• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم کس سے حاصل کیا جائے؟ سلف کا منہج کیا تھا؟

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
اسلام علیکم
علم کس سے حاصل کیا جائے؟ سلف کا منہج کیا تھا؟

میں ایک بہت ہی اہم پوسٹ شروع کر رہا ہوں جس میں سب بھائیوں اور خاص کر علماء اکرام سے درخواست ہے کہ حصہ ڈالیں۔ کیوں کے اجکل باقیوں کی بات تو بعد میں اہل حدیثوں کو ہی ان باتوں کا علم نہیں ہوتا۔

اس میں ان سوالوں پر بات کریں جو نیچے لکھے گئے ہیں اور پوسٹ کو زیادہ طول سے بچانے کے لیے اور خالص علمی مضمون بنانے کے لیے آپ کیا سوچتے ہیں یہ لکھنے سے پرہیز کریں صرف قرآن ، حدیث اور سلف سے باتیں لکھیں اور حوالہ ضرور لکھیں

1۔کیا علم کسی سے بھی حاصل کیا جا سکتاہے؟
2۔ کیا کسی بھی دائی کا تزکیہ علماء سے ہونا ضروری ہے؟
3۔ کیا کوئی بھی کتابیں پڑھ کر علماء سے سیکھے بغیر دائی بن جاے تو کیا اس سے علم لینا سہی ہے؟
4۔ کیا یہ حدیث پیش کر کہ " ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شیطان نے آیت الکرسی سکھلائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کر دی تھی" لوگوں کو یہ کہنا کے کسی سے بھی علم لیا جا سکتا ہے؟ کس حد تک سہی ہے؟
5۔ کیا محدثین نے کسی استاد سے اجازہ کے بغیر بھی روایت کیا ہے؟
6۔ کسی مجہولل ہال جو کے ظاہر میں قرآن سنت پر ہی لگتا ہو لیکن ہو مجہول اس سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے؟

اگر اس سے ریلیٹڈ سوال علماء کے زہن میں ہوں تو ایڈ کر سکتے ہیں۔

اور ایک دفعہ پھر میری علماء سے درخواست ہے کے وہ ادھر خصوصی توجہ دیں کیوں کے اجکل بہت سے نکل آئے ہیں جو نام تو ٖقرآن و سنت کا لیتے ہیں لیکن دوسروں کو سبیل المومنین کی راہ سے دور کر دیتے ہیں۔ اور جب اپنے بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ ذیادہ تر پوانٹ 4 کو پیش کر تے ہیں۔

جزاک اللہ خیر
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
1۔کیا علم کسی سے بھی حاصل کیا جا سکتاہے؟
6۔ کسی مجہول الحال جو کہ ظاہر میں قرآن سنت پر ہی لگتا ہو لیکن ہو مجہول اس سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

1. علم ہر کس وناکس سے نہیں اخذ کیا جا سکتا۔ ہر منطلق لسان شخص اور کچھ نصوص کو پڑھ یا یاد کرنے والے سے تحصیل علم صحیح نہیں۔
سیدنا حسن بصری فرمایا کرتے تھے:
إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم
کہ علم، دین ہے تو تم دیکھو کہ تم کس سے اپنا دین حاصل کرتے ہو؟

علم صرف ایسے لوگوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے جو تقویٰ، استقامت، ورع اور صحیح عقیدہ وسلیم منہج سے متّصف ومعروف ہوں۔ کسی بدعتی اور فاسق شخص سے کسی طور علم حاصل کرنا جائز نہیں ہے کہ کیا پتہ کہ وہ ہمیں لا علمی میں بدعات وخرافات میں مبتلا کر دیں؟

نبی کریمﷺ نے فرمایا:
إنَّ من أشراطِ الساعةِ أنْ يُلتمسَ العلمُ عند الأصاغرِ
الراوي: أبو أمية الجمحي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2207

قیامت کی نشانیوں میں یہ ہے کہ چھوٹے (بدعتی یا لا علم) لوگوں سے علم تلاش کیا جائے۔

سیدنا ابن مسعود﷜ فرماتے ہیں:
لا يزالُ الناسُ بخيرٍ ما أخذُوا العلمَ عن أكابرِهم فإذا أخذُوه من أصاغرِهم وشرارِهم هلَكوا
الراوي: - المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2/310
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح خلاصة حكم المحدث: صحيح

لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے جب تک وہ اپنے بڑھوں سے علم حاصل کریں۔ جب وہ اپنے چھوٹوں اور برے لوگوں سے علم حاصل کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔

نیز سیدنا ابن مسعودؓ نے فرمایا:
لا يزال الناس مشتملين بخير ما أتاهم العلم من أصحاب محمد ﷺ ومن أكابرهم، فإذا أتاهم العلم من قبل أصاغرهم، وتفرقت أهواؤهم؛ هلكوا
کہ لوگ خیر پر رہیں گے جب تک وہ صحابہ کرام﷢ اور اپنے بڑوں سے علم حاصل کرتے رہیں۔ جب ان کے پاس اپنے چھوٹوں سے علم آئے گا اور ان کی خواہشات مختلف ہوجائیں گی (خواہشات کے پیچھے پڑ کر اختلاف کریں گے) وہ ہلاک ہوجائیں گے۔

امام مالک نے ایک آدمی سے کہا:
اطلب هذا الأمرمن عند أهله

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

يكتب الحديث عن الناس كلهم إلا عن ثلاثة: صاحب هوى يدعو إليه، أو كذاب، أو رجل يغلط في الحديث فيرد عليه فلا يقبل
تین قسم کے لوگوں کے سوا ہر ایک سے احادیث لکھی جا سکتی ہیں: 1. بدعتی شخص جو اپنی بدعت کی طرف دعوت بھی دیتا ہو۔ 2. جھوٹا شخص 3. وہ شخص حدیث میں غلطی کرے پھر جب وہ اسے دوبارہ پیش کی جائے تو نہ مانے (کہ میں نے یہ حدیث بیان کی تھی)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا:
إنما يفسد الدنيا ثلاثة أنصاف نصف فقيه، نصف طبيب، نصف نحوي. فنصف الفقيه يفسد الدين، ونصف الطبيب يفسد الأبدان، ونصف النحوي يفسد اللسان.
کہ دنیا کو تین ادھورے لوگ خراب کر دیتے ہیں: نصف فقیہ، نصف حکیم، نصف نحوی۔ نیم فقیہ دین خراب کر دیتا ہے، نیم حکیم جسم خراب کر دیتا ہے جبکہ نیم نحوی زبان خراب کر دیتا ہے۔

2۔ کیا کسی بھی دائی کا تزکیہ علماء سے ہونا ضروری ہے؟
عوام کسی داعی کے تقویٰ، للہیت وغیرہ کے متعلق ظاہری طور پر تھوڑا بہت علم رکھ سکتے ہیں لیکن عقیدہ ومنہج کی سلامتی سے متعلق تو علمائے کرام ہی بتائیں گے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
3۔ کیا کوئی بھی کتابیں پڑھ کر علماء سے سیکھے بغیر دائی بن جاے تو کیا اس سے علم لینا سہی ہے؟
5۔ کیا محدثین نے کسی استاد سے اجازہ کے بغیر بھی روایت کیا ہے؟
ایک شخص کیلئے کتب کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے جب وہ بنیادی علوم (قرآن کریم وعلومہ، حدیث واصولہ، فقہ واصولہ، نحو، صرف بلاغت وغیرہ وغیرہ) باقاعدہ علماء ومدارس سے حاصل کر چکا ہو۔

لیکن اگر بنیادی علم حاصل کیے بغیر صرف کتب سے استفادہ کیا جائے تو یہ چیز نہایت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایک نص پڑھ لے اسے اسی موضوع پر دوسری نص کا علم نہ ہو جو پہلی کی ناسخ یا تقیید وتخصیص کرنے والی ہو۔

مثلاً قرآن کریم میں شفاعت کا مسئلہ مختلف آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ مطلق سفارش کا ردّ کیا گیا ہے ﴿ يأيها الذين ءامنوا أنفقوا مما رزقنكم من قبل أن يأتي يوم لا بيع فيه ولا خلة ولا شفاعة ﴾ اور بعض جگہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہو گی تو صرف کتب سے علم حاصل میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ ایک چیز بعض مرتبہ مطالعہ میں آجاتی ہے اور دوسری چیز مطالعہ میں نہیں آتی۔ یا وہ دو بظاہر متعارض نصوص پڑھتا ہے اسے ان کے مابین تطبیق وغیرہ کا علم نہیں ہوتا تو اپنے طور پر الٹے سیدھے صغرے کبرے ملا کر غلط سلط عقیدہ بنا لیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

موسیٰ بن یسار فرماتے ہیں:
لا تأخذوا العلم إلا من أفواه العلماء
علم علماء سے مشافہتاً حاصل کرو۔

نیز فرمایا:
الذي يأخذ العلم من الكتب يقال له الصحفي والذي يأخذ القرءان من المصحف يقال له مصحفي
کہ جو شخص (صرف) کتابوں سے علم حاصل کرے اسے ’صحفی‘ کہا جاتا ہے اور جو قرآن کریم (قراء سے مشافہۃ سیکھنے کی بجائے) مصحف سے سیکھے اسے ’مصحفی‘ کہا جاتا ہے۔

