محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 17-رجب-1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان "غزوہ احزاب ، اسباق و نصائح" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے غزوہ احزاب سے ملنے والے اسباق اور نصائح کے متعلق گفتگو کی کہ کس طرح جنگ کے دوران مسلمانوں کو پیش آمدہ مسائل؛ ثابت قدمی اور صبر کی بنا پر عظیم نعمت میں تبدیل ہوگئے، اللہ تعالی نے باقاعدہ جنگ کے بغیر ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مد مقابل لشکروں کو شکستِ فاش دی۔
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درودو سلام بھیجے۔
حمد اور درود و سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، اللہ کا ڈر نورِ بصیرت ہے اور اسی میں قلب و ضمیر کیلئے زندگی ہے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے دینِ قویم چنا ہے، اور اسکے ساتھ ساتھ باطل اور اہل باطل کو مٹاتے ہوئے اپنے بندوں کی مدد کی اور غلبہ کا وعدہ بھی کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ حکمت و دانائی سے بھر پور ہے، اسکے بغیر ہم نا مساعد حالات میں بالکل نہیں چل سکتے۔
اسی اہمیت کے پیشِ نظر زین العابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہم اپنے بچوں کو سیرتِ طیبہ کے جنگی پہلو قرآن مجید کی سورتوں کی طرح سیکھایا کرتے تھے"
انہی پہلؤوں میں سے اللہ تعالی نے ایک کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی مکمل سورت کا نام ہی اس پر رکھا، اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اللہ کی نعمتوں کو ہمہ قسم کے حالات میں یاد رکھیں، چنانچہ سورت کے شروع ہی میں فرما دیا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو [الأحزاب: 9]
یہ ہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کا اپنے ہر سفر میں تذکرہ فرماتے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی غزوہ، حج، یا عمرہ سے مدینہ واپس لوٹتے تو تین بار تکبیر کہتے ، اور پھر فرماتے: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك , وله الحمد , وهو على كل شيء قدير, آيبون تائبون عابدون ساجدون, لربنا حامدون, صدق الله وعده, ونصر عبده, وهزم الأحزاب وحده)بخاری مسلم
حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نعمت کے تذکرہ کو ہر حاجی اور عمرہ کرنے والے کیلئے مسنون قرار دیا، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سعی کرنے کیلئے صفا پہاڑی پر چڑھتے فرماتے: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له, له الملك, وله الحمد, وهو على كل شيء قدير, لا إله إلا الله وحده, أنجز وعده, ونصر عبده, وهزم الأحزاب وحده) مسلم
یہ اعصاب شکن اور خوفناک غزوہ تھا، ہجرت کے پانچویں سال میں خیبر میں موجود بنو نضیر کے یہودیوں نے قریشِ مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ پر آمادہ کیا، اور انہیں مکمل طور پر تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی، پلاننگ کے تحت مشرقی جانب سے غطفان بھی ان سے جاملے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملتے ہی آپ نے مسلمانوں کو خندق کھودنے کا حکم دیا، صحابہ کرام نے بھوک پیاس اور ٹھٹھرتی سردی کے عالم میں خندق کھودی، اپنے کمر پر مٹی اٹھا اٹھا کر یہ کام مکمل کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے جانثار صحابہ کی یہ حالت دیکھ کر انکے لئےبرکت، مغفرت، اور بھلائی کی دعا بھی۔
اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شامل رہے ، براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا آپ خندق سے مٹی ڈھو رہے تھے اور آپ کے پیٹ کو مٹی نے ڈھک رکھا تھا"بخاری
اور جب سخت چٹان صحابہ کرام کے سامنے آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی خندق میں اتر کر خود اپنے ہاتھوں سے اس پر کاری ضربیں لگائیں، اور اس طرح خندق کھودنے کا مرحلہ آدھے مہینے میں مکمل ہوا، اس دوران صحابہ کرام نے سخت بھوک پیاس کا سامنا بھی کیا۔
جابر رضی اللہ عنہ خود ہڈ بیتی بیان کرتےہیں، "ایک سخت چٹان ہمارے سامنے آگئی ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، تو آپ نے فرمایا: (میں خندق میں ابھی آتا ہوں) آپ کھڑے ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپکے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر بندھے ہوئے تھے" جابر کہتے ہیں: "ہم نے تین دن تک کچھ کھایا نہ پیا"۔ بخاری
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنی رفیقِ حیات سے کہا: "میں نے آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کی وجہ سے جو حالت دیکھی ہے اس پر رہا نہیں جا رہا" جابر نے اسی وقت بکری ذبح کی اور ایک صاع -تقریبا اڑھائی کلو- جو کا آٹا بناکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنڈیا اور آٹے دونوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، اللہ نے کھانے میں برکت ڈال دی، اور اسے ایک ہزار سپاہیوں نے سیر ہو کر کھایا۔
بیان کرنے والا کہتا ہے: "اللہ کی قسم! سب لوگ سیر ہوکر چلے گئے اور کھانا بچ گیا، ہنڈیا اسی طرح پکتی رہی اور آٹے سے روٹیاں بھی بنائی جاتی رہی لیکن اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی"بخاری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ نہایت شفقت فرما رہے تھے، آپ خود اپنے ہاتھوں سے روٹی پر سالن ڈال کر دیتے، اور آپ نے تمام جانثاروں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ بخاری
یہود و مشرکین کا دس ہزار جنگجو افراد پر مشتمل لاؤ لشکر ہر جانب سے مدینہ منورہ کی طرف گامزن تھا، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ جب وہ تمہارے اوپر , نیچے سے تم پر چڑھ آئے تھے [الأحزاب: 10]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین ہزار جانثاروں کو ساتھ لیکر باہر آئے، مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان خندق حائل تھی، انہوں نے مسلمانوں کا ایک ماہ تک محاصرہ کئے رکھا، باقاعدہ کوئی جنگ نہ ہی بس دو طرفہ تیر وں کا کچھ تبادلہ ہوا، چنانچہ اس میں تین مشرک قتل ہوئے اور چھ مسلمان شہید ہوئے، انہی میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، مدینہ منورہ کے محاصرے کے دوران کفارِ قریش نے اپنے چچا زاد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بنو نضیر کے یہودیوں سے بھی مدد طلب کی، یہ لوگ مدینہ منورہ کے جنوب مشرقی جانب رہتے تھے۔
بڑی ہی بے عقلی کی بات ہے کہ انسان اپنے ہی خاندان اور قوم کے لوگوں سے لڑنے کیلئے غیروں کو اپنے ساتھ ملا لے۔
بنو قریظہ کے یہودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کے دشمنوں سے جاملے اس پر معاملہ نہایت سنگین ہوگیا، اور حالات تنگ ہوگئے، اور سردی و بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ خوف و ہراس مزید بڑھ گیا۔
اسی کیفیت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا: وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ اور جب آنکھیں پھر گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے [الأحزاب: 10] یہاں پر آزمائش بڑھ گئی اور منافق ظاہر ہونے لگے، اور عجیب و غریب خیالات منڈلانے لگے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے یوں نے فرمایا: هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور وہ بری طرح ہلا دیئے گئے [الأحزاب: 11]
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو مجھے دشمنوں کی جاسوسی کر کے انکے بارے میں بتلائے گا قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا) ہم نے کوئی جواب نہیں دیا سب خاموش تھے، آپ دوسری بار فرمایا: (جو مجھے دشمنوں کی جاسوسی کر کے انکے بارے میں بتلائے گا قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا) ہم نے کوئی جواب نہیں دیا سب خاموش تھے، آپ نے پھر تیسری بار فرمایا: (جو مجھے دشمنوں کی جاسوسی کر کے انکے بارے میں بتلائے گا قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا) ہم نے کوئی جواب نہیں دیا سب سردی اور بھوک کے مارے خاموش تھے پھر آپ نے کہا: (حذیفہ اٹھواورہمیں دشمنوں کی خبر لا کر دو) کہنے لگے :" اب میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ آپ نے میرا نام لیکر کہا کہ اٹھو اور جاؤ" مسلم
