حديث نمبر :235
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :13/ ربیع الاول 1435 ھ، م 14،جنوری 2014م
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنَخْلٍ لِبَنِي النَّجَّارِ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا قَبْرُ رَجُلٍ دُفِنَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ۔
صحیح ابن حبان:2883، مسند احمد3/201۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر بنو نجار کے ایک کھجور کے باغ سے ہوا ، وہاں آپ نے ایک آواز سنی ، تو صحابہ سے سوال کیا : یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ یہ ایک شخص کی قبر ہے جسے عہد جاہلیت میں دفن کیا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ مردے دفن کرنا ترک کردو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنا دے جو مجھے سنایا ہے ۔
{ مسند احمد ، صحیح ابن حبان } ۔
تشریح :
عذاب قبر بر حق اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کا ایک جزء ہے ، اس سلسلے میں وارد حدیثیں متواتر اور شک و شبہ سے بالاتر ہیں، بلکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں سے بھی عذاب قبر کا ثبوت ہوتا ہے-
چنانچہ فرعون سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46) المومن۔
اور فرعونیوں پر برا عذاب الٹ پڑا ، آگ ہے جس کے سامنےیہ صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو عذاب قبر سے بکثرت متنبہ کیا کرتے تھے ،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے ہی ایک موقعہ پر جو زیر بحث حدیث میں وارد ہے فرمایا :
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جائے گی ، اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے ، پھر اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے پھر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے عرض کیا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ظاہری و پوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم ظاہر وپوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نےفرمایا : دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ۔
{ صحیح مسلم وغیرہ بروایت زید بن ثابت } ۔
اس حدیث سے عذاب قبر کی شناعت اور اس سے بچنے کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے ،چنانچہ ہر قسم کے فتنے من جملہ دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک بار پناہ مانگنے کے لئے کہا جبکہ عذاب قبر سے تین بار کہا ۔
اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں موجود جسم کو بھی ہوتا ہے صرف روح ہی کے ساتھ عذاب خاص نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، کیونکہ روح قبر میں نہیں ہوگی بلکہ وہ علیین و سجین میں ہوتی ہے ، البتہ جسم خاکی کے ساتھ اس کا ایک گونہ تعلق جوڑ دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کے عذاب کی آواز سنی ، نیز عذاب قبر کی جو شکلیں حدیثوں میں وارد ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ برزخ میں عذاب صرف روح کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اس جسم خاکی کو بھی اس کا حصہ ملتا ہے ، جیسے" کافر و منافق مرد کے کندھے پر لوہے کے گرزے اتنی زور سے مارا جاتا ہے کہ جب وہ چیختا ہے تو اس کے چیخنے کی آواز جن و انس کے علاوہ سبھی چیزیں سنتی ہیں "۔
{ صحیح بخاری : 1338 – صحیح مسلم : 2870، بروایت انس } ۔
"پھر زمین اس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پنسلیاں ایک دوسرے کے آر پار ہو جاتی ہیں" ۔
{ سنن الترمذی : 1071 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
"پھر آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو ، اسے آگ کا لباس پہنا دو ، اس کی طرف آگ کا دروازہ کھول دو جس سے جہنم کے آگ کی گرمی اور لو اس کی طرف آتی ہے اور قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی ہڈیاں ایک دوسرے میں داخل ہوجاتی ہیں ، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مسلط کردیا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس گرز کو کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے ، اس ضرب سے مردہ اتنی زور کی چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ مشرق ومغرب کی ساری چیزیں سنتی ہیں ، اس مار کے اثر سے وہ مٹی ہوجاتا ہے ، پھر اس کے جسم میں روح دوبارہ واپس کی جاتی ہے "۔
{ سنن ابو داود : 4753 – سنن النسائی :4/78 – سنن ابن ماجہ : 1549 ، بروایت براء } ۔
یہ ساری حدیثیں اصول محدثین پر صحیح ہیں ۔ اس قسم کی دیگر متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب جسم فانی پر بھی ہوتا ہے ، جس سے پناہ مانگنے کا تاکیدی حکم ہے ۔
فوائد :
1) عالم برزخ کا ایک حصہ عذاب قبر جس پر ایمان لانا واجب ہے ۔
2) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت کہ اللہ تعالی آپ کو ان چیزوں کا مشاہدہ اور ان کے سماع کا خاصہ عطا کیا تھا ، جو عام لوگوں کو حاصل نہیں ہے ، لیکن ضروری ہے کہ کسی خاصہ کو ثابت کرنے کے لئے صحیح حدیث موجود ہو ۔
3) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے قبل جو لوگ زمانہ جاہلیت میں وفات پا چکے ہیں ان پر بھی عذاب ہے ۔
4) ہر تشہد میں عذاب قبر ، عذاب جہنم اور دجال کے فتنے سے پناہ مانگنا تاکیدی امر ہے ۔
ختم شدہ