• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::: قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنمی ،،، کیوں ؟؟؟ :::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
[FONT=Al_Mushaf]بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]الحمد للہ ، الذی أرسل رَسولہُ بالھُدیٰ ، و أنطقہُ بالوحی یُوحیٰ ، و أشھد لَہُ أنّہ لا ینطِقُ عن الھویٰ ، بل کلامہ وحی الذی الیہ یُوحیٰ ،و أخبرنا أنّہُ مَن کذّب و تولیٰ فلا یطیع رسولہُ فسوف یُدخِلہُ إِلی النَّار تلظیٰ [/FONT]
تمام اور خالص تعریف اللہ ہی کا حق ہے ، جِس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا ، اور اُسے اپنی وحی کے مطابق کلام کروایا ، اور اپنے رسول کے بارے میں گواہی دہی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں کرتا ، اور ہمیں خبر دی کہ جو کوئی بھی اللہ کی بات کو جُھٹلائے گا اور اُس ےس روگردانی کرے گا پس اُس کے رسول کی اطاعت نہیں کرے گا اللہ ایسے ہر شخص کو بڑھکتی ہوئی آگ میں داخل کرے گا ۔

::: قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنمی ،،، کیوں ؟؟؟ :::
میرے معرز و محترم کلمہ گو مسلمان بھائیو اور بہنو ، اور دیگر قارئین کرام ،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے حبیب ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد سب سے بلند ترین درجہ اورسب سے اعلی ترین عِزت و قدر والی شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ظہور مُبارک سے لے کر آج تک اور تا حال تحریر ھذا ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کی دُشمنی میں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُشمنی رکھتے ہیں ، اور انداز و اطوار بدل بدل کر ایسے وار کرتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خصوصاً اور انسان عموما ًمحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات شریفہ کو درست طور پر نہ جان سکیں ، اور رحمۃ للعالمین ،معلمء انسانیت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی ، دُنیا اور آخرت کی کامیابیوں والی تعلیم و تربیت کی بجائے شیاطین کی راہ پر چلیں ،
کافروں میں سے ایسے بد بختوں کا ظاہر ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہوتی ، بہت زیادہ دُکھ ، غصہ اور افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شخصیت پاک اور تعلیمات شریفہ سے دُور کرنے کی کوشش میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو ہماری ہی صفوں میں شُمار کیے جاتے ہیں ، جو نام و حسب و نسب سے مسلمان ہوتے ہیں ، میں انہیں مسلمانوں کی صفوف اور گنتی میں سے خارج قرار دینے کا حق نہیں رکھتا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ اُن لوگوں کی رسول دُشمنی جو کہ شہد میں چُھپائے ہوئے زہر کی سی صُورت میں ہوتی ہے ، اُن لوگوں کی مسلمانی کا پول کھول دیتی ہے ، لہذا ہمیں ایسے لوگوں کی پہچان ہونا چاہیے ، اور ہمیں ہمارے اسلامی علوم کی کسوٹیوں پر پرکھ پرکھ کر ایسے لوگوں کی اُن کاروائیوں کی حقیقت بھی جاننی ہی چاہیے ، جن کاروائیوں کے ذریعے وہ ہمیں ہمارے محبوب ، اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ سے ، اُن کی محبت سے دورکرنا چاہتے ہیں ،
ایسے ہی لوگ اُن کافروں اور منافقین کی حوصلہ افزائی کے اسباب میں سے ہیں جنہیں ابلیس اور اس کے پیروکار محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم ، و فداہ کل ما رزقنی اللہ کی شان میں گستاخیاں کرنے کے لیے استعمال کر تے ہیں ،
ایسے ہی لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی اور فعلی سُنّت مُبارکہ پر جہالت زدہ اور رسول دُشمنی پر مبنی بے تکے اعتراضات وارد کرتے ہیں ، میرے ان الفاظ پر کسی پیشانی پر بل پڑ رہے ہوں تو وہ کچھ دیر تحمل کیے رکھے ، اِن شاء اللہ ، میں اپنی اِن ساری باتوں کو اسلامی علوم کے دلائل کے مطابق ثابت کروں گا ، اور منطقی طور پر بھی اُن ہی لوگوں کی باتوں کے ذریعے ثابت کروں گا ، باذِن اللہ العزیز القدیر ،
یہ لوگ جو """ فہم قران """ ، """ موافق قران """ ، """ مخالف قران """ اور """ صحابہ کی محبت """ وغیرہ جیسے میٹھے الفاظ میں لپیٹ کر """ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و فداہ کل ما رزقنی اللہ کی مخالفت """ کا زہر پھیلا رہے ہیں ، اُس کو واضح کروں گا ، باذن اللہ العزیز القدیر،
اس مضمون میں ، ایک ایسے ہی شخص کے ایک جھوٹے ، اور جہالت پر مبنی اعتراض کا جائزہ پیش کر رہا ہوں ،
حسب عادت صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ پر اعتراضات کرنے والوں نے درج ذیل حدیث شریف کو اپنی ناقص عقلوں پر پرکھتے ہوئے ، اسے ‘‘‘خِلاف قران ’’’ قرار دِیا ،
اس شخص بوہیو نے اپنا اعتراض شروع کرتے ہوئے ، یا شاید اس اعتراض کو برقیاتی ذرائع پر نشر کرنے والے نے ، اپنے اعتراض کا آغاز حدیث شریف کو پیسٹ کرتے ہوئے کیا:::
‘‘‘عن الحسن قال خرجت بسلاحی لیالی الفتنۃ فاستقبلنی ابو بکرۃ فقال این ترید ؟ قلت ارید نصرۃ ابن عم رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم قال ، قال رسول اللہﷺ اذا تواجہ المسلمان بسیفھما فکلا ھما من اھل النار قیل فھذا القاتل فما بال المقتول قال انہ اراد قتل صاحبہٖ ۔
بخاری شریف،کتاب الفتن ، باب نمبر1115حدیث نمبر1962

خلاصہ:
حسن صاحب کہتے ہیں کہ میں فتنے کی راتوں میں ہتھیار لے کر نکلا تو میرے سامنے ابو بکرہ آئے اور پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا کہ ارادہ کرتا ہوں حضورؐ کے چچا زاد بھائی کی مدد کرنے کا تو اس نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب مسلمان تلواریں لے کر آمنے سامنے آئیں تو دونوں دوزخی ہیں ۔ پوچھا گیا کہ قاتل کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دوزخ میں کیوں گیا لیکن مقتول کا کیا قصور ؟ تو فرمایا کہ یہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔’’’
قارئین کرام ، یہاں بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا جس طرح کا ان لوگوں نے حدیث شریف (((((عملوں (کے نتیجے )کا دارومدار نیتوں پر ہے))))) پر جھوٹے اعتراضات وارد کرتے ہوئے کیا ، اس اعتراض کا سارا کچا چٹھا تو الحمد للہ ::: صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے::: میں بیان کر چکا ہوں ،
اور کچھ مزید تفصیل ::: ہجرت کی ممانعت والی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ،اور"انما الاعمال"والی حدیث پر اعتراضات کا مزید جائزہ ::: میں بیان کر چکا ہوں ، اِن لوگوں کی حرکات کی حقیقت جاننے کے لیے اِن دونوں مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ مُفید رہے گا ،
آن لائن مطالعے کےروابط درج ذیل ہے :::
جی تو اس قاتل اور مقتول کے جہنمی ہونے والی حدیث شریف کے ساتھ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی کیا گیا ہے ، کہ اعتراض کرنے والے کو یا تو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ حدیث شریف امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں صرف اسی جگہ ہی روایت نہیں کی جِس مقام کا حوالہ اس اعتراض کرنے والے نے دِیا ہے ،
اور یا پھر اپنی بد دیانتی کی وجہ سے اس نے دیگر مقامات کا حوالہ نہیں دِیا کیونکہ اگر وہ اُن مقامات کا حوالہ دے دیتا تو سب سے پہلا مقام ہی اُس شخص کے لیے وہ جھوٹی باتیں کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑتا جو باتیں اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کی ضد میں ، اور ہم مسلمانوں کے أئمہ محدثین رحمہم اللہ جمعیاً کے حسد میں لکھی ہیں ،
آیے میں آپ کو وہ حدیث شریف مناسب اور صاف ستھرے انداز میں دِکھاتا ہوں ، اور اس کے صحیح بخاری میں سے وہ مقامات بھی بتاتا ہوں جن پر یہ حدیث شریف امام بخاری رحمہُ اللہ نے روایت فرمائی ہے،
یہ حدیث شریف ، امام الحسن البصری رحمہُ اللہ نے امام احنف بن قیس رحمہ ُ اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ فتنے کی راتوں میں سے ایک رات میں اپنا اسلحہ لے کر نکلا تو مجھے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ُ ملے ، انہوں نے پوچھا ‘‘‘ کہا ں جانا چاہتے ہو ؟ ’’’،
