• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ ناصر الدين الباني رحمہ اللہ کی خدمات حديث

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
علامہ ناصر الدين الباني رحمہ اللہ کي خدمات حديث
از :محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

گزشتہ صدي عيسوي ميں سے 1999ء کا سال عالم اسلام کے ليے بالعموم، اور سلفی حضرات کے ليے بالخصوص عام الحزن ہے ۔ جس ميں يکے بعد ديگرے نامور اسلامی شخصيات اس جہان فاني سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقيقي کے پاس پہنچ گئيں ، اور عالم اسلام ان کے علم وفضل سے محروم ہو گيا ۔انا للہ وانا اليہ راجعون ۔

اسي سال داغ مفارقت دينے والے افراد ميں حضرت شيخ مصطفي زرقا ، شيخ مناع قطان ، شيخ عطيہ سالم ، شيخ علي طنطاوي ، مولانا محمد عبدہ الفلاح ، شيخ محمد عمر فلاتہ ، شيخ عبدالقادر حبيب اللہ سندھي ، شيخ علامہ عبدالعزيز بن باز اور آخر ميں محدث العصر حضرت علامہ شيخ الباني رحمہم اللہ سر فہرست ہيں. ان حضرات نے دين حنيف كى جس قدرخدمات انجام ديں ، كتاب وسنت كى تعليمات كو پھيلانے اور مردہ د لوں کو نورايمان سے منور کرنے کي جو سعي بليغ کي ، اس کي داستان نہايت طويل ہے۔ ان ميں بالخصوص شيخ ابن باز اور شيخ الباني کي خدمات کا دائرہ تو اتنا وسيع ہے کہ سفينہ چاہئيے اس بحرِ بے کراں کے ليے

زير نظر تحرير ميں ہم مؤخر الذكر حضرت شيخ البانى ( رح) كے منہج اور حديث نبوي كے حوالے سے ان كے ايك موقف كى وضاحت كريں گے ۔ انہوں نے گو ايک سو سے زائد کتابيں تصنيف كى ہيں اور ہر كتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے نادر تحقيقات پر مشتمل ہے، مگر ان ميں زيادہ مشہور كتب:
سلسلة الاحاديث الصحيحة
سلسلة الاحاديث الضعيفة
ارواء الغليل
صفة صلٰوة النبي صلى اللہ عليہ وسلم
صحيح الجامع الصغير
ضعيف الجامع الصغير
تمام المنة، غاية المرام
احكام الجنائز
تحذير الساجد
صحيح سنن ابي داود
اور
ضعيف سنن أبي داود
وغيرہ ہيں. حديث وسنت كے باب ميں ان كى سب سے بڑي كاوش يہ ہے كہ انہوں نے اس رجحان كى آبيارى كى كہ احكام ومسائل ميں صحيح اور حسن حديث كا ہي اہتمام كيا جائے ۔اسى طرح فضائل ومستحبات ميں بھي ضعيف پر اعتماد نہ كيا جائے ۔ اسى بنا پر انہوں نے ذخيرہ احاديث ميں سے صحيح اور ضعيف روايات كو چھانٹ كر ركھ ديا ۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة ، سلسلة الأجاديث الضعيفة ، صحيح الجامع الصغير ، ضعيف الجامع الصغير كے علاوه صحيح سنن أبي داود، ضعيف سنن أبي داود، صحيح الترمذي، ضعيف الترمذي، صحيح سنن النسائي، ضعيف سنن النسائي، صحيح سنن ابن ماجة ، صحيح الترغيب والترهيب، صحيح الادب المفرد، ضعيف الأدب المفرد، اور صحيح الكلم الطيب وغيرہ اسى سلسلة الذھب كى كڑياں ہيں ۔ ان كے صحت وضعف پر نقدو تبصرہ اہل علم كا حق ہے ، كيوں كہ شيخ البانى بھي انسان ہيں اور سہو وخطا سے كون انسان ہے جو محفوظ رہا ہو ؟ خود راقم الحروف نا چيز بھي كئى مقامات پر شيخ مرحوم سے متفق نہيں، ليكن اس كا يہ مطلب قطعا نہيں كہ چند ايسى خطاؤں كى بنا پر ان كى خدمات جليلہ كو ہدف تنقيد بنا ليا جائے اور محض معاصرانہ چشمک ميں بات كا بتنگڑ بنا ديا جائے ۔

