السلام علیکم!
نہایت ادب کے ساتھ اس سوال کی وضاحت شریعت اسلامی سے مطلوب ہے، کہ اکثر مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض ضرورت مند حضرات (مسجد یا مدارس کے سفیر حضرات کے علاوہ) مختلف علماء کرام کے تذکئے لے کر لوگوں کو اپنی ضرورت بتا کر اہل مسجد سے تعاون مانگتے ہیں کیا ایسا کرنا بھیک مانگنے کے ضمرے میں آتا ہے کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مسجد میں غرباء و مساکین کیلئے چندہ کی اپیل و ترغیب
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بندوں سے کسی کام کی سفارش اور شفاعت کی اہمیت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا
جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا اور جو برائی اور بدی کی سفارش کرے اس کے لئے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے، (سورۃ النساء85 )
امام ابنِ کثیر تفسیر قرآن میں فرماتے ہیں :
أي: من سعى في أمر، فترتب عليه خير، كان له نصيب من ذلك {ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها} أي: يكون عليه وزر من ذلك الأمر الذي ترتب على سعيه ونيته، كما ثبت في الصحيح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "اشفعوا تؤجروا ويقضي الله على لسان نبيه ما شاء".
وقال مجاهد بن جبر: نزلت هذه الآية في شفاعات الناس بعضهم لبعض.
یعنی اس آیت میں اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب ہے : ‘ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے(یعنی لوگوں کو کسی امر خیر کی ترغیب دلائے ) تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا ، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہو گا ۔
جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ {
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1432)
امام مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے "
اورصحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ میں مفصل حدیث مبارکہ ہے جس میں مسجد میں مستحق لوگوں کیلئے چندہ کی اپیل اور ترغیب کا واضح ثبوت ہے :
عن المنذر بن جرير، عن أبيه، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدر النهار، قال : فجاءه قوم حفاة عراة مجتابي النمار أو العباء، متقلدي السيوف، عامتهم من مضر، بل كلهم من مضر فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رأى بهم من الفاقة، فدخل ثم خرج، فأمر بلالا فأذن وأقام، فصلى ثم خطب فقال: {يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة} [النساء: 1] إلى آخر الآية، {إن الله كان عليكم رقيبا} [النساء: 1] والآية التي في الحشر: {اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا الله} [الحشر: 18] «تصدق رجل من ديناره، من درهمه، من ثوبه، من صاع بره، من صاع تمره - حتى قال - ولو بشق تمرة» قال: فجاء رجل من الأنصار بصرة كادت كفه تعجز عنها، بل قد عجزت، قال: ثم تتابع الناس، حتى رأيت كومين من طعام وثياب، حتى رأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل، كأنه مذهبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة، فله أجرها، وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شيء»
سیدنا منذر بن جریر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے دن کے شروع میں، سو کچھ لوگ آئے ننگے پیر ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے، پھر باہر آئے (یعنی پریشان ہو گئے۔ سبحان اللہ! کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» ”اے لوگو! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے“ (یہ اس لیے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) «َ(إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا» تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ» ”اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لیے کیا بھیج رکھا ہے جو کل کام آئے۔“ (پھر تو صدقات کا بازار گرم ہوا) اور کسی نے اشرفی دی اور کسی نے درہم، کسی نے ایک صاع گیہوں، کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو۔“ (جب بھی لاؤ) پھر انصار میں سے ایک شخص توڑا لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر تو لوگوں نے تار باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے اور یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا تھا، جیسے کندن، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”جس نے اسلام میں آ کر نیک بات (یعنی کتاب و سنت کی بات) جاری کی اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ گھٹے۔“
یہ حدیث صحیح مسلم کے علاوہ درج ذیل کتب میں مروی ہے :
مسند احمد بن حنبل، مصنف ابن ابی شیبۃ، مکتبۃ الرشید الریاض ،السنن الکبری نسائی، المعجم الکبیر طبرانی، السنن الکبری بیہقیؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور رہی بات کسی کو تزکیہ دینے کی تو واضح رہے کہ "تزکیہ " سے مراد کسی کے حق میں شہادت اور گواہی ہے ،
اسلئے تزکیہ دینے والے پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح اور درست گواہی دے ، اور قرآن کے الفاظ میں گواہی صرف حق کے ساتھ دینا لازم ہے :
إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ {الزخرف: 86}
تزکیہ دینے والا دراصل یہ بتاتا ہے کہ یہ آدمی مستحق ہے یا اپنے معاملہ میں سچا ہے ،مثلاً کسی کو مسجد و مدرسہ کے چندے کیلئے تزکیہ دیا تو مطلب یہ ہے کہ واقعی یہ شخص مدرسہ و مسجد کیلئے فنڈز اکٹھا کر رہا ہے ،
گو کہ اس کا غلط استعمال بھی ممکن ہے بلکہ امر واقع ہے لیکن ایسے واقعات اکادکا ہیں ،جن کے سبب اس طریقہ کی کلیۃً نفی کرنا جائز نہیں ۔
اور آج کل ذرائع مواصلات کا دور ہے کسی بھی تزکیہ کی تصدیق منٹوں میں کی جاسکتی ہے ،
اورتزکیہ معتبر اور معروف حضرات ہی کا تسلیم کرنا چاہیئے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا اور فقر وفاقہ کے مارے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا۔ معلوم ہوا مسجد میں چندہ کی اپیل تو کی جا سکتی ہے۔ لیکن احادیث میں ایسے واقعات متعدد دفعہ منقول نہیں کہ ہر چوتھے دن کی چندہ کی اپیلوں کو صحیح ثابت کیا جانے لگے ۔ بس کبھی کبھار انتہائی ضرورت کے وقت باوقار طریقہ سے مسجد کے خطیب صاحب یا انتظامیہ کا کوئی معتبر شخص ایسی اپیل اس طرح کرے کہ نمازیوں اور دیگر عبادات میں مشغول حضرات کی عبادت میں خلل نہ آئے ، اور اس بات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ چندہ کا خواہش مند ہر کوئی کھڑا ہو کر چندہ کی اپیل نہ کرنا شروع کر دے ، کیونکہ اس طرح تو ہر نماز کے بعد مسجد میں رش لگ جائے گا۔ اور یہ صورت مسجد کے مقاصد کے صریحاً خلاف ہوگی ،مساجد کے مقاصد میں نمایاں اللہ کا ذکر ،نماز ،تلاوت ،تعلیم و تبلیغ ہے ،
مسجد کےلیے یا ضرورت مندوں کیلئے چندہ جمع کرنے کے لیے سپیکر پر کئی کئی گھنٹے تک چندہ کی اپیل کرنا، اور لوگوں کاپانچ پانچ، دس دس روپے لے کر آنا۔ محلہ داروں کو بھی تکلیف میں مبتلا کرنا۔ یا کوئی نامعلوم شخص مسجد میں آ کر چندہ کی اپیل کرنا شروع کر دے۔ ان تمام صورتوں کو جواز کی سند دینا بہت مشکل ہے۔ آج کل تو یہ مصیبت عام ہے۔
بہرحال کبھی کبھارغریب غرباء کے لیے یا دیگر مشروع امور کیلئے مسجد میں باوقار طریقے سے چندہ کی اپیل کی جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے، جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