ظاہری طور پر فتح کے حالات بالکل نہیں تھے، نہ تو افرادی قوت اور نہ ہی جنگی سازو سامان ہر اعتبار سے، دشمن کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں تین گُنا سے بھی زیادہ تھی، اور انہوں نے مسلمانوں کا تمام اطراف سے گھیرا کیا ہوا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "تمام مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف اتحادی فوج بنائی ، کہ مدینہ جا کر مسلمانوں کا کریا کرم کردیا جائے، اب کی بار دشمن انتہائی طاقتور تھا، اگر مؤمنوں پر یہ غالب آجاتے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو ثابت قدم رہنے کا درس اور اللہ کی مددکے وعدے بتلاتے رہے، جس پر انہوں نے کہا: هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا یہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری کو مزید بڑھا دیا [الأحزاب: 22]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ، حقیقت میں ثابت قدمی ہی فتح ہوتی ہے، انہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اللہ کے بارے میں اچھی سوچ رکھی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "غزوہ احزاب میں اللہ تعالی نے اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اور بغیر کسی لڑائی کے اپنے لشکر کو فتح یاب کیا اور مؤمنوں کو دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بھی بنایا"
دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزی انکساری کے ساتھ اللہ تعالی سے اسکی قدرت کا واسطہ دے کر دعا کی، عبد اللہ بن ابی اوفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے خلاف دعا کی اور فرمایا: "اللهم منزل الكتاب , سريع الحساب, اهزم الأحزاب, اللهم اهزمهم و زلزلهم" اے اللہ کتاب کو نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والےِ تمام لشکروں کو شکست دے، یا اللہ تمام کو شکست دے اور انکے قدموں تلے سے زمین کھسکا دے۔بخاری مسلم
کلمہ توحید کی بنا پر ہی حالات درست ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم محاصرے کے دوران کلمہ توحید کثرت سے پڑھتے رہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا پڑھ رہے تھے: (لا إله إلا الله وحده, أعز جنده, ونصر عبده, وغلب الأحزاب وحده, فلا شيء بعده) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی نے اپنے لشکر کو غلبہ عنائت کیا، اپنے بندے کی مدد کی، اور یکتا تمام لشکروں پر غالب آگیا، اسکے بعد ہمیں کسی کی ضرورت نہیں۔ بخاری
چنانچہ اللہ تعالی نے مشرکوں کے دلوں میں رعب اور دبدبہ ڈال دیا، اور اپنی نصرت نازل فرمائی کہ قریش اور یہود کے مابین نعیم بن مسعود کی پسپائی کی وجہ سے پھوٹ ڈالی، اور اپنے ہی اوپر غصہ کرتے ہوئے انہیں نامراد واپس جانا پڑا۔
اللہ تعالی نے ان پر سخت سردی کے موسم میں تیز ٹھنڈی ہوا چلادی، جس سے انکے خیمے تک اکھڑ گئے، قندیلیں بجھ گئیں، اور اللہ تعالی نے جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ فرشتوں کو نازل کیا، جس سے مشرکوں کے کلیجے منہ کو آگئے فرمایا: فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے [الأحزاب: 9]
ان سب اتحادی لشکروں کو مدینہ سے ناکام و نامراد لوٹنا پڑا، وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ اور کفار (کے لشکروں) کو اللہ تعالیٰ نے بے نیل ومرام اپنے دلوں کی جلن دلوں میں ہی لئے واپس لوٹا دیا , اور لڑائی کے لئے مومنوں کی طرف سے اللہ ہی کافی ہوگیا [الأحزاب: 25]
حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ (آج کے بعد ہم ان پر حملہ کرینگے اب وہ نہیں کر سکتے) بخاری
ایسا ہی ہوا کہ یہ آخری بار تھا کہ مسلمانوں پر مشرکین یلغار کریں، اسی غزوہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔ [الأحزاب: 21]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "لوگوں کو جنگِ احزاب کے حالات میں انفرادی اور باہمی صبر، دشمن کے سامنے سینہ سِپر، جہاد، اور اللہ کی جانب سے مددکا انتظار کرنے کے تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیاہے"
مسلمانو!
