محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 21-ربیع الثانی- 1435کا خطبہ جمعہ بعنوان " فتنوں سے بچاؤ کے اصول " ارشاد فرمایا ،جس میں انہوں نے امت اسلامیہ کو درپیش مسائل اور بحرانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان سے نکلنے کیلئے اہم ترین طور و طریقے بیان کئے۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کیلئے ہیں، اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، اور تمام صحابہ کرام پررحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد : مسلمانو!
ایک دوسرے کیلئے بہترین نصیحت تقوی الہی ، اور اطاعتِ الہی کی نصیحت ہے، کیونکہ انہی کی وجہ سے ہر تنگی ترشی سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے، اور رنج وملال کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔
اللہ کے بندو!
سنگین بحرانوں، اور آفتوں کے سائے میں امت اسلامیہ کو جن حالات و واقعات کا سامنا ہے، ایسے تناظر میں گہری سوچ، نور ِوحی الہی، صحیح نبوی رہنمائی کی ضرورت انتہائی شدت کے ساتھ بڑھ جاتی ہے، وگرنہ منہج الہی کے فقدان کی وجہ سے قدم ڈگمگاتے ہیں، سوچ گمراہ ہوجاتی ہے، زورِ قلم خبطی ہوجاتا ہے، اور فتوے صراطِ مستقیم اور حق بات سے کنارہ کش ہونے لگتے ہیں، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى جس نے میرے بتلائے ہوئے راستے کی اتباع وہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگا اور نہ ہی بدبخت ہوگا۔[طه: 123]
جبکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرلے؛ اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے)
اسلامی بھائیو!
ذیل میں کچھ ایسے اصول ہیں جو امت کو نقصانات، اور آفتوں کے سمندر سے نکال کر امن وسلامتی کے ساتھ کنارے لگا سکتے ہیں۔
پہلا اصول: سب لوگ اصلی عقیدہ ، اور توحید خالص کے مخالف تمام مناہج کی تصحیح کیلئے یکسو ہو کر کوشش کریں، ہم سب چاہے حکمران ہوں یا عوام، علماء ہوں یا خطیب حضرات سب فرمانِ باری تعالی : قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ کہہ دیجئے! میری نمازو قربانی،اور مرنا جینا سب اللہ رب العالمین کیلئے ہے [162]اسکا کوئی بھی شریک نہیں ہے، اورمجھے تو اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ [الأنعام: 162، 163] کا مصداق بننے والے عقیدہ کے مطابق اپنا راستہ متعین کریں۔
چنانچہ ہم جب بھی عقیدہ و منہج ، عدالت و قانون سازی،علم وعمل الغرض ہر لحاض سے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں گے تو ہر طرح سے امت کیلئے امن وامان قائم ہوجائے گا، اور امت مسلمہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گی، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ جو لوگ ایمان لائے، اور اپنے ایمان میں ظلم [شرک] کی آمیزش نہیں کی، حقیقت میں یہی لوگ امن کے مستحق اور ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام: 82]
اور فرمان باری تعالی : إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا یقینا اللہ تعالی ایمان لانے والوں کا دفاع کرتا ہے۔[الحج: 38] میں اللہ تعالی انے اہل ایمان کے دفاع کی ذمہ داری خود لی ہے، جبکہ فرمان الہی إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ اٹل حقیقت ہے کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی ضرور مدد کرینگے[غافر: 51]میں نصرتِ الہی کا وعدہ بھی ہے۔
امت کو فتنوں سے بچاؤ کیلئے اس اصول کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے فرمان سے بھی ہوتی ہے جو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرمایا تھا: (اللہ کو تم یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا)
دوسرا اصول: پوری امت اس بات کا یقین کر لے کہ برے حالات گناہوں اور بے حیائی کے عام ہونے کی وجہ سے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے واضح لفظوں میں فرمایا: وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ اور تمہیں جوبھی مصیبت پہنچتی ہے اسکا سبب تمہارے اپنےکرتوت ہیں، حالانکہ اللہ تمہارے بہت سے گناہوں کو معاف بھی کردیتا ہے۔ [الشورى: 30]
شادمانی و کامرانی کا راستہ یہی ہے کہ تمام مسلم معاشرے اللہ کی اطاعت پر کابند ہوجائیں، اور نبوی سنت کو اپنا لیں۔
چنانچہ تقوی و اطاعتِ الہی ، اور اتباعِ سنت بحرانوں سے بچاؤ کا مضبوط ترین قلعہ ہے، جو ہر قسم کے حالات و اوقات میں کام آتا ہے، قرآن حکیم نے اسی بات کا اعلان کیا: وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ اور اگر کسی بھی معاشرے کے لوگ ایمان اور تقوی اختیار کرلیں تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں [کے دروازے ]کھول دیں، لیکن [افسوس]انہوں نے تکذیب کی اور پھر ہم نے انکے کرتوتوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔[الأعراف: 96]
اس لئے مسلمانوں کو چیخ وپکار کی بجائے محاسبہ نفس کرنا چاہئے، اپنے دلوں کی اصلاح کریں، زندگی کی تمام سرگرمیاں اللہ کی رضا کے مطابق بنائیں، سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کریں، کیونکہ پناہ صرف اللہ کی ذات ہی دے سکتی ہے، وہ ہی محفوظ ترین پناہ گاہ کا بندو بست کرسکتا ہے، اگر اللہ کی طرف رجوع نہیں کرنا تو فتنے ہر طرف سے پے در پے حملے کرینگے۔
اسلامی بھائیو!
