• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قائد اعظم کونسا پاکستان چاہتے تھے۔۔۔اسلامی یا سیکولر؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس ویڈیو میں پاکستان کے معروف کالم نگار و تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے ایک ڈاکومینٹ پیش کیا ہے ،​
جس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ 1947 میں بانی پاکستان نے ایک محکمہ بنایا تھا ،جس کا نام "اسلامک ریکنسٹرکشن"​
رکھا گیا تھا،اس محکمے کو 4 مقاصد تفویض کیئے گئے تھے،اور وہ اسلامی نظام زندگی سے متعلق تھے،جن میں پہلا مقصد "آئین پاکستان" کو اسلامی نظام و قانون کے تحت مرتب کرنا تھا۔۔۔۔باقی تفصیل لنک سے ملاحظہ کریں۔​
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ تو ظاہر ہے کہ یہ ملک اسلام کے نعرے پر بنا تھا لیکن یہ صرف نعرہ تھا اس طرح کا محکمہ بنا دینا اور اس کے بعد قادیانی وزیر خارجہ اور ہندو وزیر قانون اس بات کی عکا سی ہے کہ یہ صرف سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے ،جسونت سنگھ اپنی کتاب" جناح،بھارت، تقسیم، آزادی" میں تقسیم ہند کی ذمہ داری پنڈت جواہر لعل نہرو پر ڈالتے ہوئے محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کاپیامبر،برصغیر کا ذہین ترین رہنما اورایک دیانتدار،عظیم سیکولر لیڈر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔"یہ حقیقت ہے کہ محمد علی جناح واقعی وطن پرست تھے ، وہ نہ صرف متحدہ ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے بلکہ آخری وقت تک کنفیڈریشن کے حامی تھے لیکن نہرو اور سردار پٹیل کے رویوں سے مجبور ہو کر انہیں علیحدہ پاکستان کا مطالبہ کر نا پڑا "۔وہ کانگرس اور ہندو قوم کے عزائم سے باخبر تھے، انہوں نے متحدہ ہندوستا ن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا : "ہم جمہوریت پسند کرتے ہیں مگر وہ جمہوریت نہیں جو گاندھی کا آشرم بن جائے "۔ بلاشبہ محمد علی جناح سیکولر شخصیت کے مالک ایک ذہین و فطین،جینئس انسان تھے ۔ پختون رہنما ولی خان کی کتاب "فیکٹس آر فیکٹس" میں بھی ان کے سیکولر ہونے کاثبوت ملتا ہے۔اگر متحدہ ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قریب قرین ان جیسا کوئی روشن خیال، سیکولر لیڈر نظر نہیں آتا۔
١٤جولائی١٩٤٧ء کو دہلی کی ایک پریس کانفرنس میں نئی ریاست پاکستان کے آئینی ڈھانچے کے خدوخال کے بارے میں اخباری نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے قائد نے کہا تھا:" ملک کیلئے کونسا آئین ہونا چاہیے اس کا فیصلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے کرنا ہے "
۱۹۴۶ء میں انگریزی اخبار کے نمائندے ڈان کیمبل نے ان سے پوچھا : کیا وہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرینگے؟تو انکا جواب یہ تھا: "اسلامی نظام کا جو تصور موجودہ ذہنوں میں پرورش پا رہا ہے اگر اسے قائم کیا گیا تو پھر سوچا جائے کہ اس میں کونسی فقہ نافذ ہونی چاہیے ؟ حنفی،مالکی،جنبلی یا شافعی؟۔باا لفرض اگر کسی ایک فرقے کی فقہ نافذ ہو گئی تو پھر باقی فقہ کے ماننے والوں کی یلغار کو کیسے روکا جائے گا ؟ میرے خیال میں اس طرح تو پورا ملک اپنے قیام کے ساتھ ہی مختلف مذہبی گروہوں میں تقسیم ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا"
 
Top