• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف احادیث کیوں جمع کی گئی؟ اور.........

شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57
السلام علیکم،
ایک سوال کہ اگر ضعیف احادیث قابل عمل نہیں، اور محدیثین کی یہی رائے ہے، تو یہ احادیث جمع کیوں کی گئی؟
ایک اور سوال یہ کے محدثین نے ضعیف احادیث جمع کی تو وہ ٹھیک، مگر آج کے دور میں اگر کوئی کتاب جیسے "فضاعل اعمال" (تبلیغی نصاب) یا اس کے جیسی اور بھی کتابیں ہیں جن میں ضیعف احادیث لکھتے ہیں، یا پہر کوئی مقرر بیان کرتا ہے،اور ضعیف احادیث بیان کرتا ہے تو اسے غلط سمجھا جاتا ہے، ایسا کیوں؟
 

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
وعلیکم اسلام و رحمۃ اللہ وبرکاۃ ، میں ایک کم علم بندہ ہوں ،دفاعی جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں ،
تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو جو صحیح و ضعیف منسوب ہو چکا وہ اکٹھا کیا جا سکے اور تاکہ اس کے بعد فتنہ وضع حدیث مزید پروان نہ چڑھ سکے ،صحیحین کے علاوہ باقی کیلیکش کے لئے بعد کے محدثین کے لئے راہ کھلی رکھی جائےاور چھان چھٹک انہیں میں سے ہو جو اب تک مسنوب ہو چکا وغیرہ وغیرہ ، فرض کریں کہ اگر اس وقت سارا منسوب اکٹھا نہ کیا جاتا اور اصول احادیث علوم احادیث نہ ہوتے تو اب سے شروعات کرنے پر چھان چھٹک ہزاروں کی بجائے کروڑوں میں ہوتی ، اب آپ اندازہ لگا لیں کہ ایک مخصوص گروہ کی کتب میں اس وقت کی اکٹھی کی گئی صحیح و ضعیف و موضوع روایات کے علاوہ بھی جدید چٹخاری روایات کا ذائقہ دیگوں کے حساب سے موجود ہے ، تو کم از کم محدثیں کے علاوہ ان جدید کو عام بندہ بھی اس کلیکشن و محنت کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے کہ یار یہ اس وقت کی بھی کتب میں موجود ضعیف و موضوع روایات تک میں نہیں ملتا اس کی حیثیت کیا کیا ہوگی ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم،
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک سوال کہ اگر ضعیف احادیث قابل عمل نہیں، اور محدیثین کی یہی رائے ہے، تو یہ احادیث جمع کیوں کی گئی؟
حدیث جمع کرنے والوں نے ضعیف احدیث ”جمع“ نہیں کیں۔ بلکہ انہوں نے دستیاب وسائل کی مدد سے بہت احتیاط اور چھان پھٹک کے بعد احادیث جمع کیں۔ جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ نے لاکھوں حدیث کو “یکجا“ کیا اور ان میں سے چھان پھٹک کر صرف چند ہزار احادیث کو اپنے کتاب میں شامل کیا۔ دیگر لوگوں نے بھی ایسی ہی احتیاط کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ”ضعیف احادیث“ ان کتب میں کیسے آگئیں۔ بات یہ ہے کہ ہر محدث نے انفرادی کاوشوں سے احادیث کے مجموعے ترتیب دئے۔ جب یہ مجموعے مرتب ہوگئے تو ”محققین“ نے ان مجموعوں میں شامل حدیثوں کو ”پرکھنے“ کے لئے اصول وضوابط مرتب کئے اور ان اصول و ضوابط کے تحت ہر ہر جمعشدہ حدیث کو پرکھا تب معلوم ہوا کہ فلاں فلاں احادیث ضعیف ہیں اور فلاں فلاں موضوع یعنی من گھڑت۔ یہ موضوع احادیث وہ ہیں جنہیں منافقین نے جان بوجھ کر حدیث کے طور پر مشہور کردیں تھیں۔ حدیثیں جمع کرنے والوں نے تو اپنی اپنی ”کتاب“ کے لئے حدیثیں جمع کیں۔ جبکہ تحقیق کرنے والوں کے سامنے تمام ”تالیفات“ مرتب شدہ موجود تھیں۔ لہٰذا ان کے لئے ”تحقیق“ کرنا آسان ہوا۔ اور محققین نے مل کر اجتماعی طور پر یہ ”ثابت“ کردیا کہ جمع شدہ احادیث میں کون کون سی احادیث ضعیف اور موضوع ہیں۔