تیسرا اصول:امت اسلامیہ کےہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر ضروری ہے کہ اپنی امت کے بارے میں اللہ سے ڈریں، اتحاد و اتفاق کیلئے کوششیں کریں، اختلافات، تنازعات، اور لڑائی جھگڑا ختم کردیں، کیونکہ اسکا دنیاوی نتیجہ کمزوری، ذلت ورسوائی، شر وفساد، اور سب سے بڑے نقصان اللہ کی نافرمانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
اس نتیجہ کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ آپس میں تنازعات مت کھڑے کرو، وگرنہ تم ناکام ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔ [الأنفال: 46]
سب کیلئے ضروری ہے کہ ہوس، خود پسندی ، انانیت، خطاجوئی، اور احسان فراموشی جیسے دیگر گناہوں سے بچیں، جو حقیقتاً امت محمدیہ کے افراد میں تفرقہ اور اختلافات کا باعث بنتے ہیں۔
مؤمنو!
چوتھا اصول: یہ ہے کہ علمائے اسلام، واعظین، اور خطیب حضرات پر ضروری ہے کہ حکمت عملی کیساتھ اور فتنہ پروری سے دور رہتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کریں، نتائج کو مد نظر رکھیں، اور اپنی لئے وہی راستہ اپنائیں جن کے بارے میں کتاب وسنت نے صراحت کی ہے۔
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ نتائج کو مد نظر رکھنا متقدم اور متاخر علمائے اسلام کے ایک انتہائی عظیم ضابطہ اور اصول ہے۔
پرفتن حالات میں سب کیلئے خصوصی طور پر ضروری ہے کہ انفرادی رائے دہی سے بچیں، امت کو درپیش چیلنجز میں انفرادی فتوے نہ دیں، ان کی وجہ سے امت فتنوں کی اندھیر نگری ، اور مختلف بحرانوں میں پڑ سکتی ہے،جن سے نہ دین کا نہ دنیا کا فائدہ ہوگا ،اور ماضی میں ایسا ہوبھی چکا ہے، تاریخ اسکے لئے سب سے بڑی شاہد ہے۔
ان حالات میں حکمت اور صبر وتحمل ، احتیاط و دانشوری کیلئے بالادستی انتہائی ضروری ہے، جذباتی فیصلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی سرسری نظر مفید ثابت ہوتی ہے، بلکہ شرعی مقاصد اور خصوصی قواعد کے تناظر میں حالات کا گہرائی سے تجزیہ ضروری ہے، خاص طور پر جب تمام لوگوں کے جذبات آسمان سے باتیں کریں، تو ایسے حالات میں صحیح رائے اور قولِ سدید کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے۔
اللہ تعالی اس امت کے ان علمائے کرام پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے جنہوں نے اسلامی احکام کیلئے ایک بہت بڑا قاعدہ اخذ کیا: "ازالہ فساد مقدم از حصولِ مفاد"
اسلامی بھائیو!