میں نے کہا ‘‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی کی مدد کے لیے جانا چاہتا ہوں ’’’،
تو ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِى النَّارِ[/FONT] ::: جب کوئی دو مسلمان اپنے تلواریں لے کر (لڑنے کے لیے ) ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں(اور لڑتے ہیں )تو قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنم میں جانے والے بن جاتے ہیں)))))
میں( ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ُ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض کیا ‘‘‘[FONT=Al_Mushaf]يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ[/FONT]؟ ::: اے اللہ کے رسول ، قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول کا ایسا معاملہ کس طرح ؟ ’’’
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مقتول کے جہنمی ہونے کا سبب بیان فرمایا ،((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ[/FONT]:::کیونکہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا لالچ لیے ہوئے تھا)))))،
یہ حدیث شریف امام بخاری رحمہُ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح میں تین مقامات پر روایت کی ہے :::
::::::: (1) ::::::: حدیث /31کتاب الایمان/باب22[FONT=Al_Mushaf]قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى [/FONT]([FONT=Al_Mushaf]وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا[/FONT]
::::::: (2) ::::::: حدیث /6875کتاب الایمان/باب2[FONT=Al_Mushaf]قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى [/FONT]([FONT=Al_Mushaf]وَمَنْ أَحْيَاهَا [/FONT])،
::::::: (3) ::::::: حدیث /7083کتاب الفتن/باب10[FONT=Al_Mushaf]إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا[/FONT]،
اعتراض کرنے والے نے اس حدیث شریف کا حوالہ صِرف کتاب الفتن والے مقام کا درج کیا ہے ،
کیوں!!!؟؟؟
جہالت ؟؟؟
یا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دُشمنی کے اندھیرے میں سے صرف وہی کچھ دکھائی دیتا ہے جسے وہ بد دیانتی کے ساتھ کسی طور سُنّت مبارکہ کے خلاف زہر اگلنے کے لیے استعمال کر سکے ؟؟؟
اُمید ہے کہ جن قارئین کرام نے میرے سابقہ مضامین کا مطالعہ کیا ہو گا ، اللہ تعالیٰ نے اُن پر اِن اعتراض کرنے والوں کی ، اور اِن کے مسلک و مذھب کی حقیقت واضح فرما دی ہو گی ، اور اِن شاء اللہ یہ مضمون اس وضاحت کے لیے مزید تقویت مہیا کرنے والا بنے گا ، اور اِن شاء اللہ نئے قارئین کے لیے بھی صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ پر جھوٹے ، بے تکے ، جہالت زدہ اعتراضات کرنے والوں کی اور ان کے اعتراضات کی حقیقت اور سبب واضح کرنے والا بنے گا ،
جی اِن شاء اللہ ، ایسا ہی ہوگا ،
غور فرمایے قارئین کرام ، امام بخاری رحمہ ُ اللہ کی فقہ پر غور فرمایے اور دیکھیے کہ صحیح بخاری میں وہ پہلا مقام جہاں امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے یہ حدیث شریف ذِکر فرمائی ، اُس مقام کا اِمام بخاری رحمہ ُ اللہ نے کیا عنوان رکھا ہے ؟؟؟
جی ، امام بخاری رحمہُ اللہ نے اس پہلے مقام کا عنوان اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان رکھا ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا[/FONT]:::اور اگر اِیمان والوں میں سے دو گروہ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو تُم لوگ ان کے درمیان اصلاح کرواؤ)))))،
پس اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے یہ حدیث شریف بیان کرنے کے لیے جو اس آیت کریمہ کو باب کا عنوان بنایا ہے تو وہ یہ سمجھا رہے ہیں کہ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں لڑنے والے دو مسلمانوں یا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائیں،
