عقائد میں تقلید
فارسی کاایک شعر اوراس کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتاہے"چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدنند"جب حقیقت معلوم نہیں ہوتی تولوگ افسانہ تراشناشروع کردیتے ہیں ۔مولانارومی کافارسی ادب میں بڑامقام ومرتبہ ہے اوران کی مثنوی معیاری فارسی کادرجہ رکھتی ہے جسے انگلش میں کلاسیکل سے تعبیرکیاجاتاہے۔بہرحال اس مثنوی کے بہت سے اشعاراورمصرعے بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اس میں سے ایک یہ بھی مصرعہ ہے۔ "ہرکسے ازظن خودشدیارمن"ہرایک ایک اپنے خیال سے میرارفیق اوریاربناہواہے۔لیکن حقیقت کیاہے وہ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔
پوراشعر یہ ہے
ہرکسے از ظن خود شد یار من
وز درون من نہ جست اسرار من
وز درون من نہ جست اسرار من
اسی کو عربی کے ایک شعر میں اس طرح اداکیاگیاہے۔
وکل یدعی وصلابلیلی
ولیلی لاتقرلھم بذالک
ولیلی لاتقرلھم بذالک
ہرایک لیلی سے وصل کامدعی ہے لیکن لیلیٰ کی جانب سے مدعی کے دعوے پر اقرار نہیں ہے۔
مشہور سائنس داں نیوٹن نے لکھاہے کہ کبھی ہم کائنات کا کوئی پیچیدہ حل تلاش کررہے ہوتے ہیں لیکن اس کا قریبی حل ہمارے پاس موجود ہوتاہےاورہم اس سے غافل رہتے ہیں۔
عقائد میں تقلید کا باب بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔حالانکہ اگریہ غورکرلیاجاتاکہ احناف کے نزدیک عقائد کے ثبوت کیلئے کون سی دلیل درکار ہے توشاید نہ سوال کی ضرورت پڑتی اورنہ یہاں وہاں کے جواب کی اورقیل وقال کی۔
طالب الرحمن نے الدیوبندیہ کتاب لکھی۔ کتاب پر جتنی زیادہ حیرت نہیں ہوئی اس سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوئی جنہوں نے اس کی تردید میں کتابیں لکھیں اورمختلف حوالہ جات پیش کئے ۔حالانکہ کتاب کے اسلوب استدلال اوراحناف کے ثبوت عقائد کو سامنے رکھ دیاجاتاتومعاملہ دواوردوچار کی طرح صاف تھا۔
الدیوبندیہ زلزلہ نامی ایک بریلوی عالم ارشدالقادری کی کتاب کا چربہ ہے اس میں ترمیم صرف اتنی ہے کہ جہاں کرامت کے بعد بریلوی عالم نے دیوبندی حضرات کے فتاوی پیش کئے ہیں۔ ان کی جگہ طالب الرحمن نے سعودی علماء کے فتاوی رکھ دیئے ہیں۔سعودی علماء کے فتاوی کیوں رکھے۔اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔
اولاًسعودی حضرات کی خوشنودی حاصل کرنا
دوسرے برصغیر کے اپنے علماء پر عدم اعتماد کااظہار
دوسرے برصغیر کے اپنے علماء پر عدم اعتماد کااظہار
ورنہ فی نفسہ سعودی عرب کے علماء میں ایسے کوئی پر لگے ہوئے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان کی بات زیادہ قابل قدرہوجائے ۔اور سعودی علماء کوئی حنفی بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ کہاجائے کہ ایسابطورالزام وحجت کیاگیاہے۔
بہرحال عرض یہ کررہاتھاکہ الدیوبندیہ کی تردید کیلئے دورازکار راستے اختیار کرنے کے بجائے صرف اتناکہاجائے کہ احناف کے نزدیک اثبات عقائد کیلئے خبرواحد کفایت نہیں کرتی توکسی کتاب میں کسی کرامت کے لکھے ہونے سے یاکسی عالم کے لکھ دینے سے وہ عقیدہ میں تبدیل نہیں ہوجاتا۔جب خبرواحد اثبات عقائد کیلئے ناکافی ہے تومحض کسی عالم کے لکھ دینے سے خواہ ان کی جلالت شان کچھ بھی ہو لیکن وہ عقیدہ نہیں بن سکتا۔
عقائد میں تقلید پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ کچھ بات تقلید کے تعلق سے واضح کیاجائے کہ کن چیزوں میں تقلید نہیں ہے اوراہل حدیث حضرات بھی اسے تسلیم کرتے ہیں یانہیں۔
