علمائے اہل حدیث کا وحیدالزماں سے اظہار براء ت
وحیدالزماں کی تصنیفات کس حدتک اہل حدیث کے ہاں معتبر ہیں اس کا احوال اوپر بیان ہوچکا ۔اب ہم آپکو بتاتے ہیں کہ اہل حدیث علماء نے وحیدالزماں کی متنازعہ تصنیفات کے ساتھ ساتھ وحیدالزماں کی زات سے بھی کھل کر اظہار براء ت کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ اہل حدیث نہیں تھا۔ ملاحظہ ہو:
۱۔ مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ اپنی کتاب حنفیوں کے 350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات کے صفحہ نمبر 469پرعلامہ وحیدالزماں اہل حدیث تھا؟ کاسوالیہ عنوان قائم کرکے فرماتے ہیں:
باقی رہا وحیدالزماں کا حوالہ۔توگزارش ہے کہ بحمدللہ علماء اہل حدیث ان تمام بلاؤں سے پاک صاف ہیں۔(صفحہ 470)
اسی کتاب میں آگے چل کر وحیدالزماں کی حیثیت کا دو ٹوک فیصلہ کرتے ہوئے بتادیا کہ یہ اہل حدیث نہیں تھا۔ دیکھئے:
اہل حدیث کا اعتماد و اعتقاد اس مولوی صاحب سے جاتا رہا کہ اب یہ مولوی صاحب اہل حدیث مولوی نہیں رہا۔جیسا کہ اپنوں اور غیروں نے سبھی نے یہ حقیقت تسلیم کی ہے۔ ( حنفیوں کے 350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات ، صفحہ 472)
بہرحال وحیدالزماں کو اہل حدیث بنا کر اس کے مسئلے بیان کر کے اہل حدیث کے سر تھوپنا سراسر زیادتی ہے۔ اگر وحیدالزماں اہل حدیث بھی ہو تب بھی اس کے غلط مسئلے مذہب اہلحدیث کے غلط ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ چہ جائیکہ وہ اہل حدیث نہیں تھا۔( حنفیوں کے 350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات ، صفحہ 471)
۲۔ مولانا داود ارشد حفظہ اللہ وحیدالزماں کے بارے میں وضاحت فرماتے ہیں کہ اس نے آخری عمر میں مسلک اہل حدیث کو خیر باد کہہ دیا تھا چناچہ فرماتے ہیں :
الغرض علامہ وحیدالزماں عمر کے آخری حصہ میں بعض اعتقادی اور جزوی مسائل میں جمہور محدثین اکرام کے مسلک سے الگ تھلگ ہو گئے تھے چناچہ آخری تصانیف میں سے ، ھدیۃ المھدی میں ایسے ایسے عقائد انہوں نے بیان کئے ہیں جو محدثین کا مسلک قطعاً نہیں۔(تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث ، صفحہ 389 )
تنبیہ : مذکورہ بالا حوالہ اپنے مطلب پر واضح ہے لیکن پھر بھی کچھ عقل کے اندھوں کے لئے جن کا مقصد ہی صرف بے جا اعتراض ہوتا ہے کچھ تفصیل و وضاحت عرض کی جاتی ہے کہ اہل حدیث مسلک اصل میں جمہور محدثین کے متفقہ مسلک ہی کا نام ہے۔ لہذا جب کوئی اس جمہور محدثین (اہل حدیث) کے مسلک سے اختلاف کرے گا تو وہ خود بخود مسلک اہل حدیث سے باہر ہوجائے گا۔ جیسے وحیدالزماں ۔لہذا ثابت ہوا کہ مولانا داود ارشد حفظہ اللہ کے نزدیک وحیدالزماں اہل حدیث نہیں تھا۔ والحمداللہ
۳۔ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ اہل حدیث کے ہاں وحیدالزماں کا مقام و حیثیت بتاتے ہوئے ایک حنفی دیوبندی کو جواب دیتے ہیں:
مولانا صاحب! مولانا وحیدالزماں کی کتاب نزل الابرار آپ کے ہاتھ لگی ہے جس کو دیکھ کر آپ نے مذہب اہلحدیث کو مطعون بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مگر آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ نواب وحیدالزماں کس مذہب کا آدمی ہے؟ اور کس جماعت سے اس کا تعلق ہے؟ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 109) اس کے بعد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے وحیدالزماں کو ہر دور میں حنفی قرار دیتے ہیں اور بالآخر دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
