• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صرف قرآن و سنت کی اتباع کریں اور بدعات سے بچیں

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
صرف قرآن و سنت کی اتباع کریں اور بدعات سے بچیں
بدعات کی دو قسمیں ہیں
بدعات دنیاوی ،بدعات دینی
اور بدعت دنیاوی کی پھر دو قسمیں ہیں
بدعت سیۂ ،جیسا کہ سینما ،ٹیلیویژن ،ریڈیو اور اس قسم کی اخلاق اور معاشرے کو تباہ کرنے والی دوسری چیزیں اور موجودہ فلموں سے جو نقصان ہو رہا ہے ،سب کو معلوم ہے ھاں،ان چیزوں کو اگر معاشرے کی بھلائی ،بہتری،خیر خواہی اور اصلاح کے لئے استعمال کیا جائے تو پھر اور بات ہے اور دنیاوی فائدے کی خاطر اگر نئی چیزیں ایجاد کی جائیں تو اسے بدعت حسنہ کہیں گے ،جیسے ہوائی جہاز،موٹر کار،ٹیلیفون اور اس قسم کی دوسری مفید چیزیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے تحت
تم اپنے دنیاوی معاملات میں مجھ سے زیادہ تجربہ رکھتے ہو۔ ﴿رواہ مسلم﴾

بدعات دینی
وہ ہے کہ جس فعل پر کتاب اللہ اور صحیح حدیث کی کوئی دلیل نہ ہو،اور یہ بدعت عبادات اور دین میں ہوتی ہے یہی وہ بدعت ہے جس کی اسلام نے مذمت کی ہے اور گمراہی کا حکم لگایا ہے

بدعتی قسم کے مشرکین کی مذمت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ
کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک باری تعالیٰ رکھتے ہیں جو ان کے لئے من گھڑت دین وضع کرتے ہیں جس کی اللہ نے انہیں اجازت نہیں دی۔﴿سورۃ شوری﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے۔﴿رواہ مسلم﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
دین میں نئے نئے طریقہ ء کار اختیار کرنے سے بچو،اس لئے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ۔﴿رواہ ترمذی﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
یقیناًاللہ ہر بدعتی کی تو بہ روکے رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ خود اس بدعت سے باز آجائے۔﴿رواہ طبرانی﴾

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں

امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
جس شخص نے اسلام میں اچھی سمجھ کر بھی کوئی بدعت جاری کی اس شخص کا ذاتی خیال یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت پہنچانے میں خیانت کی ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں
آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ ﴿سورۃ مائدۃ﴾
لہذا جو چیز اسلام مکمل ہونے کے دن اسلام میں شامل نہیں تھی وہ اب کیسے ہو سکتی ہے

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
دین اسلام میں جس شخص نے کوئی اچھا کام شروع کیا اس نے شرع میں اضافہ کیا ،اگر دین اسلام میں اچھے اچھے نئے کام شروع کرنا جائز ہوتے تو اہل ایمان سے بڑ ھ کر اہل عقول یہ کام بطریق احسن ادا کرتے اور اگر دین اسلام کے ہر معاملہ میں اچھے اچھے نئے کام شروع کرنا جائز قرار دے دیئے جائیں تو پھر ہر شخص اپنے لئے ایک نئی شرع تیار کر لے

امام غضیف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جہاں کوئی بدعت ظہور پذیر ہوتی ہے تو اس کی جگہ سے ایک سنت اٹھالی جاتی ہے

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کسی بدعتی کی صحبت اختیار مت کر کہ تیرا دل بیمار ہو جائے گا

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ہر وہ عبادت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے ادا نہیں کی تم بھی نہ کرو

