• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:3)((سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب)) (قبولِ اسلام کے اسباب ،حصہ اول)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662


(حصہ:3)سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب :قبولِ اسلام کے اسباب(حصہ اول)

♻ سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے، لیکن جب ان پر حق آشکار ہوا تو اسلام سے محبت اور جانفشانی میں بھی بہت آگے بڑھ گئے۔ ذیل میں ان کے قبول اسلام کے اسباب پیش خدمت ہیں:

♻ ١۔ قبل از نبوت دین حق کا مشاہدہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا تو ہمیشہ سے یہی مشاہدہ
ہے کہ سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ جو رائے پیش کرتے، معاملہ ہمیشہ اسی طرح ہوتا۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک حسین و جمیل آدمی گزرا۔

♻ انھوں نے اسے دیکھتے ہی کہا: یہ آدمی تو اپنے پرانے جاہلیت والے دین پر ہے یا یہ اپنی قوم کا کاہن رہا ہے۔ پھر اُسے بلایا گیا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے وہی جملہ کہا جو پہلے کہا تھا۔ اس پر وہ بولا: آج جو بات پیش آئی ہے پہلے کبھی پیش نہیں آئی۔ میں واقعی دورِ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔

♻ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: تم مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جو جنّی کی بتائی ہوئی باتوں میں سے عجیب تر ہو۔ وہ آدمی بولا: ایک دن میں بازار میں تھا کہ میرے پاس ایک جنّی آئی۔ اس پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔

♻ وہ مجھ سے کہنے لگی: کیا تمھیں معلو م نہیں کہ جنوں کو آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے؟! اب جنوں نے اونٹنیوں کے پالانوں کو اپنی جائے سکونت بنا لیا ہے۔

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: ایک دن میں بھی ان کے معبودوں کے قریب کھڑا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا۔ اس کے پاس ایک بچھڑا تھا، جسے وہ بتوں کے پاس ذبح کرنا چاہتا تھا۔ اس جانور کے حلق سے زور دار آواز نکلی۔ میں نے اس سے پہلے اس طرح کی آواز کبھی نہیں سنی تھی۔

♻ اس آواز کے بول یہ تھے: اے میرے دشمن، بات سن! یہ ایک کامیابی کا کام ہے، ایک فصیح، خوش بیان آدمی ہے جو کہہ رہا ہے: لاالٰہ ا لاّاللہ۔ اس آواز کو سنتے ہی وہاں موجود سب لوگ بدک اٹھے اور کھڑے ہو کر چل دیے، لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اُس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک اس کی حقیقت اور اس کے بعد رُونما ہونے والے معاملے کو نہ دیکھ لوں۔

♻ اس کے بعد ایک اور آواز آئی کہ اے میرے دشمن، دھیان سے سن! یہ نجات کی بات ہے کہ ایک خوش الحان اور فصیح البیان آدمی ''لا الٰہ ا لاّ اللہ'' کی صدا لگا رہا ہے۔ اس کے بعد میں وہاں سے چلا گیا، پھر تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھاکہ یہ کہا جانے لگا: محمد کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی ہیں۔(صحیح البخاری :٣٨٦٦ )

♻ اسے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے قبولِ اسلام کے اسباب میں سے سب سے پہلا سبب قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ قبل از نبوت کا واقعہ ہے ،جبکہ دیگر واقعات ظہورِ نبوت کے بعد پیش آئے۔

♻ اس قصے کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس قصے کی طرف اشارہ کرکے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہی قصہ ان کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا ۔( ابن حجر،فتح الباری:18/7)

♻ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ واقعہ ''بَابُ اِسلَامِ عُمر'' کے تحت درج کیا ہے۔
 
Top