• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرقہ ماتریدیہ اور اہل السنۃ کے درمیان اختلاف کی کون کونسی شکلیں ہیں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
فرقہ ماتریدیہ اور اہل السنۃ کے درمیان اختلاف کی کون کونسی شکلیں ہیں؟


آپ سے سلف اور فرقہ ماتریدیہ کے عقائد میں اختلاف کے متعلق جاننا چاہتا ہوں وضاحت فرمادیں، اور کیا ماتریدی عقیدہ کا حامل جنت میں جائے گا؟

الحمد للہ:

"ماتریدیہ"ایک بدعتی اور اہل کلام سے تعلق رکھنے والا فرقہ ہے، جو کہ ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب ہے، انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے ابتدائی طور پر معتزلی اور جہمیوں کے مقابلے میں عقلی اور کلامی دلائل پر زیادہ انحصار کیا۔

ماتریدیہ متعدد مراحل سے گزرے ہیں، اور انہیں اس نام سے اس فرقے کے مؤسس کی وفات کے بعد ہی پہچانا گیا، جیسے اشعری ابو الحسن الاشعری کی وفات کے بعد ہی مشہور ہوئے، اس فرقے کے تمام مراحل کو چار بنیادی مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

تاسیسی مرحلہ:

اس مرحلہ میں معتزلہ کے ساتھ انکے بہت ہی زیادہ مناظرے ہوئے، یہ مرحلہ ابو منصور ماتریدی پر قائم تھا، اسکا مکمل نام محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی، "ماتریدی"یہ نسبت جائے پیدائش کی طرف ہے، جو کہ ما وراء النہر کے علاقے میں سمرقند کے قریب ہی ایک محلے کا نام ہے۔

انہیں عقل کو مقدم کرنے والوں کا سُرخیل سمجھا جاتا ہے، اور شرعی نصوص اور آثار و روایات سے انکا بہت ہی کم لگاؤ تھا، جیسے کہ اکثر متکلمین اور اہل اصول کا حال رہا ہے۔

ابو منصور ماتریدی متعدد مسائل میں جہمی عقائد سے متاثر تھا، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں: صفات خبریہ کی شرعی نصوص میں تاویل ، مرجئہ کی بدعات اور اقوال کا بھی قائل تھا۔

ابو منصور، ابن کلاب (متوفی 240 ہجری) سے بھی متاثر تھا، اسی ابن کلاب نے اللہ تعالی کے بارے میں "کلام نفسی" کا عقیدہ ایجاد کیا تھا، جس سے ابو منصور بھی متاثر تھا۔

تکوینی مرحلہ:

یہ دور ماتریدی کے شاگردوں اور بعد میں اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کا تھا، اس دور میں ماتریدیہ مستقل ایک کلامی فرقہ بن چکا تھا؛ ابتدائی طور پر سمرقند میں ظہور پذیر ہوا، اور اپنے شیخ اور امام کے افکار نشر کرنے شروع کئے، اور انکا دفاع بھی کیا، اس کے لئے انہوں نے تصانیف بھی لکھیں، یہ لوگ فروع میں امام ابو حنیفہ کے مقلد تھے، اسی لئے ماتریدی عقائد انہی علاقوں میں زیادہ منتشر ہوئے۔

اس مرحلے کے قابل ذکر افراد میں ، ابو القاسم اسحاق بن محمد بن اسماعیل الحکیم سمرقندی، اور ابو محمد عبد الكريم بن موسى بن عيسى بزدوی ہیں۔

ماتریدی عقائد کیلئے اصول و قواعد اور تالیفات کا مرحلہ:

اس مرحلے میں تالیف کثرت سے ہوئی ، اور ماتریدی عقائد کیلئے دلائل جمع کئے گئے، اس لئے مذہب کی بنیاد کیلئے گذشتہ تمام مراحل سے زیادہ اہم مرحلہ یہی ہے۔

اس مرحلے کے قابل ذکر علماء میں :ابو معين نسفی، اورنجم الدين عمر نسفی شامل ہیں۔

انتشار اور مذہبی پھیلاؤ کا مرحلہ:

ماتریدیہ کیلئے انتہائی اہم ترین مرحلہ ہے، کہ اس مرحلے میں ماتریدی مذہب خوب پھیلا حتیٰ کہ اس سے زیادہ پھیلاؤ کبھی نہیں ہوا تھا؛ اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دولہ عثمانیہ کی خوب تائید کی ، اسی وجہ سے ماتریدی مذہب وہاں تک پھیلا جہاں تک دولہ عثمانیہ پھیلی، چنانچہ یہ مذہب زمین کے مشرق، مغرب، عرب ممالک ، غیر عرب ممالک، ہندوستان، ترکی، فارس، اور روم تک پھیل گیا۔

اس مرحلے میں متعدد کبار محققین نے اپنا نام پیدا کیا، جیسے: کمال بن ہمام۔

ماتریدی فرقہ کے پیروکار ہندوستان اور اسکے آس پاس کے مشرقی ممالک چین، بنگلہ دیش، پاکستان، اور افغانستان میں بہت زیادہ ہیں، اسی طرح اس فرقے کا پھیلاؤ ترکی، روم، فارس، اور ما وراء النہر کے علاقوں میں خوب ہوا، ابھی تک ان علاقوں میں اکثریت انہی کی ہے۔

دوسری بات:

ماتریدی اور اہل السنۃ کے مابین اختلافات کی شکلیں مندرجہ ذیل ہیں:

ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین(عقائد) کی ماخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:

1- الٰہیات (عقلیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیاد ی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔

2- شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے جزمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّات، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّات کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔

مندرجہ بالابیان میں بالکل واضح منہج اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں، اور دین کے تمام مسائل انہی مآخذ سے لئے جاتے ہیں، کسی مسئلہ کیلئے کوئی خاص ماخذ نہیں ہے۔

پھر انہوں نے اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک نئی بدعت ایجاد کی، یہ تقسیم ایک بے بنیاد فکر پر ہے اور وہ ہے کہ عقائد ایسے اصولوں پر مبنی ہیں جنکا عقل سے ادراک ناممکن ہے، اور نہ ہی نصوص بذاتہٖ خود ثابت کر سکتی ہیں، بلکہ عقلی دلیل سے ثابت ہونے والے امور کیلئے تائید کا کام کرتی ہیں۔

- ماتریدیہ نے بھی دیگر کلامی فرقوں معتزلہ اور اشاعرہ کی طرح معرفتِ الٰہیہ کتاب وسنت سے پہلے عقل کے ذریعے حاصل کرنے کے متعلق گفتگو کی اور اسے واجب کہہ دیا، بلکہ اسے مکلف کیلئے واجب اولی بھی قرار دیا ، اس سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس نے یہ نہ کیا تو اسے سزا بھی ہوگی اور اسکا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائےگا، چاہے انبیاء اور رسل کی بعثت سے پہلے ہی کیوں نہ ہو۔

یہ بات کہہ کر انہوں نے معتزلہ کی موافقت کی ،حالانکہ یہ بات واضح طور پر باطل ہے، اور کتاب و سنت کے دلائل سے متصادم بھی ہے، کیونکہ کتاب وسنت ہمیں بتلاتے ہیں کہ ثواب اور عذاب شریعت کے بعد ہی ہوتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

(وما كنا معذبين حتى نبعث رسولاً)

ترجمہ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج دیں۔ الاسراء/15

اس لئے بندوں پر سب سے پہلے واجب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک مانیں، اور اسکے دین میں داخل ہوجائیں، نا کہ اس معرفت کے پیچھے بھاگتے پھریں جو اللہ تعالی نے فطرتی طور پر ساری مخلوقات کی گھُٹّی میں ڈال دی ہے۔

- جبکہ ماتریدیہ کے ہاں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ : اللہ تعالی کو ذات میں ایک سمجھا جائے، اسکا کوئی ہمسر نہیں، اور نہ ہی اسکا کوئی حصہ دار ہے، وہ اپنی صفات میں یکتا ہے، اسکا کوئی بھی شبیہ نہیں ہے، اور اپنے افعال میں اکیلا ہے، مخلوقات ایجاد کرنے میں اس کا کوئی بھی شراکت دار نہیں ہے۔

اسی لئے انہوں نے توحید کی اس قسم کو ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، کیونکہ ان کے ہاں "الٰہ" کا مطلب: وہ ذات ہے جو پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہو، اس نظریے کو مضبوط کرنے کیلئے انہوں نے معتزلہ اور جہمیہ کی ایجاد کردہ عقلی اور فلسفی قیاس آرائیوں کو استعمال کیا، یہ ایسے دلائل ہیں جن کی سلف ، ائمہ کرام، اور علمِ کلام و فلسفہ کے سُرخیل علماء نے تردید کی ، اور یہ روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا کہ جو انداز قرآن مجید نے بیان کیا ہے وہی صحیح ترین ہے۔

- ماتریدی اللہ تعالی کی صرف آٹھ صفات کے قائل ہیں، اگرچہ ان آٹھ کی تفصیل کے بارے میں بھی انکا آپس میں اختلاف ہے، وہ آٹھ صفات یہ ہیں: حیات، قدرت، علم، ارادہ، سماعت، بصارت، کلام اور تخلیق۔

اسکے علاوہ جتنی بھی صفاتِ خبریہ صفاتِ ذاتیہ یا فعلیہ ہیں جن پر قرآن و سنت کے دلائل موجود ہیں؛عقل کے دائرہ کار میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے ان سب کا انہوں نے انکار کردیا، اور ان کے سب دلائل میں من مانی تاویلیں کر ڈالیں۔

جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ اسماء و صفات کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ :

تمام کی تمام صفات توقیفی ہیں، جن صفات کے بارے میں نصوص موجود ہیں ان کو بلا تشبیہ ثابت مانتے ہوئے ایمان لاتے ہیں، اور اللہ تعالی کو تمام صفاتِ ذمیمہ یا ایسی صفات جن سے مخلوق کے ساتھ مماثلت ہو ان تمام صفات سے پاک جانتے ہیں، اور تمام اسمائے حسنیٰ اور صفات کو بغیر تعطیل کے مانتے ہیں، جبکہ کیفیت اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اور ان صفات کا معنی و مفہوم شانِ الٰہی کے مطابق بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ انکی دلیل فرمانِ الہی ہے:

(ليس كمثله شيء وهو السميع البصير)

ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ الشوری/ 11

- ماتریدیہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کلام حقیقت تو ہے لیکن وہ کلامِ نفسی ہے جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اللہ کی کلام سُنی نہیں جاسکتی، اورجو آواز سنائی دیتی ہے وہ اصل میں قدیم نفسی صفت کی تعبیر ہوتی ہے، اسی لئے انکے ہاں لوگوں کے ہاتھوں میں لکھا ہوا قرآن مجید مخلوق ہوسکتا ہے، اور اس قول کی وجہ یہ لوگ معتزلہ سے جاملے، اور اجماع ائمہ کی مخالفت کر ڈالی، حالانکہ ائمہ کرام نے اس عقیدے کو غلط قرار دیا بلکہ قرآن مجید کو مخلوق کہنے والے کو کافر بھی کہا ہے۔

- ماتریدیہ ایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ایمان صرف دل سے تصدیق کا نام ہے، لیکن بعض لوگوں نے زبان سے اقرار کو بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیاہے، لیکن ایمان میں کمی زیادتی کا سب ماتریدی انکار کرتے ہیں، اور ماتریدی ایمان کے متعلق استثناء کی حرمت کے قائل ہیں، انکے ہاں ایمان اور اسلام دونوں ہی مترادف ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں، اوراس قول کی وجہ سے وہ مرجئہ سے جا ملے اور اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت کی اس لئے اہل السنۃ کے ہاں ایمان یہ ہے کہ:

دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار، اور اعضاء سے عمل کا نام ایمان ہے جوکہ نیکی کرنے سے بڑھتا ہےاور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔

- ماتریدی آخرت میں اللہ کے دیدار کو تو مانتے ہیں لیکن کس جہت میں اللہ کا دیدار ہوگا اسکا انکارکرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں، کہ شروع میں تو ایک چیز کو ثابت کیا ہے لیکن بعد میں اسکی حقیقت کا انکار کردیا۔

اس بارے میں مزیدمعلومات کیلئے، دیکھیں:

- "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/ 95-106(

- "الماتريدية" ، ماسٹر لیول کا مقالہ ہے، از باحث: احمد بن عوض الله لهيبی حربی۔

- "الماتريدية وموقفهم من توحيد الأسماء والصفات" ، یہ بھی ماسٹر لیول کا مقالہ ہے ، از باحث: شمس الدین افغانی سلفی

- "منهج الماتريدية في العقيدة" از ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن خميس۔

- "الاستقامة" از شيخ الاسلام ابن تيميہ

- "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (3/ 307-308)

تیسری بات:

ماتریدی فرقہ کے بارےمیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جنت میں جائےگا یا جہنم میں ، بلکہ انکا شمار دیگر مسلمانوں میں ہوگا، اگرچہ انکے کچھ اقوال بدعتی ہیں، لیکن انکے یہ اقوال کفریہ نہیں ہیں، تو ہر حالت میں یہ لوگ دیگر مسلمانوں کی طرح ہیں:

( لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا * وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا )

ترجمہ: (نجات کا دارومدار) نہ تمہاری آرزؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزؤں پر، جو بھی برے کام کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا حامی و مددگار نہ پائے گا٭ اور جو کوئی اچھے کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان لانے والا ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ النساء/123-124

اس لئے بدعتی ہونے کے اعتبار سے ہر فرد کا حکم علیحدہ سے ہوگا، کیونکہ جن لوگوں نے تاویل کی ، یا اجتہاد کیا توہر دو میں سے کسی کا عذر قابلِ قبول ہوگا،اور کچھ کو غلطی کی بنا پر مؤاخذے کا سامنا بھی کرنا پڑیگا، اور اسکا معاملہ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوگا، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اشاعرہ کے چند علماء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"جو لوگ انکے بارے میں علم، صداقت، اور عدل و انصاف سے مطالعہ کرے تو اسے ان میں کچھ افراد ایسے بھی ملیں گے جنکی اسلام کیلئے قابل قدر اور گرانقدر خدمات ہیں، انہوں نے بہت سے مُلحد اور بدعتی لوگوں کا علمی رد کیا ہے، اور اہل السنۃ کی مدد بھی کی۔

لیکن انہوں نے معتزلہ سے جب یہ قاعدہ لیا کہ عقل ہی اصل ہےتو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اسے مسترد کرتے اور اسکے لوازم کا بھی انکار کرتے لیکن ایسا نہ کرنے کی بنا پر ان سے ایسے اقوال صادر ہوئے جنہیں اہل علم نے یکسر مسترد کردیا۔

اور لوگ اسی وجہ سے ان کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے:

انکے نیک کام اور جد وجہد دیکھ کر کچھ نے انکے بارے میں تعریفی کلمات کہے ۔

اور کچھ نے انکی گفتگو میں بدعات اور باطل اقوال دیکھ کر انکی مذمت کرڈالی۔

جبکہ بہتر یہ تھا کہ میانہ روی اختیار کی جاتی۔

میانہ روی صرف انہیں لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ تمام اہل علم جماعتوں کے بارے میں یہی کہا جائے گا، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے تمام مؤمن بندوں سے انکی نیکیاں قبول کرے، اور انکی برائیوں سے تجاوز کرے،

(رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ )

ترجمہ: اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں' ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔[الحشر/10]

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تلاشِ حق کیلئے خوب محنت کی اور اس دوران کچھ معاملات میں اس سے غلطی ہوگئی تو امید ہے کہ اللہ تعالی اسکی غلطی کو معاف کردے گا، اس لئے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی اور مؤمنین کی دعا کو قبول کیا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے:

{ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا}

ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک اور غلطی ہو جائے تو اس پر گرفت نہ کرنا (البقرة: 286)

اور جس شخص نے اپنے وہم گمان پر اعتماد کرتے ہوئے مخالفت کرنے والے پر زبان درازی کی، حالانکہ مخالفت کرنے والے نے اجتہاد کیا تھا اور اسی کو درست سمجھتے ہوئے اسکا قائل ہوا لیکن حقیقت میں وہ غلطی پر تھا، تو زبان درازی کرنے والے کو بھی اسی زبان درازی یا اس سے بھی سخت کلمات کا سامنا ہوسکتا ہے، کیونکہ نور نبوت اور رسالت والا دور گزر چکا ہے چونکہ انہی کی وجہ سے ہدایت اور راہنمائی ملتی تھی اور دلوں سے شک وشبہات زائل ہوجاتے تھے ، چنانچہ متاخرین میں کثرت سے شبہات اور اختلافات پیدا ہوئے اور بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے جو غلطی سے بچ پائے ہوں۔۔۔" انتہی

