• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنوں کےایام میں سلف کا طرز عمل

شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
فتنوں کےایام میں سلف کا طرز عمل

حافظ عبدالماجد
فتنےاور خواہش پرستی کےایام میں اُمت کے سلف صالحین کا طریقہ یہ رہاہے کہ فتنوں سے دوری، خواہشات سے اجتناب، صبر و استقامت ا ور اطاعت شعاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

«الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ»صحيح مسلم :2948
''فتنے کےوقت عبادت کرنا ایسے ہی جیسے میری طرف ہجرت کی جائے۔''
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
اور امام آجری نقل فرماتے ہیں:​
«عُمَرُ بْنُ يَزِيدَ، صَاحِبُ الطَّعَامِ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ أَيَّامَ يَزِيدَ بْنِ الْمُهَلَّبِ قَالَ: وَأَتَاهُ رَهْطٌ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَلْزَمُوا بُيُوتَهُمْ [ص:374]، وَيُغْلِقُوا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: " وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ النَّاسَ إِذَا ابْتُلُوا مِنْ قِبَلِ سُلْطَانِهِمْ صَبَرُوا مَا لَبِثُوا أَنْ يَرْفَعَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنْهُمْ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ يَفْزَعُونَ إِلَى السَّيْفِ فَيُوكَلُوا إِلَيْهِ، وَوَاللَّهِ مَا جَاءُوا بِيَوْمِ خَيْرٍ قَطُّ، ثُمَّ تَلَا: ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ، وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ﴾
اور امام آجری کی کتاب (الشرعیۃ) میں عمرو بن یزید سے مروی ہے، کہ یزیدبن مہلب کےعہد میں ایک گروہ حسنؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ اپنے گھروں میں بیٹھےرہو اور دروازے بند کرلو پھر فرمایا:اللہ کی قسم اگر لوگ اپنے بادشاہ سے پہنچنے والی آزمائش پر صبر کریں تو کچھ دیر میں ہی اللہ ان سے اس مصیبت کو اٹھا لے گا۔مگر یہ لوگ تو تلوار کا سہارا لے رہے ہیں ۔ پھر اسی کے سپرد کردیئے جا گئے۔اللہ کی قسم یہ بھلائی والے دن کوکبھی حاصل نہیں کرپائیں گے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔​
''اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیرپورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سےکام لیا تھا اور فرعون او راس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا گیا جووہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔''​
اسی وجہ سے ہمارےبعض علماء پرفتن حالات میں صبرکی تلقین کرتے ہیں۔اور ایسی بغاوت سے روکتے ہیں جو نتیجہ خیز نہ ہوسکے بلکہ الٹا فساد اور شریعت کو بے فائدہ و بے کار ثابت کرنے کا موجب بنے۔​
«وليعلم أن من يثور إِنما يخدم أعداء الإِسلام، فليست العبرة بالثورة ولا بالانفعال، بل العبرة بالحكمة»
''واضح رہے کہ جو بغاوت کا راستہ اپناتا ہے وہ دشمنان اسلام کی خدمت کرتا ہے۔کیونکہ نتیجہ بغاوت یا متاثر ہونے سے نہیں بلکہ حکمت اور دانش مندی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔''​
الشريعة :ابوبکر محمًد حسین آجری،ص47،طبع دارالسلام الریاض،باب فی السمع و الطاعة لمن ولی امر المسلمین و الصبر علیهم وان جاروا ، وترک الخروج علیهم ما اقاموا الصلاة
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
معاشرے میں اس طرح کی باغیانہ روش کے نتائج یہ نکلتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دروازے بالکل ہی بند ہوجاتے ہیں۔ اور اگر آپ اس فریضے سےعہدہ برآ ہونے کی کوشش بھی کرنے لگیں تو کوئی مثبت یا منفی نتائج برآمد نہیں کرپاتے۔ جبکہ ان جذباتی لوگوں کی اکثریت شرعی دلائل سےعاری ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے سامنے دلائل و براہین لے کر آؤبھی تو ان پر غور کرنے کی بجائے ایسے لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیں گے جو ان کے سامنے مہربان کے روپ میں آکر جوش دلاتے ہیں ۔ ا ن کے دعوے تبدیلی لانے کے ہوتے ہیں مگر بذات خود تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ارادہ اصلاح کا کرتے ہیں مگر عملا فساد برپا کررہے ہوتے ہیں ۔
چناچہ اسلامی ممالک میں رائج الوقت برائیوں کے انسداد کےلئےضروری ہے کہ شریعت اسلامیہ کو اپنایا جائے ۔ہدایت الہی اور سنن رسول کی پیروی کی جائے۔تاوقت کہ دنیا کےاطراف میں اس منبہء خیر سے سیرابی اور شمع ہدایت سے روشنی حاصل کی جائے۔ اور لوگوں کے دلوں میں امن و ایمان کی ضیاء پاشیاں ہونےلگیں ۔
علامہ محمد ناصر الدین البانی نے اپنے رسالہ (العقیدہ الطحاویہ۔ شرح و تعلیق) میں بُرائی کے خاتمہ کا بہترین راستہ واضح کر تے ہوئے فرماتے ہیں۔
«وهو أن يتوب المسلمون إلى ربهم ويصححوا عقيدتهم ويربوا أنفسهم وأهليهم على الإسلام الصحيح تحقيقا لقوله تعالى: (إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم) [الرعد: 11] وإلى ذلك أشار أحد الدعاة المعاصرين (اا) بقوله: " أقيموا دولة الإسلام في قلوبكم تقم لكم على أرضكم ". وليس طريق الخلاص ما يتوهم بعض الناس وهو الثورة بالسلاح على الحكام. بواسطة الانقلابات العسكرية فإنها مع كونها من بدع العصر الحاضر فهي مخالفة لنصوص الشريعة التي منها الأمر بتغيير ما بالأنفس وكذلك فلا بد من إصلاح القاعدة لتأسيس البناء عليها ﴿ولينصرن الله من ينصره إن الله لقوي عزيز﴾
''مسلمان اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ اپنے عقیدہ کو درست کریں اپنی اور اللہ تعالی کے اس فرمان کو سچ مانتے ہوئے اپنے اہل و عیال کی صحیح اسلام کے مطابق تربیت کریں ۔''
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾
اور ان کے معاصرین میں سے ایک عالم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :
''تم اسلامی نظام حکومت کواپنے دلوں میں جگہ دو، وہ تمہاری حیثیت کو ارض خدا پر قائم کردے گا۔''
لہذا ان حالات سے خلاصی کا راستہ یہ نہیں ہے کہ عسکری انقلاب کےذریعہ سے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے۔ جیسے کہ بعض لوگوں کا یہ وہم ہے۔یہ تو عصر حاضر کے انوکھے کاموں میں سے ہے ۔ اس طریقے سے ان شرعی نصوص کی بھی مخالفت ہوتی ہےجن میں تبدیلی کا حکم دیاگیا ہے۔لہذا اس اساسی قاعدے پر بنیاد رکھتے ہوئے اسے درست کرنا بہت ضروری ہے۔