بدعات کی بہت زیادہ قسمیں ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں
عید میلادالنبی منانا،اور معراج کی رات اور نصف شعبان کی رات عبادت خصوصی کا اہتمام کرنا
رقص وسرود رچانا،تالیاں بجانا،اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈھول بجانا اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کو تبدیل کر کے بآواز بلند آہ،اہ ،آہو،ہی کرنا
نوحہ و ماتم کی مجلسیں قائم کرنا اور کسی شخص کی موت پر قرآء حضرات کو بلا کر قرآن خوانی کروانا وغیرہ وغیرہ۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
کیونکہ عھد نبوی اور عھد صحابہ میں یہی دونوں تھیں اور انہیں کے بارے میں ارشاد ہے: ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ سنتی۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
یہ دُرود ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ یا ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اُمت کے لئےتعلیم کیا گیا ہے ،یا یہ دُرود زمانہ نبوی سے کئی سو سال بعد محدثین کی ایجاد کردہ بدعت ہے ؟اس کی جگہ دُرود ابراہیمی لکھا اور پڑھا کیوں نہیں جاتا ؟
جب ہم رات دن اس بدعت کو لکھنے ،پڑھنے بولنے میں مبتلا ہیں تو ہم صرف عید میلاد ہی کو بدعت کہنے پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں؟حالانکہ کل بدعۃ ضلالۃ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
یہ دُرود ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ یا ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اُمت کے لئےتعلیم کیا گیا ہے ،یا یہ دُرود زمانہ نبوی سے کئی سو سال بعد محدثین کی ایجاد کردہ بدعت ہے ؟اس کی جگہ دُرود ابراہیمی لکھا اور پڑھا کیوں نہیں جاتا ؟
جب ہم رات دن اس بدعت کو لکھنے ،پڑھنے بولنے میں مبتلا ہیں تو ہم صرف عید میلاد ہی کو بدعت کہنے پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں؟حالانکہ کل بدعۃ ضلالۃ
رانا صاحب !
پہلی بات تو یہ علم میں رہے کہ پیارے انبیاء کے اسمائے گرامی کے ساتھ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہنا خود رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے ، یہ بات شاید مبتدعین کے علم میں نہیں ،(علم میں ہو بھی کیسے ، کھانے ،پینے کے پروگراموں سے فرصت ملے تو ادھر توجہ دیں)
صحیح مسلم میں شفاعت کے تفصیلات پر مشتمل ایک طویل حدیث سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے ،جس میں پیارے نبی ﷺ فرماتے ہیں :

(( ۔۔۔۔۔۔اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ فَضَّلَكَ اللهُ بِرِسَالَاتِهِ، وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، ۔۔الخ ))
اس حدیث شریف میں تین انبیاء کے اسماء کے ساتھ (صلی اللہ علیہ وسلم ) زبان نبوت سے کہا گیا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور رہی بات ’’ خود ساختہ عید میلاد ‘‘ تو سب ہی مانتے ،اور جانتے ہیں کہ یہ بدعت ہے ۔اور خیر القرون میں اس کا وجود نہ تھا ۔
 
Last edited:

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
mm.jpg
جناب اسحاق سلفی صاحب
عرض ہے کہ آپ یہ کھانے پینے کا طعنہ کیا دیتے ہیں،کیا آپ کھانا پینا نہیں کرتے؟ایسے جل بھن کر بات نہیں کرنی چاہئے، معلوم نہیں تم لوگ غیر متعلق بحث کیوں چھیڑتے ہو ؟
جناب نے جو مسلم شریف کی حدیث دی ہے ،یہاں بھی محدثین کا اضافہ ہے ،ورنہ یہی حدیث صحیح بخاری کے باب بدئ الوحی میں بھی ہے وہاں یہ الفاظ نہیں ہیں، اس کے علاوہ ترمذی شریف کے باب الشفاعۃ حدیث میں یہی حدیث 2434ہے وہاں یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں،ترمذی ہی میں حدیث 3148 میں یہ الفاظ نہیں ہیں،اگر یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ہوتے تو دوسری جگہ بھی ہوتے۔آپ مکتبہ شاملہ سے سرچ کریں۔آپ کو ماننا پڑے گا یہ الفاظ نبی علیہ السلام کے نہیں ہیں۔
آپ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ یہ الفاظ بعد میں محدثین نے ایجاد کئے ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جناب نے جو مسلم شریف کی حدیث دی ہے ،یہاں بھی محدثین کا اضافہ ہے ،ورنہ یہی حدیث صحیح بخاری کے باب بدئ الوحی میں بھی ہے وہاں یہ الفاظ نہیں ہیں، اس کے علاوہ ترمذی شریف کے باب الشفاعۃ حدیث میں یہی حدیث 2434ہے وہاں یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں،ترمذی ہی میں حدیث 3148 میں یہ الفاظ نہیں ہیں،اگر یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ہوتے تو دوسری جگہ بھی ہوتے۔آپ مکتبہ شاملہ سے سرچ کریں۔آپ کو ماننا پڑے گا یہ الفاظ نبی علیہ السلام کے نہیں ہیں۔
آپ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ یہ الفاظ بعد میں محدثین نے ایجاد کئے ہیں۔
یہ سب خالص جہالت ، اور محدثین پر بہتان طرازی ہے جس پر سوائے افسوس کیا کیا جاسکتا ہے ۔
اگر ایک حدیث میں ایک جگہ کچھ کلمات ہوں اور دوسری جگہ نہ ہوں تو اسے محدثین کی ایجاد کہنا منکرین حدیث کا طریقہ ہے ۔
محدثین اکثر طویل احادیث کو مختلف مواقع پر حسب موقع مکمل یا اختصار سے نقل کرتے ہیں ،یا کسی طبقہ کا راوی کچھی الفاظ بھول جاتا ہے ،لیکن متن میں تحریف نہیں کرتے ۔
مثلاً :: یہی حدیث جس کا ٹکڑا میں نے پیش کیا ۔اس کے اختتامی کلمات حسب ذیل ہیں :
يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابُِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى "،