"درء تعارض العقل والنقل" (2/102-103)

و اللہ اعلم .
اسلام سوال و جواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا ۔ بہت علمی شراکت ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
اشعری کون ہیں؟ اور کیا وہ اہل سنت میں شامل ہیں؟

اشعری کون ہیں؟ کیا وہ اہل سنت میں سے ہیں؟ اور کیا یہ بات درست ہے کہ بہت سے علمائے کرام اشعری منہج کے پیروکار ہیں، جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ؟

Published Date: 2017-01-16

الحمد للہ:

اول:

اشعری فرقہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی جانب منسوب ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ متعدد عقدی مراحل سے گزرے ہیں، آپ ابتدا میں معتزلی تھے اور اسی مذہب پر چالیس سال گزار دئیے ، پھر اعتزالی مذہب کے بعد عبد اللہ بن سعید بن کلّاب کی رائے اور مذہب سے متاثر ہو گئے، یہ ان کا دوسرا مرحلہ تھا، اور امام احمد بن حنبل عبد اللہ بن سعید بن کلّاب اور اس کے شاگردوں مثلاً: حارث وغیرہ کے سخت گیر مخالفت تھے، جیسے کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل کے بارے میں واضح کیا ہے۔

مزید کیلیے " سير أعلام النبلاء " (14/380) ، اور امام ابن تیمیہ کی کتاب: " درء تعارض العقل والنقل"کا مطالعہ فرمائیں۔

پھر علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے ابن کلّاب کے موقف سے رجوع کر کے تیسرے مرحلے یعنی اہل سنت و الجماعت کا مکمل عقیدہ اپنایا تھا یا نہیں؟

تو کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اہل سنت کا عقیدہ اپنا لیا تھا، یہ موقف حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور معاصر علمائے کرام میں سے حافظ حکمی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔

انہوں نے اس بات کی تائید کیلیے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی آخری کتاب "الابانہ" سے اقتباس لیے ہیں، اس کتاب میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جس موقف کو ہم نے اپنایا ہے اور جس عقیدے کے ہم پیروکار ہیں وہ یہ ہے: اللہ تعالی کی کتاب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، اور صحابہ کرام ، تابعین اور محدثین کرام نے جو ہم تک پہنچایا ہے اس پر مضبوطی سے کار بند ہیں، ہم اسی عقیدے کے قائل ہیں جو ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل -اللہ تعالی انہیں خوش و خرم رکھے، ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے- کا عقیدہ تھا، جو عقیدہ ان کے عقیدے کے مخالف ہے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں؛ کیونکہ امام احمد فاضل امام اور کامل سربراہ ہیں، آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے حق واضح فرمایا، گمراہی کا قلع قمع کیا اور صحیح منہج واضح کیا، آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے بدعتی لوگوں کی بدعات ، گمراہوں کی گمراہیاں اور شکوک پیدا کرنے والوں کے شک کی بیخ کنی فرمائی، پیشوا، محترم ، معزز اور عظیم اہل دانش امام صاحب پر اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں" انتہی
ماخوذ از: "الابانہ " صفحہ: (20)

اس تحریر میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی جانب سے دو ٹوک لفظوں میں صراحت ہے کہ انہوں نے سلف کے عقیدے کو اپنا لیا تھا، ان کے زمانے میں جس کا بیڑا اٹھانے والوں میں امام احمد سرِ فہرست تھے، انہوں نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ وہی بات کرتے ہیں جو امام احمد کہتے ہیں، وہ ان کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

امام احمد خود بھی کلابی گروہ کے شدید مخالف تھے، یہی وجہ ہے کہ حارث محاسبی کو انہوں نے کلابی ہونے کی وجہ سے ہی چھوڑ دیا تھا۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ:

ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کلابی مذہب سے مکمل رجوع نہیں کر پائے تھے، ہاں البتہ وہ بہت سے مسائل میں اہل سنت کے قریب ہو گئے تھے۔

