• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:8)((سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب)) ( برملا اظہارِ اسلام اور کفار کو للکار )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662


سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب ( برملا اظہارِ اسلام اور کفار کو للکار )

♻ مکہ مکرمہ میں تو حالات یہ تھے کہ لوگ پوشیدہ طور پر راز داری سے اسلام قبول کرتے تھے، اسی طرح عبادت اوراحکام ربانی کی بجا آوری بھی رازداری سے ہوتی تھی، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان کیا اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے گزارش کی:''وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأُعْلِنَنَّہ، کَمَا أَعْلَنْتُ الشِّرْکَ''(ابن المبرد، محض الصواب:175/1)اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! جس طرح میں شرک کا اعلان کرتا تھا اب میں لازماً اسلام کا اظہار و اعلان کروں گا۔

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ ہی سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں کہ جب میں اسلام لایا تو میں نے غور کیا کہ مکہ میں کون سا آدمی ایسا ہے جس کی عداوت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ ہے، تاکہ میں اس کے پاس جا کر اسے اپنے مسلمان ہونے کی خبر دوں۔

♻ پتہ چلا کہ ابو جہل رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا: میں تمھارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ تمھیں بتا دوں کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اور آپ جو دین لے کرآئے ہیں میں اس کی دل و جان سے تصدیق و تائید کرتا ہوں۔ یہ سنتے ہی ابوجہل نے گھر کا دروازہ بندکر لیا اور بولا: اللہ تجھے اور اُسے رسواکرے۔أحمد بن حنبل، فضائل الصحابہ:284/1 وابن عساکر، تاریخ دمشق: 63/47

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ چاہتے تھے کہ دوسرے اصحاب کی طرح انھیں بھی کوئی اسلام کی خاطر اذیت دینے کی جرأت کرے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا اور قریش کو اس کے اسلام کا علم ہوتا تو اسے اذیت دی جاتی تھی، اس لیے اسلام لانے کے بعد میں بھی ایک ایسے ہی ستم گرکے گھر گیا۔

♻ اُس نے پوچھا: کون ؟ میں نے کہا: عمر ! اُس نے دروازہ کھولا تو میں نے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ میں نے دین بدل لیا ہے؟ وہ کہنے لگا: کیا واقعی آپ نے نیا دین اختیار کر لیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں! وہ بولا: ایسا نہ کریں ، یہ کہہ کر اُس نے بھی دروازہ بند کرلیا۔( البزار،المسند:٢٧٩ وابن الاثیر، أسد الغابہ:321/3)حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی دین کی خاطر تکالیف جھیلنے کی خواہش پوری نہ ہوئی۔البتہ اس کے لیے انھوں نے کوشش جاری رکھی۔

♻ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اس بات کے خواہش مند تھے کہ تمام اہل مکہ کو ان کے اسلام کا علم ہو جائے۔ اس کام کے لیے جمیل بن معمر ُجمحی پر نظر پڑی، کیونکہ وہ بات پھیلانے میں معروف تھا۔ اسے سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کے اسلام لانے کا پتہ چلا تو اس نے اعلان کر دیا کہ خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔

♻ سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔اس کا یہ اعلان سن کر کہنے لگے: یہ جھوٹ بول رہا ہے، میں تو مسلمان ہوا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ محمد(صلی اللّٰہ) اللہ کے رسول ہیں۔

یہ سنتے ہی لوگ اُن کے دشمن ہوگئے، پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: جو تمھارا جی چاہتا ہے کر گزرو، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم تین سو آدمی ہوتے تو پھر تم دیکھتے کہ کیا ہوتا!! یا تم ہم پر غالب آتے یا پھر ہم تمھیں نیست و نابود کر دیتے۔ یہ سن کر سب لوگ منتشر ہو گئے۔(حمد بن حنبل، فضائل الصحابہ:282/1)

♻ اس موقع پر بھی حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے دل کی حسرت پوری نہ ہوئی۔ ان کے رعب و دبدبے کی وجہ سے کوئی ان کے قریب پھٹکنے کو تیار نہیں تھا۔البتہ ایک روایت میں آتا ہے کہ وہاں موجود کفار ان پر ٹوٹ پڑے اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے تن تنہا ان کا مقابلہ کیا۔

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے تہلکہ خیز اعلان اور بار بار قبولِ اسلام کے اظہار کے بعد ایک دفعہ مشرکین مکہ نے ہنگامہ برپاکر دیا اور وہ بڑی تعداد میں حضرت عمر کے گھر کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ جب ابو عمر و عاص بن وائل کو، جو کفر کی حالت ہی میں فوت ہوا تھا۔ معلوم ہوا تو اُس نے وہاں پہنچ کر لوگوں کو منتشر کر دیا،(صحیح البخاری :٣٨٦٥ و ابن حجر، فتح الباری:178/7)

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے قبول اسلام کے بعد پہلی دفعہ مسلمانوں نے اجتماعی طور پر بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر باجماعت ظہر کی نماز ادا کی۔ یہ صورتحال دیکھ کر تمام مشرکین پریشان ہو گئے، کسی کو کچھ کہنے کی جسارت ہی نہیں ہوئی۔(ابن کثیر،البدایۃ والنہایہ:230/3)

♻ حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اسلام لائے تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور دین اسلام کی علانیہ تبلیغ کی جانے لگی۔ ہم بیت اللہ کے گرد بے خوف و خطر مجلسیں جما کر بیٹھتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے تھے،(ابن سعد،الطبقات الکبریٰ: 269/3)

♻ حضرت ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کا قول ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام ہماری فتح تھی، ان کی ہجرت نصرت تھی اور ان کی امارت رحمت تھی۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے اسلام سے قبل ہم بیت اللہ کے قریب عبادت نہیں کر سکتے تھے، لیکن جب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اُنھوں نے کفار سے ٹکر لی اور ہم نے بیت اللہ میں نماز ادا کی۔(ابن ہشام ، السیرۃ النبویہ:342/1وابن سعد، الطبقات الکبریٰ:270/3)

♻ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے قبولِ اسلام کی وجہ سے مسلمانوں کو جو عزت اور عروج نصیب ہوا، سیدنا ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ اسے ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:'' مَا زِلْنَا أَعِزَّۃً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ'')صحیح البخاری:٣٦٨٤ و ابن حبان، الصحیح:٦٨٨٠) جب سے عمر رضی اللّٰہ عنہ اسلام لائے ہمیں عزت ملتی چلی گئی۔
 
Top