- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
(حصہ:3،قبل بعثت نبوی کی جرأت و شجاعت)
رسول اللہ ﷺ نبوت کے بعد یا مدنی دور ہی میں شجاع اور بہادر نہ تھے ، بلکہ قبل از نبوت بھی آپ اس وصف سے متصف تھے۔ اسی کے سبب آپ نے خود کو دور جاہلیت کی بری عادات سے مکمل کنارہ کش رکھا تھا۔
رسول اکرم ﷺ بتوں کی پوجا تو درکنار اُن کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت بھی نہ کھاتے تھے ۔ آپ کا یہ عمل بت پرستی سے انکار ہی نہ تھا ، بلکہ اپنے خاندانی رسم و رواج اور مشرکانہ عقیدے سے اظہارِ نفرت بھی تھا۔
ایک بار کسی بت کدے کے نگران نے لات و عزیٰ کی قسم دے کر آپ سے کچھ پوچھنا چاہا۔ آپ نے فوراً روک دیا اور فرمایا: (( لَا تَسْأَلْنِی بِاللاَّتِ وَالْعُزّٰی، فَوَاللّٰہِ مَا أَبْغَضْتُ شَیْئًا قَطُّ بُغْضَہُمَا )) ( ابن الجوزی، الوفا:109/1وابن ہشام، السیرۃ النبویہ:182/1) ''لات و عزیٰ کا نام لے کر مجھ سے سوال مت کرنا۔ اللہ کی قسم! مجھے تمام چیزوں سے بڑھ کر ان دونوں سے نفرت ہے۔''
بوانہ کے مقام پر ایک بت خانہ تھا۔ قریش اس پر سال بھر میں ایک بار ضرور حاضر ہوتے تھے۔ وہاں رات گزارتے، اعتکاف کرتے، سر منڈواتے اور دیگر امور بجا لاتے ۔ آپ کو بھی وہاں جانے کا کہا جاتا، مگر آپ صاف انکار کر دیتے۔ اس پر آپ کے عزیز واقارب آپ سے سخت ناراض ہوتے، لیکن آپ ان کی ناراضی کی بالکل پروا نہ کرتے۔ (الذہبی، التاریخ :62/1وابن سعد، الطبقات الکبریٰ:158/1)
نبی کریم ﷺ کے لڑکپن میں جنگِ فجار ہوئی ۔ اس میں آپ کی شرکت آپ کی بلند ہمتی اور شجاعت کی روشن مثال ہے۔ آپ دوران جنگ اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا کر پکڑاتے رہے ،
بعثت ونبوت سے قبل کے یہ تمام معاملات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ رسالت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے بھی پیغمبرانہ جرات ودلیری جیسے عظیم وصف سے بدرجہ اتم متصف تھے ، کیونکہ شجاعت و بہادری کے بغیر ان امور کا انجام دیا جانا بالکل ناممکن ہے ،
رسول اللہ ﷺ کی شجاعت و جوانمردی کے متعدد ایک اسباب وعوامل تھے ، جیسے مضبوط خاندانی پس منظر ، مکہ کے مذہبی وسیاسی نمایاں خاندان قریش سے تعلق ، فکر وکردار کی مضبوطی اور رب العالمین کی نصرت و معاونت ،
داعیان دین ، مصلحین ملت اور مربیان امت کے لیے اعلیٰ صفات و عادات ، صبر و تحمل ، جود و سخاوت اور شجاعت و جوانمردی سے متصف ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے ، جس قدر مقصد عظیم اور مشن بلند ہوتا ہے ، اسی قدر مصائب و آلام اور تکالیف ومشکلات سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے ، دعوت دین اور تربیت وافراد سازی کے عظیم عمل میں مسائل اور ردِعمل سے دوچار پونا لازمی امر ہے ،
لیکن دعوتی ابتلاء و آزمائش میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان مضبوط ایمان وعقیدہ کا حامل ہو، جرات ودلیری کا پیکر ہو اور استقلال وپامردی کا خوگر ہو ، عصر حاضر میں اہل اسلام شجاعت وجانثاری کے حوالے سے کئی طرح کی فکری وعملی کتاہیوں سے دوچار ہیں ،
جدید فکر وتہذیب کا دامن ان اعلی افکار و نظریات اور عمدہ اقدار وروایات سے خالی ہے، جن کا حقیقی شجاعت اور جرات ودلیری کے لیے ہونا ضروری ہے ، حب دنیا ، خواہش پرستی ، شہرت وناموری اور مادی ترقی وخوش حالی جدید تہذیب والحاد کے بنیادی عناصر ہیں ، ایسی فکر وتہذیب کے حاملین کسی صورت بھی حقیقی معنوں میں جذبہ قربانی اور جاں نثاری سے متصف نہیں ہو سکتے ، عسکری میدان میں عالمی استعماری قوتوں کی ذلت وپسپائی سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