فتنوں کے دور میں مسلم قیادت ، اور راسخ العلم اور بلند مقام و مرتبہ والے علمائے ربانی کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، اور اگر مذکورہ منہج سے ہٹ کر کوئی فیصلہ انکی جانب سے آئے تو مذموم نتائج حاصل ہوتے ہیں، جو کہ فرمانِ باری تعالی سے بھی متصادم ہے: وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں۔ اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔ [النساء: 83]
پانچواں اصول: یہ ہے کہ اندھیری سے بھی تیز ان فتنوں میں امت محمدیہ کے سپوت ہر ایسے اقدام سے گریز کریں جو عداوت، اختلاف، اور خوف وہراس کا باعث بنے، کیونکہ شیطان تو چاہتا ہے کہ نمازیوں کو خوف وہراس میں مبتلا کر دے خاص طور پر جزیرۃ العرب میں۔
اس سے روکتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ: بات وہی کریں جو اچھی ہو، یقینا شیطان ان کو تنازعات میں ڈال دیتا ہے۔[الإسراء: 53]
اس لئے ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ میڈیائی افواہوں، سماجی ویب سائٹوں پر پھیلنے والی جھوٹی خبروں سے بچ کر رہیں، ان بے بنیاد خبروں سے بسا اوقات معاشرے کی بنیادیں ہل جاتیں ہیں، اور امت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک مسلمان ہی کی شان ہے کہ وہ نبی رحمت ، صاحب خیر و عدل صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ شرعی اصولوں پر قائم رہتا ہےآپ نے اصول بتلایا: (مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں) متفق علیہ
پیارے بھائیو! چھٹا اصول یہ ہے کہ: ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کیلئے پوری تاریخ میں سب تاریک فتنہ ، جسکی وجہ سے امت کا لا متناہی نقصان ہوا، وہ "فتنہ تکفیر" ہے، یعنی ظاہری طور پر مسلمان شخص کو کافر کہنا، اور کسی کو کافر قرار دینے میں بنا دلیل وحجت جلد بازی کرنا ؛ بلکہ بسا اوقات براہِ راست کفر کا فتوی نہیں لگایا جاتا بلکہ کسی الزامی بات پر بھی کافر کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ بات ہوا میں راکھ، اور صحرا میں سراب کی مانند ہے۔
صحیحین میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خبر دار کرتے ہوئے فرمایا: (جس کسی شخص نے اپنے بھائی کو"کافر" کہا تو یہ لفظ کسی ایک پر ضرور جائے گا، اگر تو وہ واقعی کافر تھا تو ٹھیک ورنہ کہنے والے پر لوٹ جائے گا) اور صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ: (مؤمن پر کفر کا الزام لگانا اسے قتل کرنے کی طرح ہے)
اس لئے مسلمانوں کی عزت، مال، عقل اور دین سب کچھ اسلامی شریعت کے مطابق محفوظ ہیں، اور انکا خاص مقام ہے۔
غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جتنا ہوسکے کسی کو کافر کہنے سے احتراز کرنا چاہئے" پھر کہتے ہیں: "ایک ہزار کافروں کو کافر قرار دینے میں غلطی ، ایک مسلمان کا خون بہانے سے کہیں کم تر ہے"
اور شیخ مجدد محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "مختصرا یہ ہے کہ ، جو شخص اپنا فائدہ چاہتا ہے وہ اس مسئلے میں بغیر دلیل وبرہان الہی کے بات مت کرے، اور کسی بھی شخص کو اپنی سوچ اور سمجھ کی بنا پر اسلام سے باہر نکالنے سے گریز کرے، کیونکہ ایک آدمی کو اسلام سے باہر نکالنا یا داخل کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے، اسی لئے شیطان نے بہت سے لوگوں کو اس میں مبتلا کردیا ہے"
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ: اللہ تعالی ہم سب کو اور تمام مسلمانوں کو شر وفتن سے محفوظ رکھے، اور انکے اسباب سے بھی بچا کر رکھے۔
اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی اُن پر ، اُنکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
ہم اس بابرکت ملک حرمین میں بہت سی نعمتوں کے مزے لے رہے ہیں جن میں سب سے پہلے خالص عقیدہ توحید ، اور شرعی نظام ہیں، اور پھر ان دونوں کی وجہ سے ملنے والے اچھے نتائج امن وامان، خوشحالی وشادمانی، ترقی و بلندی کی صورت میں ہیں، یہ تمام کچھ ارد گرد کی خوف وہراس سے بھرپور فضا میں ہمیں مل رہا ہے۔
