• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبلہ کا تعین اگر آن لائن کمپس سے کیا ہو؛ اور اسی تعین پر نمازیں ادا کی ہوں پھر معلوم چلا کہ قبلہ کی سمت درست نہیں تھی تو کیا نمازیں دہرانی ہوں گی؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
535
ری ایکشن اسکور
170
پوائنٹ
77
قبلہ کا تعین اگر آن لائن کمپس سے کیا ہو؛ اور اسی تعین پر نمازیں ادا کی ہوں پھر معلوم چلا کہ قبلہ کی سمت درست نہیں تھی تو کیا نمازیں دہرانی ہوں گی؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نماز کی صحت کیلئے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے ؛ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہے : فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
آپ اپنا چہرہ مسجدِ حرام کی جانب پھیر لیں اور جہاں کہیں بھی ہوں تو تم اپنے چہرے اسی طرف پھیر لو۔
( البقرہ 144)

اسی طرح مسئ الصلوٰۃ کے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس صحابی _ رضی اللہ عنہ _ کو فرمایا کہ (ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ ... ) پھر قبلہ رخ ہوجائے۔ ( البخاری ؛ 6667 ؛ مسلم 872 ؛ ابوداؤد ؛ الترمذی )

اب اگر کسی کا قبلہ معلوم کرنے کی قدرت ہو لیکن اپنے قدرت کو استعمال نہ کرے قبلہ کے بجائے کسی اور طرف منہ کر کے نماز ادا کرے تو شرط فوت ہونے کی وجہ سے ایسا شخص اپنی نماز لوٹائے گا

امام ابن حزم _ رحمہ اللہ _ فرماتے ہیں : فمن صلى إلى غير القبلۃ ممن يقدر على معرفۃ جھتھا بطلت صلاتہ ویعیدھا ( المحلی ؛ الصلوٰۃ 2/259 )

یعنی اگر کوئی شخص قبلہ معلوم کرنے پر قادر ہے ( اور پھر بھی معلوم کیے بغیر ) کسی اور طرف منہ کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز باطل ہے اور وہ وہ اسے دوبارہ پڑھے گا۔

البتہ اگر اس نے کوشش کیا کہ قبلہ معلوم کرے اور اپنی تحری کے بعد اس نے معلوم قبلے پر نماز ادا کرلی؛ لیکن پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ قبلہ خطا تھا تو اس میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہے:

علمائے احناف کے نزدیک اجتہاد کے باوجود خطا قبلے پر نماز ادا ہوجاتی ہے؛ اس کا اعادہ کرنا واجب نہیں؛ اور اگر اجتہاد و تحری نہ کیا ہو تو اعادہ واجب ہے۔

وإن اشتبهت عليه القبلة وليس له من يسأل اجتهد وصلى؛ ولا يعيد وإن أخطأ. لما روي أن جماعة من الصحابة اشتبهت عليهم القبلة في ليلة مظلمة؛ فصلى كل واحد منهم إلى جهة وخط بين يديه خطا؛ فلما أصبحوا وجدوا الخطوط إلى غير القبلة؛ فأخبروا بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : تمت صلاتكم . وفي رواية : لا إعادة عليكم . ولأن الواجب عليهم التوجه إلى جهة التحري؛ إذ التكليف بقدر الوسع ... قال : وإن صلى بغير اجتهاد فأخطأ أعاد. وكذلك إن كان عنده من يسأله فلم يسأله؛ لأنه ترك واجب الاستدلال بالتحري والسؤال. ( الإختيار)

علمائے مالکیۃ کا بھی یہی قول ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر نماز کا وقت باقی ہو تو اسے اعادہ کرنا بہتر ہے:
قال في الشرح الكبير : وإن تبين الخطأ بعدها أي بعد الفراغ من الصلاة أعاد ندبا من يقطع أن لو اطلع عليه فيها وهو البصير المنحرف كثيرا في الوقت لا من لا يجب عليه القطع وهو الأعمى مطلقا والبصير المنحرف يسيرا (الشرح الكبير)

علمائے حنابلۃ کا قول ہے کہ اگر سفر میں خطا ہوئی تو اعادہ واجب نہیں ؛ اور اگر اپنے مقام پر خطا ہوئی تو اعادہ واجب ہے:

الصحيح من المذهب أن البصير إذا صلى في الحضر فأخطأ عليه الإعادة مطلقا وعليه الأصحاب؛ وعنه لا يعيد إذا كان عن اجتهاد؛ احتج أحمد بقضية أهل قباء؛ وتقدم أن ابن الزاغوني حكى رواية أنه يجتهد ولو في الحضر (الأنصاف)

علمائے شوافع کا قول یہ ہے کہ اسے بہر صورت نماز کا اعادہ کرنے پڑے گا:
ومن صلى بالاجتهاد فتيقن الخطأ قضى في الأظهر؛ فلو تيقنه فيها وجب استئنافها (المنهاج للنووي)

تو بہر حال اس اختلاف کے پیشِ نظر اقرب اور احوط یہی ہے کہ نماز کا اعادہ کیا جائے؛ اور اگر کوئی شرعی عذر ہو یا مرض یا مجبوری ہو یا نمازیں کئی سال یا مہینوں کی ہوں کہ جن کا اعادہ انتہائی مشکل ہو تو پھر اعادہ ترک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام
 
Top