• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ت شاذہ…تعارف اور شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت شاذہ…تعارف اور شرعی حیثیت

حافظ عمران ایوب لاہوری​
لغوی: لفظ قرا ء ت لغوی اعتبار سے قرأ یقرأسے مصدر سماعی ہے۔ ماہرین لغت کے نزدیک اس کامعنی جمع کرنا، منانا اور تلاوت کرناوغیرہ موجود ہے ۔ (لسان العرب:۱؍۱۲۹،المفردات فی غریب القرآن:ص ۴۰۲)
اِصطلاحی: اعتبار سے اہل علم نے قراء ت کی مختلف تعریفات ذکر کی ہیں:
الشیخ عبدالفتاح قاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ علم قراء ت ایسا علم ہے کہ جس میں قرآنی کلمات کوبولنے کی کیفیت اور انہیں اَدا کرنے کا مختلف فیہ اور متفقہ طریقہ ہر ناقل کی قر اء ت کی نسبت کے ساتھ معلوم ہوتاہے۔‘‘ (البدورالزاہرۃ: ۷)
قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’قراء ت اس علم کوکہتے ہیں جس سے کلمات قرآنیہ میں قرآن مجید کے ناقلین کا وہ اتفاق اور اختلاف معلوم ہو،جو آپ ﷺ سے سن لینے کی بناء پر ہے ، اپنی رائے کی بناء پر نہیں۔‘‘ (عنایات رحمانی:۱؍۱۳)
علم قراء ت کا موضوع قرآ ن کریم کے کلمات ہیں، کیونکہ اس علم میں ان کلمات کے تلفظ کے حالات پرہی بحث کی جاتی ہے۔ (عنایات رحمانی:۱؍۱۳)
کسی بھی قراء ت کو قرآنی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے اہل علم نے تین شرائط مقررکی ہیں:
(١) نحوی قواعد کے موافق ہو۔
(٢) رسم عثمانی کے موافق ہو۔
(٣) اس کی سند صحیح ومتصل ہو۔
یہ تیسری شرط ہی اَصل ہے، باقی دو اس کی تائید کے لیے ہیں اگر یہ تینوں شرائط موجود ہیں توقراء ت کو قرآنی حیثیت سے قبول کرنا فرض ہے۔ (الیسرشرح شاطبیہ: ۱۴)
اِمام سیوطی رحمہ اللہ وغیر ہ اہل علم نے قرا ء ت کی باعتبار سند چھ اَقسام بیان کی ہیں۔ملاحظہ فر مائیے :
متواتر:جسے ایک بڑی جماعت نقل کرے اور اس جماعت کا جھوٹ پر جمع ہونا ناممکن ہو۔
مشہور:وہ قراء ت جس کی سند صحیح ثابت ہواور وہ درجہ تواتر تک نہ پہنچنے کے باوجود عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق ہو،نیز قراء میں مشہو ربھی ہو۔
آحاد:ایسی قراء ت جس کی سند توصحیح ہو مگر وہ عربی قواعد یا رسم عثمانی کے خلاف ہویا درج بالادونوں قرا ء توں کے برابر مشہور نہ ہو۔اور نہ اس کی قرا ء ت کی جاتی ہو۔
شاذ:جس کی سند صحیح نہ ہو۔
موضوع:جو بغیر کسی اصل کے اپنے قائل کی طر ف منسو ب ہو۔
مدرج :ایسی قرا ء ت جو دیگر قراء توں میں بطورِ تفسیر زیادہ کی گئی ہو۔ (الا تقان للسیوطی:۱/۷۷)
چونکہ یہاں ہمارے پیش نظر صرف قراء ت شاذہ پر بحث کرنا ہے اس لئے آئندہ سطورمیں اسی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت شاذہ کا معنی ومفہوم اور وجہ تسمیہ

شاذکا مادہ ش، ذ، ذ ہے، اس کا معنی علیحدہ ہونا اور اکیلا ہو نا وغیرہ ہے ۔(لسان العرب: ۴؍۴۹۴) لفظ ’شاذ‘ صیغہ صفت ہے، اس کی جمع شواذ آتی ہے۔ (مصباح اللغات،ص ۴۲۳)
اِصطلاحی اعتبار سے علماء قراء ت نے اس کی تعریف مختلف انداز میں بیان کی ہے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کے نزدیک شاذہ قراء ت وہ ہے، جس کی سند صحیح نہیں۔ (الاتقان:ا؍۷۷)
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قراء ت شاذہ وہ ہے کہ جو قرآنی حیثیت سے منقول ہو مگر نہ وہ تواتر سے ثابت ہواورنہ قراء ت کے ائمہ کے نزدیک اسے قبول عام حاصل ہو۔‘‘(البرہان فی علوم القرآن:۱ ؍۴۸۱)
ڈاکٹر لبیب السعید رحمہ اللہ قراء ت شاذہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:
’’ علماء قرآن کی اِصطلاح میں شاذ قراء ات وہ ہیں جو آحاد سند سے مروی ہیں اور رسم عثمانی کے خلاف ہیں،نیز کسی قراء ت کا صحیح السند اور قواعد عربیہ کے موافق ہونا اس کے شاذ ہونے سے مانع ہے۔ (الجمع الصوتی الأولی للقرآن:۲۲۱)
درج بالا تعریفات کو سامنے رکھتے ہوئے یوں کہاجاسکتا ہے کہ قراء ت شاذہ سے مراد وہ قراء ت ہے جو رسم عثمانی کے خلاف ہے اور بطریقِ آحاد مروی ہے قطع نظر اس سے کہ اس کی سند صحیح ہے یا ضعیف۔
علاوہ اَزیں قراء ات شاذہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قراء ات رسم عثمانی سے علیحدہ ہیں اس لیے ان کانام شاذ یعنی علیحدہ ہونے والی رکھ دیا گیا ۔ (مناہل العرفان:۱؍۳۷۶)
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ کے مطابق ان قراء ات شاذہ کواس لیے ’شاذہ ْکہا جاتا ہے کہ یہ رسم کے اعتبار سے قراء ات متواترہ سے جدا اور منفرد ہیں یااس وجہ سے کہ یہ قراء ات متواترہ کے ضوابط پر پوری نہیں اترتیں۔ (المنجد المقرئین:ص۱۶،۱۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات شاذہ کی اَقسام

قراء ات شاذہ کو درج ذیل اَقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
(١) وہ قراء ات جس کی سند صحیح ہو او رکسی عربی قاعدہ کے مطابق ہو لیکن نہ تو بطریق تواتر ثابت ہو اورنہ ہی ایسے طریق سے جو قوت میں تواتر کے مساوی ہو۔
(٢) وہ قراء ات جس کی سند صحیح ہو او رلغت عرب کے بھی موافق ہو، لیکن مصاحف عثمانیہ کی رسم کے مطابق نہ ہو۔
(٣) وہ قراء ات جس کی سند صحیح ہو رسم عثمانی کے موافق ہو، لیکن لغت عرب کے خلاف ہو۔
(٤) وہ قراء ات جس کی سند تو صحیح ہے مگر وہ قرآن نہیں،بلکہ صحابہ کے بطور تفسیر اضافہ کردہ کلمات ہیں،جن کے لئے مدرج کی بھی اصطلاح مستعمل ہے۔
(٥) وہ قراء ات جس کی سند ہی صحیح نہ ہو خواہ وہ رسم عثمانی اورعربی قواعد کے موافق ہو یا مخالف۔
(٦) وہ قراء ات جو رسم عثمانی اور لغت عرب کے موافق ہیںمگر ان کی کوئی سند ہے ہی نہیں۔ ایسی قراء ات بھی شاذہ، بلکہ مکذوبہ کہلائیں گی اورانہیں کوئی مسلمان قرآن نہیں کہہ سکتا ۔ (المحتسب:۱؍۲۴۷،القراء ت السبع:۲۷۸،النشر:۱؍۱۶،الاتقان:۱؍۷۷،المنجد المقرئین:۱۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ا ت شاذہ کی شرعی حیثیت…کیا یہ قرآن ہیں؟

بلاشبہ قراء ات ِشاذہ قرآن نہیں، کیونکہ ان میں وہ تمام شرائط مفقود ہیں جو ثبوت قرآن کے لئے ضروری ہیں، لہٰذا پوری اُمت متفق ہے کہ قراء ت شاذہ قرآن نہیں۔مزید تائید کی غرض سے چند اَقوال پیش خدمت ہیں:
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق قراء ات شاذہ قطعاً قرآن سے الگ ہیں۔ (کما فی أصول الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۱؍۴۲۷)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس بات پراجماع ہے کہ قراء ات شاذہ کی تلاوت اورانہیں مصحف میں لکھنا جائز نہیں۔‘‘ (المحلی:۴؍۲۵۵)
علامہ عبد العلی انصاری رحمہ اللہ رقمطرازہیں :کہ ’’ قراء ت شاذہ بالاتفاق قرآن نہیں۔‘‘ (فواتح الرحموت:۲؍۱۲)
علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ کا قول ہے :
’’ قراء ت شاذہ نماز میں پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔‘‘ (التمہید :۸؍۲۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات شاذہ کی تلاوت کا حکم