اور ایمان والوں کے غصے اور لڑائی کو ختم کروانے کے لیے آخرت کے برے انجام والی خبر اِن شاء اللہ ایک بہترین ذریعہ ہے ، کیونکہ کسی بھی سچے اِیمان والے کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس کے بدلے میں وہ جہنمی قرار پائے ، لہذا آپس میں لڑنے والے مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لیے ان کو لڑائی سے روکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک سنایا جانا چاہیے ، کہ جب دو مسلمان ایک دوسرے کو قتل کرنے کے ارداے سے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں ، اور اِسی ارداے سے لڑتے ہیں تو صرف قاتل ہی جہنمی نہیں ہوتا ، بلکہ مقتول بھی جہنمی ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی اسی کوشش میں تھا کہ اپنے مد مقابل کو قتل کر دے ، لیکن اس کا داؤ نہیں چلا اور وہ خود ہی مقتول ہو گیا ،
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان اللہ جل ّ و علا کے اُن فرامین کے عین مطابق ہے جن میں ہر کسی کو اس کے ارادے کے مطابق جزاء ملنے کی خبریں دی گئی ہیں ،
اور جن فرامین کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے معروف فرمان ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ[/FONT]:::بے شک ، کاموں (کے آخرت میں ) نتیجے کا انحصار (کام کرنے کی )نیتوں پر ہے ، اور بے شک ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جس کی اُس نے نیت کی ، لہذا جِس نے دُنیا کی طرف ہجرت کی تا کہ دُنیا کمائے ، یا کسی عورت کی طرف ہجرت کی تاکہ اُس عورت سے نکاح کر سکے ، تو اُس کی ہجرت اُسی کی طرف ہے جِس کی طرف اُس نے ہجرت کی))))) میں بیان ہوئی ،
اس مذکورہ بالا حدیث شریف پر بھی انہی لوگوں نے اسی طرح کے جہالت زدہ اعتراضات کیے تھے ، اور الحمد للہ میں نے اللہ کی عطاء کردی توفیق سے اس کا رَد قران کریم کی آیات مبارکہ کے مطابق، اُن دو مضامین میں کر چکا ہوں ، جن کے عناوین اور ربط ابھی ابھی ذِکر کیے ہیں ،
اس مضمون کے آن لائین مطالعہ کا ربط درج ذیل ہے ،
میرے اس مضمون میں زیر مطالعہ حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے مقتول کے جہنمی ہونے کی وجہ بڑی صراحت سے بیان فرمائی گئی ، جس کے بعد کوئی فاتر العقل ہی اس صحیح ثابت شدہ حدیث پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے ،
اعتراض کرنے والے نے غلط بیانی ، اور بد دیانتی کا سہارا لیتے ہوئے اِس حدیث شریف کو غلط دکھانے کے قران حکیم کی چند آیات کریمہ کو استعمال کرتے ہوئے لکھا :::
‘‘‘‘‘ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ:
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (49:9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
یعنی اگر مومنوں میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے مابین صلح کرانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہو جاؤ ۔ اگر تمہاری مصالحانہ کوششوں سے پھر بھی کوئی بغاوت کرتا ہے تو تم سب مل کر بغا وت کرنے والے گروہ سے لڑائی کرو ۔تاوقتیکہ کہ وہ لوٹ آئے اپنی بغاوت سے اللہ کے قانون اور فیصلوں کی طرف اور اس کے لوٹ آنے کے ساتھ ہی تم ان دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرادو،انصاف اور عدل کے تقاضوں کی روشنی میں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو انصاف کرنے والے ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم کو مبہم اور اجمالی کہنے والے صاحبان تھوڑی سی اور زحمت فرماکر اگلی آیت پر بھی غور فرمائیں ۔
فرمان ہے کہ
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (49:10)
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
خلاصہ:
صرف مومن لوگ ہی آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ تو کیا تم نہیں جانتے کہ بھائیوں کی آپس میں صلح کرائی جاتی ہے۔ اس لئے مصالحت اور بھائی بندی کے خلاف جو چیزیں آپس میں لڑانے والی ہیں ان سے دور رہو۔ اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی سے خود کو بچاؤ گے تو اللہ کی رحمت کے مستحق بنو گے ۔
جناب معزز قارئین !