مثلا : يہي ديكھيے كہ شيخ ابو غدة ، شيخ ابو عوامہ وغيرہ كو الصحيحة اور الضعيفة كى تقسيم وتفريق ہي نہيں بھائي ، جس كى تفصيل " أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" لاأبي عوامة اور " حواشي ظفر الأمانى " لأبي غدة ميں ديكھي جا سكتى ہے۔ ہم يہاں اس مسئلے ميں شيخ البانى ( رح) كے موقف كى وضاحت كرنا چاہتے ہيں ، اور بتانا چاہتے ہيں كہ ان كا يہ موقف نيا نہيں ۔ امام بخاري (رح) ، اور امام مسلم (رح) وغيرہ كا بھي يہي موقف تھا ۔چناں چہ موصوف فرماتے ہيں :

" ضعيف حديث پر مطلقا عمل نہ كيا جائے، نہ تو فضائل ومستحبات ميں اور نہ ان كے علاوہ كسى اور موقع پر ، كيوں كہ ضعيف حديث كے بارے ميں علماء كا اتفاق ہے كہ يہ ظن مرجوح كا فائدہ ديتى ہے ، لہذا جب اس كى يہ حيثيت ہے تو اس پر عمل كيوں كر جائز قرارد يا جاسكتا ہے ؟ كيوں كہ اللہ تعالى نے اپني كتاب كى بہت سى آيات ميں ظن كى مذمت بيان كى، چناں چہ فرمايا ہے : " بے شك جہاں يقين چاہئيے وہاں کوئي ظن كام نہيں آتا " ۔ نيز فرمايا :" وہ تو محض ظن كى پيروي کرتے ہيں " ۔ اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے كہ " ظن سے بچو، كيوں کہ ظن بہت جھوٹي بات ہے ۔ " ( بخاري ومسلم، مقدمة ضعيف الجامع: 45)
ضعيف حديث پر عمل نہ كرنے كى جو دليل اصولى طور پر علامہ البانى نے پيش كى ہے ، صحيح خبر واحد كو ظنى كہہ كر درخور اعتناء نہ سمجھنے والوں كے ليے باعث تامل ہے۔ ضعيف كى حيثيت تو ظن مرجوح كى ہے اور اس پر عمل بھى بقول حافظ ابن حجر اس شرط پر ممكن ہے كہ اس كے ثبوت كا اعتقاد نہ ہو، تا كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كى طرف ايسى چيز منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہيں کي ، چناں چہ ضعيف حديث پر عمل کے ليے شروط ثلاثہ كا ذ كر كرتے ہوئے آپ تيسرى شرط يہي بيان كرتے ہيں :
"ان لايعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي صلى الله عليه وسلم ما لم يقله ".
"اس پر عمل كرتے وقت اس كے ثابت ہونے كا يقين نہ رکھا جائے ، تا كہ نبي اكرم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف كوئى ايسى بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہيں فرمائى." (القول البديع: 258)

بلكہ خود حافظ ابن حجر كے الفاظ اس بارے ميں انتہائي غور طلب ہيں، لكھتے ہيں :
"يعنى شہر رجب كے بارے ميں اس كے كسى مخصوص دن روزہ ركھنے يا كسى رات قيام كى فضيلت ميں كوئى قابل استدلال روايت ثابت نہيں، ليكن مشہور ہے کہ اہل علم احاديث فضائل ميں تساہل سے کام ليتے ہيں ، اگر چہ وہ ضعيف ہي كيوں نہ ہوں ، الا يہ كہ وہ موضوع ہو ، ليكن اس كے ساتھ يہ شرط بھى ضرورى ہے كہ اس پر عمل كرنے والا اسے ضعيف سمجھے اور اسے شہرت نہ دے ۔ تا كہ كوئى شخص ضعيف پر عمل نہ كرے اور ايسے عمل كو مشروع نہ بنا لے جو شريعت نہيں ہے ، يا بعض بے خبر لوگ اسے سنت صحيحہ نہ سمجھنے لگيں ۔ اسى قسم كى تصريح استاد ابو محمد بن عبدالسلام وغيرہ نے بھي کي ہے اور انسان كو آں حضرت صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان کے تحت آ جانے سے بچنا چاہئيے کہ : " جو ميرى طرف سے حديث بيان كرتا ہے جسے وہ جھوٹي سمجھتا ہے تو وہ دو ميں سے ايک جھوٹا ہے ۔" جب جھوٹي روايت بيان کرنے پر ايسى وعيد ہے تو جو اس پر عمل كرے گا اس كا كيا حال ہو گا ؟ اور احكام يا فضائل ميں حديث پر عمل كرنے ميں كوئى فرق نہيں جب كہ ان سب كا تعلق شريعت سے ہے ۔"
(تبيين العجب: 8_9)

