طاہر القادری کی نظرمیں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک ’دار الامن‘ ہیں
طاہر القادری صاحب کس کے ایجنڈے پر کاربند ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عالم کفر کی سب سے بڑی اور قائد حکومت امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو شرعی طور پر’دار الامن‘ قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے صرف دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کوبعض عبادات اور ذاتی زندگی میں چند احکامات پر عمل کی اجازت ہے۔ اس کے لئے وہ سلف و صالحین کے فتاویٰ و اقوال کو بڑی خوبصورتی سے توڑ مروڑ کر اور اُن کے سیاق وسباق سے ہٹاکر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ امریکہ ویورپی ممالک کو ’دار الحرب‘ قرار دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ’دار الحرب‘ کو صرف اس بات سے مشروط کرتے ہیں کہ ’’وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں۔‘‘ باقی اُن کی نگاہ میں’دار الکفر‘محض کسی ایک حکم شرعی کی پر عمل کی اجازت دے دینے کے بعد’دار الکفر‘ نہیں رہ جاتا، چاہے باقی قانونِ شرعیہ کی دھجیاں بکھیردی جائیں اور شرعی قوانین کے بجائے کفریہ قوانین ہی کیوں نہ نافذ ہوں، اِس سے اُن کی نظر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(1)
ہم اس کی مزید تفصیل میں جانے کے بجائے شرعی و اصطلاح معنوں میں ’دار الاسلام، دار الحرب، دار الامن‘ کی تعریف سمجھ لیتے ہیں تاکہ اصل حقیقت سامنے آجائے۔
دارالاسلام کی تعریف:
فقہاے کرام نے باتفاق کسی بھی علاقے کو دار الاسلام قرار دینے کے لئے دو شرطیں ہی بیان کی ہیں:
1۔حاکم کا مسلمان ہونا
2۔احکام اسلامی کا اجرا
امام سرخسی نے لکھا ہے:
وبمجرد الفتح قبل إجراء أحکام الاسلام لاتصیر دار الإسلام (المبسوط از سرخسی : 10؍۳۲)
”صرف فتح کے بعد احکامِ اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب، دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہوتا۔‘‘
وکذٰلك لو فتح المسلمون أرضًا من أرض العدو حتى صارت في أیدیهم وهرب أهلها عنها. لأنها صارت دار الإسلام بظهور أحکام الإسلام فیها (شرح السیر الکبیر:۲؍۱۸۵)
”اسی طرح اگر مسلمان دشمنوں کی کوئی زمین فتح کرلیں یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ماتحت ہوجائے اور اس کے رہنے والے بھاگ جائیں (یعنی مغلوب ہوجائیں) تو یہ علاقہ احکام اسلام کے ظاہر ہونے سے دار الاسلام قرار پائے گا۔‘‘
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
دار الحرب تصیر دار الإسلام بإجراء أحکام أهل الإسلام فیها (فتاویٰ ابن عابدین شامی: 4؍۱۷۵)
”دارالحر ب میں اہلِ اسلام کے احکامات جاری ہونے سے وہ دارالاسلام میں تبدیل ہو جاتا ہے“
امام علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’بدائع الصنائع‘ میں فرماتے ہیں:
لاخلاف بین أصحابنا في أن دار الکفر تصیر دار الإسلام لظهور أحکام الإسلام فیها (بدائع الصنائع : 7؍۱۳۰)
”ہمارے علما میں اس بات کا کسی میں اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر، دارلاسلام میں تبدیل ہوتا ہے، اس میں اسلامی احکام ظاہر ہونے سے۔‘‘
صارت الدار دار الإسلام بظهور أحکام الإسلام فیها من غیر شریطة أخرٰی (بدائع الصنائع: 7؍۱۳۱)
’’دارالکفر، دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے، اس میں اسلامی احکام جاری ہونے سے دوسری کسی شرط کے بغیر۔‘‘
دارُ الحرب کی تعریف:
جس طرح دار الحرب کا کوئی بھی علاقہ اس وقت تک دار الاسلام قرار نہیں پاسکتا جب تک اس میں مکمل اسلامی احکام کا اِجرا اور ظہور نہ ہوجائے۔ اسی طرح کوئی بھی علاقہ جوکہ دار الاسلام کا حصہ ہو وہ اس وقت تک دار الحرب میں تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں کچھ نقائص پیدا نہ ہوجائیں۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’ردّ المختار‘ میں لکھتے ہیں:
لا تصیر دار الإسلام دار الحرب إلا بأمور ثلا ثة بإجراء أحکام أهل الشرك وباتصالها بدار الحرب، وبأن لایبقي فیها مسلم أو ذمي أمنًا بالأمان الأوّل علىٰ نفسه (فتاویٰ شامی :4؍۱۷۴)
”دارالاسلام دارالحرب میں تبدیل نہیں ہوتا مگر تین چیزوں کے پائے جانے سے:
1. اہل شرک کے احکام جاری ہونے سے اور
2. اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے اور یہ کہ
3. وہاں کوئی مسلمان یا ذمی اپنی ذات اور دین کے اعتبار سے امن اوّل سے مامون رہے۔‘‘
یہاں اہل شرک سے اہل کفر مراد ہیں یعنی اہل کفر کے احکام علیٰ الاعلان بلا روک ٹوک جاری ہوں، احکام اسلام وہاں جاری نہ ہوں اور دارالحرب سے متصل ہونے سے مراد یہ ہے کہ دونوں ’دار‘کے درمیان دار الاسلام کا کوئی اورعلاقہ موجود نہ ہو اور امن اول سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے سبب اور ذمّی کو عہدِ ذمہ کی سبب کفار کے غلبے سے پہلے جو امن تھا، وہ امن کفار و مرتدین کے غلبہ کے بعد مسلمان اور ذمی دونوں کے لئے باقی نہ رہے۔ یہ رائے امام ابوحنیفہ کی ہے۔ لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک مذکورہ اُمور میں سے صرف ایک ہی امر سے دارالحرب بن جاتا ہے یعنی دارالاسلام میں صرف احکامِ کفر جاری ہونے سے وہ دارالحرب بن جاتا ہے اور یہی قول فقہ حنفی میں قرین قیاس ہے۔ جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
وقال أبو یوسف رحمة الله علیه ومحمّد رحمة الله علیه بشرط واحد لاغیر وهو إظهار أحکام الکفر وهو القیاس (فتاوی عالمگیری بحوالہ تالیفاتِ رشیدیہ بعنوان ’فیصلۃ الاعلام فی دار الحرب و دارالاسلام‘:ص۶۶۷)
’’اور امام ابو یوسف اور امام محمد فرماتے ہیں کہ صرف ایک شرط محقق ہونے سے دار الحرب کا حکم کردیا جائے گا اور وہ شرط یہ ہے کہ احکام کفر کو علیٰ الاعلان جاری کردیں اور قیاس (بھی فقہ حنفی کے نزدیک) اسی کا متقاضی ہے۔‘‘
علامہ سرخسی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی:
وعن أبي یوسف و محمّد رحمهما الله تعالىٰ إذا أظهروا أحکام الشرك فیها فقد صارت دارهم دار حرب، لأن البقعة إنما تنسب إلینا أو إلیهم باعتبار القوة والغلبة، فکل مقضع ظهر فیها حکم الشرك فالقوة في ذلك الموضع للمشرکین فکانت دار حرب وکل موضع کان الظاهر فیه حکم الإسلام فالقوة فیه للمسلمین (المبسوط از سرخسی:۱۲؍۲۵۸؛ بدائع الصنائع: 7؍۱۹۴)
’’امام ابو یوسف اور امام محمد سے منقول ہے کہ اگر دارالاسلام کے کسی علاقہ میں (حکام) احکامِ شرک کا اظہار کردیں (یعنی علیٰ الاعلان نافذ کردیں) تو ان کا دار، دارالحرب ہو گا۔ اس لیے کہ کوئی بھی علاقہ ہماری یا ان (کفار) کی جانب قوت اور غلبہ ہی کی بنیاد پر منسوب ہوتا ہے۔ جس جگہ احکامِ شرک نافذ ہوجائیں تو اس کے معنی ٰیہ ہیں کہ اس جگہ مشرکین کو اقتدار اور قوت حاصل ہے، اس لحاظ سے وہ ’دار الحرب‘ ہے۔ اس کے برعکس جس جگہ ’حکم‘، اسلام کا ظاہر اور غالب ہو تو وہاں گویا مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہے (اور وہ دار الاسلام ہے)۔‘‘
ان تمام حوالہ جات سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ فقہاے کرام نے کسی جگہ کو ’دارالحرب‘ قرار دینے کے لئے صرف یہ ایک شرط بیان کی ہو کہ ”وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں“ بلکہ اصل حقیقت تو فقہاے کرام کے فتاویٰ سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اصل شے احکامِ اسلامی کا جاری و ساری رہنا اور اگر یہ شرط مفقود ہوگئی تو دار الاسلام کی کوئی حیثیت نہیں۔
اسی طرح فقہاےکرام کے فتاویٰ اس بات پر بھی شاہد ہیں کہ کسی بھی جگہ کو دار الحرب یا دار الکفر سے استثنا صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب کہ وہاں احکام اسلامی کا مکمل اجرا ہو اور قانونِ شریعت پوری طرح نافذ ہو۔
دارالامان کی تعریف:
جو لوگ صرف مسلمانوں کو ’امن‘ اور دیگر شعائر اسلام (جمعہ و عیدین) کی ادائیگی کی اجازت دینے کی صورت میں کسی علاقہ کو (جیساکہ آج کل ہندوستان، امریکہ اور دیگر یورپی ریاستوں کو) دار الامن یا دارالعہد قرار دینے کی ناروا کوشش کرتے ہیں تو باتفاقِ سلف وصالحین یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دار الحرب میں ’امن‘ تو مشروط ہی اس بات سے ہے کہ وہ دار الاسلام کی طرف سے دیا گیا ہو نہ کہ دار الحرب کی طرف سے از خود چند مسلمانوں کو امن دینے سے وہ ’دارالامان‘ یا ’دارالعہد‘ قرار پاجائے گا۔بالفرض اگر مان لیاجائے کہ امریکہ و دیگر یورپی ممالک بشمول انڈیا، یہ سب ’دار الامان‘ ہیں جیساکہ طاہر القادری صاحب ہجرتِ حبشہ کی بے محل مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں کفر کی حکومت کے باوجود مسلمانوں کو شعائرِ اسلام کی ادائیگی کی اجازت تھی،تو اسی برخود غلط اُصول پر قیاس کرتے ہوئے امریکہ و دیگر یورپی ممالک بھی ’دار الامان‘ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک وہ علاقہ جہاں ایک طرف کفار کی طرف سے مسلمانوں کو شعائر ِاسلام مثلاً جمعہ وعیدین اور دیگر انفرادی احکام کی پابندی کی اجازت ہو، لیکن دوسری طرف اسی دارالامان پر حکمرانی کرنے والے کفار بلادِ اسلامیہ کے دوسرے علاقوں (کشمیر، افغانستان، عراق، بوسنیا، چیچنیا وغیرہ) میں بسنے والے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں، اُن کی بستیوں کو تاراج کریں، ان کی کھیت کھلیانوں کو برباد کریں، ان پر آتش و آہن کی برسات کردیں، لاکھوں مسلمانوں کو خاک وخون نہلادیں،یا پھر اس دار الامان کے کفار اس کام میں دوسرے علاقے کے کفار کی مدد کررہے ہوں تو کیا کفار کے ان علاقوں کو محض اس بنیاد پر کہ اُنہوں نے چند مسلمانوں کو چند شعائر اسلام کی ادائیگی کی اجازت اور امن دے رکھا ہے، دارالامان قرار دیا جاتا رہے گا...؟؟
اور دار الامان کے سلسلے میں ہجرتِ حبشہ کی جو مثال دی جاتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا حبشہ کے کفار نے مسلمانوں کے مقابلے میں قریش مکہ کا ساتھ دیا تھا اور اُن کو پکڑ پکڑ کر کفارِ مکہ کے حوالے کردیا تھا…یا اُنہوں نے دامے درمے سخنے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد ونصرت کی تھی اور سب سے بڑھ کر بات یہ کہ شاہِ حبشہ خود مسلمان ہوگئے تھے اور ان کے انتقال پر رسول اللہﷺ نے ان کا جنازہ ادا کیا۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ چاہے برطانیہ یا ہندو ستان ہو، یورپی ریاستیں ہوں یا کفار کے دوسرے ممالک، شاذ ونادرہی کوئی ملک ایسا ہو، جس نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے نام پر اقوام متحدہ کے زیر سایہ پوری دنیا میں برپا کی جانے والی ’صلیبی جنگ‘ میں اہم کردار ادانہ کیا ہو یا اس میں کسی بھی طریقے کی فوجی، مالی، طبّی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم نہ کی ہو۔ خاص کر جس طریقے سے عالم کفر اور ان کے حاشیہ بردارمسلمانوں کے کلمہ گوحکمرانوں نے ’امارتِ اسلامی افغانستان‘ کے خلاف بالاتفاق ’مشترکہ صلیبی جنگ‘ مسلط کی، اس کی مثال توتاریخ اسلامی میں کم ہی ملتی ہے۔ لہٰذا یہ دلیل ہی کلیۃً باطل ہوگئی۔
مزید برآں امریکہ و یورپی ممالک کو ’دار الامن‘ قرار دینے کے لئے یہ دلیل دینا کہ ”وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں“ دراصل ان کے ذہنی خلل کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ مسلمان کے ساتھ ذمّی کے بھی مامون ومحفوظ رہنے کی جو شرط فقہاے کرام نے رکھی ہے، تو یہ بات تو کسی ادنیٰ سے طالبعلم سے بھی مخفی نہیں کہ ’ذمّی‘ دار الاسلام کے ماتحت ہوتا ہے نہ کہ دار الحرب کے...
﴿اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ!﴾ کیا یہ اب بھی عقل سے کام نہیں لیں گے...؟؟
(1) :
http://youtu.be/ZVRMTSVA1tM