اور صحیح بخاری میں اسی حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں :
يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ " قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ: لاَ أَحْفَظُ سَائِرَهُ
یعنی محمد بن عبید کہتے ہیں :یہاں مجھے اس حدیث کے سارے کلمات یاد نہیں ۔۔

اب کوئی جاہل ہی کہہ سکتا ہے کہ پہلی جگہ حدیث کے الفااظ محدثین کی ایجاد ہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
باقی رہی کھانے ،پینے کی بات تو :
بیوہ ،کا مال اس کے خاوند کی وفات پر ۔۔اور یتیم کا کھانا اسکے والد کے ایصال ثواب کے نام پر ۔۔۔۔۔پیٹ پرستوں کی ایجاد ہے ،
اور حد درجہ ظلم ہے ۔کہ جن کو اپنے پلے سے دینا چاہئے ان کا مال ثواب کے عنوان سے اڑایا جاتا ہے ۔اعاذنا اللہ منہ
 
شمولیت
دسمبر 08، 2015
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
جناب اسحاق صاحب!
آپ کے جواب سے یہ ظاہرہورہاہے کہ :
1۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح درودابراہیمی سکھایا،اس طرح صلی اللہ علیہ وسلم کادرود نہیں سکھایا۔
2۔آپ نے جو ثبوت دیا ،اُس کودیگرکتب کی روشنی میں دیکھاجائے اورآپ کے بعد والے جواب کوبھی دیکھا جائےتواب کہا جاسکتا ہے کہ: کم ازکم یہ احتمال توپیدا ہوگیاہے کہ یہ الفاظ یا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائے یا پھرکسی راوی نے از خود بڑھا دیے۔
3۔آپ نے جو ثبوت پیش کیا ہے اس سے صرف دیگر کسی نبی کے لئے ہی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا ثابت ہوسکتا ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے۔ پھرسوال یہ ہےکہ اس مسئلہ ( دیگر کسی نبی کے لئے ہی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا )پر آپ کاکوئی مولوی اور عامی عمل کیوں نہیں کرتا؟۔اس دلیل کوپیش کرتے ہوتواس مسئلہ پرعمل کیوں نہیں کرتے؟
4۔اگرحضرت محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ یہ الفاظ ڈھونڈناچاہیں تو ملنا ممکن ہی نہیں۔کیونکہ یہ غائب کے صیغے میں ہیں جب آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے متکلم کا صیغہ استعمال فرمائیں تو یوں ارشادفرمائیں گے:صلی اللہ علی وسلم۔
 
Last edited:

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
ایصال ثواب کی نیت کھانا کھلانا آپ کے بزرگوں نے جائز لکھا ہے۔
فتاویٰ ثنائیہ،جلد2،صفحہ71
باقی بیوہ اور یتیم کے مال کو بغیر اجازت کوئی بھی نہیں خرچ کرسکتا، وہ اگراپنی مرضی سے چاہیں تو کھانا پکا کر ایصال ثواب کرسکتے ہیں،اگر کوئی اُن کی رضا مندی کے بغیر زبردستی ایسا کام کرتا ہے یا برادری کے شرم سے ایسا کرتا ہے تو بیوہ اور یتیم کا حق تلف کرتا ہے، ایصال ثواب تو بغیر کھانے کے بھی ہوسکتا ہے۔
 
Top