اس موقف کو ابن تیمیہ، ابن قیم اور دیگر اہل علم -رحمہم اللہ جمیعا-نے راجح قرار دیا ہے کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اگرچہ اپنی کتاب الابانہ میں بہت سے مسائل کے اندر اہل سنت کے قریب ہو گئے تھے، تاہم پھر بھی ابن کلاب کی کچھ چیزیں ان میں باقی رہ گئیں تھیں۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"[ابو الحسن] اشعری اگرچہ وہ معتزلیوں کے شاگردوں میں سے تھے، لیکن وہ جبائی کے شاگرد بھی تھے، وہ ابن کلاب کی جانب رجحان اور میلان رکھتے تھے، انہوں نے زکریا ساجی سے اصول حدیث بصرہ میں پڑھے، پھر جب بغداد آئے اور وہاں کے حنبلی اہل علم سے دیگر علوم بھی حاصل کئے، بغداد کا دور ان کا آخری مرحلہ تھا، جیسے کہ انہوں نے خود اپنی کتب میں اس کا ذکر کیا ہے اسی طرح ان کے شاگرد بھی ان کے بارے میں یہی بیان کرتے ہیں۔" انتہی
" مجموع الفتاوى " (3/228)

مزید کیلیے آپ " موقف ابن تيمية من الأشاعرة " از شیخ : عبد الرحمن المحمود (1/390) کا مطالعہ بھی کریں۔

متاخر اشعری مکتب فکر کے لوگ اکثر مسائل میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے موقف پر نہیں چلتے، بلکہ انہوں نے اپنے عقائد کو بہت سے جہمی اور معتزلی عقائد سے خلط ملط کر دیا ہے، بلکہ فلسفی فکر کو بھی عقائد میں ڈال دیا ہے؛ انہوں نے بہت سے مسائل میں اشعری رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہوئی ہے۔

آج کل کے اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ: اللہ تعالی کی متعدد صفات، اللہ تعالی کا آسمان پر مستوی ہونا، اللہ تعالی کی صفت علو، نزول، ہاتھ، آنکھ، قدم، کلام ان تمام صفات میں انہوں نے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہوئی ہے۔

دوم:

"اہل سنت" کا اطلاق دو اعتبار سے ہوتا ہے:

1- اس لفظ کا اطلاق رافضی مکتب فکر کے مقابلے میں بولا جائے، تو اس اعتبار سے اشعری، ماتریدی وغیرہ اہل سنت میں شامل ہیں، بلکہ اس اعتبار سے معتزلی بھی اہل سنت میں شامل ہیں۔

2- اہل سنت کا اطلاق "اہل بدعت" کے مقابلے میں بولا جائے اور اس سے مراد سلف صالحین اور محدثین کرام سے ثابت شدہ عقیدہ اپنانے والے لوگ لیے جائیں تو پھر اس میں اشعری اور دیگر کلامی فرقوں میں ملوث افراد جنہوں نے اپنے عقائد میں بدعتی امور شامل کر لیے وہ شامل نہیں ہوں گے؛ کیونکہ انہوں نے بہت سے عقائد اور مسائل میں اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔

اور متاخر اشعری مکتب فکر کے لوگ: تقدیر کے معاملے میں جبری ہیں، ایمان کے متعلق مرجئی ہیں ، صفات کے معاملے میں معطلی ہیں وہ سات صفاتِ باری تعالی کے علاوہ کوئی صفت نہیں مانتے؛ صرف اس لیے کہ ان کے مطابق ان سات صفات کے علاوہ صفات کو عقل تسلیم نہیں کرتی، وہ اللہ تعالی کا آسمان پر مستوی ہونا تسلیم نہیں کرتے، وہ اللہ تعالی کا مخلوق سے بلند ہونا نہیں مانتے اور وہ کہتے ہیں کہ: وہ اس عالم کے اندر ہے نہ باہر، اوپر ہے نہ نیچے۔۔۔ اور اس کے علاوہ ان کے اور بھی متناقض نظریات ہیں تو ہم انہیں اہل سنت کس طرح مان لیں؟!