میری نہایت عاجزانہ گزارش ہے کہ مسلمانوں کے آپس میں اختلاف اور لڑائی کے وقت علم حدیث کی مذکورہ بالا رہنمائی کو بھی غور سے دیکھیں اور قرآن حکیم کے فرمان کو بھی ملحوظ فرمائیں ۔ اوپر کی دو آیات مبارکہ پر ذرا رک رک کر انہماک سے غور فرمائیں کہ یہ حدیث سازی پر امام کہلانے والے لوگ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم پر قرآن مخالف حدیث کی تہمت اور بہتان لگارہے ہیں، کہ آپس میں لڑنے والے مسلمان قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں ۔حدیث سازوں کی امامت یہ فرماتی ہے کہ ایسے ماحول میں تم گھروں میں جاکر بیٹھ جاؤ اور یہ دونوں گروہ جہنمی ہیں ۔جبکہ قرآن نے حکم دیا ہے کہ ان کے درمیان مصالحت کرائی جائے اور جو مصالحانہ کوششوں کی پروا نہ کرتے ہوئے زبر دستی قتال اور لڑائی کرنا چاہتا ہے۔ تم سب مل کر اس کے ساتھ لڑو یہاں تک کہ اس کادماغ ٹھکانے آجائے اور وہ لڑائی سے توبہ کرے ۔’’’’’
قارئین کرام ،
جب کہ ان آیات کریمہ کا حدیث شریف سے کوئی تعارض نہیں ، بلکہ جیسا میں نے آغاز میں بیان کیا ، اور جیسا کہ امام بخاری رحمہ ُ اللہ کی عنوان بندی سے ظاہر ہے کہ یہ حدیث شریف اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ ((((([FONT=Al_Mushaf]وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا[/FONT]:::اور اگر اِیمان والوں میں سے دو گروہ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو تُم لوگ ان کے درمیان اصلاح کرواؤ))))) اور ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[/FONT]:::بے شک اِیمان والے بھائی بھائی ہیں ، لہذا تُم لوگوں اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو ، اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو تا کہ تُم لوگوں پر رحم کیا جائے))))) کے عین مطابق ہے ، کہ دونوں ہی لڑنے والوں کا خواہ نتیجتاً کوئی اُن میں سے قاتل بنے یا مقتول جہنمی ہونا قرار دیا گیا ہے ، پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ایسا حکم سننے کے بعد کوئی ادنیٰ سے ایمان والا بھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ کسی ایسی لڑائی میں شامل ہوجس میں قتل ہو کر بھی وہ جہنمی ہو گا ، اور نہ ہی یہ چاہے گا کہ وہ کسی لڑائی میں اس طرح شامل ہو کہ مقتول بن کر بھی جہنمی ہو جائے ،
کچھ مختلف الفاظ میں یہی بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے ، کہ اعتراض کرنے والے کی مذکورہ بالا باتیں دیکھیے اور میں نے جو کچھ بیان کیا اسے دیکھیے ، اِن شاء اللہ آپ پر واضح ہو جائے گا کہ اس حدیث شریف میں دو لڑنے والوں کو ایک ایسی خبر دی گئی ہے جس کو سن کر معمولی سا ایمان رکھنے والا بھی لڑائی سے باز رہنے کی ہی کوشش کرے گا ، اور نتیجے میں دونوں لڑنے والوں میں اصلاح کا راستہ نکلے گا،
اگر دو میں ایک تو باز آجائے اور دوسرا شخص یا گروہ باز نہ آئے اور لڑائی کرنے پر ہی تلا رہے تو پھر اس صورت میں اُس باغی شخص یا گروہ سے سب ہی مسلمان مل کر لڑائی کریں گے ،
اب یہاں کچھ دیر رکتے ہوئے اس بات پر غور کیجیے کہ پہلی لڑائی کی صورت میں لڑنے والے دو اشخاص یا دو گروہ اپنی ذاتی خواھشات ، یا سوچوں ، یا مقاصد ، یا دُنیاوی مقاصد ، کے لیے لڑنے والے ہوئے ، خواہ بظاہر وہ مقاصد دینی نظر آتے ہوں ، جیسا کہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے ساتھ خوارج نے لڑائی کی ،
