنی صحیح میں امام اعظم اور ان کے شاگردوں سے کوئی روایت نقل نھی کی"
محمد طاہر مکی صاحب ایک اہل حدیث عالم علامہ مقبلی کہ بارہ میں لکھتے ہیں،
"اہلِ حدیث حضرات کے علاوہ دُوسرے اسلامی فکر خصوصاً احناف کا امام بخاری کی تحقیقات کے متعلق جو نقطہٴ نظر رہا ہے وہ مولانا عبدالرشید نعمانی مدرّس جامعہ بنوری ٹاوٴن، علامہ زاہدالکوثری مصری اور انور شاہ کشمیری کی کتابوں سے ظاہر ہے۔
مولانا عبدالرشید نعمانی کی تحقیقات سے صرف ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"کیا دو تہائی بخاری غلط ہے"
ترجمہ:... علامہ مقبلی اپنی کتاب الأرواح النوافخ میں لکھتے ہیں:
ایک نہایت دین دار اور باصلاحیت شخص نے مجھ سے عراقی کی "الفیہ" (جو اُصولِ حدیث میں ہے) پڑھی اور ہمارے درمیان صحیحین کے مقام و مرتبہ خصوصاً بخاری کی روایات کے متعلق بھی گفتگو ہوئی ․․․․․ تو ان صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ سے دریافت کیا کہ اس کتاب یعنی خصوصاً بخاری کی کتاب کے متعلق حقیقتِ اَمر کیا ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو تہائی غلط ہے۔
خواب دیکھنے والا کا گمان غالب ہے کہ یہ ارشادِ نبوی بخاری کے راویوں کے متعلق ہے، یعنی ان میں دو تہائی راوی غیرعادل ہیں کیونکہ بیداری میں ہمارا موضوعِ بحث بخاری کے راوی ہی تھے، واللہ اعلم۔"
(دیکھئے: مقبلی کی کتاب الارواح النوافخ ص:۶۸۹، ۶۹۰)
اس اچھوتی اور نادر روزگار دلیل پر طاہر المکی صاحب لکھتے ہیں:
"یہ ہے بخاری کے فنی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی حقیقت، اس کو ایڈٹ کرنے میں مولانا عبدالرشید نعمانی کے ساتھ جامعہ بنوری ٹاوٴن کے مفتی ولی حسن بھی شریک رہے ہیں جیسا کہ اپنی حواشی کے آخر میں نعمانی صاحب نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا ہے، عبدالرشید صاحب فرماتے ہیں:
جب بخاری کے دو تہائی راوی غیرعادل ہیں تو ان کی روایات کی کیا حیثیت جو یقینا بخاری کی دو تہائی روایات سے زیادہ بنتی ہیں، کیونکہ بہت سے راوی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کئی کئی روایتیں بیان کرتے ہیں۔"
علامہ مقبلی کے بارہ میں ذیادہ معلومات نھیں ھیں، مگر موصوف نے انکو ایک "غیر مقلد" عالم لکھا ھے۔
یہ سب کچھ اس مقصد کی خاطر لکھ رھا ھوں، تاکہ محدث فورم کے علماء کی توجہ اس طرف دلا سکوں۔ جزاک اللہ۔
والسلام،
کلیم حیدر ، محمد آصف مغل ، انس ، شاکر ، ابوالحسن علوی ، کفایت اللہ ، ودیگر ممبران سے خصوصی تبصرہ کی گزارش۔
میں پچھلے دنوں ایک کتاب بعنوان "شرعۃ الحق" کے بارہ میں فورم پر کچھ لکھا تھا۔ یہ کتاب گو کہ انداز بیان سے بالکل انکار حدیث کی طرف مائل ھے، مگر لکھنے والوں نے "حنفی مزھب" پر زور دیا ھے، اور حنفی علماء کو یہ پیغام دیا ھے کہ :
