HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
عبداللہ سبا کے وجود کی تصدیق، سنی شیعہ کتب سے:
شاہ عبد العزیز صاحب نے تحفہ اثنا عشریہ کے گیارویں باب میں شیعہ مذہب کے خصائص پر گفتگو کرتے ھوئے ایک خصوصیت یہ لکھی ھے کہ شیعہ مذہب کی ایک اہم خصوصیت بدیہیات کا انکار ھے ،یعنی حس ،عقل صریح اور ثابت شدہ تاریخی حقائق کا انکار کرتے ہیں ،شاہ صاحب اسے ھفوۃ کا نام دیا اور شیعوں کے کافی سارے ھفوات ذکر کئے ،آج ہم اسی طرح کا ایک ھفوہ ذکر کرتے ہیں ۔
عبد اللہ بن سبا تاریخ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ھے ،شیعہ سنی ،اسماعیلی ،زیدی اور مستشرقین کے قابل ذکر مراجع میں ابن سبا کے مفصل حالات،اس کے متبعین ،اس کا ایجاد کردہ فرقہ سبیئہ، اس کے پیدا کردہ فتن اور حضرت علی و دیگر صحابہ پر اس کے اعتراضآت پر مواد موجود ھے ،چونکہ اس کے ایجاد کردہ عقائد کی شکل شیعہ مذہب میں کسی نہ کسی صور ت میں موجود ھے اس لئے معاصر شیعہ اپنے متقدمین کے برخلاف ھفوہ کا ارتکاب کرتے ھوئے عبد اللہ بن سبا کے وجود کے ہی منکر ہیں ،اس قضیے کے مختلف جوانب پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
شیعہ مراجع میں مختلف موضوعات کے تحت ابن سبا کا تذکرہ ملتا ھے ۔ہم سب سے پہلے شیعہ مراجع کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں جن میں ابن سبا کا مفصل یا مختصر تذکرہ موجود ھے اور ان شیعہ مصنفین میں سے کسی نے ابن سبا کا انکار نہیں کیا ھے ۔
1۔کتاب الغارات ،ابو اسحاق ابراہیم بن محمد الاصفہانی الثقفی ،(283ھ)یہ کتاب شیعہ کی اہم ترین کتب میں شمار ھوتی ہیں اور ابراہیم الثقفی شیعہ مذہب کے معتمد رواۃ میں شمار ھوتے ہیں ۔
2۔کتاب المقالات و الفرق للقمی (301ھ)
3۔فرق الشیعہ للنوبختی
4۔رجال الکشی لابی عمرو الکشی (369ھ)
5۔رجال الطوسی لشیخ لاطائفۃ الطوسی (460ھ)
6۔الرجال للحسن بن یوسف الحلی (726ھ)
7۔روضات الجنات لمحمد باقر الخوانساری (1315ھ)
8۔تنقیح المقال للمامقانی (1351ھ)
9۔قاموس الرجال محمد تقی التستری
10۔روضہ الصفا (فارسی میں شیعہ تاریخ کی ضخیم کتاب ھے ۔)
11۔دائرۃ المعارف الشیعی مقتبس الاثرلمحمد حسین الاعلمی الحائری
12۔الکنی و الالقاب للعباس القمی
13۔حل الاشکال لابن طاووس
14۔الرجال لابن دادود
15۔التحریر الطاووسی للحسن بن زین الدین اللعاملی
16۔مجمع الرجال للقھبائی (1011ھ)
17۔نقد الرجال لللتفرشی
18۔جامع الرواۃ للاردبیلی
19۔بحار الانوار للمجلسی
20 ۔مناقاب ال ابی طالب لابن شھر آشوب
21۔تفسیر مراۃ الانوار و مشکوۃ الاسرار للعاملی
22۔منھاج المقال للاسترابادی
23۔کتاب الخصال لابن بابویہ الصدوق
24۔من لایحضرہ الفقیہ للصدوق
25۔تاریخ الشیعہ لمحمد بن حسین المضغری
26۔الشیعہ فی التاریخ محمد بن حسین الزین
27۔اعیان الشیعہ لمحمد بن محسن الامین
28۔الانوار النعمانیہ لنعمۃ اللہ الجزائری
29۔تہذیب الاحکام للطوسی
30۔الوافی للفیض الکاشانی
31۔مسائل الامامۃ للاناشئی االکبر عبد اللہ بن محمد الانباری (293ھ)
32۔ اصل الشیعہ و اصولھا لمحمد بن حسین کاشف الغطا ،اس میں مصنف نے لکھا ھے کہ شیعہ کی تمام کتب میں اس پر لعنت موجود ھے ،تو اس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ھوئی کہ ہر قابل ذکر شیعہ کتاب میں اس کا ذکر ھے اور اس پر لعنت ھے ،عجیب بات ھے کہ فرضی شخصیات پر بھی لعنت کی جاتی ھے یا للعجب
کیا کسی مذہب کی اکتیس بنیادی کتب میں جس کا تذکرہ ھے ،جن میں شیعہ مذہب کی آٹھ معتبر ترین مراجع میں سےچار کتب بھی شامل ہیں ۔اس سے انکار کرنا بقول شاہ صآحب ھفوۃ نہیں تو کیا کہلائے گا ،اہلسنت،زیدی ،اسماعیلی اور مستشرقین کی کتب سے قطع نظر صرف انہی اکتیس کتب کی بنیاد پر ہی ابن سبا کا وجود ایک متواتر شکل اختیار کرلیتا ھے ،لیکن شیعہ معاصرین اپنے ان تمام متقدمین اور بعض معاصرین کے برخلاف اس کا برملا انکار کرتے ہیں ۔(جاری ھے )انشاللہ اگلے مرحلے میں اہلسنت کی کتب میں اس کے ذکر پر بحث ھوگی۔
