شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,010
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
لامذہب کون؟
امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہیں رکھتا۔(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم،صفحہ 4، رقم 6)
اسی بغض کا نتیجہ ہے کہ بدعتی حضرات اہل حدیث کے الٹے سیدھے اور ناپسندیدہ نام رکھتے ہیں اور پھر ان برے ناموں کو اس قدر رواج دیتے ہیں کہ معاشرے میں وہ نام گالی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس مذموم عمل سے عام اور سادہ لوح لوگوں کو اہل حق یعنی اہل حدیث سے دور رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔کفار ومشرکین نے بھی اسی حربے اور ہتھکنڈے کو اسلام کی یلغار روکنے کے لئے اختیار کیاتھا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ناپسندیدہ نا م رکھے تاکہ لوگوں کو نبی ﷺ کے پاس جانے اور ان کی بات سننے سے روکا جاسکے۔
کفار، مشرکین اور بدعتیوں کی اسی عادت بد کوجو انہوں نے اہل حدیث اور نبی ﷺ کے خلاف بطور ہتھیاراورحربہ اختیار کی،کا تذکرہ اوراس پررد کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں: اہل بدعت کی شناخت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کی غیبت کرتا ہو اور زندیقوں کی شناخت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو جھوٹا کہتے ہوں۔اور قدریہ کی علامت یہ ہے وہ اہل حدیث کو مجبرہ کہتے ہوں۔ اور نشان جہمیہ کا یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہہ بتلاتے ہوں۔ اور علامت رافضیوں کی یہ ہے کہ انہوں نے اہل حدیث کا ناصبیہ نام رکھا ہے اور یہ لوگ یہ حرکتیں بسبب تعصب اور دشمنی اور غیظ وغضب کے جو ان کو اہل سنت سے ہے کرتے ہیں۔اور اہل سنت کا کوئی نام بجز ایک نام اہل حدیث کے نہیں ہے اور اہل بدعت نے جو اہل سنت کا لقب رکھا ہے وہ ان کے نام سے ملتا ہی نہیں ہے جیسے کافروں نے پیغمبر ﷺ کا نام ساحر و شاعر و دیوانہ و آسیب رسیدہ کاہن رکھا تھا اور یہ سب نام حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے بالکل بے تعلق تھے اور کسی طرح سے صادق نہ ہوسکتے تھے۔(غنیۃ الطالبین ،طبع مکتبہ تعمیر انسانیت،لاہور صفحہ143)
عرب کے کفار کی تقلید کرتے ہوئے حنفی بدعتیوں نے اہل حدیث کے جو مختلف نام رکھے ہیں ان میں سب سے برا اور قبیح نام لامذہب ہے۔
۱۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی نے اہل حدیث کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے: اس کا مطلب یہ ہو اکہ آپ اہل حدیث ہیں؟.....لیکن علماء نے آپ کوبد مذہب(برامذہب ) لامذہب (بے مذہب)غیر مقلد(خواہش پرست)لکھا ہے۔(شادی کی پہلی دس راتیں،صفحہ 7)
۲۔ امین اوکاڑوی دیوبندی نے کسی مجہول کتاب الارشاد سے بطور رضامندی نقل کیا ہے: اپنے آپ کو تو وہ اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔(تجلیات صفدر،جلد سوم،صفحہ 495)
خود امین اوکاڑوی بھی اہل حدیث کو لامذہب کے نام سے پکارتے ہوئے رقم طرا ز ہے: لامذہبوں کا دعویٰ ہے کہ اس رفع یدین کی حدیث متواتر ہے۔(تجلیات صفدر، جلد دوم،صفحہ 387)
۳۔ ہندوستان کے ایک دیوبندی عالم ابوبکرغازی پوری نے اہل حدیث کے خلاف عربی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہی ’’وقفۃ مع اللا مذہبۃ فی شبہ القارۃ الہندیۃ‘‘ ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں اردو ترجمے کے ساتھ ایک دوسری کتاب کے ساتھ کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ کے نام سے مطبوع ہے۔
اہل حق کو لامذہب کے نام سے موسوم کرنے میں آل تقلید منفرد نہیں بلکہ عرب کے کفار اور مشرکین بھی شرک و کفر سے تائیب ہوکر مسلمان ہو جانے والوں کو صابی یعنی لامذہب کہتے تھے۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پرتھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی پر مشرکین اصحاب رسول ﷺ کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کردئیے۔(تفسیر ابن کثیر،جلد اول،صفحہ 121)
