غسل کعبہ و غلاف کعبہ کی شرعی حیثیت
مقالہ نگار: سلیم چنیوٹی
بریلوی مجدد و اعلیٰ حضرت احمد رضان خان کی یاد میں گوجرانوالا سے ایک محب رضا خان بریلوی ، مولوی ابوداؤد محمد صادق صاحب نے ایک ماہنامہ ” رضائے مصطفی “ کے نام سے گزشتہ پچاس برس سے جاری کر رکھا ہے ۔ اس کا زیر نظر شمارہ نمبر2 جلد 5 .... فروری 2008ءکے صفحہ 26 پر خانہ کعبہ کے غسل و غلاف کعبہ پر زرکثیر خرچ کرنے کے متعلق دو سوال اہلحدیث جرائد و رسائل سے پوچھے گئے ہیں ۔ یہاں دونوں سوالات من و عن نقل کےے جا رہے ہیں ۔ اور ان کا جواب بھی اخذ و ترتیب کے بعد دیا گیا ہے ۔
سوال نمبر1: کثیر اخراجات کے ساتھ خانہ کعبہ کے غلاف کی جو تقریب منائی جاتی ہے اس اہتمام و اتنے اخراجات کے ساتھ یہ تقریب حدیثی و تاریخی طور پر کس حکمران نے اس کی ابتدا کی ہے ۔ جبکہ تازہ خبر ہے کہ ” لاہور ( اے پی پی ) ڈائریکٹوریٹ حج وزارت مذہبی امور کے ترجمان کے مطابق 2 کروڑ ریال کی لاگت سے 670 کلو گرام خالص ریشم سے تیار کیا جانے والا بیت اللہ کا نیا غلاف کسویٰ گزشتہ روز کعبہ کے کلید بردار شیخ عبدالعزیز الشیبی کے حوالے کر دیا گیا ۔ غلاف کی تیاری میں 650 کلوگرام خالص سونا اور چاندی بھی استعمال کی گئی ہے اور اس پر بیت اللہ کی حرمت اور حج کی فرضیت اور فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کی کڑھائی کی گئی ہے ۔ یہ غلاف ہر سال 10 ذوالحج کو تبدیل کیا جاتا ہے اور پرانے غلاف کے ٹکڑے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہان مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دےے جاتے ہیں ۔ ( روزنامہ جناح 2007ء) اس بات کی سند و حدیث و روایت کا کیا ثبوت ہے ؟
سوال نمبر2: ہر سال غسل کعبہ کی جو تقریب منائی جاتی ہے اور ہزاروں من عرق گلاب و آب زم زم سے کعبہ شریف کو غسل دیا جاتا ہے ۔ اس کی ابتدا کس دور حکومت و کس کے حکم سے شروع ہوئی ہے ؟
حدیثی ، تاریخی و تحقیقی طور پر سوالوں کے جواب مطلوب ہیں ۔ جواب واضح اور مدلل و مہذب طور پر ہو ، اگرچہ مختصر ہو ، خاموشی اختیار نہ کی جائے ۔ پہلے بھی ماہنامہ ” محدث “ و دیگر ” اہلحدیث “ رسائل سے یہ سوال پوچھا گیا تھا مگر جواب نہ وارد ، لہٰذا دوبارہ جواب طلب کیا گیا ہے ؟ ( ماہنامہ ” رضائے مصطفی ، گوجرانوالہ فروری 2008ء)
غسل کعبۃ اللہ و غلاف کعبۃ اللہ پر زر کثیر خرچ کرنا ایک سعادت مندی اور خوش قسمتی کی بات ہے ۔ یہ کام صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے ۔ اس کی نسبت مقابر و مساجد کی طرف کر دی جائے تو یہ بات اچھی نہیں ۔ جو کام جہاں جچتا ہو وہ کام وہیں سجتا ہے ۔ اللہ کریم ہمیں سچ سمجھنے اور حق کام کرنے کی توفیق سے نوازے ۔ ذیل میں ہم مفتی جماعت اہلحدیث حضرت مولانا حافظ ثناءاللہ خان المدنی حفظہ اللہ اور علامہ قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصور پوری رحمہ اللہ کی کتب میں سے جوابات تحقیقی و علمی و تاریخی طور پر تحریر کر رہے ہیں ۔
پوچھے گئے سوالات کے جوابات