ایک اور سوال یہ کے محدثین نے ضعیف احادیث جمع کی تو وہ ٹھیک، مگر آج کے دور میں اگر کوئی کتاب جیسے "فضاعل اعمال" (تبلیغی نصاب) یا اس کے جیسی اور بھی کتابیں ہیں جن میں ضیعف احادیث لکھتے ہیں، یا پہر کوئی مقرر بیان کرتا ہے،اور ضعیف احادیث بیان کرتا ہے تو اسے غلط سمجھا جاتا ہے، ایسا کیوں؟
صحاح ستہ یا احادیث کے دیگر مجموعوں میں اولین طور پر جن احادیث کو جمع کیا گیا ہے، انہیں بعد میں کسی نے نہیں چھیڑا۔ اھادیث کے یہ مجموعے ہو بہو آج بھی ری۔پرنٹ ہوتے ہیں۔ البتہ ان احادیث کی شرحیں لکھی گئیں، اور ہر ہر حدیث کی حیثیت بتلا دی گئی کہ کون کون سی حدیث کس ”مقام“ پر ہے۔ بعد ازاں ان مجموعوں کا ”مختصر ایڈیشن“ بھی مرتب کیا گیا جن میں تکرار والی احادیث اور ضعیف یا موضوع احادیث کو حزف کردیا گیا۔ یہ کام بہت سے لوگوں نے کیا ہے اور ابھی تک جاری ہے۔ پھر ”ضعیف و موضوع احادیث“ کے الگ سے مجموعے بھی شائع کئے گئے ہیں۔

یاد رکھئے احادیث کے اولین مجموعے جن جن محدثین نے جمع کئے، وہ تو جوں کے توں آج بھی موجود ہیں۔ اور انہیں آج بھی ”تبدیل“ نہیں کیا جاتا۔ ان ان اولین مجموعوں پر کی گئی تحقیق اور شروحات بھی مسلسل چھپ رہی ہیں۔ اب احادیث کے ان دونوں ”کیٹیگریز“ کا اتنا وسیع ذخیرہ ہے کہ اسے ایک عام مسلمان مکمل طور پر پڑھ بھی نہیں سکتا، الا یہ کہ انہیں پوری طرح سمجھ کر ان پر عمل بھی کر سکے۔ یہ کام ان علمائے کرام کا ہے جو اپنی پوری زندگی صرف حدیث کی تعلیم و تدریس میں کھپا دیتے ہیں۔

لہٰزا عوام الناس کے لئے تیار کردہ احادیث کے مختصر کتب ہوں، یا دیگر ”اسلامی کتب“ یا ”عوامی بیانات و لکچرز“، ان میں ضعیف یا موضوع احادیث کو شامل کرنے کا کوئی ”جواز“ نہیں بنتا۔ عوام کو تقریر و تحریر کے ذریعہ صرف صحیح احادیث ہی پہنچانی چاہئے ۔

اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ لیجئے کہ ڈاکٹری کے ایم بی بی ایس کے نصاب کے لئے جو کتب تحریر کی جاتی ہیں، وہ بہت وسیع ہوتی ہیں۔ ان میں وہ طبی اصول بھی درج ہوتے ہیں جو تحقیق کے بعد غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اور ان ادویات کا ذکر بھی ہوتا ہے جن کا مختلف امراض میں فائدہ نہیں بلکہ نقصان دہ ہونا اب ثابت ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس عوام الناس کے لئے شائع شدہ کتب اور میڈیکل لکچرز میں صرف ”صحیح طبی اصول“ اور صحیح ادویات و علاج کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ تاکہ پڑھے لکھے عوام ان پر عمل کرکے اپنی صحت برقرار رکھ سکیں یا عام امراض کا علاج کرسکیں۔