تنبیہ:
۱۔ تفسیر ابن کثیر میں صابی کے معنی ان الفاظ میں درج ہیں: صابی کے معنی ایک تو بے دین اور لامذہب کے کئے گئے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر،جلد اول،صفحہ 121)
۲۔ صابی کے یہی معنی تفسیر احسن البیان میں بھی موجودہیں: یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہاجانے لگا۔(تفسیر احسن البیان، صفحہ 33)
اس تفصیل سے یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ حق کے باغی چاہے زمانہ قدیم کے مشرکین وکفار ہوں یا موجود زمانے کے بدعتی اور گمراہ ان سب کا طریقہ واردات یکساں ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آل تقلید اس مسئلہ میں عرب کے مشرکین اور کفار کے قدم بہ قدم ہیں۔ تقلیدیوں کو آخر کس بات نے کفار کے نقش پاء کی تقلید پر مجبور کیا۔اس کی معلوم وجہ کفار کے اس طریقہ کا آزمودہ ہونا ہے جس کے ذریعے ہر دور کے باطل پرستوں نے اہل حق کے مختلف نام رکھکر انہیں معاشرے میں خوب رواج دیا تاکہ حق کی آواز کم سے کم سنی جاسکے اور اس کے پھیلاؤ کی راہیں مسدود کی جاسکیں ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ باطل پرستوں کو اس نامسعود کوشش میں خاطر خواہ کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ اسی لئے شیطان کے پجاریوں نے کبھی بھی اس حربہ اور کامیاب اور آزمودہ حکمت عملی کو نہیں چھوڑا بلکہ زمانہ قدیم ہی سے اسے تسلسل کے ساتھ برقراراور جاری رکھے ہوئے ہیں۔احناف نے بھی اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اس کامیاب حکمت عملی سے استفادہ کرتے ہوئے اہل حدیثوں کولامذہب کے نام سے مشہور کیا۔کفار کی طرح اہل حدیث کا لامذہب نام رکھنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے نزدیک صرف چار تقلیدی مذاہب ہی جائز ہیں۔ان چارتقلیدی مذاہب کے علاوہ کسی مذہب کو یہ مذہب مانتے ہی نہیں اسی لئے اپنے نزدیک پانچویں مذہب اہل حدیث کو لامذہب قرار دیتے ہیں۔
۱۔ تفسیرصاوی سورہ کہف واذکر ربک اذ انسیت کی تفسیر میں درج ہے: یعنی چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ گرہے۔کیوں کہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنی لینا کفر کی جڑ ہے۔(بحوالہ جاء الحق، صفحہ 33)
معلوم ہواکہ حنفیوں کے نزدیک چارتقلیدی مذاہب کے علاوہ جو بھی ہے وہ لامذہب،گمراہ بلکہ گمراہ گر اور کافر ہے۔
۲۔ طحاوی شرح در مختار میں ہے: وھذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ الخ وتقدم فی مسئلہ
ترجمہ: فرقہ ناجیہ صرف مذاہب اربعہ کا نام ہے(طحاوی شرح در مختار، 4/153)
اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ صحیح احادیث کے مطابق فرقہ ناجیہ ایک ہے چار نہیں دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے مذہب اہل حدیث کو فرقہ ناجیہ سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا ہے۔جبکہ اکابر امت کی اہل حدیث کے فرقہ ناجیہ ہونے پر لاتعداد تصریحات موجود ہیں۔ان کا مطلب یہ ہے کہ اہل حدیث مذہب پر عمل پیرا شخص نجات نہیں پائے گاکیونکہ یہ مذہب چار مذاہب میں شامل نہیں بلکہ انکے علاوہ پانچواں مذہب ہے۔گویا کہ اہل حدیث مذہب کوئی مذہب ہی نہیں یعنی لامذہب ہے ۔
۳۔ مفتی محمد راشد اعظمیٰ دیوبندی صاحب کا فرمان ہے کہ چار تقلیدی مذاہب ہی حقہ ہیں اور ان کے علاوہ کسی بھی مذہب حقہ کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے۔لکھتے ہیں: یہاں تک کہ ان چاروں حضرا ت کے مذاہب کے سوا اہل حق کا کوئی اور مذہب باقی نہ رہ گیا۔پھر اسی مفہوم کی عبارت شاہ ولی اللہ سے نقل کرتے ہیں: جب ان چاروں کے علاوہ دیگر مذاہب حقہ ناپید ہوگئے۔(مسئلہ تقلید، صفحہ 12)
جب اپنے تئیں انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ ان کے خودساختہ چار مذاہب کے علاوہ اب کسی بھی مذہب کو حق نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کسی بھی مذہب حقہ کا وجود ہی سرے سے ختم ہوگیا تو پھرکیا وجہ نہیں کہ یہ لوگ اہل حدیث مذہب پر عمل پیرا لوگوں کا لامذہب نہ کہیں!