اور دوسری لڑائی میں ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو صلح اور خیر کو قبول نہیں کرتے پس اللہ کے فرمان کے مطابق باغی ہیں ، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ کے اسی فرمان کے مطابق مسلم معاشرے کی ، اور اسی کے ذریعے انسانی معاشرے کی اصلاح اور خیر کے لیے باغیوں سے لڑتے ہیں ، تو کیا باغی اور اللہ کے حکم پر اس سے لڑنے والے دونوں ایک ہی جیسے ہوں گے ؟؟؟؟؟
یقیناً ہر صحیح و سلامت عقل والا کہے گا کہ ‘‘‘ نہیں دونوں ایک برابر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ایک اللہ کے ہاں باغی ہے اور دوسرا اللہ کا حکم نافذ کرنے والا ’’’
لہذا اس دوسری صورت میں باغیوں میں سے قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنمی ہوں گے ، اور اللہ کے حکم کے مطابق باغیوں سے لڑنے والوں میں سے قاتل اجر و ثواب پانے والا مجاھد ہو گا ،ا ور مقتول اِن شاء اللہ شہید ہو گا ،
قارئین کرام ، جب کوئی شخص کسی ایک مسئلے کے بارے میں صِرف کوئی ایک نص لے کر ، اور اس کو بھی آدھا آدھا پڑھ اور سمجھ کر حکم لگانے لگے اور فتوے صادر کرنے لگے تو وہ گمراہ ہوتا ہے اور گمراہ کرتا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے کہ یہ صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنے والے ہیں ،
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مقتول کے جہنمی ہونے کا سبب خود ہی بیان فرما دیا ہے اس کے بعد وہ سب کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی جو ان اعتراض کرنےو الوں نے کہا ،
اور اس کے علاوہ یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر اعتراض کرنے والے اس مسئلہ سے متعلق دیگر صحیح احادیث شریفہ کا مطالعہ بھی کرتے تو شاید اس قسم کی غلط فہمیوں کا شکار نہیں ہوتے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دیگر احادیث شریفہ میں یہ مسئلہ مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ان میں سے درج ذیل احادیث شریفہ میں نے ::: شہادت ، شہید ، اور شہادت اِس کی اِقسام ::: میں ذِکر کی تھیں، اس مضمون کا مطالعہ بھی ان شاء اللہ مفید ہوگا ،
::::::: عبداللہ ابن عَمر (عمرو)رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا((((([FONT=Al_Mushaf]مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ[/FONT][FONT=Al_Mushaf]شَہِیدٌ[/FONT]::: جِسے اُس کے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے)))))متفقٌ علیہ ،صحیح البخاری حدیث 2348 /کتاب المظالم /باب 34 ، صحیح مُسلم حدیث 141/کتاب الاِیمان/باب 62 ،
::::::: سعید بن زید رضی اللہ عنہ ُ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا((((([FONT=Al_Mushaf]مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ[/FONT][FONT=Al_Mushaf]شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ اَھلِہِ او دُونَ دَمِہِ او دُونَ دِینِہِ[/FONT][FONT=Al_Mushaf]فَہُوَ شَہِیدٌ[/FONT]::: جو اپنے مالکی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور،جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہشہید ہے اور،جواپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہےاور،جو اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا ہو ، وہ شہید ہے)))))سنن النسائی،حدیث 4106/کتاب تحریم الدم /باب24 ، سنن ابو داؤد حدیث4772/کتاب السُنّہ کا آخری باب ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دِیا ، صحیحالترغیب الترھیب ، حدیث1411 ، احکام الجنائز و بدعھا ،
دیکھیے قارئین کرام ، مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں مقتول کو شہید کا درجہ ملنے کی خوش خبری عطاء ہوئی ہے ، اور کسی کے قتل ہونے کے جو بھی اسباب اور حالات بیان کیے گئے ہیں وہ سب ہی ایسے ہیں جِس میں کچھ لوگوں کی آپس میں لڑائی ہونا ہی ہوتی ہے ، پس یہ یقینی ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان ((((([FONT=Al_Mushaf]إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِى النَّارِ[/FONT] ::: جب کوئی دو مسلمان اپنے تلواریں لے کر (لڑنے کے لیے ) ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں(اور لڑتے ہیں )تو قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنم میں جانے والے بن جاتے ہیں))))) میں آپس میں لڑنے والے ہر دو مسلمانوں یا دو مسلمان گروہوں میں سے مقتول جہنمی نہیں ، بلکہ اسی فرمان میں بتائے گئے سبب ،((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ[/FONT]:::کیونکہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا لالچ لیے ہوئے تھا))))) کی وجہ سے جہنمی ہے ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولعی آلہ سلم کے اس فرمان مبارک کے مطابق جس کے دِل میں اپنے مدمقابل کو قتل کرنے کا ارداہ نہیں اور صرف اپنی جان ، مال ، عزت یا ایمان کے تحفظ کے لیے لڑتا ہے، یا کسی اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کے مطابق کسی حق کے تحفظ کے لیے لڑتا ہے اور قتل ہوتا ہے ، تو وہ جہنمی نہیں ہے ۔
محترم قارئین ، اِن شاء اللہ اِن مذکورہ بالا وضاحتی معلومات کے ذریعے قاتل اور مقتول کے جہنمی ہونے والی حدیث شریف پر کیے گئے اعتراضات اور اعتراض کرنے والوں کے علم اور مذھب کی حقیقت واضح ہوگئی ہو گی ، اللہ نہ کرے اگر پھر بھی کوئی شک برقرار ہو تو بلا تردد اسے سامنے لایے ،اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ خیر عطاء فرمائے گا ، والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے تھریڈز کو فضول ، بے ہنگم اور پراگندہ قسم کے مراسلات سے بچائے رکھنے کے لیے میرے تھریڈز میں مراسلات کے لیے بتائے گئے قواعد کو یہاں بھی دہراتے ہوئے کہتے ہوں میرے اس مضمون میں جس کسی نے بھی مراسلات کرنی ہو وہ موضوع کے عین مطابق مراسلات کرے اور میرے یا کسی کی بھی الفاظ کی کاپی پیسٹ کیے بغیر کرے ، اور میرے یا کسی کے بھی الفاظ کی تحریف کیے بغیر کرے ، اور اپنے الفاظ میں ، اسلامی علوم کے دلائل کے ساتھ اور اسلامی آداب و اخلاقیات کی حدود میں رہتے ہوئے کرے ، اور اس کے علاوہ کسی بھی اور قسم کی مراسلات کے ذریعے میرے اس تھریڈ کو گندہ کرنے کی بری کوشش مت کرے ،
اور انتظامیہ سے گذارش کرتا ہوں کہ جو کوئی بھی میری طرف سے بتائی ہوئی صِفات کے بغیر مراسلات کرے براہ مہربانی اُس کے مراسلات کو حذف کر دیا جائے ، تا کہ اِن شاء اللہ ، یہ تھریڈ قارئین کرام کے لیے زیادہ سے زیادہ صاف ستھری حالت میں رہے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہو، والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ ’’’ یہاں ‘‘‘ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 
Top