اہل علم سے درخواست ہے کہ میرے اس بیان میں کوئی کمی یاخامی ہو تو اسے درست کردیں۔
@خضر حیات
@سرفراز فیضی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,479
پوائنٹ
964
اس سوال کا سادہ اور مختصر جواب وہی ہے جو محترم یوسف ثانی صاحب نے بطریق احسن فرمادیا ہے ۔ اللہ ان کو جزائےخیر دے ۔
جو اہل علم و فضل علم حدیث کی معرفت رکھتے ہیں ہیں ، ان کے نزدیک باقاعدہ ’’ نکات ‘‘ کی صورت میں وضاحت کی جاسکتی ہے کہ ’’ ضعیف احادیث ‘‘ کیوں جمع کی گئیں ۔
1۔ ضعیف حدیث کو ذکر کیا گیا ، لوگوں کو بتانے کے لیے یہ ’’ ضعیف ‘‘ ہے ، کیونکہ اگر محدثین اس کو ضعیف سمجھ کر نظر انداز کردیتے ، تو ایسے لوگ بھی آتے جوضعف سے بے خبری کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیتے ۔
2۔ بعض احادیث کے اندر ’’ ضعف ‘‘ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ مزید کسی اور حدیث سے مل کر وہ ختم ہوسکتا ہے ، اس نقطہ نظر سے بھی ایسی احادیث کو جمع کیا گیا ، کہ ممکن ہے کوئی ایسی روایت ملے جو پہلی کے ضعف کے دور کردے ۔
3۔ جب ضعیف راویوں کے حالات ذکر کیے گئے ، تو بطور مثال ان کی احادیث بھی ذکر کی گئیں ، اس طرح صحیح راویوں کے تراجم میں صحیح احادیث اور ضعیف راویوں کے ترجمے میں ضعیف احادیث جمع ہوتی گئیں ۔
4۔ بعض احادیث کی صحت و ضعف میں اختلاف کی وجہ سے بھی یہ معاملہ پیش آیا ، کسی محدث نے اس کو صحیح سمجھتے ہوئے ذکر کیا ، لیکن دوسرے محدث نے اس میں وجہ ضعف کی وضاحت کردی ۔
5۔ کچھ محدثین نے احادیث کی صحت و ضعف کو نظر انداز کرتے ہوئے ، ان احادیث کو جمع کیا ، جو وقت کے فقہاء و علماء کے استدلالات و فتاوی میں ذکر کی جاتیں تھیں ۔یوں صحیح کے ساتھ ساتھ ضعیف روایات بھی آ گئیں ۔
ضعیف احادیث ذکر کرنے والے پر تنقید کیوں ؟
ہر ضعیف حدیث ذکر کرنے والے پر تنقید نہیں کی جاتی ، بلکہ ان مصنفین پر تنقید کی جاتی ہے ، جو ضعیف احادیث کو معرض استدلال میں یا قابل حجت بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔
فقہ کی کتاب میں جس میں عبادات و معاملات قرآن وسنت کی روشنی میں ثابت کیے جاتے ہیں ، وہاں یہ پتہ چل جانے کے بعد بھی کہ اس بات کی اللہ کے رسول کی طرف نسبت درست نہیں ، ذکر کرنے کا کیا معنی بنتا ہے ؟ لہذا ایسے لوگوں پر تنقید کی گئی ۔
فضائل اعمال کی کتابیں لکھنے کا مقصد لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنا ، عبادات ، نفل و نوافل ، سنن ، مستحبات کی ترغیب دلانا ہے ، اور یہ کام ظاہر ہے کتاب وسنت کی روشنی میں ہوگا ، نہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایسی باتوں کے ساتھ جن کی نسبت درست نہیں ۔ صحیح احادیث کو چھوڑ کر ضعیف احادیث کا سہارا لینے کا یہ مطلب ہے کہ دین میں ’’ فضائل اعمال ‘‘ کے لیے موجود مواد ناکافی ہے ؟