سعید تنوخی فرماتے ہیں:
کہا جاتا تھا کہ ’صحفی‘ سے علم حاصل نہ کرو اور نہ ’مصحفی‘ سے قرآن سیکھو۔

4۔ کیا یہ حدیث پیش کر کہ " ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شیطان نے آیت الکرسی سکھلائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کر دی تھی" لوگوں کو یہ کہنا کے کسی سے بھی علم لیا جا سکتا ہے؟ کس حد تک سہی ہے؟
میری ناقص رائے میں تحصیل علم ایک الگ چیز ہے اور کسی سے اکّا دُکّا کوئی ایسی بات، جو کتاب وسنت کے موافق ہو، لے لینا ایک الگ چیز!
یہ حدیث مبارکہ دوسری صورت سے متعلق ہے۔ اگر کوئی فاسق وفاجر شخص ہمیں کوئی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ بتائے گا تو کیا اسے قبول نہیں کیا جائے گا؟؟؟

ویسے بھی آیۃ الکرسی اصلاً شیطان پر نازل نہیں ہوئی تھی، بلکہ نبی کریمﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام﷢ کو پڑھائی سکھائی تھی۔ شیطان جب پھنس گیا تو جان چھڑانے کیلئے اس کا ایک فائدہ بتایا، وہ بھی اس وقت تک ہمارے لئے حجت نہیں بنا جب تک نبی کریمﷺ نے «صدقك وهو كذوب» فرما کر اس کی تائید نہیں فرمادی۔

گویا اس قسم کے اقوال زریں کی اہمیت بھی اسی وقت ہوگی، جب کتاب وسنت ان کی تائید کریں گے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سیدنا حسن بصری فرمایا کرتے تھے:
إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم
کہ علم، دین ہے تو تم دیکھو کہ تم کس سے اپنا دین حاصل کرتے ہو؟


نیز سیدنا ابن مسعودؓ نے فرمایا:
لا يزال الناس مشتملين بخير ما أتاهم العلم من أصحاب محمد ﷺ ومن أكابرهم، فإذا أتاهم العلم من قبل أصاغرهم، وتفرقت أهواؤهم؛ هلكوا
کہ لوگ خیر پر رہیں گے جب تک وہ صحابہ کرام﷢ اور اپنے بڑوں سے علم حاصل کرتے رہیں۔ جب ان کے پاس اپنے چھوٹوں سے علم آئے گا اور ان کی خواہشات مختلف ہوجائیں گی (خواہشات کے پیچھے پڑ کر اختلاف کریں گے) وہ ہلاک ہوجائیں گے۔

امام مالک نے ایک آدمی سے کہا:
اطلب هذا الأمرمن عند أهله

ترجمہ بھی لکھ دیں جزاک اللہ خٰیر۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

يكتب الحديث عن الناس كلهم إلا عن ثلاثة: صاحب هوى يدعو إليه، أو كذاب، أو رجل يغلط في الحديث فيرد عليه فلا يقبل
تین قسم کے لوگوں کے سوا ہر ایک سے احادیث لکھی جا سکتی ہیں: 1. بدعتی شخص جو اپنی بدعت کی طرف دعوت بھی دیتا ہو۔ 2. جھوٹا شخص 3. وہ شخص حدیث میں غلطی کرے پھر جب وہ اسے دوبارہ پیش کی جائے تو نہ مانے (کہ میں نے یہ حدیث بیان کی تھی)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا:
إنما يفسد الدنيا ثلاثة أنصاف نصف فقيه، نصف طبيب، نصف نحوي. فنصف الفقيه يفسد الدين، ونصف الطبيب يفسد الأبدان، ونصف النحوي يفسد اللسان.
کہ دنیا کو تین ادھورے لوگ خراب کر دیتے ہیں: نصف فقیہ، نصف حکیم، نصف نحوی۔ نیم فقیہ دین خراب کر دیتا ہے، نیم حکیم جسم خراب کر دیتا ہے جبکہ نیم نحوی زبان خراب کر دیتا ہے۔