حدیث نبوی اورتقلید
بیشتر فقہاء اوراصولیین نے ا سکی تشریح کی ہے کہ تقلید اس امر میں ہوتی ہے جہاں پر نص نہ ہو،اجماع نہ ہو ۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں
فلیس الرجوع الی النبی والاجماع منہ
تونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرنا(احادیث پر عمل کرنا)تقلید اوراسی طرح اجماع کو تسلیم کرنا تقلید نہیں ہے۔
ابن ہمام کی التحریر کی شرح ان کے شاگرد ابن امیرالحاج نے بھی لکھی ہے۔ چنانچہ اپنے استاد محترم کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
فلیس الرجوع الی النبی ﷺ والاجماع منہ ای من التقلید علی ھذالان کلامنہاحجۃ شرعیۃ من الحجج الاربع وکذالیس منہ علی ھذا عمل العامی بقول المفتی وعمل القاضی بقول العدول لان کلامنہا وان لم یکن احدی الحجج فلیس العمل بہ بلاحجۃ شرعیۃ لایجاب النص اخذ العامی بقول العدول
التقریر والتحبیرفی علم الاصول
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث اوراجماع کو تسلیم کرنا تقلید اس لئے نہیں ہے کہ یہ حجج اربعہ شرعیہ میں سے ہے۔اورعامی کاعالم سے پوچھ کرعمل کرنا اورقاضی کاعادل گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنابھی تقلید نہیں ہے کیونکہ اس کوقرآن وحدیث نے واجب کیاہے۔
یہاں تک ابن امیرالحاج کی یہ عبارت تو زبیر علی زئی نے بھی نقل کی ہے لیکن اس سے آگے کا حصہ انہوں نے حذف کردیاحذف کا مقصد اورمنشاء بہت واضح ہے ۔
تنبیہ
علامہ ابن امیرالحاج یہاں ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اگرعامی کامفتی اورعالم سے سوال کرناتقلید نہیں ہے توپھر دنیا میں تقلید کاکہیں وجود ہی نہیں ہے۔کیونکہ مکلفین کی دوہی قسمیں ہیں۔مجتہد مقلد
ایک مجتہد ہے تودلائل شرعیہ سے معلوم کرلے گایہ شق تقلید کے دائرہ سے ہی خارج ہے اوراگر مقلد ہے تومفتی سے معلوم کرے گامفتی اگرخود مجتہد ہے تو اجتہاد کرکے بتادے گا اس صورت میں بھی یہ تقلید نہ ہوئی اوراگرمفتی خود مجتہد نہیں ہے تومجتہدین کاقول نقل کردے گا یہ شق بھی تقلید کے دائرہ سے باہر ہے تودنیا میں کہیں تقلید کا ظہور اوروجود رہاکہاں؟
بَلْ عَلَى هَذَا لَا يُتَصَوَّرُ تَقْلِيدٌ فِي الشَّرْعِ لَا فِي الْأُصُولِ وَلَا فِي الْفُرُوعِ فَإِنَّ حَاصِلَهُ اتِّبَاعُ مَنْ لَمْ يَقُمْ حُجَّةً بِاعْتِبَارِهِ، وَهَذَا لَا يُوجَدُ فِي الشَّرْعِ فَإِنَّ الْمُكَلَّفَ إمَّا مُجْتَهِدٌ فَمُتَّبِعٌ لِمَا قَامَ عِنْدَهُ بِحُجَّةٍ شَرْعِيَّةٍ، وَإِمَّا مُقَلِّدٌ فَقَوْلُ الْمُجْتَهِدِ حُجَّةٌ فِي حَقِّهِ فَإِنَّ اللَّهَ - تَعَالَى - أَوْجَبَ الْعَمَلَ عَلَيْهِ بِهِ كَمَا أَوْجَبَ عَلَى الْمُجْتَهِدِ بِالِاجْتِهَادِ فَلَوْ جَازَ تَسْمِيَةُ الْعَامِّيِّ مُقَلِّدًا جَازَ تَسْمِيَةُ الْمُجْتَهِدِ مُقَلِّدًا
التقریر والتحبیر علی تحریالکمال ابن الھمام3/340
غیرمقلدین کا نظریہ تقلید اوراحناف
اگرمجتہد کے اجتہاد کو مانناتقلید ہے تو روات پر کلام بھی محدثین کرام کے اجتہاد کانتیجہ ہواکرتی ہے اس کومانناتقلید کیوں نہیں ہے۔ اس کے تعلق سے کچھ نصوص یہاں ملاحظہ کیجئے۔
علم جرح وتعدیل اجتہادی اورظنی ہے
بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی لیکن اس کو واضح کرنااس لئے ضروری تھاکہ غیرمقلدین کے فکر ونظرکا دوہراپن کھل کر سامنے آسکے اورواضح ہوسکے کہ جس تقلید پر یہ لوگ کفر شرک کی گردان یاد کئے بیٹھے ہیں وہ توسرے سے تقلید ہی نہیں بلکہ نص اورحجت شرعیہ کی اتباع ہے۔
مسلم الثبوت فقہ حنفی کی ایک قابل قدر کتاب ہے اس میں تقلید پر گفتگوکرتے ہوئے کہاگیاہے کہ حدیث رسول کوتسلیم کرناتقلید نہیں ہے۔
فالرجوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوالی الاجماع فلیس منہ
مسلم الثبوت ص289
مسلم الثبوت کی شرح علامہ عبدالعلی جوبحرالعلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے فواتح الرحموت کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ مسلم الثبوت کی مذکورہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
فانہ رجوع الی الدلیل
یعنی کتاب وسنت اوراجماع کی جانب رجوع کرناتقلید اس لئے نہیں ہے کیونکہ وہ دلیل کی جانب رجوع ہے کیونکہ کتاب وسنت اوراجماع حجت شرعیہ ہیں۔
زبیر علی زئی کی خیانت
ان کی ایک علمی خیانت ماقبل میں ذکر کی جاچکی ہے۔ایک اورذکر کی جارہی ہے۔
بحرالعلوم یہ لکھنے کے بعد کہ اسی طرح عامی کا مفتی اورقاضی کا عادل گواہوں کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اس کو" نص "نے واجب کیاہے۔اس کو لکھنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ یہاں تک تو نص کا اقتضاء ہے کہ عامی اہل علم سے مسئلہ دریافت کرے لیکن اہل علم سے مسئلہ دریافت کرنے کے بعد عامی جوعمل کرے گااسی کوتقلید کہیں گے۔ عامی کوکوئی مسئلہ درپیش ہوا وہ کسی مفتی کے پاس گیا اورمسئلہ دریافت کیا۔ یہاں تک نص پرعمل ہےلیکن مسئلہ دریافت کرنے کے بعد وہ دلیل کی پرکھ کئے بغیر اس پرعمل کررہاہے یہی تقلید ہے۔
بحرالعلوم لکھتے ہیں۔
لیس ھذاالرجوع نفسہ تقلیداوان کان العمل بمااخذوابعدہ تقلیدا
عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنابذاتہ تقلید نہیں ہے لیکن رجوع کے بعد اس کے بتائے ہوئے پر عمل کرنا تقلید ہے۔
زبیرعلی زئی نے
وان کان العمل بمااخذوابعدہ تقلیدا
کا ترجمہ یہ کیاہے۔
اگرچہ بعدوالوں نے اس عمل کو تقلیدقراردیاہے۔
حالانکہ ترجمہ وہ صحیح ہے جو راقم الحروف نے ماقبل میں کیاہے یہ محض زبیر علی زئی کی دفع الوقتی ہے کیونکہ اس عبارت سے ان کی لکھی گئی کتاب"دین میں تقلید کا مسئلہ"کی بنیاد منہدم ہورہی ہے اس لئے انہوں نے ترجمہ ہی غلط کردیا۔جیسے بریلوی آیت کریمہ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَکاترجمہ یہ کرتے ہیں ۔تاکہ اللہ آپ کے اگلوں اورپچھلوں کے گناہ معاف کردے ،حالانہ صحیح ترجمہ آپ کے اگلے اورپچھلے گناہ ہیں۔
اسی طرح کشاف اصطلاحات الفنون کے مصنف قاضی محمد اعلیٰ تھانوی لکھتے ہیں۔
وعلی ھذافلایکون الرجوع الی الرسول علیہ الصلوٰۃ والسلام تقلیدالہ(2/1178)
اوراس بنیاد پر رسول پاک کی جانب رجوع(احادیث کو تسلیم کرنا)تقلید میں شمار نہیں ہوگا۔
کشف الاسرار میں ہے۔
وَلَيْسَ اتِّبَاعُ الْأُمَّةِ صَاحِبَ الْوَحْيِ وَلَا رُجُوعَ الْعَامِّيِّ إلَى قَوْلِ الْمُفْتِي وَلَا الْقَاضِي إلَى قَوْلِ الْعُدُولِ مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ(کشف الاسرار3/388)
اس طرح دیگر مولفین نے بھی اپنی کتابوں میں یہ بات صاف سیدھے انداز میں کہاہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مانناتقلید میں شمار نہیں کیاجاسکتاکیونکہ وہ دلائل اربعہ میں سے ہے۔