اللہ تعالی نے اپنے نورِ ہدایت کو مکمل کرنا ہے چاہے اس دین کی کتنی ہی مخالفت ہو جائے ، یا اسے لوگ قبول نہ بھی کریں کیونکہ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اور اللہ اپنے حکم (نافذ کرنے ) پر غالب ہے۔ لیکن اکثر لوگ یہ بات جانتے نہیں [يوسف: 21]
بھٹی میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے، کوئی بھی اپنے اہداف کو آسانی سے نہیں پاتا سب کو سخت محنت اور جد و جہد کے بعد ہی کوئی مقام ملتا ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کہتے ہیں: "قانونِ الہی ہے کہ انعام و اکرام کیلئے انہی تکالیف کو پیش خیمہ بنایا جاتا ہے، انہی کو نبوی دعوت کی بنیاد بنایا جاتا ہے"
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ہم یقینا اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے [غافر: 51]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔
مسلمانو!
مسلمانوں کا غلبہ اگر لیٹ ہو جائے تو کفار کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا آپ ان پر (نزول عذاب کے لئے) جلدی نہ کیجئے۔ ہم ان کی گنتی (کے دن) شمار کر رہے ہیں[مريم: 84]
اگر مسلمانوں کی فتح کے آثار نمایاں ہو جائیں تو اللہ کے فضل و احسان کو مت بھولیں کہ اللہ نے دشمنوں کو ہزیمت سے دوچار کیا، اور کثرت سے اللہ کی تعریف ، تسبیح، اور استغفار کریں، اسی لئے فرمایا: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (1) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (2) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی[1] اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں [2] توآپ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے۔ اور اس سے بخشش طلب کیجیے۔[النصر: 1- 3]
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد,اے اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ اے اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
دعا:
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ ! دین کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ جو تیرے مؤمن بندوں کو رسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں انہیں تو ذلیل فرما۔
یا اللہ! فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکی مدد فرما، یا اللہ! تو ں انکا مدد گار بن، یا اللہ ! یا قوی! یا عزیز! انہیں جلد فتحیاب فرما، یا اللہ! انکے دشمنوں کا مقدر تباہی اور بربادی بنا۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
مترجم : شفقت الرحمن بن مبارک علی
https://www.facebook.com/pages/Khutba-Of-Masjid-Nabvi-In-Urdu-مسجد-نبوی-کا-خطبہ-جمعہ/476230782413152?fref=ts
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درودو سلام بھیجے۔
حمد اور درود و سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، اللہ کا ڈر نورِ بصیرت ہے اور اسی میں قلب و ضمیر کیلئے زندگی ہے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے دینِ قویم چنا ہے، اور اسکے ساتھ ساتھ باطل اور اہل باطل کو مٹاتے ہوئے اپنے بندوں کی مدد کی اور غلبہ کا وعدہ بھی کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ حکمت و دانائی سے بھر پور ہے، اسکے بغیر ہم نا مساعد حالات میں بالکل نہیں چل سکتے۔
اسی اہمیت کے پیشِ نظر زین العابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہم اپنے بچوں کو سیرتِ طیبہ کے جنگی پہلو قرآن مجید کی سورتوں کی طرح سیکھایا کرتے تھے"
انہی پہلؤوں میں سے اللہ تعالی نے ایک کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی مکمل سورت کا نام ہی اس پر رکھا، اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اللہ کی نعمتوں کو ہمہ قسم کے حالات میں یاد رکھیں، چنانچہ سورت کے شروع ہی میں فرما دیا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو [الأحزاب: 9]
یہ ہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کا اپنے ہر سفر میں تذکرہ فرماتے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی غزوہ، حج، یا عمرہ سے مدینہ واپس لوٹتے تو تین بار تکبیر کہتے ، اور پھر فرماتے: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك , وله الحمد , وهو على كل شيء قدير, آيبون تائبون عابدون ساجدون, لربنا حامدون, صدق الله وعده, ونصر عبده, وهزم الأحزاب وحده)بخاری مسلم
حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نعمت کے تذکرہ کو ہر حاجی اور عمرہ کرنے والے کیلئے مسنون قرار دیا، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سعی کرنے کیلئے صفا پہاڑی پر چڑھتے فرماتے: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له, له الملك, وله الحمد, وهو على كل شيء قدير, لا إله إلا الله وحده, أنجز وعده, ونصر عبده, وهزم الأحزاب وحده) مسلم
یہ اعصاب شکن اور خوفناک غزوہ تھا، ہجرت کے پانچویں سال میں خیبر میں موجود بنو نضیر کے یہودیوں نے قریشِ مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ پر آمادہ کیا، اور انہیں مکمل طور پر تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی، پلاننگ کے تحت مشرقی جانب سے غطفان بھی ان سے جاملے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملتے ہی آپ نے مسلمانوں کو خندق کھودنے کا حکم دیا، صحابہ کرام نے بھوک پیاس اور ٹھٹھرتی سردی کے عالم میں خندق کھودی، اپنے کمر پر مٹی اٹھا اٹھا کر یہ کام مکمل کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے جانثار صحابہ کی یہ حالت دیکھ کر انکے لئےبرکت، مغفرت، اور بھلائی کی دعا بھی۔
اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شامل رہے ، براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا آپ خندق سے مٹی ڈھو رہے تھے اور آپ کے پیٹ کو مٹی نے ڈھک رکھا تھا"بخاری
اور جب سخت چٹان صحابہ کرام کے سامنے آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی خندق میں اتر کر خود اپنے ہاتھوں سے اس پر کاری ضربیں لگائیں، اور اس طرح خندق کھودنے کا مرحلہ آدھے مہینے میں مکمل ہوا، اس دوران صحابہ کرام نے سخت بھوک پیاس کا سامنا بھی کیا۔
جابر رضی اللہ عنہ خود ہڈ بیتی بیان کرتےہیں، "ایک سخت چٹان ہمارے سامنے آگئی ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، تو آپ نے فرمایا: (میں خندق میں ابھی آتا ہوں) آپ کھڑے ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپکے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر بندھے ہوئے تھے" جابر کہتے ہیں: "ہم نے تین دن تک کچھ کھایا نہ پیا"۔ بخاری
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنی رفیقِ حیات سے کہا: "میں نے آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کی وجہ سے جو حالت دیکھی ہے اس پر رہا نہیں جا رہا" جابر نے اسی وقت بکری ذبح کی اور ایک صاع -تقریبا اڑھائی کلو- جو کا آٹا بناکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنڈیا اور آٹے دونوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، اللہ نے کھانے میں برکت ڈال دی، اور اسے ایک ہزار سپاہیوں نے سیر ہو کر کھایا۔
بیان کرنے والا کہتا ہے: "اللہ کی قسم! سب لوگ سیر ہوکر چلے گئے اور کھانا بچ گیا، ہنڈیا اسی طرح پکتی رہی اور آٹے سے روٹیاں بھی بنائی جاتی رہی لیکن اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی"بخاری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ نہایت شفقت فرما رہے تھے، آپ خود اپنے ہاتھوں سے روٹی پر سالن ڈال کر دیتے، اور آپ نے تمام جانثاروں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ بخاری
یہود و مشرکین کا دس ہزار جنگجو افراد پر مشتمل لاؤ لشکر ہر جانب سے مدینہ منورہ کی طرف گامزن تھا، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ جب وہ تمہارے اوپر , نیچے سے تم پر چڑھ آئے تھے [الأحزاب: 10]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین ہزار جانثاروں کو ساتھ لیکر باہر آئے، مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان خندق حائل تھی، انہوں نے مسلمانوں کا ایک ماہ تک محاصرہ کئے رکھا، باقاعدہ کوئی جنگ نہ ہی بس دو طرفہ تیر وں کا کچھ تبادلہ ہوا، چنانچہ اس میں تین مشرک قتل ہوئے اور چھ مسلمان شہید ہوئے، انہی میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، مدینہ منورہ کے محاصرے کے دوران کفارِ قریش نے اپنے چچا زاد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بنو نضیر کے یہودیوں سے بھی مدد طلب کی، یہ لوگ مدینہ منورہ کے جنوب مشرقی جانب رہتے تھے۔