موسیٰ بن یسار فرماتے ہیں:
لا تأخذوا العلم إلا من أفواه العلماء
علم علماء سے مشافہتاً حاصل کرو۔
نیز فرمایا:
الذي يأخذ العلم من الكتب يقال له الصحفي والذي يأخذ القرءان من المصحف يقال له مصحفي
کہ جو شخص (صرف) کتابوں سے علم حاصل کرے اسے 'صحفی' کہا جاتا ہے اور جو قرآن کریم (قراء سے مشافہۃ سیکھنے کی بجائے) مصحف سے سیکھے اسے 'مصحفی' کہا جاتا ہے۔
سعید تنوخی فرماتے ہیں:
کہا جاتا تھا کہ 'صحفی' سے علم حاصل نہ کرو اور نہ 'مصحفی' سے قرآن سیکھو۔
مہربانی کر کے ان اقوال کے حوالہ جات بھی بتا دیں۔ حوالہ جات بہت ضروی ہیں۔ جزاک اللہ خیر

اور میں نے علماء کے دروس میں اور بھی کافی اقوال سنیں ہیں لیکن کیوں کے میرے پاس حوالہ جات نہیں ہیں میں کسی کو وہ پیش نہیں کر سکتا ان میں سے کچھ درج کر دیتا ہوں اگر کسی کو ان اقوال کے حوالہ جات مل جاہیں تو ضرور بتاہیں
-امام مالک رحم اللہ کا قول ہے کے مجھے جبتک 70 استازہ سے اجازاہ نہیں مل گئی میں نے درس حدیث (یا فتوہ دینا) نہیں شروع کیا۔ (یے میں نے میرا خیال ہے شیخ جلال دین قاسمی کے ایک درس میں سنا تھا)

-سلف میں سے کسی کا قول ہے کے مجھےڈر ہے کے لوگ کتابوں سے علم لینا شروع کر دیں گے اور علماء سے دور ہو جائیں گے۔

اور جو آپ نے اقوال نقل کیے ہیں اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہوں گے تو باقی اہل علم سے بھی گزارش ہے کے حصہ ڈالیں۔

ایک سوا ل اور اٹھتا ہے کہ
اب ان اقوال کو ہم اپنے ہم مسلک کو تو پیش کر سکتے ہیں لیکن اہل بدعہ بھی اپنے علماء کو علماءٰ ربانین سمجھتے ہیں تو کیسے پتا چلے گا کے کن علماٰء سے علم حاصل کیا جائے اس پر بھی روشنی ڈالیں۔

جزاک اللہ خیر۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته

وَمَا كَانَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا۟ كَآفَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا۟ فِى ٱلدِّينِ وَلِيُنذِرُوا۟ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
(سورة التوبة ،آية 122)
اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں.



صحيح بخاري ،باب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا، يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‏"‏‏.

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔

« مَن سَلَكَ طَرِيقًا يَطلُبُ فيه عِلمًا سَلَكَ الله بِهِ طَرِيقًا مِن طُرُقِ الجَنَّةِ ، وَإِنَّ المَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ العِلمِ ، وَإِنَّ العَالِمَ لَيَستَغفِرُ لَهُ مَن في السَّماواتِ وَمَن في الأرض وَالحِيتَانُ في جَوفِ المَاءِ ، وَإِنَّ فَضلَ العَالِمِ على العَابِدِ كَفَضلِ القَمَرِ لَيلَةَ البَدرِ على سَائِرِ الكَوَاكِبِ ، وَ إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنبِيَاءِ وَإِنَّ الأَنبِيَاءَ لم يُوَرِّثُوا دِينَارًا ولا دِرهَمًا وَرَّثُوا العِلمَ فَمَن أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ»

جو عِلم حاصل کرنے والے راستے پر چلا اللہ اُسے جنّت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور بے شک فرشتے طالب عِلم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں ، اور آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے ، اور (حتیٰ کہ ) پانی کے اندر مچھلیاں بھی عالِم کے لیے بخشش کی دُعا کرتے ہیں ، اور بے شک عالِم کی فضیلت عابِد پر اُسی طرح ہے جِس طرح تمام تر ستاروں پر چاند کی ہے ، اور بے شک " عُلماء " نبیوں کے وارث ہیں اور بے شک نبی وراثت میں کوئی دِینار اور درھم نہیں چھوڑتے بلکہ عِلم چھوڑتے ہیں ، لہذا جو کوئی یہ وراثت حاصل کرے تو بہت زیادہ حاصل کرے

[صحیح ابن حبان / حدیث 88 /کتاب العِلم / باب 28 ، سنن ابن ماجہ/ حدیث 223 / بَاب فَضلِ العُلَمَاءِ وَالحَثِّ على طَلَبِ العِلمِ ، سنن ابو داؤد /حدیث 3641 /کتاب العلم / باب 1 ، (حدیث صحیح ہے )]



المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْحاءِ » بَابُ مَنِ اسْمُهُ حَمْزَةُ »

