• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض اور واجب میں فرق؟

شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
معذرت کہ کافی عرصے کے بعد اس فورم پر تشریف آوری ہوئی ہے کیونکہ بہت حد تک مصروف ہوگیا ہوں، اللہ نے چاہا تو جیسے ہی وقت ملے گا تو دوبارہ حاضر ہوتے رہیں گے۔ ان شاءاللہ
شيوح حضرات سے کچھ سوالات ہے کہ:
1/ فرض اور وجب میں کیا فرق ہے؟
یہ تو پتہ ہے کہ واجب فرض کی کیٹیگری میں آتا ہے مگر کیسے آتا ہے اور کچھ مثالیں بیان کریں کہ کون سے واجات ہیں جن کو ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
جیسے عشاء کی نماز میں وتر واجب ہے اور اگر قضا ہوگئی تو فرض کے ساتھ ساتھ وتر بھی پڑھنا پڑے گا؟
جیسے کہ میرے علم کے مطابق فرائض کا تارک اسلام سے خارج ہوتا ہے تو واجبات کا تارک کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ فاسق ہوتا ہے؟

2/ داڑھی واجبات میں آتی ہے ہم یہ جانتے ہیں باقی حنفی حضرات تو اس کو صرف سنت تسلیم کرکے اس کی اہمیت ختم کردیتے ہیں، تو پھر داڑھی کا کاٹنے والا کس گناہ کی کیٹیگری میں آتا ہے؟

3/ اس حدیث کی مکمکل تحقیق چاہیے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے آخری کونے کاٹے تھے اور سائیڈ سے بھی کاٹی تھی ( ترمذی، ادب، 17)
یہ ہی حوالہ مجھے دیا گیا ہے۔

یہ سارے سوالات میرے ایک دوست نے کیے ہیں جوکہ میں نے آپ تک پہنچائے ہیں۔
مھربانی فرماکر سوالات کا جواب تفصیلی طور پر احادیث کی روشنی میں دیجیے گا کہ اس بندے کو سمجھانے میں مدد ملے گی کیونکہ وہ حنفی ہے۔
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
عجیب بات ہے کہ محدث پر ایک سوال داخل کیے ہوئے ہفتہ گذر گیا مگر جواب ابھی تک نہیں آیا۔
خیر ہوسکتا ہے شیوخ بہت مصروف ہوں۔
خیر کوئی بات نہیں۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
کوئی بات نہیں شیخ! میں سمجھتا ہوں آپ کی شیوخ کی مصروفیات کو اور میرے سوال سے زیادہ اہمیت دین کے ترویج و تبلیغ ہے جو کہ آپ لوگ اللہ کے حکم سے بخوبی انجام دے رہے ہیں اس لیے ایسی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ا ن شاءاللہ
take your time
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ فرض ، واجب ، سنت وغیرہ یہ سب بعد کے فقھاء کی اصلاحات ہیں ، عہدرسالت یا عہدصحابہ میں یہ اصطلاحات رائج نہ تھی اسی طرح قران وحدیث میں جو فرض واجب یا سنت کے الفاظ مستعمل ہوئے ہیں وہ ان اصطلاحی معنوں میں قطعا نہیں ہیں بلکہ سیاق وسباق سے طے ہوگا کہ نصوص شریعت میں یہ کن معانی میں مستعمل ہیں ۔
بہت سارے لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے اورقران وحدیث کی تفسیروتشریح میں غلطی کرجاتے ہیں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لفظ (السنة) :. فإنه في اللغة الطريقة وهذا يشمل كل ما كان عليه الرسول صلى الله عليه وسلم من الهدى والنور فرضا كان أو نفلا وأما اصطلاحا فهو خاص بما ليس فرضا من هديه صلى الله عليه وسلم فلا يجوز أن يفسر بهذا المعنى الاصطلاحي لفظ (السنة) الذي ورد في بعض الأحاديث الكريمة كقوله صلى الله عليه وسلم: ". . . وعليكم بسنتي. . . " وقوله صلى الله عليه وسلم ". . . فمن رغب عن سنتي فليس مني [تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد: ص: 44]۔
ترجمہ: لفظ ''سنت'' یہ لغت میں طریقہ کو کہاجاتاہے اوریہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرطریقہ اورہررہنمائی کوعام ہے خواہ وہ فرض ہویانفل ، لیکن جدیداصطلاح میں ''سنت'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف اس طریقہ کے لئے خاص ہے جوفرض نہ ہو،لہٰذا یہ قطعا درست نہیں کہ بعض احادیث میں وارد لفظ ''سنت'' سے بھی یہی اصطلاحی معنی مراد لئے جائیں جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث :((۔۔۔اورمیری سنت کو لازم پکڑو۔)) یا یہ حدیث : ((۔۔۔جومیری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔۔۔۔۔))
علامہ البانی رحمہ اللہ بعض مشائخ پررد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تفسيرهم للسنة بالمعنى الاصطلاحي غفلة منهم عن معناها الشرعي وما أكثر ما يخطئ الناس فيما نحن فيه بسبب مثل هذه الغفلة[تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد: ص: 45]۔
بعض مشائخ کا ''سنت '' مستعملہ حدیث کو اصطلاحی معنی میں لینا، اس کے شرعی معنی سے ان کی ناواقفیت کا نتیجہ ہے اوراس ناواقفیت کی بنا پرآج بہت سارے لوگ حدیث کی توضیح وتشریح میں غلطی کربیٹھتے ہیں
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولهذا أكثر ما نبه شيخ الإسلاوم ابن تيمية وتلميذه ابن القيم رحمهم الله على ذلك وأمروا في تفسير الألفاظ الشرعية بالرجوع إلى اللغة لا العرف[تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد: ص: 45]۔
اسی وجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمہ اوران کے شاگرد ابن قیم رحمہما اللہ نے باربار اس پرمتنبہ کیا ہے اور یہی کہا ہے شرعی الفاظ سے اصطلاحی اورعرفی معنی نہیں بلکہ لغوی معنی مراد لیناچاہئے۔
یہ لفظ ’’سنت‘‘ کی مثال ہے بعد کے فقہاء کے یہاں اس سے مراد شریعت کا وہ حکم جس کے ترک پرگناہ نہ ہو لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں یہ اس حکم کے معنی ہے جس کے چھوڑنے پرگناہ ہو یعنی وہ حکم جسے فقہاء فرض یا واجب سے تعبیرکرتے ہیں۔

الغرض یہ کہ یہ اصطلاحات بعد کے فقہاء کی ایجادکردہ جن کا مقصود نصوص شریعت کی تفہیم میں تبلیغ میں آسانی پیداکرنا ہے ، یہ ساری اصطلاحات عین دین نہیں بلکہ دین کی تفہیم و تبلیغ کے وسائل ہیں۔

یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کیونکہ کچھ لوگ سوال کرتے رہتے ہیں کہ فلاں چیز فرض ہے فلاں چیز سنت ہے اس کی دلیل قران وحدیث سے دکھاؤ۔
عرض ہے کہ فرض وسنت کی جدید اصطلاحات دین کا حصہ قطعا نہیں ہیں بلکہ بعد کی ایجاد ہیں ، دریں صورت قران وحدیث کے نصوص میں اس کا مطالبہ کرنا سوائے حماقت کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔
یہیں پریہ بات بھی واضح رہے کہ یہ یہ جدید مصطحلات دین میں ایجاد کردہ بدعات نہیں ہے جیساکہ اہل بدعت ان کو بطور مثال پیش کرکے دین میں نئی چیز (بدعت) ایجاد کرنے کی دلیل بنانے ہیں، اورکہتے ہیں کہ دین میں پہلے فرض واجب وغیرہ نہ تھے بعد لائے گئے کیونکہ یہ اچھے تھے یعنی یہ اصطلاحات دین میں بدعت حسنہ ہیں۔
عرض ہے کہ یہ اصطلاحات دین کا حصہ ہے ہی نہیں ، ان کی حیثیت تفہیم دین اورتبلیغ دین کے وسائل کی ہے نہ کی اصل دین کی ، اوردین کی تفہیم و تبلیغ میں اصلاجواز ہے لہٰذا اس کے لئے کوئی بھی ایسا طریقہ ایجاد کیا جاسکتا ہے جس کی ممانعت کتاب وسنت میں نہ ہو ، مثلا ترجمہ ، خلاصہ ، اصطلاحی نام ، جلسے ، پروگرام ، پوسٹر اوردیگر تمام ذرائع تبلیغ ، یہ ساری چیزیں اصل دین نہیں بلکہ تبلیغ دین کے ذرائع ہیں جن کی اصل حلت ہے لہٰذا یہ بدعات نہیں۔