کعبۃ اللہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اغلب ادوار میں اس پر بہتر سے بہتر غلاف چڑھایا گیا ۔ اہل علم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ۔ بالخصوص سلف صالحین جن کے افعال و اقوال کو منارہ ہدایت سمجھا جاتا ہے بلکہ فعل ہذا کو بہ نظر استحسان دیکھا گیا ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں فرماتے ہیں :
(( فبالغ فی تحیتھا بحیث یعجز الواصف عن صفۃ حسنہا جزاہ اللہ علی ذلک افضل المجازاۃ )) ( فتح الباری: 460/3 )
” اس نے غلاف کی بے انتہا تحسین و تزیین کی کہ بیان کرنے والا اس کے بیان اور توصیف سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان کو بہترین بدلہ سے نوازے ۔ “
اس سے معلوم ہوتا ہے انفاق ہٰذا اسراف و تبذیر کے زمرہ میں داخل نہیں ۔ کیونکہ اس پر بتواتر عملی اجازت موجود ہے ۔ اسی بنا پر اہل علم کہتے ہیں کہ دیگر مساجد و مقابر کو کعبۃ اللہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ اس عظیم خدمت کے علاوہ واضح ہو کہ موجودہ دور میں سعودی حکومت کی افضل ترین حسنات سے حرمین شریفین کی توسیع کا شان دار منصوبہ ہے جو تکمیل کے آخری مراحل طے کر رہا ہے ۔ آل سعود کا یہ عظیم کارنامہ ہے ۔ جس کی مثال پیش کرنے سے آج کی دنیا قاصر ہے ۔ اللہ کریم نے انہیں زمینی خزانوں سے نواز رکھا ہے تو اس کے پسندیدہ مقامات پر زائرین کے آرام کی خاطر اس دولت کو اس کی راہ میں لٹایا اور پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔ رب زد فزد ۔
ہر زائر کی زبان سے بے ساختہ اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ اس موحد اور خادم حرمین شریفین سرکار کی تاقیامت سلامتی کی دعا کریں کہ وہ اللہ کے دین کی یوں خدمت کرتے رہیں ۔ ( آمین یا رب العالمین )
اسی طرح غسل کعبۃ اللہ کی بھی عملی تواتر کی تفصیل یہ ہے ۔ بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاویر کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا ۔
(( ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر بغسل الکعبۃ بعد ما کسر الاصنام وطمس التصاویر )) ( تاریخ الکعبۃ المعظمہ ص 327 بحوالہ حسین عبداللہ باسلامہ ۔ بخاری ، الطحاوی ( 283/4 ) معانی الآثار )
یاد رہے کسوۃ کعبۃ کے تیسرے باب میں کافی مواد موجود ہے جو فی الجملہ مفید ہے ۔ ملاحظہ ہو ( صفحہ 227, 272 ) نیز غلاف کعبہ صرف کعبۃ اللہ کے احترام کی خاطر پہنایا جاتا ہے جو صرف کعبۃ اللہ ہی کا خاصہ ہے اور اس سلسلے میں کسی دوسری عمارت کو شریک نہیں کرنا چاہیے اسی لیے غلاف کعبہ حتی المقدور اچھا ہونا چاہیے ۔ گھٹیا قسم کے کپڑوں سے کسی کا کیا احترام ہو گا ۔
ترمذی شریف میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
(( وسترتم بیوتکم کما تستر الکعبۃ )) ( الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب 35 )
” قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے ۔ “
