اور امام آجری نقل فرماتے ہیں:
«عُمَرُ بْنُ يَزِيدَ، صَاحِبُ الطَّعَامِ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ أَيَّامَ يَزِيدَ بْنِ الْمُهَلَّبِ قَالَ: وَأَتَاهُ رَهْطٌ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَلْزَمُوا بُيُوتَهُمْ [ص:374]، وَيُغْلِقُوا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: " وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ النَّاسَ إِذَا ابْتُلُوا مِنْ قِبَلِ سُلْطَانِهِمْ صَبَرُوا مَا لَبِثُوا أَنْ يَرْفَعَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنْهُمْ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ يَفْزَعُونَ إِلَى السَّيْفِ فَيُوكَلُوا إِلَيْهِ، وَوَاللَّهِ مَا جَاءُوا بِيَوْمِ خَيْرٍ قَطُّ، ثُمَّ تَلَا: ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ، وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ﴾
اور امام آجری کی کتاب (الشرعیۃ) میں عمرو بن یزید سے مروی ہے، کہ یزیدبن مہلب کےعہد میں ایک گروہ حسنؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ اپنے گھروں میں بیٹھےرہو اور دروازے بند کرلو پھر فرمایا:اللہ کی قسم اگر لوگ اپنے بادشاہ سے پہنچنے والی آزمائش پر صبر کریں تو کچھ دیر میں ہی اللہ ان سے اس مصیبت کو اٹھا لے گا۔مگر یہ لوگ تو تلوار کا سہارا لے رہے ہیں ۔ پھر اسی کے سپرد کردیئے جا گئے۔اللہ کی قسم یہ بھلائی والے دن کوکبھی حاصل نہیں کرپائیں گے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔
''اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیرپورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سےکام لیا تھا اور فرعون او راس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا گیا جووہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔''
اسی وجہ سے ہمارےبعض علماء پرفتن حالات میں صبرکی تلقین کرتے ہیں۔اور ایسی بغاوت سے روکتے ہیں جو نتیجہ خیز نہ ہوسکے بلکہ الٹا فساد اور شریعت کو بے فائدہ و بے کار ثابت کرنے کا موجب بنے۔
«وليعلم أن من يثور إِنما يخدم أعداء الإِسلام، فليست العبرة بالثورة ولا بالانفعال، بل العبرة بالحكمة»
''واضح رہے کہ جو بغاوت کا راستہ اپناتا ہے وہ دشمنان اسلام کی خدمت کرتا ہے۔کیونکہ نتیجہ بغاوت یا متاثر ہونے سے نہیں بلکہ حکمت اور دانش مندی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔''
الشريعة :ابوبکر محمًد حسین آجری،ص47،طبع دارالسلام الریاض،باب فی السمع و الطاعة لمن ولی امر المسلمین و الصبر علیهم وان جاروا ، وترک الخروج علیهم ما اقاموا الصلاة