آب سوالات پرآتے ہیںِ

1/ فرض اور وجب میں کیا فرق ہے؟
احناف نے فرض اورواجب میں تفریق کے لئے جوبنیادبنائی ہے وہ یہ ہے کہ جو قطعی دلائل سے ثابت ہو وہ فرض ہے اورجوظنی دلائل سے ثابت ہو وہ واجب ہے۔
پھران کے یہاں قطعی دلائل اورظنی دلائل کی تفریق ، نصوص کی دلالت کے اعتبار سے نہیں بلکہ نصوص کے ہم تک پہنچنے کے اعتبارسے ہیں۔
یعنی قران یا بعض کے بقول قران اورمتواترحدیث سے جولازمی حکم ثابت ہو وہ واجب ہے ، کیونکہ قران اورمتواترحدیث ہم تک پہنچنے کے اعتبارسے قطعی ذرائع سے ثابت ہیں۔
جبکہ آحاد یعنی غیرمتواتر احادیث سے جو لازمی حکم ثابت ہوگا وہ واجب ہوتا کیونکہ اخبارآحاد یعنی غیرمتواتراحادیث ہم تک پہنچنے کے اعتبارسے قطعی ذرائع سے ثابت نہیں ہیں۔

لیکن اس بنیاد پرمذکورہ تفریق قطعا غلط ہے کیونکہ نصوص شریعت اگر ثابت ہوجائیں تو ان کے ثبوت کا ذریعہ کوئی بھی ہو ،قران ، حدیث متواتر یا حدیث واحد ، سب کو یکساں طورپرقبول کیا جائے گا۔
قران ، حدیث متواتر ، حدیث واحد وغیرہ میں جو فرق ہے وہ من حیث الورود ہے نہ کہ من حیث القبول ، قبولیت کے اعتبارسے کوئی تفریق نہیں ہے کوئی مسئلہ قران سے ثابت ہو یا حدیث متواترسے یا حدیث سےآحاد سے سب یکساں طورپر مقبول ہے۔
لہذا ورود کے اعتبارسے نصوص کے جو درجات ہیں ان کو بیناد بناکر ان سے مستنبط احکام میں تفریق کرنا درست نہیں ۔
یعنی اگرکوئی لازمی حکم قران کی کسی صریح آیت سے ثابت ہو تو اسے ہم فرض کہیں لیکن اگروہی صریح مسئلہ اسی مفہوم پوری صراحت کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت ہوتا تو ہم اسے واجب کہتے ہیں ، یہ تفریق قطعا غلط ہے۔

البتہ اگرقطعیت اورظنیت کا فرق نصوص کی دلالت کی بناپر کیا جائے۔
پھراس کی بنیاد پرفرض اورواجب کا فرق کیا جائے یعنی جو لازمی حکم قران یا حدیث سے پوری صراحت کے ساتھ ثابت ہو امت کا اس پر اتفاق ہو اس میں تاویل کی ادنی گنجائش بھی نہ ہواس میں اجتہاد کا کوئی دخل نہ ہو تو ایسا حکم فرض ہے، جیسے پنجوقتہ نمازوں کی فرضیت ۔
لیکن اگرکوئی لازمی حکم قران وحدیث کی نص صریح سے ثابت نہ ہو اس پر امت کا اجماع نہ ہو اس کی تاویل کی گنجائش بھی ہو اس میں اجتہاد کی گنجائش بھی ہو تو ایسے لازمی احکام کو واجب کا نام دیا جائے، جیسے اموال تجارت میں زکاۃ ۔
ایسی صورت میں یہ اختلاف محض لفظی ہوگا حقیقی نہیں ، کیونکہ دونوں سے مراد ایسے احکام ہیں جن کا بجالانا لازمی ہے اوران کا تارک گنہگارہے ، رہی کفر اوراسلام کے خارج ہونے بات تو اس کے لئے دوسری بہت ساری چیزوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے جس کا تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔

الغرض فرض اورواجب کی یہ تفریق احناف کی ہے جو دیگرمحدثین و فقہاء کے کے خلاف ہے کیونکہ دیگر کے یہاں فرض اورواجب کی اصطلاح سے ایک ہی معنی مراد ہے اوریہی بات راجح ہے لہٰذا ان دونوں اصطلاحات کو ایک ہی معنی میں استعمال کرنا چاہئے۔

امام فخر الدين الرازي (المتوفى: 606 ) نے کہا:
وأما الاسم فاعلم أنه لا فرق عندنا بين الواجب والفرض [المحصول للرازي:1/ 97 ]۔
یعنی ہمارے نزدیک واجب اورفرض میں کوئی فرق نہیں۔
امام شوکانی نے (المتوفى: 1250) کہا:
فَالْوَاجِبُ فِي الِاصْطِلَاحِ: مَا يُمْدَحُ فَاعِلُهُ، وَيُذَمُّ تَارِكُهُ، عَلَى بَعْضِ الْوُجُوهِ فَلَا يَرِدُ النَّقْضُ بِالْوَاجِبِ الْمُخَيَّرِ، وَبِالْوَاجِبِ عَلَى الْكِفَايَةِ، فَإِنَّهُ لَا يُذَمُّ فِي الْأَوَّلِ، إِذَا تَرَكَهُ مَعَ الْآخَرِ، وَلَا يُذَمُّ فِي الثَّانِي إِلَّا إِذَا لَمْ يَقُمْ بِهِ غَيْرُهُ. وَيَنْقَسِمُ إِلَى مُعَيَّنٍ وَمُخَيَّرٍ، وَمُضَيَّقٍ، وَمُوَسَّعٍ، وَعَلَى الْأَعْيَانِ، وَعَلَى الْكِفَايَةِ. وَيُرَادِفُهُ الْفَرْضُ عِنْدَ الْجُمْهُورِ[إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول:1/ 26]۔
یعنی جمہور کے نزدیک واجب اورفرض کے ایک دوسرے کے مترادف ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ۔

یہ تو پتہ ہے کہ واجب فرض کی کیٹیگری میں آتا ہے مگر کیسے آتا ہے اور کچھ مثالیں بیان کریں کہ کون سے واجات ہیں جن کو ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
واجب میں بھی اسی طرح لازمی حکم ہوتا ہے جس طرح فرض میں ہوتا اس لئے دونوں ایک ہیں ان میں صرف اس لئے فرق کرنا کہ یہ لازمی حکم قران میں ہے اس لئے فرض اوریہ لازمی حکم حدیث میں ہے اس لئے واجب یہ تفریق قطعا غلط ہے کیونکہ قران وحدیث دونوں یکساں حجت ہیں ۔

اوران تمام واجبات کا اداکرناضروری ہے جن کے کرنے کالازمی حکم قران یا حدیث میں ہو، نیز انہیں احکام کا نام فرائض بھی ہے۔

جیسے عشاء کی نماز میں وتر واجب ہے اور اگر قضا ہوگئی تو فرض کے ساتھ ساتھ وتر بھی پڑھنا پڑے گا؟
وترکے لئے قران یا حدیث میں لازمی ادائیگی کا حکم نہیں لہیذا یہ نہ فرض ہے نہ واجب ہے ، بلکہ سنت موکدہ ہے ، البتہ عام سنن موکدہ کی بنسبت اس کی کچھ زیادہ ہی تاکید ہے تاہم یہ فرض یا واجب نہیں جو بھی اسے فرض یا واجب کہے اس سے اس کی دلیل طلب کریں ۔

لیکن واجب نہ ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اس سے دست بردار ہوجائیں اور اوراسے کوئی اہمیت ہی نہ دیں کیونکہ اس کی زبردست تاکید ہے اوراس لئے اس کا پورا اہتمام کرنا چاہئے اورچھوٹنے پر بعدادا کرلینی چاہئے لیکن اگرکبھی کسی نے چھوڑدیا تو وہ گنہگارنہیں۔