چونکہ قراء ات شاذہ قرآن نہیں، اس لیے بحیثیت قرآن ان کی تلاوت کرناجائز نہیں، چنانچہ ڈاکٹر محمد سالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص علماء وفقہا کے اَقوال کی روشنی میں غور کرے گاوہ یقینا یہی فیصلہ کرے گا کہ نماز یااس کے علاوہ قراء ات شاذہ کی تلاوت حرام ہے۔ (فی رحاب القرآن:۴۳۸)
اگرچہ کچھ اہل علم کی طرف نماز میں قراء ات ِشاذہ کی تلاوت کے جواز کا قول منسوب ہے، مگر راجح قول جمہور کا ہے جو اوپر ذکر کردیاگیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قراء ات شاذہ نہ قرآن ہیں او رنہ ہی نماز میں ان کی تلاوت جائز ہے، خواہ نماز فرض ہو یا نفل۔نیز قراء ات شاذہ کی تلاوت پر اصرار کرنے والا سزا کا مستحق ہے۔ تاہم نماز کے علاوہ ان قراء ات کوتعلیم وتعلّم کی غرض سے بیان کرنا یا قرآن کی کسی آیت کے مفہوم کی وضاحت کے لئے پیش کرنا سب کے نزدیک جائز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات شاذہ سے اَحکام کا استنباط

قراء ات شاذہ استنباط کے سلسلے میں حجت ہیںیا نہیں اس میں دو مسلک ہیں۔ ان دونوں کاذکر بمعہ دلائل حسب ذیل ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا مسلک

قراء ات شاذہ مطلقا حجت نہیں۔ یہ امام ابن حزم رحمہ اللہ اور چند دیگر علماء کی رائے ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ قراء ات شاذہ نہ قرآن ہیں اورنہ ہی انہیں خبر واحد کی حیثیت دی جاسکتی ہے، لہٰذا استنباط احکام میں یہ حجت نہیں۔ ان کے چند دلائل ملاحظہ فرمائیے۔
(١) قراء ات شاذہ قرآن نہیں، اس لیے حجت نہیں۔
(٢) عہد عثمانی میں جس قرآن پر اجماع ہوا تھا، قراء ات شاذہ اس میں شامل نہیں تھیں، اس لیے قابل حجت نہیں۔
(٣) قراء ت شاذہ بطورِ خبر واحد بھی حجت نہیں، کیونکہ وہ بطور خبر واحد منقول نہیں ہوتی بلکہ بطور قرآن منقول ہوئی ہے۔جب اس کا قرآن ہونا ثابت نہیں تو اس کا خبر ہونا بدرجہ اولی ثابت نہیں۔
(٤) صحابہ کرام نے قراء ات شاذہ پر عمل نہیں کیا۔ (قواطع الادلۃ فی الأصول :۱؍۴۱۴،البرہان فی أصول الفقہ:۱؍۶۶۷،المحلّی:۸؍۷۵،حاشیۃ العطار علی جمع الجوامع: ۱؍۳۰۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا مسلک