نواب وحیدالزماں اہلحدیث نہ تھے۔(مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 112)
مقلدین حضرات وحیدالزماں کی متروک اور مردود کتابوں کے حوالے اہل حدیث کے خلاف پیش کرنے کے بعد اپنے جھوٹے دعووں میں وزن پید اکرنے کے لئے وحیدالزماں اہل حدیث کا اکابر تھا ان کا امام تھا وغیرہ جیسی باتوں کا سہارا لیتے ہیں ایسی ہی ایک بات جو ایک دیوبندی عالم کی طرف سے کی گئی کو رد کرتے ہوئے بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مولانا صاحب! نواب صاحب ہمارے امام نہیں ہیں یہ آپ نے بہتان لگایا ہے کہ یہ اہلحدیثوں کا امام ہے۔ خبردار اہلحدیثوں کا دوسرا کوئی بھی امام نہیں ہے فقط ایک ہی امام اعظم، قائد اعظم جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں۔(مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 59 )
۴۔ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وحیدالزماں سے اہل حدیث کی بے زاری کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
البتہ ان کے بعض تفردات سے شیعی عقائد کیساتھ ہم آہنگی کی بنا پر اکابر علمائے اہل حدیث نے پرزور بے زاری کا اظہار کیا ہے۔(پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث، صفحہ 80)
تنبیہ: مذکورہ بالا سطور سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وحیدالزماں سے اکابر اہلحدیث کی بے زاری میں ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ شامل نہیں ہیں۔ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے اکابر علمائے اہل حدیث کی وحیدالزماں سے بے زاری کا زکر بطور تائیداور بطور رضامندی کیا ہے اور اس زکر کے بعد کوئی اختلاف یا تردید نہیں کی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی وحیدالزماں سے برات پر اکابر علمائے اہل حدیث سے متفق ہیں۔ والحمدللہ
۵۔ اہل حدیث محقق عالم مولانا عبدالوکیل ناصرحفظہ اللہ نواب وحیدالزماں سے اظہار براء ت کر تے ہوئے لکھتے ہیں:
اہل حدیثوں پر الزام تراشی ، بہتان، طعن و تشنیع بھی مولانا کا امتیازی نشان رہا ہے۔جس کی تفصیل لغات الحدیث اور حیات وحیدالزماں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ لہذا یہ بات صحیح ہے کہ جناب وحیدالزماں صاحب سے اہل حدیث بری ہیں جس طرح کہ وہ ہم اہل حدیثوں سے بری ہیں۔ ان کے عقائد اہل تشیع سے ملتے جلتے ہیں یا پھر ان پر سابقہ تعصبی رنگ غالب دکھائی دیتا ہے کہ آخر کو ہیں تو کسی حنفی مقلد کے ہی سپوت۔( ہفت روزہ حدیبیہ ، جلد 02، 01تا 15مارچ 2011)
۶۔ عمر فاروق قدوسی حفظہ اللہ اپنے تحقیقی مقالے میں وحیدالزماں کی اہل حدیث مسلک سے کسی بھی قسم کی نسبت کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ اقتباس غور سے پڑھئے۔ اس کا ایک ایک لفظ پکارپکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا لکھنے والا او رکچھ بھی ہوسکتا ہے، اہل حدیث نہیں۔ یہ عبارت ایسے محسوس ہو رہی ہے کہ جیسے کسی غیر اہل حدیث مناظر کی ہو۔(اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، ص169)
ظاہر ہے جب وحیدالزماں خود ہی غیر اہل حدیث تھا تو اسکی عبارات کیسے اہل حدیث مسلک کی نمائندہ ہو سکتی ہیں؟
وحیدالزماں کے حنفی عقائد پیش کرنے کے بعد عمر فاروق قدوسی حفظہ اللہ دیوبندیوں اور بریلویوں سے سوال کرتے ہیں:
وہ لوگ جو بات بات پر جماعت اہل حدیث کو علامہ وحیدالزماں کے تفردات کا طعنہ دیتے ہیں، کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ علامہ وحیدالزماں کے مندرجہ بالا خیالات اہل حدیث کے مسلک کے مطابق ہیں؟ کیا اس کے بعد بھی نواب وحیدالزماں کو اہل حدیث کہا جائے گا؟ (اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، ص175)
پھر لکھتے ہیں:
ایسے عقیدے کا حامل شخص اگر خود کو اہل حدیث کہہ بھی دے تو یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔(اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، ص182)
۷۔ مولوی شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہدیۃ المہدی کی تصنیف کے بعد وحیدالزماں حیدرآبادی سے بری اور بے زار ہوگئے تھے۔ جس کی گواہی خود وحیدالزماں نے دی ۔دیکھئے:
مجھ کو میرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم نے کتاب ھدیۃ المھدی تالیف کی ہے تو اہل حدیث کا ایک بڑا گروہ جیسے مولوی شمس الحق مرحوم عظیم آبادی اور مولوی محمد حسین لاہوری اور مولوی عبداللہ صاحب غازی پوری اور مولوی فقیر اللہ پنجابی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہم تم سے بددل ہوگئے اور عامہ اہل حدیث کا اعتقاد تم سے جاتارہا۔ (لغات الحدیث، کتاب الشین ، صفحہ 50، جلد2)
۸۔ مولوی محمد حسین لاہوری رحمہ اللہ کا وحیدالزماں حیدرآبادی سے بے زاری کا سبب بھی ہدیۃ المہدی کی تالیف ہی تھا۔ دیکھئے:
فقرہ نمبر۷
۹۔ مولوی عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ بھی بقول وحیدالزماں، وحیدالزماں سے بددل اور بے زار تھے۔ دیکھئے:
فقرہ نمبر ۷
۱۰۔ مولوی فقیر اللہ پنجابی رحمہ اللہ بھی وحیدالزماں سے بری اور بے زار ہوگئے تھے جس کی گواہی بھی خود وحیدالزماں نے دی۔ دیکھئے:
فقرہ نمبر ۷
۱۱۔ ثناء اللہ امرت سری رحمہ اللہ بھی دیگر اہل حدیث اکابرین اور عوام کی طرح وحیدالزماں کی تالیف ہدیۃ المہدی (جو کہ غلط عقائد اور بے ہودہ مسائل پر مبنی ہے)کی وجہ سے بددل اور بے زار ہوگئے تھے۔ دیکھئے:
فقرہ نمبر ۷
۱۲۔ مولانا عبید اللہ عفیف حفظہ اللہ کے نزدیک وحیدالزماں جماعت اہل حدیث کی معتبر اور قابل بھروسہ شخصیت نہیں تھے چناچہ مولانا داود ارشد حفظہ اللہ رقم کرتے ہیں:
الغرض علامہ وحیدالزماں بقول مولانا عبیداللہ عفیف حفظہ اللہ تعالی ٰ علم کا کباڑ خانہ تھے ۔ ان کے تراجم تو مستند ہیں مگر فقہ میں وہ صحیح وضعیف، درست اور باطل کا فرق کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ (تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث ، صفحہ 390 )
۱۳۔ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ وحیدالزماں سے پرزوربے زاری اور برات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہ اہل حدیث کے نزدیک سخت ضعیف اور متروک الحدیث انسان ہے.......مختصر یہ کہ وحیدالزماں متروک الحدیث ہے اور اہل حدیث اس کے اقوال اور کتابوں سے بری ہیں۔(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم، صفحہ 429,428)
اپنی تقلید سے متعلق ایک اور تصنیف میں زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے صاف صاف وحیدالزماں کو غیر اہل حدیث کہا، ملاحظہ کریں:
معلوم ہوا کہ وحیدالزماں اہل حدیث نہیں بلکہ تقلید ی تھا، لہذا اس کا کوئی حوالہ اہل حدیث کے خلاف پیش نہیں کرنا چاہیے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 59)
