• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم کی تلاش

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
ورحل جابر بن عبد الله مسيرة شهر إلى عبد الله بن أنيس في حديث واحد‏.‏
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔


حدیث نمبر: 78
حدثنا أبو القاسم،‏‏‏‏ خالد بن خلي قال حدثنا محمد بن حرب،‏‏‏‏ قال قال الأوزاعي أخبرنا الزهري،‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود،‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى،‏‏‏‏ فمر بهما أبى بن كعب،‏‏‏‏ فدعاه ابن عباس فقال إني تماريت أنا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سأل السبيل إلى لقيه،‏‏‏‏ هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه فقال أبى نعم،‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه يقول ‏"‏ بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل،‏‏‏‏ إذ جاءه رجل فقال أتعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا‏.‏ فأوحى الله عز وجل إلى موسى بلى،‏‏‏‏ عبدنا خضر،‏‏‏‏ فسأل السبيل إلى لقيه،‏‏‏‏ فجعل الله له الحوت آية،‏‏‏‏ وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع،‏‏‏‏ فإنك ستلقاه،‏‏‏‏ فكان موسى صلى الله عليه وسلم يتبع أثر الحوت في البحر‏.‏ فقال فتى موسى لموسى أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت،‏‏‏‏ وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره‏.‏ قال موسى ذلك ما كنا نبغي‏.‏ فارتدا على آثارهما قصصا،‏‏‏‏ فوجدا خضرا،‏‏‏‏ فكان من شأنهما ما قص الله في كتابه ‏"‏‏.‏

ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر علیہ السلام کو انھوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
علم حدیث حاصل کرنے کی حرص کے بارے میں

حدیث نمبر: 99
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله،‏‏‏‏ قال حدثني سليمان،‏‏‏‏ عن عمرو بن أبي عمرو،‏‏‏‏ عن سعيد بن أبي سعيد المقبري،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ أنه قال قيل يا رسول الله،‏‏‏‏ من أسعد الناس بشفاعتك يوم القيامة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لقد ظننت يا أبا هريرة أن لا يسألني عن هذا الحديث أحد أول منك،‏‏‏‏ لما رأيت من حرصك على الحديث،‏‏‏‏ أسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة من قال لا إله إلا الله،‏‏‏‏ خالصا من قلبه أو نفسه ‏"‏‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے سلیمان نے عمرو بن ابی عمرو کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ سعید بن ابی سعید المقبری کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے ’’ لا الہٰ الا اللہ ‘‘ کہے گا۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں


وقال عمر تفقهوا قبل أن تسودوا
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھدار بنو (یعنی دین کا علم حاصل کرو) اور ابوعبداللہ (حضرت امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔


حدیث نمبر: 73
حدثنا الحميدي،‏‏‏‏ قال حدثنا سفيان،‏‏‏‏ قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد،‏‏‏‏ على غير ما حدثناه الزهري،‏‏‏‏ قال سمعت قيس بن أبي حازم،‏‏‏‏ قال سمعت عبد الله بن مسعود،‏‏‏‏ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق،‏‏‏‏ ورجل آتاه الله الحكمة،‏‏‏‏ فهو يقضي بها ويعلمها ‏"‏‏.‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں

حدیث نمبر: 72
حدثنا علي،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ قال قال لي ابن أبي نجيح عن مجاهد،‏‏‏‏ قال صحبت ابن عمر إلى المدينة فلم أسمعه يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا حديثا واحدا،‏‏‏‏ قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فأتي بجمار فقال ‏"‏ إن من الشجر شجرة مثلها كمثل المسلم ‏"‏‏.‏ فأردت أن أقول هي النخلة،‏‏‏‏ فإذا أنا أصغر القوم فسكت،‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هي النخلة ‏"‏‏.‏

ہم سے علی (بن مدینی) نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے (اس) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ (اسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ (ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں

حدیث نمبر: 118
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله،‏‏‏‏ قال حدثني مالك،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن الأعرج،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ قال إن الناس يقولون أكثر أبو هريرة،‏‏‏‏ ولولا آيتان في كتاب الله ما حدثت حديثا،‏‏‏‏ ثم يتلو ‏ {‏ إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ الرحيم‏}‏ إن إخواننا من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق،‏‏‏‏ وإن إخواننا من الأنصار كان يشغلهم العمل في أموالهم،‏‏‏‏ وإن أبا هريرة كان يلزم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشبع بطنه ويحضر ما لا يحضرون،‏‏‏‏ ويحفظ ما لا يحفظون‏.‏

عبدالعزیز بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور (میں کہتا ہوں) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی، (جس کا ترجمہ یہ ہے) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں (آخر آیت) رحیم تک۔ (واقعہ یہ ہے کہ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خریدوفروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھر کر رہتا (تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بےفکری رہے) اور (ان مجلسوں میں) حاضر رہتا جن (مجلسوں) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ (باتیں) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔


حدیث نمبر: 119
حدثنا أحمد بن أبي بكر أبو مصعب،‏‏‏‏ قال حدثنا محمد بن إبراهيم بن دينار،‏‏‏‏ عن ابن أبي ذئب،‏‏‏‏ عن سعيد المقبري،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ قال قلت يا رسول الله،‏‏‏‏ إني أسمع منك حديثا كثيرا أنساه‏.‏ قال ‏"‏ ابسط رداءك ‏"‏ فبسطته‏.‏ قال فغرف بيديه ثم قال ‏"‏ ضمه ‏"‏ فضممته فما نسيت شيئا بعده‏.‏ حدثنا إبراهيم بن المنذر قال حدثنا ابن أبي فديك بهذا أو قال غرف بيده فيه‏.‏

ہم سے ابومصعب احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن دینار نے ابن ابی ذئب کے واسطے سے بیان کیا، وہ سعید المقبری سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور (میری چادر میں ڈال دی) فرمایا کہ (چادر کو) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو (اپنے بدن پر) لپیٹ لیا، پھر (اس کے بعد) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ (یوں) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس (چادر) میں ڈال دی۔


حدیث نمبر: 120
حدثنا إسماعيل،‏‏‏‏ قال حدثني أخي،‏‏‏‏ عن ابن أبي ذئب،‏‏‏‏ عن سعيد المقبري،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ قال حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين،‏‏‏‏ فأما أحدهما فبثثته،‏‏‏‏ وأما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم‏.‏

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی (عبدالحمید) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بلعوم سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
اس بیان میں کہ علم کس طرح اٹھا لیا جائےگا؟

وكتب عمر بن عبد العزيز إلى أبي بكر بن حزم انظر ما كان من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكتبه،‏‏‏‏ فإني خفت دروس العلم وذهاب العلماء،‏‏‏‏ ولا تقبل إلا حديث النبي صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ ولتفشوا العلم،‏‏‏‏ ولتجلسوا حتى يعلم من لا يعلم،‏‏‏‏ فإن العلم لا يهلك حتى يكون سرا‏.‏ حدثنا العلاء بن عبد الجبار قال حدثنا عبد العزيز بن مسلم عن عبد الله بن دينار بذلك،‏‏‏‏ يعني حديث عمر بن عبد العزيز إلى قوله ذهاب العلماء‏.‏
اور (خلیفہ خامس) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی حدیث قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور (ایک جگہ جم کر) بیٹھیں تاکہ جاہل بھی جان لے اور علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔ ہم سے علاء بن عبدالجبار نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے اس کو بیان کیا یعنی عمر بن عبدالعزیز کی حدیث ذہاب العلماء تک۔


حدیث نمبر: 100
حدثنا إسماعيل بن أبي أويس،‏‏‏‏ قال حدثني مالك،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عبد الله بن عمرو بن العاص،‏‏‏‏ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إن الله لا يقبض العلم انتزاعا،‏‏‏‏ ينتزعه من العباد،‏‏‏‏ ولكن يقبض العلم بقبض العلماء،‏‏‏‏ حتى إذا لم يبق عالما،‏‏‏‏ اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا،‏‏‏‏ فأفتوا بغير علم،‏‏‏‏ فضلوا وأضلوا ‏"‏‏.‏ قال الفربري حدثنا عباس قال حدثنا قتيبة حدثنا جرير عن هشام نحوه‏.‏

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے قتیبہ نے، کہا ہم سے جریر نے، انھوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
اس بیان میں کہ علم (کا درجہ) قول و عمل سے پہلے ہے

لقول الله تعالى ‏ {‏ فاعلم أنه لا إله إلا الله‏}‏ فبدأ بالعلم،‏‏‏‏ وأن العلماء هم ورثة الأنبياء ـ ورثوا العلم ـ من أخذه أخذ بحظ وافر،‏‏‏‏ ومن سلك طريقا يطلب به علما سهل الله له طريقا إلى الجنة‏.‏ وقال جل ذكره ‏ {‏ إنما يخشى الله من عباده العلماء‏}‏ وقال ‏ {‏ وما يعقلها إلا العالمون‏}‏ ‏ {‏ وقالوا لو كنا نسمع أو نعقل ما كنا في أصحاب السعير‏}‏‏.‏ وقال ‏ {‏ هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون‏}‏‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين،‏‏‏‏ وإنما العلم بالتعلم ‏"‏‏.‏ وقال أبو ذر لو وضعتم الصمصامة على هذه وأشار إلى قفاه ـ ثم ظننت أني أنفذ كلمة سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن تجيزوا على لأنفذتها‏.‏ وقال ابن عباس ‏ {‏ كونوا ربانيين‏}‏ حكماء فقهاء‏.‏ ويقال الرباني الذي يربي الناس بصغار العلم قبل كباره‏.‏
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” فاعلم انہ لا الہٰ الا اللہ “ (آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے) تو (گویا) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور (حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے (دولت کی) بہت بڑی مقدار حاصل کر لی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں (کافروں) نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت ” کونوا ربانیین “ سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور ربانی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔

کتاب العلم صحیح بخاری
 
Top