• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب اور عبادت وآداب

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
اصول غامدی:
غامدی صاحب رقمطراز ہیں کہ ملت ابراہیمی کے ذریعے جو دین ہمیں ملا ہے وہ یہ
عبادات ہیں:۔
(۱) نماز ، (۲) زکوۃ ،اور صدقہ فطر (۳) روزہ اعتکاف (۴) حج وعمرہ ،(۵) قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ۔
جواب:۔
معلوم نہیں کہ غامدی صاحب نے عبادات کے مفہو م میںصر ف ان اشیاء کو ہی دین سمجھا ہے یا بطور چند مثالیں لکھ دی ہیں اگر بطور مثال کے لکھی ہیں تو ہمیں چنداں اعتراض نہیں اور اگر ان کی مراد صرف یہی امورعبادات ہیںتو یہ ان کی غلط فہمی ہے اس لئے کہ عبادت کا مفہوم بڑا وسیع ہے اور حیرت کی بات ہے کہ غامدی صاحب ہر جگہ ملت ابراہیم کی رٹ لگاتے نظر آتے ہیں لیکن موصوف نے ملت ابراہیم کے سب سے اہم رکن اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل توحید کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے اور اسی طرح جہاد و قتال جس کے متعلق قرآن میں تقریباً چار سو سے زائد آیات موجود ہیں غامدی صاحب نے ان کو بھی نظر انداز کر دیا ۔

اسی طرح عبادت کی ایک طویل فہرست ہے کہ جس کو ہم طوالت کے خوف سے یہاں رقم نہیں کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد غامدی صاحب نے معاشرت کا باب باندھ کر ذیل میں ، نکاح وطلاق اور ان کے متعلقات ، زن وشوہر کے تعلق سے اجتناب نقل کی ہیں اسی طرح خوردنوش کا باب باندھ کر چند چیزے ذکر کی ہیں ۔
(۱)
سور ، خون ، مردار ، اور خدا کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کئے گئے جانور کی حرمت ۔

(۲)
اللہ کا نام لے کرجانور کا تذکیہ ۔
غامدی صاحب دین اسلام کو جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے چند چیزوں میں محصور کرنا چاہتے ہیں جہا ں تک تعلق ہے معاملات کا تو نکاح وطلاق اور حیض نفاس میں زن وشوہر کے تعلقات سے اجتناب کے علاوہ وہ دیگر معاملات ہیں جن میں دین اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ جیساکہ حقوق والدین اور خرید وفروخت کے معاملات وغیرہ ۔


اور جہاں تک بات رہی ان چار چیزوں کی حرمت کی تو اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو حرام ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں موجو دنہیں لیکن صحیح حدیث میں موجود ہے جس کو غامدی صاحب فطرت کا نام دیتے ہیں جس کا ذکر ہم اپنے مضمون غامدی صاحب اور فطرت میں کریں گے ۔ انشاء اللہ

اصول غامدی:۔
اس کے بعد غامدی صاحب نے کچھ آداب کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد تقریبا ۱۸ ہیں ۔جن میں سے چند یہ ہیں (۱) اللہ کا نام لے کردائیں ہاتھ سے کھانا پینا(۲) ملاقات کے وقت السلام علیکم اور اس کا جواب (۳) چھینک آنے پر الحمد اللہ اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا (۴) نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنا وغیرہ ۔
جواب:۔
حیرت کی بات ہے کہ غامدی صاحب خبر واحد سے جو چیز ثابت ہوجائے اس کو دین تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ آگے آرہا ہے لیکن اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے خبر واحد کا سہارا لے رہے ہیں بلکہ اس روایت کو پیش کررہے ہیں جو تمام طرق سے ضعیف ہے جیسا کہ نومولود کے کان میں اذان دینا اور اقامت کہنا اس بارے میں جتنی بھی روایات کتب حدیث میں موجود ہیں وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں اس بات سے غامدی صاحب کی قلت علمی کا اندازہ ہوجاتاہے ۔


اوردوسری حیرت کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے ان۱۸ چیزوں میں اس بات کا ذکر تو کردیا جس کے ثبوت میں پیش کردہ تمام روایتیں ضعیف ہیں کیونکہ یہ غامدی صاحب کے موقف کے مطابق ہیں لیکن اس بات کا ذکر نہیں کیا جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ کیونکہ یہ ان کے موقف کے خلاف ہے۔ مثلا ،داڑھی جس کا ثبوت صحیح ا حادیث سے ملتا ہے جیساکہ بخاری میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’خالفوا المشرکین ،ووفروااللحی ، واحفوا الشوارب ‘‘​
مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھی کو چھوڑدو اور مونچھوں کو پست کرو۔
(صحیح بخاری مع الفتح جلد ۱۰ صفحہ ۴۲۸)
اور صحیح مسلم میں ہے :
عن عائشۃ ؓقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشرمن الفطرۃقص الشارب واعفاء الحیۃوالسواک واستنشاق الماء وقص الاظفاروغسل البراجم ونتف الابط وحلق العانۃ وانتقاص المائ‘‘(صحیح مسلم ،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،حدیث ۶۰۴)​
ترجمہ:(ام المؤمنین)عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ۔(۱)مونچھیں پست کرنا(۲)داڑہی کو معاف کرنا(یعنی چھوڑدینا)(۳)مسواک کرنا(۴)ناک میں پانی چڑھانا(۵)ناخن تراشنا(۶) انگلی کے جوڑ دھونا(۷)بغل کے بال اکھیڑنا(۸)زیر ناف بال مونڈھنا(۹)استنجا کرنا۔
داڑہی جیسی عظیم سنت کا ذکر قرآن مجید میں نصّاً موجود ہے :
’’قَالَ یَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَأْسِیْ‘‘​

ترجمہ:’’(ہارون ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا)اے میرے بھائی میری داڑہی اور سر کو نہ پکڑو ‘‘ (سورۃ طہ ،آیت ۹۴)
قارئیں کرام! مندرجہ بالا حدیث اور قرآن کی آیت سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ داڑہی انبیاء علیہم السلام کی سنت متواترہ ہے۔مگر غامدی صاحب اس عظیم سنت کو شیرِ مادرسمجھ کر ہضم کر گئے۔
 
Top