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک الله خضر حیات بھائی۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
اس سوال کا سادہ اور مختصر جواب وہی ہے جو محترم یوسف ثانی صاحب نے بطریق احسن فرمادیا ہے ۔ اللہ ان کو جزائےخیر دے ۔
جو اہل علم و فضل علم حدیث کی معرفت رکھتے ہیں ہیں ، ان کے نزدیک باقاعدہ ’’ نکات ‘‘ کی صورت میں وضاحت کی جاسکتی ہے کہ ’’ ضعیف احادیث ‘‘ کیوں جمع کی گئیں ۔
1۔ ضعیف حدیث کو ذکر کیا گیا ، لوگوں کو بتانے کے لیے یہ ’’ ضعیف ‘‘ ہے ، کیونکہ اگر محدثین اس کو ضعیف سمجھ کر نظر انداز کردیتے ، تو ایسے لوگ بھی آتے جوضعف سے باخبری کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیتے ۔
2۔ بعض احادیث کے اندر ’’ ضعف ‘‘ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ مزید کسی اور حدیث سے مل کر وہ ختم ہوسکتا ہے ، اس نقطہ نظر سے بھی ایسی احادیث کو جمع کیا گیا ، کہ ممکن ہے کوئی ایسی روایت ملے جو پہلی کے ضعف کے دور کردے ۔
3۔ جب ضعیف راویوں کے حالات ذکر کیے گئے ، تو بطور مثال ان کی احادیث بھی ذکر کی گئیں ، اس طرح صحیح راویوں کے تراجم میں صحیح احادیث اور ضعیف راویوں کے ترجمے میں ضعیف احادیث جمع ہوتی گئیں ۔
4۔ بعض احادیث کی صحت و ضعف میں اختلاف کی وجہ سے بھی یہ معاملہ پیش آیا ، کسی محدث نے اس کو صحیح سمجھتے ہوئے ذکر کیا ، لیکن دوسرے محدث نے اس میں وجہ ضعف کی وضاحت کردی ۔
5۔ کچھ محدثین نے احادیث کی صحت و ضعف کو نظر انداز کرتے ہوئے ، ان احادیث کو جمع کیا ، جو وقت کے فقہاء و علماء کے استدلالات و فتاوی میں ذکر کی جاتیں تھیں ۔یوں صحیح کے ساتھ ساتھ ضعیف روایات بھی آ گئیں ۔
ضعیف احادیث ذکر کرنے والے پر تنقید کیوں ؟
ہر ضعیف حدیث ذکر کرنے والے پر تنقید نہیں کی جاتی ، بلکہ ان مصنفین پر تنقید کی جاتی ہے ، جو ضعیف احادیث کو معرض استدلال میں یا قابل حجت بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔
فقہ کی کتاب میں جس میں عبادات و معاملات قرآن وسنت کی روشنی میں ثابت کیے جاتے ہیں ، وہاں یہ پتہ چل جانے کے بعد بھی کہ اس بات کی اللہ کے رسول کی طرف نسبت درست نہیں ، ذکر کرنے کا کیا معنی بنتا ہے ؟ لہذا ایسے لوگوں پر تنقید کی گئی ۔
فضائل اعمال کی کتابیں لکھنے کا مقصد لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنا ، عبادات ، نفل و نوافل ، سنن ، مستحبات کی ترغیب دلانا ہے ، اور یہ کام ظاہر ہے کتاب وسنت کی روشنی میں ہوگا ، نہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایسی باتوں کے ساتھ جن کی نسبت درست نہیں ۔ صحیح احادیث کو چھوڑ کر ضعیف احادیث کا سہارا لینے کا یہ مطلب ہے کہ دین میں ’’ فضائل اعمال ‘‘ کے لیے موجود مواد ناکافی ہے ؟
 
Top