محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
ورحل جابر بن عبد الله مسيرة شهر إلى عبد الله بن أنيس في حديث واحد.
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔
حدیث نمبر: 78
حدثنا أبو القاسم، خالد بن خلي قال حدثنا محمد بن حرب، قال قال الأوزاعي أخبرنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، فمر بهما أبى بن كعب، فدعاه ابن عباس فقال إني تماريت أنا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سأل السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه فقال أبى نعم، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه يقول " بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل، إذ جاءه رجل فقال أتعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا. فأوحى الله عز وجل إلى موسى بلى، عبدنا خضر، فسأل السبيل إلى لقيه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع، فإنك ستلقاه، فكان موسى صلى الله عليه وسلم يتبع أثر الحوت في البحر. فقال فتى موسى لموسى أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره. قال موسى ذلك ما كنا نبغي. فارتدا على آثارهما قصصا، فوجدا خضرا، فكان من شأنهما ما قص الله في كتابه ".
ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر علیہ السلام کو انھوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
کتاب العلم صحیح بخاری
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔
حدیث نمبر: 78
حدثنا أبو القاسم، خالد بن خلي قال حدثنا محمد بن حرب، قال قال الأوزاعي أخبرنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، فمر بهما أبى بن كعب، فدعاه ابن عباس فقال إني تماريت أنا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سأل السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه فقال أبى نعم، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه يقول " بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل، إذ جاءه رجل فقال أتعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا. فأوحى الله عز وجل إلى موسى بلى، عبدنا خضر، فسأل السبيل إلى لقيه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع، فإنك ستلقاه، فكان موسى صلى الله عليه وسلم يتبع أثر الحوت في البحر. فقال فتى موسى لموسى أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره. قال موسى ذلك ما كنا نبغي. فارتدا على آثارهما قصصا، فوجدا خضرا، فكان من شأنهما ما قص الله في كتابه ".
ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر علیہ السلام کو انھوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
کتاب العلم صحیح بخاری