کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين، عن أبي بدر، عن أبي طالوت عبد السلام، عن ابن جرير الضبي، عن أبيه، قال: «رأيت عليا، رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة»
جناب ابن جریر ضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پہنچے (کلائی) کے پاس سے (یعنی جوڑ کے پاس) سے پکڑ رکھا تھا اور وہ ناف سے اوپر تھے۔[سنن أبي داود 1/ 201 رقم 757 واسنادہ حسن]
اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ منقول ہے کہ وہ فوق السرہ یعنی ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے تھے۔اورفوق السرہ کا مطلب علی الصدر یعنی سینے پر ہی ہے جیساکہ ان کی تفسیری روایت میں صراحت ہے جو آگے آرہی ہے۔
یادرہے کہ بعض احناف نے بھی سینےپر ہاتھ باندھنے کے لئے فوق السرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں چنانچہ:
أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461) لکھتے ہیں:
يَنْبَغِي للرِّجَال ان يضعوا الْيَمين على الشمَال تَحت السُّرَّة وَالنِّسَاء يَضعن فَوق السُّرَّة
مردوں کے لئے مناسب ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کےنیچے رکھیں اور خواتین ناف کے اوپر رکھیں۔
[النتف في الفتاوى للسعدی: ص 71]
اس عبارت میں حنفیوں کے شیخ الاسلام نے خواتین کو ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کے لئے کہا ہےاور احناف خواتین کو سینے پر ہاتھ باندھنے کے لئے کہتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عبارت میں فوق السرہ یعنی ناف کے اوپر سے مراد سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
ٹھیک اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اثر میں بھی فوق السرہ یعنی ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے سے سینے پر ہاتھ باندھنا مراد ہے۔
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين، عن أبي بدر، عن أبي طالوت عبد السلام، عن ابن جرير الضبي، عن أبيه، قال: «رأيت عليا، رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة»
جناب ابن جریر ضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پہنچے (کلائی) کے پاس سے (یعنی جوڑ کے پاس) سے پکڑ رکھا تھا اور وہ ناف سے اوپر تھے۔[سنن أبي داود 1/ 201 رقم 757 واسنادہ حسن]
اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ منقول ہے کہ وہ فوق السرہ یعنی ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے تھے۔اورفوق السرہ کا مطلب علی الصدر یعنی سینے پر ہی ہے جیساکہ ان کی تفسیری روایت میں صراحت ہے جو آگے آرہی ہے۔
یادرہے کہ بعض احناف نے بھی سینےپر ہاتھ باندھنے کے لئے فوق السرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں چنانچہ:
أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461) لکھتے ہیں:
يَنْبَغِي للرِّجَال ان يضعوا الْيَمين على الشمَال تَحت السُّرَّة وَالنِّسَاء يَضعن فَوق السُّرَّة
مردوں کے لئے مناسب ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کےنیچے رکھیں اور خواتین ناف کے اوپر رکھیں۔
[النتف في الفتاوى للسعدی: ص 71]
اس عبارت میں حنفیوں کے شیخ الاسلام نے خواتین کو ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کے لئے کہا ہےاور احناف خواتین کو سینے پر ہاتھ باندھنے کے لئے کہتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عبارت میں فوق السرہ یعنی ناف کے اوپر سے مراد سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
ٹھیک اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اثر میں بھی فوق السرہ یعنی ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے سے سینے پر ہاتھ باندھنا مراد ہے۔