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

"اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے تینوں خلفائے راشدین کی خلافت کو تسلیم کیا، چنانچہ اس میں رافضی لوگوں کے علاوہ تمام گروہ شامل ہو جائیں گے ۔
اور بسا اوقات اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا عقیدہ محدثین اور خالص سنت پر مبنی ہے، چنانچہ پھر اس لفظ کے تحت وہی لوگ آئیں گے جو اللہ تعالی کیلیے صفاتِ الہی ثابت کرتے ہیں" انتہی
" منہاج السنہ " (2/221)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جب اہل سنت کا لفظ رافضی مکتب فکر کے مقابلے میں بولا جائے تو اہل سنت میں معتزلی بھی شامل ہیں، ان میں اشعری بھی شامل ہیں، چنانچہ اہل سنت میں ہر وہ گروہ شامل ہے جو کفریہ بدعت کے مرتکب نہیں ہوئے۔

لیکن اگر ہم یہ بتلانا چاہیں کہ اہل سنت کون ہیں؟ تو پھر ہم کہیں گے: حقیقی اہل سنت سے مراد سلف صالحین ہیں جو کہ سنت اور صحیح عقیدے پر متحد ہوئے اور انہی کو مضبوطی سے تھاما، تو اس معنی اور مفہوم کے مطابق اس میں اشعری، معتزلی اور جہمی وغیرہ اہل سنت میں شامل نہیں ہوں گے" انتہی
" الشرح الممتع " (11/306)

سوم:

اشعری مذہب کی جانب صرف ان حضرات کو منسوب کرنا درست ہے جو مکمل طور پر عقیدے کے مسائل میں ان کے منہج پر چلے ، البتہ اگر کوئی چند مسائل میں ان کی جانب رجحان رکھے تو اسے اشعری مذہب کی جانب منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ حافظ نووی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"کیا یہ درست ہے کہ ہم ان دونوں اہل علم اور دیگر انہی جیسے افراد کو اشعری لوگوں کی جانب منسوب کر دیں؟ اور کہیں کہ یہ اشعری تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: نہیں؛ کیونکہ اشعریت ایک مستقل مذہب ہے، اسما و صفات، ایمان اور آخرت کے بارے میں ان کا الگ تھلگ وجود ہے۔
ان کے مذہب کے بارے میں ہمارے بھائی سفر الحوالی نے بہت ہی خوب لکھا ہے؛ کیونکہ بہت سے لوگ ان کے بارے میں سمجھتے ہی نہیں ہیں، لیکن وہ صفات کے مسائل میں سلف صالحین کے مخالف ہیں، ان [نووی اور ابن حجر رحمہما اللہ]کے [اشعریت سے]اختلافات بھی بہت ہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص اسما و صفات کے مسائل میں کوئی ایسی بات کہہ دے جو اشعریت کے مطابق ہو تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ایسی بات کہنے والا اشعری ہو گیا ہے، آپ خود ہی بتلائیں: کہ اگر کسی حنبلی شخص کو دیکھیں کہ وہ کسی مسئلے میں شافعی مذہب کی بات کو صحیح مانتا ہے تو کیا وہ حنبلی شافعی ہو گیا؟!" انتہی
" شرح الأربعين النووية " (ص 290)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسی طرح کہتے ہیں کہ:

"خاص طور پر ان دونوں [یعنی: ابن حجر اور نووی رحمہما اللہ]اہل علم نے احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو کچھ پیش کیا ہے مجھے آج تک ان جیسی خدمات پیش کرنے والا نظر نہیں آیا، نیز آپ کو یہ بھی محسوس ہو گا کہ اللہ تعالی نے ان کی کاوشوں کو قبول فرما لیا ہے -میں اللہ تعالی پر قسم تو نہیں ڈال سکتاکہ ان دونوں کی مؤلفات کو لوگوں میں کس قدر پذیرائی ملی،تاہم یہ کہہ سکتا ہوں کہ اہل علم نے ان کی کتابوں سے خوب فائدہ اٹھایا، بلکہ عوام الناس بھی ان سے مستفید ہو رہی ہے، اب خود ہی دیکھ لیں کہ کتاب ریاض الصالحین ہر مجلس میں پڑھی جاتی ہے، ہر مسجد میں اس کا درس ہوتا ہے، لوگوں کو اس سے بہت فائدہ ہو رہا ہے، میری دلی تمنا ہے کہ میری بھی ایسی کوئی کتاب ہو جس سے ہر کوئی اپنی مسجد میں یا گھر میں مستفید ہو" انتہی
" لقاءات الباب المفتوح " ملاقات نمبر: (43)

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (107645) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/226290
 
Top