محمد عثمان رشید
رکن
- شمولیت
- ستمبر 06، 2017
- پیغامات
- 96
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 65
حافظ لابن حجر نے فضائل اعمل میں ضعیف پر عمل کرنے کیلئے چند شرائط ذکر کیں هیں جن کی تفصیل تبین العجب فیما ورد فی فضل رجب ص ۲۱, اور القول البدیع للسخاوی ص ۱۹۵.
میں دیکھ سکتے هیں.
۱: حدیث کسی اصل عام کے تحت داخل هو. موضوع اس خارج هو جائے گی
۲: اس پر عمل کے وقت اسکے ثبوت کا اعتقاد نه رکھا جائے.
۳: حدیث کا ضعف شدید نه هو.
ان مذکوره شرائط کے پیش نظر جناب پیر محب الله شاه الراشدی اپنے مکتوب میں بیان کرتے هیں.:
"میں سمجھتا هوں که حافظ ابن حجر نے ضعیف حدیث کے فضائل اعمال میں قبولیت کے جو شروط تحریر فرمائے هیں وه بهی دراصل ضعیف حدیث سے روکنا هی مقصود هے. میں سمجھتا هوں که انهوں نے ضعیف حدیث کی عدم مقبولیت کے متعلق براه راست اسلئے اظهار کی جرات نهیں فرمائی کے چند بڑے بڑے فضلاء وعلماء مثلا امام احمد جیسے بزرگوں نے بهی ایسی ضعیف حدیث جو موضوع, مضطرب اور منکر نه هو اس پر عمل میں کپھ تساهل اختیار فرمایا هے لیکن حافظ وغیره کی صحیح حکمت علمی نے ایسے شروط پیش فرما دیے جو نه تو انکا پوری طرح سے ایفاء هی هو سکتا هے اور نه هی وه قابل عمل بن سکتی هے, فجزا هم الله خیرا."
(مکتوب پیر محب الله شاه راشدی, سندھ مورخه ۱۳/ ۱۲/ ۱۹۹۱ء بحواله ضعیف حدیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت ص ۲۷۴.)
میں دیکھ سکتے هیں.
۱: حدیث کسی اصل عام کے تحت داخل هو. موضوع اس خارج هو جائے گی
۲: اس پر عمل کے وقت اسکے ثبوت کا اعتقاد نه رکھا جائے.
۳: حدیث کا ضعف شدید نه هو.
ان مذکوره شرائط کے پیش نظر جناب پیر محب الله شاه الراشدی اپنے مکتوب میں بیان کرتے هیں.:
"میں سمجھتا هوں که حافظ ابن حجر نے ضعیف حدیث کے فضائل اعمال میں قبولیت کے جو شروط تحریر فرمائے هیں وه بهی دراصل ضعیف حدیث سے روکنا هی مقصود هے. میں سمجھتا هوں که انهوں نے ضعیف حدیث کی عدم مقبولیت کے متعلق براه راست اسلئے اظهار کی جرات نهیں فرمائی کے چند بڑے بڑے فضلاء وعلماء مثلا امام احمد جیسے بزرگوں نے بهی ایسی ضعیف حدیث جو موضوع, مضطرب اور منکر نه هو اس پر عمل میں کپھ تساهل اختیار فرمایا هے لیکن حافظ وغیره کی صحیح حکمت علمی نے ایسے شروط پیش فرما دیے جو نه تو انکا پوری طرح سے ایفاء هی هو سکتا هے اور نه هی وه قابل عمل بن سکتی هے, فجزا هم الله خیرا."
(مکتوب پیر محب الله شاه راشدی, سندھ مورخه ۱۳/ ۱۲/ ۱۹۹۱ء بحواله ضعیف حدیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت ص ۲۷۴.)