(حصہ:3،قبل بعثت نبوی کی جرأت و شجاعت)
رسول اللہ ﷺ نبوت کے بعد یا مدنی دور ہی میں شجاع اور بہادر نہ تھے ، بلکہ قبل از نبوت بھی آپ اس وصف سے متصف تھے۔ اسی کے سبب آپ نے خود کو دور جاہلیت کی بری عادات سے مکمل کنارہ کش رکھا تھا۔
رسول اکرم ﷺ بتوں کی پوجا تو درکنار اُن کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت بھی نہ کھاتے تھے ۔ آپ کا یہ عمل بت پرستی سے انکار ہی نہ تھا ، بلکہ اپنے خاندانی رسم و رواج اور مشرکانہ عقیدے سے اظہارِ نفرت بھی تھا۔
ایک بار کسی بت کدے کے نگران نے لات و عزیٰ کی قسم دے کر آپ سے کچھ پوچھنا چاہا۔ آپ نے فوراً روک دیا اور فرمایا: (( لَا تَسْأَلْنِی بِاللاَّتِ وَالْعُزّٰی، فَوَاللّٰہِ مَا أَبْغَضْتُ شَیْئًا قَطُّ بُغْضَہُمَا )) ( ابن الجوزی، الوفا:109/1وابن ہشام، السیرۃ النبویہ:182/1) ''لات و عزیٰ کا نام لے کر مجھ سے سوال مت کرنا۔ اللہ کی قسم! مجھے تمام چیزوں سے بڑھ کر ان دونوں سے نفرت ہے۔''
بوانہ کے مقام پر ایک بت خانہ تھا۔ قریش اس پر سال بھر میں ایک بار ضرور حاضر ہوتے تھے۔ وہاں رات گزارتے، اعتکاف کرتے، سر منڈواتے اور دیگر امور بجا لاتے ۔ آپ کو بھی وہاں جانے کا کہا جاتا، مگر آپ صاف انکار کر دیتے۔ اس پر آپ کے عزیز واقارب آپ سے سخت ناراض ہوتے، لیکن آپ ان کی ناراضی کی بالکل پروا نہ کرتے۔ (الذہبی، التاریخ :62/1وابن سعد، الطبقات الکبریٰ:158/1)
نبی کریم ﷺ کے لڑکپن میں جنگِ فجار ہوئی ۔ اس میں آپ کی شرکت آپ کی بلند ہمتی اور شجاعت کی روشن مثال ہے۔ آپ دوران جنگ اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا کر پکڑاتے رہے ،
بعثت ونبوت سے قبل کے یہ تمام معاملات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ رسالت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے بھی پیغمبرانہ جرات ودلیری جیسے عظیم وصف سے بدرجہ اتم متصف تھے ، کیونکہ شجاعت و بہادری کے بغیر ان امور کا انجام دیا جانا بالکل ناممکن ہے ،
رسول اللہ ﷺ کی شجاعت و جوانمردی کے متعدد ایک اسباب وعوامل تھے ، جیسے مضبوط خاندانی پس منظر ، مکہ کے مذہبی وسیاسی نمایاں خاندان قریش سے تعلق ، فکر وکردار کی مضبوطی اور رب العالمین کی نصرت و معاونت ،
داعیان دین ، مصلحین ملت اور مربیان امت کے لیے اعلیٰ صفات و عادات ، صبر و تحمل ، جود و سخاوت اور شجاعت و جوانمردی سے متصف ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے ، جس قدر مقصد عظیم اور مشن بلند ہوتا ہے ، اسی قدر مصائب و آلام اور تکالیف ومشکلات سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے ، دعوت دین اور تربیت وافراد سازی کے عظیم عمل میں مسائل اور ردِعمل سے دوچار پونا لازمی امر ہے ،
لیکن دعوتی ابتلاء و آزمائش میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان مضبوط ایمان وعقیدہ کا حامل ہو، جرات ودلیری کا پیکر ہو اور استقلال وپامردی کا خوگر ہو ، عصر حاضر میں اہل اسلام شجاعت وجانثاری کے حوالے سے کئی طرح کی فکری وعملی کتاہیوں سے دوچار ہیں ،
جدید فکر وتہذیب کا دامن ان اعلی افکار و نظریات اور عمدہ اقدار وروایات سے خالی ہے، جن کا حقیقی شجاعت اور جرات ودلیری کے لیے ہونا ضروری ہے ، حب دنیا ، خواہش پرستی ، شہرت وناموری اور مادی ترقی وخوش حالی جدید تہذیب والحاد کے بنیادی عناصر ہیں ، ایسی فکر وتہذیب کے حاملین کسی صورت بھی حقیقی معنوں میں جذبہ قربانی اور جاں نثاری سے متصف نہیں ہو سکتے ، عسکری میدان میں عالمی استعماری قوتوں کی ذلت وپسپائی سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے