• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقہ سے علاج کرو ، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
(٦)

روایت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ (المتوفی 92 )۔​

امام دیلمی رحمہ اللہ (المتوفى 509 ) نے کہا:
أخبرنا محمد بن الحسين السعیدی ، حدثنا أ اخبرنا احمد بن ابراھیم بن جاجحَان ، حدثنا موسى بن جعفر بن محمد البزار ، حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا محمد بن أحمد بن صالح ، حدثنا أبي ، حدثنا ثنا محمد بن السر ، عن الرَّبيع بن صَبيح، عن عطاء عن أنس بن مَالك قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : مَا عولج مَرِيض بدواء أفضل من الصَّدَقَة [ زھر الفردوس :4 /59 ]۔

یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے ، ربیع بن الصبیح سے نیچے بقیہ سند پرتاریک ہے اور ربیع بھی متکلم فیہ ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
(٧)

مرسل حسن البصری رحمہ اللہ (المتوفی 110 )۔​

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى:275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمٍ الْبَاهِلِيِّ ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ، وَدَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةَ، وَاسْتَقْبِلُوا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ»[المراسيل لأبي داود: ص: 127 ومن طریق ابی داؤد اخرجہ ابن الجوزی فی العلل المتناهية 2/ 494، واخرجہ ایضا البغوی فی نسخہ طالوت ص: 47 وسراج الدین القزوینی فی مشیختہ ص: 231 من طریق صالح بن بشیر عن الحسن بہ ]۔

اس روایت کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور یہ گذشتہ تمام طرق میں سب سے بہتر طریق ہے لیکن چونکہ یہ مرسل ہے اس لئے یہ بھی ضعیف ہے اور یہاں ارسال حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے اورموصوف کی مرسلات سخت ضعیف ہواکرتی ہیں لہٰذا یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے ۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ليس في المرسلات شَيء أضعف من مرسلات الحسن[المعرفة والتاريخ للفسوي: 3/ 239 واسنادہ صحیح]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
من أوهى المراسيل عندهم : مراسيلُ الحَسَن[الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 6، ]۔

امام زين الدين العراقي رحمه الله (المتوفى806)نے کہا:
مراسيلُ الحسن عندَهم شِبْهُ الريحِ[شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي 1/ 315]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحسین


اوپرتفصیل سے بتایاجاچکا ہے کہ اس روایت کے تمام طرق سخت ضعیف ہیں اور ایسی صورت میں متاخرین کے اصول کےمطابق بھی یہ روایات آپس میں مل کرحسن لغیرہ نہیں بن سکتیں ، حتی کی بعض طریق موضوع ہیں اور بعض منکر ہیں اور منکر ہمیشہ منکر ہی رہتا ہے ،لیکن اس کے باوجو د بھی علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهي على اختلاف ألفاظها قد اتفقت على جملة المداواة هذه؛ ولذلك حسَّنْتُها[صحيح الترغيب 1 /458 حاشیہ]۔

مزید اس بات پر غور کیجئے کہ روایت مذکورہ کا مرسل ہونا ثابت شدہ ہے کیونکہ مرسل کی سند حسن بصری تک صحیح ہے ۔
اب یہی روایت جس نے بھی موصولا بیان کی ہے سب کا طریق ضعیف ہے اور ساتھ میں ثابت شدہ ارسال کے خلاف بھی ہے دریں صورت جملہ مسند روایات ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منکر بھی ہیں کیونکہ ثقہ رواۃ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اوریہ اس کے خلاف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ :

أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ، وإبراهيمُ لَمْ يُدْرِكْ عُبَادةَ، وعِراكٌ منكرُ الْحَدِيثِ،[علل الحديث لابن أبي حاتم 2/ 615]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
إِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْمَتْنُ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا[السنن الكبرى للبيهقي: 3/ 536]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
والحديث منكر ، وموسى لايتابع على رواياته[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 3/ 1244]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
قلت وإنما روي هذا مرسلا [العلل المتناهية 2/ 494]۔

امام منذري رحمه الله (المتوفى656) رحمہ اللہ تو پوری صراحت کے ساتھ تمام متصل روایات اورحسن بصری کی مرسل روایت کوسامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَبُو دَاوُد فِي الْمَرَاسِيل وَرَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَغَيرهمَا عَن جمَاعَة من الصَّحَابَة مَرْفُوعا مُتَّصِلا والمرسل أشبه[الترغيب والترهيب للمنذري: 1/ 301]۔

معلوم ہوا کہ جملہ مسند روایات منکر ہیں اور منکر ہمیشہ منکر ہوتی ہے۔
اور مرسل سخت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ خالی ازتائید ہے لہٰذا یہ حدیث ہرحال میں ضعیف ہے اسے حسن لغیرہ کہنا کسی بھی اصول سے درست نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نعم البدل


یاد رہے کہ گرچہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے لیکن بعض صحیح احادیث میں عمومی طورپر پر یہ بات ملتی ہے کہ صدقہ سے مصائب دور ہوتے ہیں ، اور بیماری بھی ایک مصیبت ہے لہٰذا اگر کوئی اس سے بچاؤ کے لئے صدقہ خیرات کرتا ہے تو یہ بہتر ہے صحیح حدیث کے عموم سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے ، چنانچہ:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، فَقَامَ، فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الأُولَى، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَادْعُوا اللَّهَ، وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا»[صحيح البخاري: 2/ 34 رقم 1044]۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الفِتْنَةِ، قُلْتُ أَنَا كَمَا قَالَهُ: قَالَ: إِنَّكَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهَا لَجَرِيءٌ، قُلْتُ: «فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ وَالنَّهْيُ»[صحيح البخاري: 1/ 111 رقم 525]۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا، میں نے اسے (اسی طرح یاد رکھا ہے) جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے، کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔
 
Top