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
''اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔''
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟
ہماری نزدیک ان حالات میں امت محمدیہ کے ہر فرد پر واجب ہے کہ وہ مضبوط، علمی اور محفوظ تطبیقی راستے کو اپنائے،دوسروں کو اس کی نصیحت کرے اور اس کی طرف دعوت دے ۔
اس کے علاوہ لوگوں کا اپنی خود غرضیوں اور فساد انگیزیوں میں مشغول ہونا، اللہ کے بتائے ہوئے دین سے انحراف ہے۔ دوسرے کسی راستے پر چلیں گے تو بہت زیادہ مفاسد اور برائیوں کا شکار ہونا پڑے گا۔ یہ بےمقصد او ربےفائدہ لڑائیاں بربادی و تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کریں گی۔
بعض ائمۃ السلف نے کیا خوب فرما یا ہے کہ :

«ما أمر الله بأمر إلا اعترض الشيطان فيه بأمرين ـ لا يبالي بأيهما ظفر ـ غلو أو تقصير »
''اللہ تعالیٰ نےجس چیز کا بھی حکم دیا ، شیطان نے اس بارے میں لوگوں کو ہمیشہ دو چیزوں میں مبتلا کیا ہے۔پہلا غلو اور دوسرا تقصیر ان میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرلیا جائے تو گمراہی کے لئے یہی کافی ہے ۔''
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
اور علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:

«وَمَا أَمَرَ اللَّهُ بِأَمْرٍ إِلَّا وَلِلشَّيْطَانِ فِيهِ نَزْعَتَانِ: إِمَّا إِلَى تَفْرِيطٍ وَإِضَاعَةٍ، وَإِمَّا إِلَى إِفْرَاطٍ وَغُلُوٍّ. وَدِينُ اللَّهِ وَسَطٌ بَيْنَ الْجَافِي عَنْهُ وَالْغَالِي فِيهِ. كَالْوَادِي بَيْنَ جَبَلَيْنِ. وَالْهُدَى بَيْنَ ضَلَالَتَيْنِ. وَالْوَسَطِ بَيْنَ طَرَفَيْنِ ذَمِيمَيْنِ. فَكَمَا أَنَّ الْجَافِيَ عَنِ الْأَمْرِ مُضَيِّعٌ لَهُ، فَالْغَالِي فِيهِ: مُضَيِّعٌ لَهُ. هَذَا بِتَقْصِيرِهِ عَنِ الْحَدِّ. وَهَذَا بِتَجَاوُزِهِ الْحَدَّ»مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين :2؍367
''اللہ کا دین انکار اور غلو کے درمیان ایسے ہے جیسے دو پہاڑوں کے وادی یا دو گمراہیوں کے درمیان ہدایت یا دو تکلیف دہ قطاروں کےدرمیان محفوظ راستہ ہو۔ جس طرح حکم کا انکار کرنے والا اس راستے کو کھو دیتا ہے ایسے ہی اس میں غلو کرنے والا بھی اسے چھوڑ بیٹھتا ہے۔ مقررہ حد سے کمی کرنا تقصیر اور تجاوز کرناغلو ہے۔''
اور علامہ شنقیطی فرماتے ہیں:

«وَقَدْ قَرَّرَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ الْحَقَّ وَاسِطَةٌ بَيْنَ التَّفْرِيطِ وَالْإِفْرَاطِ، وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: الْحَسَنَةُ بَيْنَ سَيِّئَتَيْنِ وَبِهِ تَعْلَمُ أَنَّ مَنْ جَانَبَ التَّفْرِيطَ وَالْإِفْرَاطَ فَقَدِ اهْتَدَى»أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن:1؍ 322
''علماء نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حق افراط و تفریط کا درمیانی راستہ ہے۔''
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
او ر مطرف بن عبداللہ کے قول کا بھی یہی مفہوم ہے۔
''معاملات میں سب سے بہتر ین رویہ وہ ہے جو معتدل اور متوسط ہو جیسے دو برائیوں کے درمیان اچھائی ہوتی ہے۔''
اور ان اقوال سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ جوشخص افراط و تفریط سے الگ ہوگیا وہ ہدایت پاگیا۔
متشدد مسلمانوں کےساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟
یہ دین کا اصول ہے کہ بےفائدہ تفریط و تقصیر سے دور رہا جائے اور خطرناک افراط سے اجتناب کیا جائے۔لیکن وہ آدمی جو اسلامی تاریخ اور عصر حاضر میں نظر رکھنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ غلو کی وجہ سے امت ہمیشہ ہی گہری تاریکیوں اور کئی طرح کی مصیبتوں اور فتنوں میں مبتلا ہوئی ہے۔نقل مکانی و قتل و غارت یہ سب غلو کے نتائج ہیں ۔ اللہ اس حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
پرانے خوارج اور نئےتکفیری اور دیگر عقل و بصیرت سے محروم گمراہ لوگ فتنے سے زیادہ بعید نہیں ہیں۔ (اور خوش بخت وہ آدمی ہے جسے ان کےعلاوہ نصیحت کی جائے) جیساکہ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے:
''الحمدللہ! ہم ایسی جماعت ہیں جو ہدایت کے تمام کلموں کی روشنی میں چلنے والی ہے۔ ''
پس ہم بُرائی پر راضی نہیں ہوتے۔ نہ ہی اسے تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے محبت کرتے ہیں بلکہ ہم تو ان بدترین اور قابل ملامت افعال سے نفرت کرتے ہیں جو اپنے مرتکبین کے کردار کو مجروح کر دیتے ہیں ۔ بُرائی تو بُرائی ہےجوبھی اسے کرے چھوٹا یا بڑا، امیر یا رعایا۔
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
فی الوقت ہم کو ان مخالفین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے اصولوں کو پہچاننا ہوگا۔
احکام دین کی پابندی، سنت نبوی سے رہنمائی حاصل کرنے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوئے یہ کام تعلیم، دعوت، تذکیر اورتربیت کی غرض سے کیا جائے۔
شرعی دلائل کے مخالف ہنگامہ آرائی اور بے راہ روی سے دور رہتے ہوئے۔ شرعی قواعد و احکام کی پابندی کرتےہوئے تخریب و بغاوت جیسی غیر نافع چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔
ہماری غائرانہ نظر کے مطابق ایسی انتہاء درجہ کی افراط و تفریط کرنے والوں کے لئے شفقت، رحمت اور ہدایت کی دعا کرنی چاہیے، ساتھ ساتھ ان تمام کے لئے اخوت اسلامی کو باقی رکھا جائےکیونکہ ہر ایک اپنے عمل کے مطابق اللہ سے قربت یا دوری رکھتا ہے۔

﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ﴾آل عمران: 159
''اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم کس تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سےچھٹ جاتے ان کے قصور معاف کردو ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کےکام میں ان کو بھی شریک مشورہ کرو پھر جب تمہارا عزم کسی رائے میں مستحکم ہوجائے تو اللہ پربھروسہ کرو اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پرکام کرتے ہیں۔''
 
شمولیت
فروری 26، 2013
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
43
ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ امت اسلامیہ کے لئے ایسے عقل مند نوجوان پیدا فرمائے جومعاملات و افکار، اشخاص اور گروہوں کا وزن ایسے حق کے ترازو سے کریں جو شریعت محمدی اور عقل مند افراد کےمثل ہو۔
او راندھے مہربانوں کورہنما نہ بنایا جائے او ران کے کھوکھلے نعروں سے دھوکہ نہ کھایا جائے جوبعض اوقات بیوقوف لوگوں پر غالب آجاتے ہیں اور وہ اپنے مہربانوں کے سامنے جھک جاتے ہیں تو خود ضائع ہوجاتے ہیں او راُمت کو برباد کرتے ہیں۔
اس وقت ایسی چیز کی اشد ضرورت ہے جو امت کو ہدایت کی طرف لوٹا دے قرآن اور نبیؐ کی سنت سے جوڑ دے تو اس کی عزت و آبرو کو لوٹا دیا جائے اور امت اپنے رب کی رضا اور دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرلے۔

﴿ قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ﴾المائدة:111
''انہوں نےکہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہنا کہ ہم مسلم ہیں۔''
 
Top