اس لئے اس ملک کے تمام باشندوں پر ضروری ہے کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کریں، اور رضائے الہی کیلئے کوششیں کریں، فرامین الہی کی پابندی کریں، اور ہاتھوں میں ہاتھ لیکر ایک دوسرے کا رضائے الہی کے حصول کیلئے تعاون کریں، تا کہ امن وامان بھی قائم رہےاور خوشحالی بھی دائم رہے، اسی طرح صلح و صفائی کیلئے ایمانی محبت ، اور اسلامی بھائی چارہ کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں اور حاکم و عوام کے حقوق فرمان باری تعالی کی روشنی میں ادا کریں: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ اور نیکی و تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر نہیں۔[المائدة: 2]
حقیقت میں ہر ملک اور علاقے کے افراد کا یہی فریضہ ہے، کہ اللہ سے ڈریں، اس کیلئے رضائے الہی کےمطابق آپس میں اتحاد قائم کریں، جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ساتھ مکمل یکسانیت کا حامل ہو، تبھی جاکر کامیابی، کامرانی، خوشحالی و شادمانی دنیا و آخرت میں حاصل ہو پائے گی۔
اللہ تعالی نے ہمیں ایک عظیم کام کا حکم دیاہے، اور وہ ہے: نبی کریم پر درود و سلام بھیجنا۔
یا اللہ! رحمت و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے حبیب، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک سیدنا محمد پر،یا اللہ! خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ،اورتمام صحابہ کرام اور اہل بیت سے راضی ہوجا، اور جو بھی قیامت تک ان کے نقشِ قدم پر چلے ان سے بھی راضی ہوجا۔
یااللہ! مسلمانوں پر رحم فرما، یااللہ! مسلمانوں پر رحم فرما، یااللہ! مسلمانوں پر ہر جگہ رحم فرما، یا اللہ! انکی اپنی طرف سے حفاظت فرما، یا اللہ! انکی اپنی طرف سے حفاظت فرما، یااللہ! انہیں اپنے خاص کرم وعنائت سے نواز، یا اللہ! مسلمانوں سے تمام شر وفتن دور کردے، یا اللہ! مسلمانوں سے تمام شر وفتن دور کردے، یا اللہ! انکے لئے امن وامان قائم فرما، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و امان والا بنا دے۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! دونوں کی عمروں لمبی و دراز فرما۔
یا اللہ! یا حیی !یا قیوم! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما،یا اللہ! حق بات پر سب کو اکٹھا فرما دے، یا اللہ! حق بات پر سب کو اکٹھا فرمادے۔
یا اللہ! شامی مسلمانوں کو تنگی سے نکال دے، یا اللہ! شامی مسلمانوں کو تنگی سے نکال دے، یا اللہ! شامی مسلمانوں کو تنگی سے نکال دے،یا اللہ! فلسطین، لیبیا، مصر، یمن، تونس، اور تمام اسلامی ممالک سے بحرانوں کو ختم کردے، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! اپنی طرف سے رحمت کرتے ہوئے توں انہیں اپنے علاوہ دوسروں کا محتاج نہ بنا، یا اللہ! ان پر ایسی رحمت نازل فرما جس سے انکے حالات درست ہوجائیں، جس سے انکی بگڑی بن جائے، جس سے ان میں اتحاد پیدا ہو، اور انکے دل حق، اور ایمان کی روشنی سے منور ہو جائیں، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! تمام مسلمان مرد اورعورتوں کو معاف فرمادے، تمام مؤمن مرد و خواتین کو معاف فرمادے، زندہ مردہ سب کو معاف فرما۔
یا اللہ! ہم پر اپنی مغفرت نازل فرما، یا اللہ ! ہمیں جہنم سے آزاد فرما، یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمارے علاقے اور دیگر مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمارے علاقے اور دیگر مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما، یااللہ! ہم پر نازل ہونے والی خیر میں برکت عطا فرما، یااللہ! ہم پر نازل ہونے والی خیر میں برکت عطا فرما، بے شک تو غنی اور قابل تعریف ہے۔
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی کو بہت زیادہ یاد کرو، اور صبح و شام اسکی تسبیح کرو۔
ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو سب جہانوں کو پالنے والا ہے۔
لنک