کسی عمارت کو یا زیب و زینت کی خاطر ڈھانکا جاتا ہے ۔ ( جیسے گھروں میں پردے لٹکانا ) یا ادب و احترام کی خاطر ( جیسے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے ) ترمذی کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب گھروں کو زیب و زینت کے خیال سے ڈھانکنا بھی شرعاً پسند نہیں کیا گیا تو پھر دیگر عمارت کو کسی ادب و احترام کی خاطر ڈھانکنا کیسے جائز ہو سکتا ہے ۔ کیوں کہ اس سے کعبۃ اللہ کے امتیاز و تشخص کا مجروح ہونا اور اس کی خصوصیات میں دوسری عمارتوں کا شریک ہونا لازم آتا ہے ۔
یہاں مزید عقلی توجیہات کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان ہمیشہ احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے چاہے کسی شے کی مشروعیت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ ( ماخوذ از فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ جلد اول صفحہ199, 200 )
مشہور عالم سیرت نگار رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصورپوری رحمہ اللہ نے 1921ءمیں سفر حج اختیار فرمایا تھا اور انہوں نے ایک سفر نامہ ” سفر نامہ حجاز “ تحریر فرمایا تھا ۔ یہ سفر نامہ بڑا معلوماتی اور تحقیقی اعتبار سے بڑا مفید ہے ۔ کعبۃ اللہ کے غلاف چڑھانے کی تاریخی حیثیت کو انہوں نے اس طرح بیان فرمایا ہے ۔
کعبہ پر کسوۃ ( غلاف ) کا رواج بہت قدیم ایام سے ہے ۔ جہاں تک تاریخ میں پتہ لگتا ہے تبع بادشاہ یمن پہلا شخص ہے ، جس نے بیت اللہ پر مکمل کسوہ ( غلاف ) چڑھایا تھا ۔ یہ ریشم کا تھا ۔ یہ بادشاہ تقریبا 7 صدی قبل از اسلام گزرا ہے ۔ تبع کے بعد کسوہ کعبہ کا یہ عمل برابر جاری رہا ۔ مختلف قسم کے پارچات یا ہرن کی کھالوں وغیرہ سے عمارت کو ڈھانک دیا جاتا تھا ۔ قبل از اسلام تنیلہ بنت خباب بن کلیب ( از نسل ربیعہ بن نزار ) اہلیہ عبدالمطلب پہلی خاتون ہیں ۔ جس نے کعبہ پر ایک ہی ریشمی کپڑے کا غلاف چڑھایا تھا ۔ یہ عم رسول جناب عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بچپن میں کھوئے گئے تھے ۔ ان کی والدہ نے منت مانی تھی کہ اگر ان کا بچہ صحیح وسلامت مل جائے تو وہ کعبہ پر لباس حریر چڑھائیں گی ۔ بچہ مل گیا اور منت پوری کی گئی ۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرار دیا کہ پہلی کسوہ ( غلاف ) کو زوار کعبہ میں تقسیم کر دیا جایا کرے مگر فروخت نہ ہو ۔ اور کسوہ جدید ( نیا غلاف ) پہنایا جایا کرے ۔ اب تک اسی طرح عمل جاری ہے ۔ خلفاءالراشدین ] کے عہد مبارک میں سال بہ سال کسوت ابریشمی چڑھایا جاتا تھا ۔ مگر کسی خاص رنگ کی پابندی نہ تھی ۔ کبھی سبز ، کبھی سفید وغیرہ ، ہاں تمام کسوہ ایک کپڑے کا ہوتا تھا ۔ خلفاءعباسیہ نے کسوت کعبہ ریشم سیاہ کا مقرر کر دیا تھا ۔ ترکوں نے عباسیوں سے خلافت لی ۔ اس وقت سے یہ سیاہ ریشم کا ہی غلاف ہوتا ہے ۔ اہل عرب کے نزدیک سیاہ لباس وقار و ہیبت کا لباس سمجھا جاتا ہے ۔ عباسیہ نے بالخصوص رنگ سیاہ کا التزام اس لیے کر لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک چادر مبارک اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی تھی اور وہ سیاہ رنگ کی تھی ۔ ( سفر نامہ حجاز از قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصورپوری ص 67, 68 )
http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=936