حافظ ابن حجر كے ان الفاظ سے دو باتيں نكھر كر سامنے آتى ہيں :
1 _ دينى احكام كا تعلق احكام سے ہو يا فضائل سے وہ بہرنوع دين ہيں ۔
2 _ ضعيف روايت پر عمل کو شہرت نہ دي جائے، تا كہ دين سے بے خبر لوگ اس پر عمل کو سنت نہ سمجھنے لگيں يا اس پر عمل كو شريعت نہ بنا ليں ۔ ۔۔۔

سوال يہ ہے کہ ضعيف حديث پر فضائل ميں عمل کر لينے کے موقف کو اپنانے کے بعد علمائے امت نے ان شرائط کو ملحوظ رکھا ؟ قطعا نہيں ۔ بلکہ اس کے دائرے کو اس قدر وسيع کر ديا کہ فضائل اعمال ميں موضوع ( بناوٹي ) احاديث تک کو قبول کر ليا گيا ۔ چناں چہ ايک حديث يوم عرفہ کي فضيلت ميں ان الفاظ سے مروي ہے :
أفضل الأيام يوم عرفة إذا وافق يوم الجمعة فهو أفضل من سبعين حجة ۔
" يوم عرفہ جمعہ كے روز ہو تو وہ سب دنوں سے افضل ہے ۔( اسے رزين نے روايت كيا ہے) . اسى روايت كے بارے ميں ملا على قارئ (رح) فرماتے ہيں : "

اور يہ جو محدثين نے اس كى سند كے بارے ميں ذكر كيا ہے كہ وہ ضعيف ہے تو اسے صحيح تسليم كر لينے سے بھي مقصود پر کوئي حرف نہيں آتا ، کيوں کہ ضعيف حديث فضائل اعمال ميں معتبر ہے ۔" ( الاجوبہ الفاضلہ : 37) باعث تعجب ہے کہ علامہ لكھنوي نے بھي ملا على قارى كى خاموش تائيد ہي کي ہے ، حالاں كہ امر واقع يہ ہے کہ يہ روايت صرف ضعيف ہي نہيں، بلكہ باطل محض ہے ۔علامہ ابن قيم (رح) رقم طراز ہيں :

وأما ما استفاض على ألسنة العوام بأنها تعدل سبعين حجة فباطل لا أصل له عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من الصحابة والتابعين ۔
" لوگوں كى زبان پر يہ جو مشہور ہے کہ جمعہ كا روز كا حج بہتَّر (72) حج كرنے كے برابر ہے تو يہ باطل ہے ، اس كى كوئى سند رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں بلكہ كسى صحابى سے ، نہ ہي كسى تابعي سے اس كى كوئى بنياد ثابت ہے ۔" ( زاد المعاد: 65/1، مطبوعہ مؤسسہ الرسالہ)

ملاحظہ فرمايا آپ نے، كہ اس بے اصل روايت كو بھي فضائل اعمال كے معروف اصول كى بنا پر قبول كر ليا گيا ۔ اس نوعيت کي روايات كو يہاں جمع كيا جائے تو يہ مختصر مضمون طويل ہو جائے گا ۔ بلا شبہ علامہ ابن ھمام (رح) اور انہي كى پيروى ميں بہت سے علماء نے كہا ہے كہ ضعيف حديث سے استحباب ثابت ہوتا ہے ، مگر قابل غور بات يہ ہے کہ کيا استحباب احكام شرعيہ ميں سے ہے يا نہيں ؟ علم اصول فقہ ميں احكام خمسہ يوں ہيں : فرض، مستحب، جائز، مكروہ اور حرام ۔۔۔ علامہ عبد الحي لكھنوي نے علامہ ابن ھمام كى رائے كے ساتھ ساتھ محقق جلال الدين الدوانى سے اس كے برعكس يہ بھي نقل کيا ہے :

اتفقوا على أن الحديث الضعيف لا يثبت به الأحكام الخمسة الشرعية ۔ ( الأجوبة الفاضلة : 56)
"سب كا اتفاق ہے كہ حديث ضعيف سے شريعت كے احكام خمسہ ثابت نہيں ہوتے ۔"