ایک غیر معقول اعتراض: اہل باطل کا حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی اس برات پر یہ غیر معقول اعتراض ہے کہ یہ صرف فرد واحد کا اظہار برات ہے جبکہ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے برعکس دیگر اہل حدیث علماء وحیدالزماں سے اظہار برات نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنا عالم و اکابر قرار تسلیم کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ یہ اعتراض دو معقول وجوہات کی بنا پر مردود ہے۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ بات بالکل بھی درست نہیں کہ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے علاوہ دیگر علمائے اہل حدیث وحیدالزماں سے اظہار برات نہیں کرتے۔ اوپردس عدد اکابرین اہل حدیث کے حوالے پیش کر کے جو کہ وحیدالزماں کی صاف صاف برات اور بے زاری پر مبنی ہیں،ثابت کیا گیا ہے کہ یہ اعتراض محض جہالت پر مبنی ہے اسلئے غلط ہے۔
تنبیہ: وحیدالزماں کوشیعہ ہوجانے کے بعد میرے علم کے مطابق کسی اہل حدیث عالم نے کبھی اپنی جماعت کا اکابر تسلیم نہیں کیا۔اس کے برعکس اہل حدیث علماء کی بے زاری اور برات ضرور ثابت ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر بالفرض محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے پہلے کسی اہل حدیث عالم نے وحیدالزماں سے بے زاری کا اعلان نہیں کیا تو پھر بھی چونکہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کے ایک نامور اور محقق اور قابل اعتماد عالم دین ہیں اس لئے ان کا وحیدالزماں سے برات کا موقف ان کا زاتی نہیں بلکہ جماعتی موقف قرار پاتا ہے بشرط یہ کہ دیگر اہل حدیث اس موقف کی تردید نہ کریں۔ اوروحیدالزماں سے اظہار برات پر کسی اہل حدیث عالم یا عوام کا کوئی تردید یا اعتراض سامنے نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا وحیدالزماں حیدرآبادی سے بے زاری کا اظہار اصل میں پوری جماعت اہل حدیث کا اظہار برات ہے۔
مخالفین کتاب و سنت کے نزدیک بھی وحیدالزماں اہل حدیث نہیں تھا
ابھی ہم نے علمائے اہل حدیث کی وہ تحریرات ثبوت کے طور پر پیش کیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے اہل حدیث کے نزدیک وحیدالزماں اہل حدیث نہیں تھا۔ اب مخالفین کے وہ حوالے پیش خدمت ہیں جن سے مخالفین کے نزدیک بھی وحیدالزماں کا اہل حدیث نہ ہونا اظہر من الشمس ہے۔
۱۔ مولانا عبدالرشید نعمانی حنفی دیوبندی لکھتے ہیں:
ثم صارفی آخر عمرہ شیعیا یفضل علیا علی الثلاثہ ویسب معاویۃ ویر می اھل السنۃ بالنصب...الخ (ماتمس الیہ الحاجہ لمن یطالع سنن ابن ماجہ، ص59)
ترجمہ: کہ مولوی وحیدالزماںآخری عمر میں شیعہ بن گئے حضر ت علی کو اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر فضیلت دیتے تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور اہل سنت کو ناصبی کہتے تھے۔
(بحوالہ حنفیوں کے 350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات، صفحہ 471)
اس حوالے سے ثابت ہوا کہ عبدالرشید نعمانی کے نزدیک وحیدالزماں اہل حدیث نہیں تھا۔ کیونکہ جب وحیدالزماں آخری عمر میں شیعہ ہوگیا تو اس کی مسلک اہل حدیث ہر نسبت ختم ہوگئی۔
۲۔ ڈاکٹر علامہ خالد محمود دیوبندی وحیدالزماں کے بارے میں راقم ہیں:
غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے............آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متاثر تھے۔وحیدالغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں۔(آثار الحدیث جلد دوم ، صفحہ 397، 398) اس کے بعدڈاکٹرصاحب نے وحیدالزماں کی کتابوں سے وہ عبارات نقل کی ہیں جو اس کے شیعہ ہونے پر دال ہیں ۔پھر لکھتے ہیں:
ان خیالات کے باوجود جماعت اہل حدیث انہیں اپنے بزرگوں میں سے سمجھے تو اسے وہ جانیں۔(آثار الحدیث جلد دوم ، صفحہ 398)
اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوئی کہ وحیدالزماں کا شیعہ ہونا ڈاکٹر علامہ خالد محمود دیوبندی کے نزدیک ثابت شدہ ہے۔دوسری بات یہ کہ موصوف نے یہاں خالص کذب بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل حدیث علماء اور عوام پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جماعت اہل حدیث وحیدالزماں کے شیعہ ہوجانے کے باوجود بھی اسے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ اس الزام کا جھوٹا ہونا خود دیوبندیوں کے مناظر اسلام امین اوکاڑوی کے بیان سے بھی ظاہر و باہر ہے جس میں انہوں نے صاف صاف لکھا ہے اہل حدیث عوام و علماء وحیدالزماں کو اپنا بزرگ و عالم تسلیم نہیں کرتے اور اس کی کتابوں سے بھی کھلی برات کا اظہارکرتے ہیں۔ دیکھئے (تجلیات صفدر، مجموعہ رسائل)
۳۔ مولانا محمد نافع دیوبندی بھی وحیدالزماں کو شیعہ سمجھتے تھے۔ملاحظہ فرمائیں:
مندرجہ بالا حوالہ جات پیش کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے جناب وحیدالزماں صاحب کے اندرونی نظریات ناظرین اکرام خوب توجہ سے سماعت فرمالیں ۔ یہ خیالات ان کے معتقدات کو نمایاں کر رہے ہیں کہ یہ بزرگ زندگی کے آخری ایام میں شیعی نظریات کے حامل ہوگئے تھے اور شیعہ لوگ حضرت فاطمہ کو اکلوتی بیٹی کہہ دیں تو ان کو اختیار ہے۔(بنات اربعہ یعنی چار صاحبزادیاں ، صفحہ 442)
۴۔ دیوبندیوں کے وکیل اہل سنت ،پاسبان صحابہ مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی ،شیعہ کی طرف سے پوچھے جانے والے ایک سوال کہ اہل حدیث علامہ وحیدالزماں لکھتے ہیں کہ ....پس جو مذہب معاویہ پر ہو اسے ثقہ نہیں کہا جاسکتا(ہدیۃالمہدی)، کے جواب میں وحیدالزماں کو شیعہ قرار دینے کے بعد کہتے ہیں کہ اس کے شیعہ ہوجانے کی وجہ سے ان کا کوئی حوالہ یا بات اب حجت نہیں ہے۔ دیکھئے:
آخرعمر میں علامہ وحیدالزماں تفضیلی شیعہ ہوگئے تھے ان کا قول حجت نہیں ہے۔(شیعہ کے ہزار سوال کا جواب، صفحہ 401)
دوسری جگہ وحیدالزماں سے متعلق شیعہ کے سوال کے جواب میں پھر لکھتے ہیں:
آخر عمر میں شیعہ ہوگئے تھے ۔بات حجت نہ رہی ۔(شیعہ کے ہزار سوال کا جواب، صفحہ 895)
مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی سے درخواست ہے کہ یہ بات زرا اپنے مسلکی بھائیوں کو بھی سمجھا دیں کہ جب وحیدالزماں کے حوالے اس کے شیعہ ہوجانے کی وجہ سے حجت نہیں رہے تو پھر یہی حوالے اہل حدیث کے خلاف حجت کیسے ہوسکتے ہیں؟! الیاس گھمن، انصر باجوہ اور ابوبکر غازی پوری وغیرھم جیسے دغابازاور بے ایمان لوگ وحیدالزماں کے حوالے دن رات اہل حدیث کے خلاف پیش کرکے کیوں اپنا نامہ اعمال سیا ہ کررہے ہیں؟
۵۔ دیوبندیوں کی مشہور کتاب حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز میں بھی وحیدالزماں کو پکا شیعہ قرار دیا گیا ہے۔اس سے وحیدالزماں کا اہل حدیث نہ ہونا خود بخود ثابت ہوجاتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
