محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فلسفہ وحدت الوجود ۔وحدت الشہود اور حلول
بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے زریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے ،تصوف کی اصلاح میں اس عقیدہ کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے،عبادت و ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اللہ کی ہستی میں مدغم ہو جاتی ہے۔(نعوذباللہ)اور وہ دونوں (اللہ اور انسان)ایک ہو جاتے ہیں۔(نعوذباللہ)اس عقیدے کو وحدت الشہود یا فنا فی اللہ کہا جاتا ہے۔عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے سے انسان کا آئینہ اور دل اس قدر لطیف اور صاف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہو جاتی ہے،جسے حلول کہا جاتا ہے۔(نعوذباللہ)
غور کیا جائے تو ان تینوں اصلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہ کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے۔(نعوذباللہ)
یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ۔قدیم و جدید صوفیاء نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑی طویل بحثیں کی ہیں ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں۔جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث" ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک "عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کئے ہوئے ہے۔ناقابل فہم ہے،اگریہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے،اگرامر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے ،معبود کون؟ساجد کون ہے مسجود کون؟خالق کون ہے ،خلوق کون؟حاجت مند کون ہے،حاجت روا کون؟مرنےوالا کون ہے ،مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون ہے اور زندہ کرنے والا کون؟گنہگار کون ہے،اور بخشنے والا کون؟روز جزا حساب لینے والا کون ہے۔اور دینے والا کون؟اور پھر جزا یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں،اور بھیجنے والا کون؟اس فلسفے کو تسلیم کرنے کے بعد انسان ،انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں واقعی مسلمانوں کا یہ عقیدہ قابل قبول ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزاء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اللہ تعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھناایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء)قرار دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
سورہ مریم میں اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہےجو بندوں کو اللہ کا جزء قرار دیتے ہیں ۔""یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا مریم کا بیٹا ،مسیح ہی اللہ ہے۔اے نبی کہو اگر اللہ ،مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہےکہ اس کو اس ارادے سے باز رکھے؟اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہیں جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔""(سورہ المائدہ،آیت نمبر 17)
اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔
بندوں کو اللہ کا جزء قرار دینے پر اللہ تعالیٰ کے اس شدید غصہ اور ناراضگی کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو اللہ کا جزء قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس بندے میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کی جائیں ۔مثلا یہ کہ وہ حاجت روا اور اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے یعنی شرک فی الذات کا لازمی نتیجہ شرک فی الصفات ہے اور جب کسی انسان میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کر لی جائیں تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسکی رضا حاصل کی جائے،جس کے لئے بندہ تمام مراسم عبودیت ،رکوع و سجود ،نذر و نیاز،اطاعت و فرمانبرداری،بجا لاتا ہے یعنی شرک فی الصفات کا لازمی نتیجہ شرک فی لعبادات ہے،گویا شرک فی الذات ہی سب سے بڑا دروازہ ہے۔دوسری انواع شرک کا جیسے ہی یہ دروازہ کھلتا ہے ہر نوع کے شرک کا آغاز ہونے لگتا ہےیہی وجہ ہے کہ شرک فی الذات پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب اسس قدر بھڑکتا ہے کہ ممکن ہے آسمان پھٹ جائے ۔زمین دولخت ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔""وہ کہتے ہیں رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے سخت بیہودہ بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لئے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔""(سورہ مریم ،آیت نمبر 88تا91)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
توحید کے مسائل از محمد اقبال کیلانی