جیسے کہ میرے علم کے مطابق فرائض کا تارک اسلام سے خارج ہوتا ہے تو واجبات کا تارک کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ فاسق ہوتا ہے؟
بھائی یہ بات درست نہیں کہ فرائض کا تارک اسلام سے خارج ہوجاتا ، والدین کی اطاعت اوران کا ادب واحترام فرض ہے اس کا حکم قران وحدیث دونوں میں ہے لیکن اگرکوئی ایسانہ کرے تو کیا وہ کافرہے؟؟ اسی طرح نماز فرض ہے لیکن اس کے تارک کو بھی جمہوراہل علم کافر نہیں کہتے ۔
ہاں اگرکوئی اسلام کے کسی حکم کا انکارکردے تو وہ کافرہوجائے گا لیکن یاد رہے کسی عمل کے بارے میں کہنا کہ ایسا کرنے سے کوئی کافر ہوجاتا ہے اورکسی فرد پر اسے منطبق کرنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے کوئی عمل گرچہ متفقہ طورپرکفیہ وشرکیہ ہو لیکن اس کے مرتکب کو کافرکہنے کے لئے بہت سے شرائط ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔


2/ داڑھی واجبات میں آتی ہے ہم یہ جانتے ہیں باقی حنفی حضرات تو اس کو صرف سنت تسلیم کرکے اس کی اہمیت ختم کردیتے ہیں، تو پھر داڑھی کا کاٹنے والا کس گناہ کی کیٹیگری میں آتا ہے؟
داڑھی کاٹنا گناہ کبیرہ ہے ، کیونکہ شریعت میں دھاڑی رکھنے کے لئے لازمی حکم ہے اب کوئی چاہے اسے فرض کہے یا واجب رہا سنت کہنا تو اگرغیراصطلاحی معنی میں اسے سنت کہا جائے تو درست ہے لیکن اصطلاحی معنی میں اسے سنت کہنا یعنی یہ ماننا کہ اس کے کاٹنے پرکوئی گناہ نہیں ، قطعا درست نہیں ۔
میرے خیال سے حنفی علماء بھی اسے سنت اصطلاحی معنی میں نہیں کہتے ہوں گے واللہ اعلم۔


3/ اس حدیث کی مکمکل تحقیق چاہیے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے آخری کونے کاٹے تھے اور سائیڈ سے بھی کاٹی تھی ( ترمذی، ادب، 17)
یہ ہی حوالہ مجھے دیا گیا ہے۔
یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے تفصیل کے لئے دیکھئے [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 1/ 456 رقم 288 ]۔
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ شیخ!
واللہ آپ نے جو باتیں کیں وہ بالکل درست ہیں اور میں ان کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرتا ہوں۔ ان شاءاللہ
مگر ایک بات پر کچھ ابہام ہیں اس پر اگر روشنی ڈالیں گے تو مجھ کم علم کے علم میں کچھ اضافہ ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ
اسی طرح نماز فرض ہے لیکن اس کے تارک کو بھی جمہوراہل علم کافر نہیں کہتے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشمار احکامات کی روشنی میں تارک نماز مسلمان نہیں ہے جیسا "مشرک اور مسلمان میں فرق نماز کا ہے" اور ایسی بے شمار احادیث ہیں جن کی رو سے یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ تارک نماز مسلمان نہیں ہے اور اکر مرنے تک وہ نماز نہیں پڑھتا تو علماء جمہور کے نزدیک وہ مسلمان نہیں رہتا اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہیں کرنا چاہیے نہ اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے اور بے نمازی کی شادی نمازی سے نہیں ہوسکتی وغیرہ وغیرہ۔
تو اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں شیخ؟
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بھائی تارک صلاۃ کے کافر ہونے کے سلسلے میں بہت بڑے بڑے علماء کا اختلاف ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ بھی تارک صلاۃ کو کافر نہیں مانتے ۔
میں اس لائق قطعا نہیں کہ اس مسئلہ میں پورے وثوق کے ساتھ کوئی بات کہہ سکوں ، البتہ جہاں تک میرے اطمینان کی بات ہے تو اس بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہی مجھے راجح معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن میں دوسرے موقف کو غلط نہیں کہہ سکتا اللہ ہی بہتر جانے کون سا موقف صحیح ہے ، میں نے فقط اپنے اطمینان اوررجحان کی بات کی ہے ، آپ سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ میں کبار اہل علم کی طرف رجوع کریں اس کے بعد جن کے دلائل پر آپ کا دل مطمئن ہواسی کو قبول کرلیں اور اس سلسلے میں مزید کچھ کہنے کے لئے مجھے معذور سمجھیں ، بارک اللہ فیکم۔
 
Top