ہدیۃ المہدی جیسی گمراہ کن کتاب ...... اسی طرح کی کئی کتب جو شیعہ مصنفوں نے رقم کیں وہ سنی برادری کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہیں۔( حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 12)
مصنف کا اعتراف کس قدر واضح ہے کہ ہدیۃ المہدی ایک شیعہ مصنف یعنی وحیدالزماں کی کتاب ہے جسے دھوکے سے سنیوں کی طرف منسوب کیا گیاہے۔
ایک مقام پر یوں درج ہے: وہی وحیدالزماں جو غیر مقلد تھا بالآخر شیعہ ہو مراتھا.... شیعہ قلم کار نواب وحیدالزماں....الخ
کتاب کے اسی صفحہ پر اہل حدیث کے وحیدالزماں سے بری ہوجانے کی گواہی بھی یوں دی گئی ہے: ع
لمائے اہلحدیث ان کی چابک دستیوں کی وجہ سے ان سے سخت ناراض رہے۔مقدمہ کی عبارت ہے کہ ان کے بعض تفردات سے شیعی عقائد کے ساتھ ہم آہنگی بھی ظاہر ہوتی تھی اسی وجہ سے اکابر علمائے اہل حدیث نے ان سے پرزور بے زاری کا اظہارکیا۔( حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 97)
اس کے علاوہ اسی کتاب میں جماعت اہل حدیث کی طرف سے وحیدالزماں کو شیعہ قرار دینے کا یوں اعتراف کیا گیا ہے:
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ نواب صاحب شیعہ ہوگئے تھے ان کے اپنے گروپ کا بھی یہی کہنا ہے۔ ( حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 97)
یہاں مصنف کا اپنے گروپ کی بات کرنا انتہائی تعجب خیز ہے کیونکہ جب بقول آپ ہی کے وحیدالزماں شیعہ ہوگیا تھا تو پھر ایک شیعہ اہل حدیث گروپ کا کیسے ہوا؟ اگر اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کسی زمانے میں اہل حدیث رہا تھا تو آپکو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وحیدالزماں اہل حدیث ہونے سے قبل متعصب حنفی بھی تھا۔ اگر اسی نسبت سے وحیدالزماں کو حنفی گروپ کا فرد قرار دیا جائے تو کیساہے؟
۶۔ صائم چشتی بریلوی صاحب جو کہ وحیدالزماں کی بدنامہ زمانہ تصنیف ہدیۃ المہدی کے مترجم ہیں ، کتاب کے مقدمے میں واضح طور پر لکھتے ہیں اہل حدیث وحیدالزماں سے بری اور بے زار تھے:
ان کی جماعت کے اکثر لوگ ان سے پورے طور پر خوش نظر نہیں آتے....مولانا وحیدالزماں سے وہابیوں کی ناراضگی کا باعث بطور خاص یہ دو باتیں ہیں۔(ہدیۃ المہدی از علامہ وحیدالزماں، مترجم صائم چشتی بریلوی، صفحہ 12)
مترجم نے جن دو خاص باتوں کا تذکرہ کیاہے جو کہ ان کے نزدیک جماعت اہل حدیث کی وحیدالزماں سے ناراضگی کا سبب بنیں ان میں سے ایک وحیدالزماں کی اہل بیت سے محبت اور دوسری وحیدالزماں کا بعض معاملات میں سچی اور کھری باتیں کرنا۔ یہ دونوں خاص باتیں جنھیں مترجم بریلوی نے اہل حدیث کی طرف غلط منسوب کیا مترجم کا اتنا واضح جھوٹ ہے کہ اس پر مزید کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ مترجم بریلوی جن باتوں کو وحیدالزماں کی اہل بیت سے محبت اور سچی اور کھری باتیں قرار دے رہا ہے یہ وہی باتیں ہیں جنھیں نہ دیوبندی حضرات قبول کرتے ہیں اور نہ ہی بریلوی۔ اگر یہ باتیں بقول صائم چشتی بریلوی اہل بیت کی محبت پر مشتمل ہیں تو بریلوی حضرات انہیں قبول کیوں نہیں کر لیتے آخر آپ لوگ بھی تو اہل بیت سے محبت کے دعوے دار ہو؟ خود وحیدالزماں کی تصنیفات کو رد کر دینا اور اہل حدیث پر یہ الزام لگانا کہ یہ سچی اور کھری باتوں کو قبول نہیں کررہے کھلی اور ننگی منافقت کے علاوہ کچھ نہیں جو اہل باطل کا وطیرہ ہے۔