بڑی ہی بے عقلی کی بات ہے کہ انسان اپنے ہی خاندان اور قوم کے لوگوں سے لڑنے کیلئے غیروں کو اپنے ساتھ ملا لے۔
بنو قریظہ کے یہودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کے دشمنوں سے جاملے اس پر معاملہ نہایت سنگین ہوگیا، اور حالات تنگ ہوگئے، اور سردی و بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ خوف و ہراس مزید بڑھ گیا۔
اسی کیفیت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا: وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ اور جب آنکھیں پھر گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے [الأحزاب: 10] یہاں پر آزمائش بڑھ گئی اور منافق ظاہر ہونے لگے، اور عجیب و غریب خیالات منڈلانے لگے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے یوں نے فرمایا: هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور وہ بری طرح ہلا دیئے گئے [الأحزاب: 11]
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو مجھے دشمنوں کی جاسوسی کر کے انکے بارے میں بتلائے گا قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا) ہم نے کوئی جواب نہیں دیا سب خاموش تھے، آپ دوسری بار فرمایا: (جو مجھے دشمنوں کی جاسوسی کر کے انکے بارے میں بتلائے گا قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا) ہم نے کوئی جواب نہیں دیا سب خاموش تھے، آپ نے پھر تیسری بار فرمایا: (جو مجھے دشمنوں کی جاسوسی کر کے انکے بارے میں بتلائے گا قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا) ہم نے کوئی جواب نہیں دیا سب سردی اور بھوک کے مارے خاموش تھے پھر آپ نے کہا: (حذیفہ اٹھواورہمیں دشمنوں کی خبر لا کر دو) کہنے لگے :" اب میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ آپ نے میرا نام لیکر کہا کہ اٹھو اور جاؤ" مسلم
ظاہری طور پر فتح کے حالات بالکل نہیں تھے، نہ تو افرادی قوت اور نہ ہی جنگی سازو سامان ہر اعتبار سے، دشمن کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں تین گُنا سے بھی زیادہ تھی، اور انہوں نے مسلمانوں کا تمام اطراف سے گھیرا کیا ہوا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "تمام مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف اتحادی فوج بنائی ، کہ مدینہ جا کر مسلمانوں کا کریا کرم کردیا جائے، اب کی بار دشمن انتہائی طاقتور تھا، اگر مؤمنوں پر یہ غالب آجاتے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو ثابت قدم رہنے کا درس اور اللہ کی مددکے وعدے بتلاتے رہے، جس پر انہوں نے کہا: هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا یہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری کو مزید بڑھا دیا [الأحزاب: 22]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ، حقیقت میں ثابت قدمی ہی فتح ہوتی ہے، انہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اللہ کے بارے میں اچھی سوچ رکھی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "غزوہ احزاب میں اللہ تعالی نے اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اور بغیر کسی لڑائی کے اپنے لشکر کو فتح یاب کیا اور مؤمنوں کو دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بھی بنایا"
دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزی انکساری کے ساتھ اللہ تعالی سے اسکی قدرت کا واسطہ دے کر دعا کی، عبد اللہ بن ابی اوفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے خلاف دعا کی اور فرمایا: "اللهم منزل الكتاب , سريع الحساب, اهزم الأحزاب, اللهم اهزمهم و زلزلهم" اے اللہ کتاب کو نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والےِ تمام لشکروں کو شکست دے، یا اللہ تمام کو شکست دے اور انکے قدموں تلے سے زمین کھسکا دے۔بخاری مسلم
کلمہ توحید کی بنا پر ہی حالات درست ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم محاصرے کے دوران کلمہ توحید کثرت سے پڑھتے رہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا پڑھ رہے تھے: (لا إله إلا الله وحده, أعز جنده, ونصر عبده, وغلب الأحزاب وحده, فلا شيء بعده) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی نے اپنے لشکر کو غلبہ عنائت کیا، اپنے بندے کی مدد کی، اور یکتا تمام لشکروں پر غالب آگیا، اسکے بعد ہمیں کسی کی ضرورت نہیں۔ بخاری