اور ان ہي احكام خمسہ ميں ايك مستحب بھي ہے ، لہذا جب استحباب كا درجہ بھي شريعت كے احكام ميں شامل ہے تو كيا اس كو ضعيف حديث سے ثابت كر لينا
شرعوا لهم من الدين ما لم يأذن به الله...... (سورة الشورى : الآية 21)
( ترجمہ: وہ ان كے ليے ايسي چيزيں شريعت بنا ديتےہيں جس کي اللہ نے اجازت نہيں دي)
كے زمرے ميں نہيں آتا ؟ اسي کے بارے ميں حافظ ابن حجر نے فيشرع ما ليس بشرع کے الفاظ سے اشارہ كيا ہے ۔ ضعيف حديث پر عمل تو محض ظن مرجوح پر مبنى ہے ۔ ظن غالب يا ظن صحيح اس كى بنياد نہيں ۔ ايسى صورت ميں جب کہ كسي چيز كے ثبوت ميں اشتباہ ہو تو وہاں بھي اس عمل كو چھوڑ دينا راجح قرار ديتے ہيں ۔ اسى طرح جہاں ظن مرجوح اور شريعت كى تشريح كا پہلو ہو تو احتياط كا تقاضا ہے کہ اسے چھوڑ ديا جائے ۔ بالخصوص جب كہ اس اصول كى آڑ ميں بہت سي بے اصل روايات كو بھي قابل اعتناء سمجھا گيا ہو اور بہت سي بدعات کو اس سے سہارا دے ديا گيا ہو ۔ شيخ الاسلام حافظ ابن تيميہ (رح) اسى مسئلے كى وضاحت كرتے ہوئے لکھتے ہيں : " يہ جائز نہيں كہ شريعت ميں ضعيف احاديث پر اعتماد كيا جائے جو نہ صحيح ہيں اور نہ ہي حسن ہيں ۔ ليكن امام احمد (رح) وغيرہ نے کہا ہے کہ جب کسي حديث کا جھوٹا ہونا ثابت نہ ہو اور اس كا صحيح ہونا بھي معلوم نہ ہو تو فضائل اعمال ميں اسے بيان كرنا جائز ہے ۔ يہ اس ليے كہ جب دليل شرعى سے كسى عمل كا مشروع ہونا ثابت ہو اور اس كى فضيلت ميں ايسى حديث ہو جو جھوٹي نہ ہو تو اس كا حق ہونا جائز ہے اور يہ تو کسي امام نے نہيں کہا کہ ضعيف حديث سے كسى چيز کو واجب اور مستحب قرار ديا جا سكتا ہے جس نے بھي يہ کہا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى ہے ۔" ( القاعده الجليلہ: 84)