شاہ عبد العزیز صاحب نے تحفہ اثنا عشریہ کے گیارویں باب میں شیعہ مذہب کے خصائص پر گفتگو کرتے ھوئے ایک خصوصیت یہ لکھی ھے کہ شیعہ مذہب کی ایک اہم خصوصیت بدیہیات کا انکار ھے ،یعنی حس ،عقل صریح اور ثابت شدہ تاریخی حقائق کا انکار کرتے ہیں ،شاہ صاحب اسے ھفوۃ کا نام دیا اور شیعوں کے کافی سارے ھفوات ذکر کئے ،آج ہم اسی طرح کا ایک ھفوہ ذکر کرتے ہیں ۔
عبد اللہ بن سبا تاریخ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ھے ،شیعہ سنی ،اسماعیلی ،زیدی اور مستشرقین کے قابل ذکر مراجع میں ابن سبا کے مفصل حالات،اس کے متبعین ،اس کا ایجاد کردہ فرقہ سبیئہ، اس کے پیدا کردہ فتن اور حضرت علی و دیگر صحابہ پر اس کے اعتراضآت پر مواد موجود ھے ،چونکہ اس کے ایجاد کردہ عقائد کی شکل شیعہ مذہب میں کسی نہ کسی صور ت میں موجود ھے اس لئے معاصر شیعہ اپنے متقدمین کے برخلاف ھفوہ کا ارتکاب کرتے ھوئے عبد اللہ بن سبا کے وجود کے ہی منکر ہیں ،اس قضیے کے مختلف جوانب پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
شیعہ مراجع میں مختلف موضوعات کے تحت ابن سبا کا تذکرہ ملتا ھے ۔ہم سب سے پہلے شیعہ مراجع کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں جن میں ابن سبا کا مفصل یا مختصر تذکرہ موجود ھے اور ان شیعہ مصنفین میں سے کسی نے ابن سبا کا انکار نہیں کیا ھے ۔
1۔کتاب الغارات ،ابو اسحاق ابراہیم بن محمد الاصفہانی الثقفی ،(283ھ)یہ کتاب شیعہ کی اہم ترین کتب میں شمار ھوتی ہیں اور ابراہیم الثقفی شیعہ مذہب کے معتمد رواۃ میں شمار ھوتے ہیں ۔
2۔کتاب المقالات و الفرق للقمی (301ھ)
3۔فرق الشیعہ للنوبختی
4۔رجال الکشی لابی عمرو الکشی (369ھ)
5۔رجال الطوسی لشیخ لاطائفۃ الطوسی (460ھ)
6۔الرجال للحسن بن یوسف الحلی (726ھ)
7۔روضات الجنات لمحمد باقر الخوانساری (1315ھ)
8۔تنقیح المقال للمامقانی (1351ھ)
9۔قاموس الرجال محمد تقی التستری
10۔روضہ الصفا (فارسی میں شیعہ تاریخ کی ضخیم کتاب ھے ۔)
11۔دائرۃ المعارف الشیعی مقتبس الاثرلمحمد حسین الاعلمی الحائری
12۔الکنی و الالقاب للعباس القمی
13۔حل الاشکال لابن طاووس
14۔الرجال لابن دادود
15۔التحریر الطاووسی للحسن بن زین الدین اللعاملی
16۔مجمع الرجال للقھبائی (1011ھ)
17۔نقد الرجال لللتفرشی
18۔جامع الرواۃ للاردبیلی
19۔بحار الانوار للمجلسی
20 ۔مناقاب ال ابی طالب لابن شھر آشوب
21۔تفسیر مراۃ الانوار و مشکوۃ الاسرار للعاملی
22۔منھاج المقال للاسترابادی
23۔کتاب الخصال لابن بابویہ الصدوق
24۔من لایحضرہ الفقیہ للصدوق
25۔تاریخ الشیعہ لمحمد بن حسین المضغری
26۔الشیعہ فی التاریخ محمد بن حسین الزین
27۔اعیان الشیعہ لمحمد بن محسن الامین
28۔الانوار النعمانیہ لنعمۃ اللہ الجزائری
29۔تہذیب الاحکام للطوسی
30۔الوافی للفیض الکاشانی
31۔مسائل الامامۃ للاناشئی االکبر عبد اللہ بن محمد الانباری (293ھ)
32۔ اصل الشیعہ و اصولھا لمحمد بن حسین کاشف الغطا ،اس میں مصنف نے لکھا ھے کہ شیعہ کی تمام کتب میں اس پر لعنت موجود ھے ،تو اس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ھوئی کہ ہر قابل ذکر شیعہ کتاب میں اس کا ذکر ھے اور اس پر لعنت ھے ،عجیب بات ھے کہ فرضی شخصیات پر بھی لعنت کی جاتی ھے یا للعجب
کیا کسی مذہب کی اکتیس بنیادی کتب میں جس کا تذکرہ ھے ،جن میں شیعہ مذہب کی آٹھ معتبر ترین مراجع میں سےچار کتب بھی شامل ہیں ۔اس سے انکار کرنا بقول شاہ صآحب ھفوۃ نہیں تو کیا کہلائے گا ،اہلسنت،زیدی ،اسماعیلی اور مستشرقین کی کتب سے قطع نظر صرف انہی اکتیس کتب کی بنیاد پر ہی ابن سبا کا وجود ایک متواتر شکل اختیار کرلیتا ھے ،لیکن شیعہ معاصرین اپنے ان تمام متقدمین اور بعض معاصرین کے برخلاف اس کا برملا انکار کرتے ہیں ۔(جاری ھے )انشاللہ اگلے مرحلے میں اہلسنت کی کتب میں اس کے ذکر پر بحث ھوگی۔