چنانچہ اللہ تعالی نے مشرکوں کے دلوں میں رعب اور دبدبہ ڈال دیا، اور اپنی نصرت نازل فرمائی کہ قریش اور یہود کے مابین نعیم بن مسعود کی پسپائی کی وجہ سے پھوٹ ڈالی، اور اپنے ہی اوپر غصہ کرتے ہوئے انہیں نامراد واپس جانا پڑا۔
اللہ تعالی نے ان پر سخت سردی کے موسم میں تیز ٹھنڈی ہوا چلادی، جس سے انکے خیمے تک اکھڑ گئے، قندیلیں بجھ گئیں، اور اللہ تعالی نے جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ فرشتوں کو نازل کیا، جس سے مشرکوں کے کلیجے منہ کو آگئے فرمایا: فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے [الأحزاب: 9]
ان سب اتحادی لشکروں کو مدینہ سے ناکام و نامراد لوٹنا پڑا، وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ اور کفار (کے لشکروں) کو اللہ تعالیٰ نے بے نیل ومرام اپنے دلوں کی جلن دلوں میں ہی لئے واپس لوٹا دیا , اور لڑائی کے لئے مومنوں کی طرف سے اللہ ہی کافی ہوگیا [الأحزاب: 25]
حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ (آج کے بعد ہم ان پر حملہ کرینگے اب وہ نہیں کر سکتے) بخاری
ایسا ہی ہوا کہ یہ آخری بار تھا کہ مسلمانوں پر مشرکین یلغار کریں، اسی غزوہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔ [الأحزاب: 21]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "لوگوں کو جنگِ احزاب کے حالات میں انفرادی اور باہمی صبر، دشمن کے سامنے سینہ سِپر، جہاد، اور اللہ کی جانب سے مددکا انتظار کرنے کے تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیاہے"
مسلمانو!
اللہ تعالی نے اپنے نورِ ہدایت کو مکمل کرنا ہے چاہے اس دین کی کتنی ہی مخالفت ہو جائے ، یا اسے لوگ قبول نہ بھی کریں کیونکہ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اور اللہ اپنے حکم (نافذ کرنے ) پر غالب ہے۔ لیکن اکثر لوگ یہ بات جانتے نہیں [يوسف: 21]
بھٹی میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے، کوئی بھی اپنے اہداف کو آسانی سے نہیں پاتا سب کو سخت محنت اور جد و جہد کے بعد ہی کوئی مقام ملتا ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کہتے ہیں: "قانونِ الہی ہے کہ انعام و اکرام کیلئے انہی تکالیف کو پیش خیمہ بنایا جاتا ہے، انہی کو نبوی دعوت کی بنیاد بنایا جاتا ہے"
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ہم یقینا اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے [غافر: 51]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔
مسلمانو!
مسلمانوں کا غلبہ اگر لیٹ ہو جائے تو کفار کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا آپ ان پر (نزول عذاب کے لئے) جلدی نہ کیجئے۔ ہم ان کی گنتی (کے دن) شمار کر رہے ہیں[مريم: 84]
اگر مسلمانوں کی فتح کے آثار نمایاں ہو جائیں تو اللہ کے فضل و احسان کو مت بھولیں کہ اللہ نے دشمنوں کو ہزیمت سے دوچار کیا، اور کثرت سے اللہ کی تعریف ، تسبیح، اور استغفار کریں، اسی لئے فرمایا: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (1) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (2) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی[1] اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں [2] توآپ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے۔ اور اس سے بخشش طلب کیجیے۔[النصر: 1- 3]
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد,اے اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ اے اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
دعا:
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ ! دین کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ جو تیرے مؤمن بندوں کو رسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں انہیں تو ذلیل فرما۔
یا اللہ! فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکی مدد فرما، یا اللہ! تو ں انکا مدد گار بن، یا اللہ ! یا قوی! یا عزیز! انہیں جلد فتحیاب فرما، یا اللہ! انکے دشمنوں کا مقدر تباہی اور بربادی بنا۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
مترجم : شفقت الرحمن بن مبارک علی
https://www.facebook.com/pages/Khutba-Of-Masjid-Nabvi-In-Urdu-مسجد-نبوی-کا-خطبہ-جمعہ/476230782413152?fref=ts