شيخ الاسلام ابن تيميہ نے ايك دوسرے مقام پر بڑي تفصيل سے اس مسئلے پر بحث كى ہے جو ان كے مجموع فتاوي كى (جلد 18، صفحہ 65_ 68) پر ديکھي جا سكتى ہے جس ميں انہوں نے فرمايا ہے كہ استحباب حكم شرعى ہے جو دليل شرعى سے ہي ثابت ہو سكتا ہے اور جو بغير دليل شرعى كے خبر ديتا ہے كہ اللہ تعالى كو فلاں عمل محبوب ہے تو وہ دين ميں ايسا طريقہ مشروع قرارديتا ہے جس كى اجازت اللہ سبحانہ وتعالى نے نہيں دي ۔ شيخ البانى نے مقدمہ صحيح الترغيب والترھيب ( ص 28_ 31) ميں شيخ الاسلام كى يہ مكمل عبارت نقل كى ہے اور اس كے بعد علامہ ابو اسحاق شاطبى كى معروف كتاب الاعتصام ( ج1، ص 249) سے اس كى مزيد تائيد تفصيلا نقل كى ہے ، جس كا خلاصہ يہي ہے کہ بدعات كے رسيا ، ضعيف اور واہي احاديث سے اپني بدعات کو سہارا ديتے ہيں کہ " فضائل اعمال ميں ضعيف احاديث قابل قبول ہيں " ۔ نيز حديث ضعيف سے استحباب ثابت نہيں ہوتا ، کيوں کہ استحباب احكام شرعيہ ميں سے ايك حكم ہے اور وہ صحيح حديث سے ہي ثابت ہوتے ہيں ضعيف سے نہيں ۔ شريعت ميں كوئى حكم ثابت ہو تو اس كى فضيلت ميں ترغيب وترہيب كے طور پر ضعيف روايات ميں تساہل قابل برداشت ہے ۔ يوں نہيں كہ شرعي حكم كى بنياد ہي ترغيب وترہيب پر رکھي جائے ۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ اور علامہ شاطبى كے علاوہ امام يحيى ابن معين ، امام بخاري، امام مسلم ، علامہ ابن العربي، علامہ ابن حزم كا بھي يہي موقف ہے جيسا كہ جمال الدين القاسمى نے قواعد التحديث ( ص94) ميں نقل كيا ہے اور يہي موقف علامہ الباني كا ہے ۔ الباعث الحثيث (ص 101) كے حواشى ميں علامہ احمد شاكر نے بھي يہي موقف اختيار كيا ہے ، علامہ البانى نے اسى سلسلے ميں امام ابن حبان(رح) كا كلام ان كى كتاب المجروحين كے مقدمے سے تمام المنہ ( ص 33، 34) ميں اور امام مسلم كا كلام مقدمہ صحيح الترغيب والترہيب (ص 26) ميں درج كيا ہے ۔ امام ابو شامہ تو يہاں تك لكھتے ہيں : " اب كسى مسلمان عالم كے ليے درست نہيں كہ صحيح كے علاوہ ضعيف اور نا قابل اعتبار روايت ذكر كرے تا كہ كہيں وہ دونوں جہان ميں اس رسوائي اور بد بختى كا مصداق نہ ہو جائے جو سيد الثقلين صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمائى ہے كہ جس نے بھي ميرى طرف سے ايسى حديث بيان كى جسے وہ جھوٹي خيال كرتا ہے تو وہ دو ميں سے ايك جھوٹا ہے "۔( الباعث على انكار البدع والحواد ث : 237) مولانا عبد الحي لكھنوي ( رح) نے الاجوبہ الفاضلہ اور ظفرالامانى ميں اس موضوع پر تفصيلا بحث كى ہے ، اور محقق جلال الدين الدوانى كا كلام ان كے رسالہ " انموذج العلوم " سے نقل كيا ہے جس سے ضعيف حديث سے استحباب كے ثبوت كى حيثيت واضح ہوجاتى ہے ، جس ميں خلاصہ كلام كے طور پر آخر ميں لكھتے ہيں : " فلم يثبت شيئ من الأحكام بالحديث الضعيف شبهة الاستحباب فصار الاحتياط أن يعمل بہ واستحباب الاحتياط معلوم عن قواعد الشرع" ۔انتھي ( الأجوبة: 59، ظفرالأماني: ص 193) " ضعيف حديث سے كوئى حكم ثابت نہيں ہوتا ، البتہ ضعيف حديث نے استحباب كا شبہ پيدا کيا ہے ، لہذا احتياط اسى ميں ہے كہ اس پر عمل كيا جائے ، كيوں كہ احتياطا استحباب پر عمل شريعت كے قواعد ميں معلوم ومعروف ہے ۔" گويا ضعيف حديث سے استحباب كا محض شبہ ہوتا ہے اور احتياطا اس پر عمل كو اختيار كيا گيا ہے ، مگر اس شبہے كا ازالہ علامہ البانى کے كلام ميں پہلے گزر چکا كہ ضعيف حديث پر عمل ظن مرجوح كى بنياد پر ہے ، جس كى پيروي كا ہميں اللہ تعالي نے حكم ہي نہيں ديا اور يہاں شبہ استحباب پر احتياطا عمل كى بجائے دوسرا پہلو بھي برابر کا ہے كہ في الحقيقت يہ فضيلت نہ ہو تو ايسى صورت ميں يہ اپني طرف سے ايك عمل شريعت بنا دينے كے مترادف ہے ، ان دونوں صورتوں ميں احتياط تو ترك ميں ہے نہ کہ اس پر عمل كرنے ميں جيسا كہ اس كى وضاحت ہم پہلے کر چکے ہيں ۔ سخت حيرت كى بات ہے کہ يہ اصول بنانے والوں نے تو اس سلسلے ميں ايك روايت ہي بنا ڈالي ، چناں چہ علامہ ابن حجر الہيثمى (رح) اس دعوى كہ" فضائل ميں ضعيف حديث پر عمل بالاتفاق جائز ہے " كے بعد فرماتے ہيں كہ ايك ضعيف حديث ميں ہے : "من بلغه عنى ثواب عمل فعمله حصل له أجر وإن لم أكن قلته أو كما قال" ۔( الأجوبة : ص 42) " جسے ميرى طرف سے كسى عمل پر ثواب ہونے كا علم ہو پھر وہ اس پر عمل کرے ، اسے اس عمل كا اجرو ثواب ملے گا ، اگر چہ ميں نے وہ بات کہي نہ ہو ۔" ليجيے اس موقف پر بلكہ كہئيے كہ فضيلت عمل ميں ضعيف حديث پر عمل كے ليے ضعيف حديث بھي موجود ہے، لہذا اب اس كا انكار كيسے ؟ ۔۔۔۔۔حالانکہ ان الفاظ كے ساتھ ذخيرہ احاديث ميں كوئى حديث منقول نہيں ! حتى كہ كتب ضعفاء وموضوعات ميں بھي نہيں ! جيسا كہ اس كے حاشيے ميں شيخ ابو غدہ (رح) نے وضاحت كر دى ہے ۔ مگر ديکھا آپ نے ؟ اسے ضعيف كہہ کر فضائل اعمال ميں اسے بھي قبول كر ليا گيا اور بہت سي بدعات اور مخصوص نمازيں اسى قسم كى ضعيف احاديث سے ہي رائج ہيں اور رائج رہي ہيں ۔ جيسا كہ علامہ شاطبى وغيرہ نے كہا ہے ، بلا شبہ اكثر اہل علم کي رائے يہي ہے ، مگر جس احتياط كى بنياد پر استحبابا عمل جائز قرار ديا گيا اس ميں احتياط كا تقاضا تو اس پر عمل نہ كرنے کا ہے ۔ عمل كرنے کا نہيں ۔ اسى بنا پر علامہ البانى نے اس موقف كو اختيار كيا اور الصحيحہ اور الضعيفہ كى بنياد پر احاديث كى حيثيت بيان كرنے اور اس كى صحت وضعف كو واضح كرنے ميں عمرِ عزيز صرف كردى ۔ اللہ تعالى ان كى كوشش كو قبول فرمائے اور جوئندگان راہِ حق كے ليے مشعلِ راہ بنائے ۔ خود ان كا اپنا بيان ہے : إننا ننصح إخواننا المسلمين في مشارق الأرض ومغاربها أن يدَعوا العمل بالأحاديث الضعيفة مطلقا وأن يوجهوا همتهم إلى العمل بما ثبت منها عن النبي صلى الله عليه وسلم ففيها ما يغني عن الضعيفة ۔ الخ ( ضعيف الجامع:ج1، ص 51) يعنى : " ہم مشرق ومغرب ميں بسنے والے اپنے مسلمان بھائيوں کو نصيحت کرتے ہيں کہ وہ مطلقا ضعيف احاديث پر عمل كرنا چھوڑ ديں اور اپني ہمت ان احاديث پر عمل كرنے کے ليے مرتكز ركھيں جو نبي کريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہيں ۔ وہ صحيح احاديث ہميں ضعيف احاديث سے بے نياز کر ديتي ہيں ۔" اسى جذبہ صادقہ نے امام بخاري (رح) كو الجامع الصحيح لکھنے پر مجبور کيا ۔ بعض ديگر محدثين نے بھي انہي کي پيروي کي اور انہي كے نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ محمد ناصر الدين البانى نے الصحيحہ اور الضعيفہ كو الگ الگ جمع كرنے کي کوشش کي ۔ الصحيحہ ميں صحيح، صحيح لغيرہ اور حسن ، حسن لغيرہ كا ، اور الضعيفہ ميں ضعيف ، ضعيف جدا ، شاذ ، منكر ، باطل ، موضوع ، لا أصل لہ ، لا يصح ، لا أصل لہ مرفوعا وغيرہ كا درجہ و مرتبہ با دليل بيان كيا ۔ ان كى اس تحقيق سے اختلاف ممكن ہے ، ليكن ان كى اس صائب فكر اور اس قابل قدر كوشش كو تنقيص كى نظر سے ديکھنا كوئى خدمت اور مستحسن رويہ نہيں ۔ بدعت كے اس دور ميں سلامتى كى راہ وہي ہے جو علامہ البانى (رح) اور ان كے پيش رو حضرات نے اختيار كى ہے ۔ سنت كى پيروي بدعت ميں اجتہاد سے بہر نوع بہتر ہے ۔ اللہ تعالى ہميں صحيح احاديث پر عمل كرنے كى توفيق بخشے اور بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے ۔ آمين ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
Top