رقم الحديث: 3043
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ ، ثنا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ أَبُو أُمَيَّةَ الْحَرَّانِيُّ ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ صَدَقَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حِزَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّكُمْ قَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَانٍ كَثِيرٍ فُقَهَاؤُهُ ، قَلِيلٍ خُطَبَاؤُهُ ، كَثِيرٍ مُعْطُوهُ ، قَلِيلٍ سُؤَّالُهُ ، الْعَمَلُ فِيهِ خَيْرٌ مِنَ الْعِلْمِ ، وَسَيَأْتِي زَمَانٌ قَلِيلٌ فُقَهَاؤُهُ ، كَثِيرٌ خُطَبَاؤُهُ ، كَثِيرٌ سُؤَّالُهُ ، قَلِيلٌ مُعْطُوهُ ، الْعِلْمُ فِيهِ خَيْرٌ مِنَ الْعَمَلِ " .(صححه الألباني رحمه الله في الصحيحة )


مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَلْيَنْظُرِ الرَّجُلُ عَمَّنْ يَأْخُذُ دِينَهُ.

(صحيح مسلم ، بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وأن الرواية لا تكون إلا عن الثقات وأن جرح الرواة بما هو فيهم جائز بل واجب وأنه ليس من الغيبة المحرمة بل من الذب عن الشريعة المكرمة،
وسنن الدارمی،حدیث 433،إسناده صحيح )

ترجمہ :محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا :بے شک یہ علم تمہارا دین ہے تو آدمی کو چاہئے کے وہ یہ ضرور دیکھے کہ وہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہا ہے.



قال ابن أبي أويس: سمعت مالك بن أنس يقول: «إن هذا العلم هو لحمك ودمك، وعنه تسأل يوم القيامة، فانظر عمن تأخذه»
وقال ابن أبي أويس: «سمعت خالي مالك بن أنس يقول: إنّ هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم ... ».
قال مطرف بن عبد الله: إني أشهد مالكاً يقول: «أدركت ببلدنا هذا - يعني المدينة - مشيخة، لهم فضل وصلاح وعبادة، يحدثون، فما كتبت عن أحد منهم حديثاً قط.
قلت: لِمَ يا أبا عبد الله؟
قال: لأنهم لم يكونوا يعرفون ما يحدثون.
(موطا أمام مالك ،تحقيق الأعظمي )

ابن ابی اویس کہتے ہیں کہ امام مالك رحمه الله نے فرمایا :بے شک یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے (زندگی ہے)،اور اسی کہ متعلق تم سے سوال کیا جائے گا تو یہ ضرور دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو.

مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کو فرماتے سنا کہ :میں نے اپنے اس شہر یعنی مدینہ میں بہت سارے اہل فضل،نیکوکاراورعبادت گزار بزرگوں کو پایا جو حدیث بیان کرتے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی کبھی کوئی حدیث نہیں لی (نہیں لکھی)،مطرف رحمہ اللہ نے سوال کیا :اے ابو عبداللہ ایسا کیوں? تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :اس لے کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا بیان کر رہے ہیں.
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
(سورة التوبة ،آية 100)

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے.

ہم پر لازم ہے کہ ہم حصول علم کے طریقے میں بھی سلف صالحین کی اتباع کریں ،صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے براہے راست علم حاصل کیا اور ان کے شاگردوں نے ان سے.

اوپر جو آیت بیان کی گی اس میں اللہ تبارک و تعالی نے علم کے حصول کے لے اہل علم کے پاس جانے کا حکم دیا ہے.

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں حصول علم کے لے سفر کرنے والوں کی بڑی فضیلت بیان کی ہے.

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی گمراہی کا ایک سبب یہ بھی بتایا کہ نا اہل لوگوں سے علم لیا جائے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے.

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور علم انبیاء کی وراثت ہے، تو وارث اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے وراثت (انبیاء کی وراثت علم) حاصل کی جائے.

سلف صالحین کے منہج میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جبہ،داڑھی اور چند ظاہری علامات والوں سے علم حاصل نہ کیا جائے جیسا کہ اس زمانہ میں کیا جارہا ہے بلکہ سلف صالحین راسخ علماء سے ہی علم حاصل کرتے تھے،جیسا کہ ان کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے. واللہ اعلم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
سورہ توبہ ،آیت 122،سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آدمی اسی وقت لوگوں کو دین کی دعوت دے جب وہ خود علماء سے علم حاصل کرے ،اس لے داعی کا علماء سے علم حاصل کرنا ضروری ہے.

قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ۖ وَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
(سورة يوسف ،آية 108)

آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں.
 
Top