"کاش حنفی علماء امام شافعی کہ استقلال حدیث کے مباحث سے مرعوب ھو کر صرف علاج بالمثل میں نہ لگتے اور صحاح ستہ کی جگہ شرع معانی الآثار طحاوی، سنن بھیقی کی جگہ اعلاء السنن، مشکوۃ المصابیح کی جگہ زجاجۃ المصابیح کی محنتوں کے ساتھ ساتھ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابویوسف کی قرآنی کسوٹی والے اصول کو بھی پوری قوت اور مکمل اعتماد کہ ساتھ آگے بڑھاتے" (صفحہ 48-49)
اب یہ حنفی فقھا کی قرآنی کسوٹی کیا ھے، یہ بھی موصوف مندرجہ ذیل الفاظ میں بتاتے ھیں:
"امام ابو یوسف کہ الفاظ ہیں:
جو بات قرآن کریم کہ خلاف ھو وہ حدیث رسول ہو ہی نھی سکتی اگرچہ اسے آپ کی طرف منسوب کر کے ہی کیوں نہ روایت کیا گیا ہو"
گو کہ اصول بذات خود غلط نھیں، مگر اس سے مراد یہ نکالی گئ کہ " تم سے میری حدیث بیان کی جائیگی، تم اسے قرآن پر پیش کرنا، اس کہ خلاف پاو تو رد کر دینا"
ایک عام آدمی کو شاید ان دونوں عبارتوں میں فرق نا دکھے، مگر ان میں زمین آسمان کا فرق موجود ھے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کہ قول کہ مطابق
"جو بات قرآن کریم کہ خلاف ھو" اسے رد کرنا ھے،
، اور دوسرے قول میں
"جو حدیث قرآن کہ خلاف ھو" اسے رد کرنا ھے۔
ایک بات جب صحیح سند کہ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ھو جائے تو وہ حدیث رسول ھے، اور یھی فرق "بات" اور " حدیث" کا ھے، علماء ایسی بات کرتے وقت اکثر الفاظ کے اصطلاحی معانی لیتے ہیں۔
خیر موئلفِ مقدمہ طاہر مکی صاحب نے عبارات کے ہیر پھیر سے کام لے کر غلط مبحث پیدا کرنا چاھا ھے۔
اس کہ بعد موصوف فرماتے ہیں کہ:
"اہل حدیث حضرات اس قرآنی اصول کو وضعہ الزنادقہ کھتے ہیں"
اس کتاب میں اہل حدیث کے بارہ میں بھت تعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا ھے۔
آگے فرماتے ہیں:
" ایسا (حنفی) علماء بھی کم ہیں جنھوں نے آئمہ احناف کی کتب مثلاََ امام جصاص رازی کی احکام القرآن، امام بزدوی اور سرخسی کی اصول فقہ پر کتابوں کا مطالعہ کیا ہو جن میں عرض علی القرآن (قرآنی کسوٹی) کا اصول پیش کیا گیا ھے"
امام شافعی سے تو موصوف کو کچہ خاص ھی چڑ ھے:
"اجماعی متواتر سنت امام شافعی جیسے کٹر روایتی بزرگ کے نزدیک صلوۃ ذکوۃ حج وغیرہ کی متفقہ ہیت تک ہی محدود ھے"
جرح و تعدیل کہ بارہ میں رقم طراز ہیں کہ:
"ایک محدث کسی راوی کہ متعلق اپنے جو تاثرات دیتا ھے وہ اس کے ذوق و رجحان سے بالا نھیں ھوتے (آگے اسی بنا پر امام بخاری پر جرح کی گئی ھے)"
امام اعظم اور امام بخاری، کہ عنوان سے رقم طراز ہیں:
"امام بخاری اپنی کتاب تاریخ صغیر میں نعمان بن ثابت متوفی 150 ھ یعنی امام ابو حنیفہ کے بمتعلق چند سطریں لکھتے ہیں اور قلم توڑ دیتے ہیں،نقل کرتے ہیں:
کان ینقض الاسلام عروۃ عروۃ ما ولد فی الاسلام اشام منہ
وہ اسلام کی ایک ایک کر کہ کڑی توڑتا تھا۔ تاریخ میں اس سے ذیادہ بد ترین شخص پیدا نھی ھوا۔
سبحان اللہ، امام بخاری کے نذدیک مدینہ کے منافق ابن سبا سے لے کر ان کہ اپنے زمانے تک کوئی بھی شخص امام اعظم سے بد تر نھیں آیا"
اس جرح کے بارہ میں مجھے ذیادہ علم نھیں، مگر سنا ھے کہ یہ امام بخاری کا اپنا قول نھیں، کسی اور عالم کا قول ھے۔ واللہ اعلم۔
لکھتے ھیں:
"تاریخ کبیر میں امام بخاری لکھتے ہیں ترکو رائۃ و حدیثہ یعنی امام ابو حنیفہ کی حدیثی تحقیقات ہوں یہ فقھی تحقیقات، اہل علم نے کسی کو قبول نھیں کیا"
ان تمام اقتباسات کا مقصد حنفی بھایوں کو امام بخاری کے خلاف کر کہ صحیح بخاری کا مقام کم سے کم پاکستان کے حنفیوں کے نزدیک گرانا، اور اس انداز سے فتنۃ انکار حدیث کی جدید تخم ریزی کرنا ھے۔
موصوف بیان کرنا چاھتے ہیں کہ کیونکہ امام اعظم سے امام بخاری کو بھت بغض تھا، اس لئے
"اپنی صحیح میں امام اعظم اور ان کے شاگردوں سے کوئی روایت نقل نھی کی"
محمد طاہر مکی صاحب ایک اہل حدیث عالم علامہ مقبلی کہ بارہ میں لکھتے ہیں،
"اہلِ حدیث حضرات کے علاوہ دُوسرے اسلامی فکر خصوصاً احناف کا امام بخاری کی تحقیقات کے متعلق جو نقطہٴ نظر رہا ہے وہ مولانا عبدالرشید نعمانی مدرّس جامعہ بنوری ٹاوٴن، علامہ زاہدالکوثری مصری اور انور شاہ کشمیری کی کتابوں سے ظاہر ہے۔
مولانا عبدالرشید نعمانی کی تحقیقات سے صرف ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"کیا دو تہائی بخاری غلط ہے"
ترجمہ:... علامہ مقبلی اپنی کتاب الأرواح النوافخ میں لکھتے ہیں:
ایک نہایت دین دار اور باصلاحیت شخص نے مجھ سے عراقی کی "الفیہ" (جو اُصولِ حدیث میں ہے) پڑھی اور ہمارے درمیان صحیحین کے مقام و مرتبہ خصوصاً بخاری کی روایات کے متعلق بھی گفتگو ہوئی ․․․․․ تو ان صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ سے دریافت کیا کہ اس کتاب یعنی خصوصاً بخاری کی کتاب کے متعلق حقیقتِ اَمر کیا ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو تہائی غلط ہے۔
خواب دیکھنے والا کا گمان غالب ہے کہ یہ ارشادِ نبوی بخاری کے راویوں کے متعلق ہے، یعنی ان میں دو تہائی راوی غیرعادل ہیں کیونکہ بیداری میں ہمارا موضوعِ بحث بخاری کے راوی ہی تھے، واللہ اعلم۔"
(دیکھئے: مقبلی کی کتاب الارواح النوافخ ص:۶۸۹، ۶۹۰)
اس اچھوتی اور نادر روزگار دلیل پر طاہر المکی صاحب لکھتے ہیں:
"یہ ہے بخاری کے فنی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی حقیقت، اس کو ایڈٹ کرنے میں مولانا عبدالرشید نعمانی کے ساتھ جامعہ بنوری ٹاوٴن کے مفتی ولی حسن بھی شریک رہے ہیں جیسا کہ اپنی حواشی کے آخر میں نعمانی صاحب نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا ہے، عبدالرشید صاحب فرماتے ہیں:
جب بخاری کے دو تہائی راوی غیرعادل ہیں تو ان کی روایات کی کیا حیثیت جو یقینا بخاری کی دو تہائی روایات سے زیادہ بنتی ہیں، کیونکہ بہت سے راوی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کئی کئی روایتیں بیان کرتے ہیں۔"
علامہ مقبلی کے بارہ میں ذیادہ معلومات نھیں ھیں، مگر موصوف نے انکو ایک "غیر مقلد" عالم لکھا ھے۔
یہ سب کچھ اس مقصد کی خاطر لکھ رھا ھوں، تاکہ محدث فورم کے علماء کی توجہ اس طرف دلا سکوں۔ جزاک اللہ۔
والسلام،
کلیم حیدر ، محمد آصف مغل ، انس ، شاکر ، ابوالحسن علوی ، کفایت اللہ ، ودیگر ممبران سے خصوصی تبصرہ کی گزارش۔