قراء ات شاذہ حجت ہیں۔ یہ جمہو رکی رائے ہے۔ ان کے چند دلائل ملاحظہ فرمائیے:
(١) جو قراء ت شاذہ رسول اللہﷺسے صحیح ثابت ہے یا وہ واقعتا پہلے قرآن تھیں، پھر عرض اخیر ہ میں ان کی تلاوت منسوخ ہوگئی یا پھر قرآن تھی ہی نہیں، بلکہ قرآن کی تفسیر کے ضمن میں وہ شامل تھیں کہ رسول اللہﷺنے انہیں بطور حدیث بیان کیا تھا لیکن غلط فہمی سے بعض صحابہ نے اسے قرآن سمجھ لیا۔
اس طرح قراء ات شاذہ جو ان دونوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک ضرور ہے، لازما حجت او ر واجب العمل ہے کیونکہ اس کابطور قرآن ثابت نہ ہونا اس بات کی منافی نہیں کہ وہ بطور خبر بھی درست نہ مانی جائے ۔گویا دوہی صورتیں ہیں یا تو یہ قرآن تھیںیا پھر پیغمبرﷺکی خبر ۔ تو اس لحاظ سے یہ بحث قراء ات شاذہ کی حجیت یاعدم حجیت کی نہیں، بلکہ یہ بحث یہ ہے کہ ان قراء ات کو بحیثیت قرآن تسلیم کیاجائے یا بحیثیت حدیث۔ (مختصر الروضۃ:۲؍۲۵)
(٢) حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کوسنا آپ ’’فَاسْعَوا إلی ذکر اﷲ‘‘ کے بجائے) فامْضُوا إلی ذکر اﷲ پڑھا کرتے تھے۔ (مؤطا:۱؍۶۰)
امام ابن عبدالبررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علماء نے قراء ات شاذہ کو بطورِ تفسیر حجت قرار دیا ہے۔ یہ حدیث اس کا واضح ثبوت ہے کہحضرت ابن مسعود5بھی حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرح فامضوا إلی ذکر اﷲ پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے اگر ا س میں فاسعو إلی ذکر اﷲ کے علاوہ کوئی دوسری قراء ات نہ ہوتی تو میں ا س قدر دوڑ کرجاتاکہ میر ی چادر نیچے گرجاتی۔ (الاستذکار:۵؍۷۳)
اس مقام پرحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قراء ت شاذہ سے ایک مسئلہ کا استنباط کرنا اس کی حجیت کی دلیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راجح موقف

قراء ت شاذہ کی حجیت کے قائلین کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے او رجہاں تک عدم حجت کے قائلین کا تعلق ہے تو ان کے دلائل قرآن کے ساتھ عقیدت کا مظہر تو ضرور ہیں، لیکن ان سے عدم ِحجیت کا ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔ ان کی پہلی او ردوسری دلیل کہ قراء ات شاذہ قرآن نہیں، کیونکہ یہ مصحف عثمانی سے خارج ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بھی ان قراء ات کو قرآن نہیں سمجھتے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حجت بھی نہیں۔حجیت کے قائلین کا یہ دعوی ہے کہ قراء ات شاذہ بطور قرآن حجت نہیں، بلکہ ان کی حجیت صرف اس حیثیت سے ہے کہ پہلے یہ قرآن تھیں پھر ان کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا اور وہ حکم چونکہ بطورِ آحاد ہم تک پہنچا ہے اس لیے اسے خبر واحد یا بالفاظ دیگر حدیث کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ قراء ات قرآن کے مجمل اورمشکل مقامات کی تفسیر تھیں جو رسول اللہﷺنے بیان فرمائی تھی اورصحابہ نے اسے سنا تھا اوراس کے حجت ہونے میں کسی کابھی اختلاف نہیں۔
معلوم ہوا کہ قراء ات شاذہ کی حجیت کی رائے ہی زیادہ غالب ہے، بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو اور کوئی صحیح حدیث یا قوی تر دلیل اس کے معارض نہ ہو، نیز کسی صحیح روایت سے اس کے حکم کا نسخ بھی ثابت نہ ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اکثر علماء کا یہی مذہب ذکر فرمایا ہے اور امام ابن عبد البررحمہ اللہ نے اس پراجماع نقل کیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ کلام

علم قراء ات اجتہادی نہیں، بلکہ سماع اورنقل سے ثابت ہے اور اس کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔ قراء ات عشرہ کے علاوہ باقی تمام قراء ات شاذہ ہیں۔ وہ قراء ات جن کی اسناد ضعیف یا موضوع ہیں یا ان کی کوئی سند ہی نہیں، انہیں کسی حیثیت سے بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قراء ات شاذہ پر قرآن کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ قرا ء ات شاذہ چونکہ قرآن نہیں اس لیے نماز میں ان کی تلاوت بھی حرام ہے۔جمہور علماء کے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح قراء ات شاذہ استنباط احکام میں حجت ہیں، بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہوں اور کوئی حدیث یاقوی تردلیل ان کے معارض نہ ہو نیز اس کا نسخ بھی ثابت نہ ہو۔ وما توفیقی إلاباﷲ علیہ توکلت وإلیہ أنیب
 
Top