۴۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی رقمطراز ہیں: اس پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں۔(تذکرۃ الرشید،صفحہ 131)
کہتے ہیں کہ چار مذاہب کے علاوہ پانچواں مذہب ایجاد کرنا جائز نہیں کیونکہ اس پر (نامعلوم) اجماع ہے۔یعنی ان کے ہاں چارخود ساختہ مذاہب کے علاوہ دیگر مذاہب خاص طور پر اہل حدیث مذہب کوئی حیثیت و حقیقت نہیں رکھتا۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے اظہر من الشمس ہے کہ آل تقلید خود ساختہ چار تقلید ی مذاہب کے علاوہ پانچویں مذہب اہل حدیث کی کوئی اہمیت اور حیثیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس مذہب کے ماننے والوں کو لامذہب سمجھتے ہیں۔لیکن انکا یہ خیال باطل ہے ۔اہل حدیث لامذہب نہیں بلکہ اہل سنت اور اہل حق ہیں اس بات کی گواہی ہم انہیں کے معتبر علماء کی زبانی پیش کررہے ہیں۔
۱۔ مولانا مفتی رشید احمد صاحب دیوبندی فرماتے ہیں: تقریباً دوسری تیسری صدی ہجری میں اہل حق میں فروعی اورجزوی مسائل کے حل میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر قائم ہوگئے۔یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث۔اس زمانے سے لے کر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا۔(احسن الفتاویٰ، جلد 1، صفحہ 316، مودودی اور تخریب اسلام، صفحہ 20)
۲۔ مفتی محمد نعیم دیوبندی امدادالاحکام سے ایک فتویٰ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جماعت اہل حدیث کافر نہیں ہیں، ان میں جو لوگ مذاہب اربعہ کی تقلید کو شرک ، اور مقلدین کو مشرک ، یا ائمہ اربعہ کو برا کہتے ہیں وہ فاسق ہیں، اور جو ایسے نہیں ہیں صرف تارک تقلید ہیں ، اور محدیثین کے مذاہب پر ظاہر حدیث کے اتباع کو افضل سمجھتے ہیں،اور اس میں اتباع ہویٰ سے کام نہیں لیتے وہ فاسق بھی نہیں ہیں بلکہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔(ادیان باطلہ اور صراط مستقیم، صفحہ 288)
۳۔ دیوبندیوں کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں: ہاں! اہل حدیث مسلمان ہیں، اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔(کفایت المفتی :۱ /۳۳۳ بحوالہ ادیان باطلہ اور صراط مستقیم، صفحہ 288)
آل تقلید کے تین معتبر علماء کی گواہی سے یہ حقیقت منصہ ظہور پر آئی کہ اہل حدیث لامذہب نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں اور ایک ایسا مذہب رکھتے ہیں جس کا شماربجاطور پر اہل حق میں ہوتا ہے۔والحمداللہ
صوفی محمد اقبال دیوبندی امداد الفتاویٰ سے ایک سوال کہ اہل حدیث کو وہابی کہنا کیسا ہے؟ پھر اس کا جواب نقل کرتے ہیں: اس لقب کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص مسلک میں ابن عبدالوہاب کو اپنا مقتدا یا موافق مانتا ہو پس اگر یہ اتباع یا توافق مطابق واقع کے ہوتو یہ لقب درست ہے ورنہ کذب ولاتنابزو ابالالقاب کی مخالفت ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 170)
یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے کہ اہل حدیث محمد بن عبدالوہاب سمیت کسی کی بھی تقلید نہیں کرتے اور اسی سبب اہل حدیثوں کو مخالفین کی جانب سے غیرمقلد کے لقب سے ملقب کیاجاتا ہے۔پس نہ تو وہابی کا لقب اہل حدیث کے لئے درست ہے اور نہ ہی لامذہب کا دل آزار نام اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہے بلکہ متذکرہ بالادیوبندی فتویٰ کی روشنی میں اہل حدیث کو لامذہب کہنا کذب ولاتنابزو ابالالقاب کی مخالفت ہے کیونکہ خود حنفیوں و دیوبندیوں نے اہل سنت والجماعت کے مبارک گروہ میں اہل حدیث کا شمار کیا ہے۔ثم الحمداللہ
اہل حدیث کی حقانیت اور سچائی ثابت کرنے کے بعد اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اصل میں جو لوگ اہل حدیث کے خلاف لامذہب کا شور مچا رہے ہیں اپنی فقہ اور اپنے مذہب کے مطابق درحقیقت وہی لا مذہب ہیں۔
۱۔ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ردالمحتار للشامی میں درج ہے: ان من التزم مذھبا معینا کابی حنیفۃ والشافعی فقیل یلزمہ و قیل لاوھو الاصح وقد شاع ان العامی لامذہب لہ۔(ردالمحتار للشامی، ۱/۳۳)
کسی نے اپنے اوپر ایک مذہب لازم کر لیا جیسے حنفی شافعی تو بعض احناف کہتے ہیں: اس پر اس مذہب سے چمٹے رہنا لازمی ہے اور بعض کہتے ہیں لازمی نہیں ہے۔شامی کہتے ہیں کہ دوسری بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ عامی لامذہب ہو ا کرتا ہے۔
چونکہ موجودہ تمام حنفی بشمول دیوبندی اور بریلوی خود کو بزم خویش عامی سمجھتے ہیں اور چونکہ ان کے مذہب میں عامی لامذہب ہوتا ہے اور اسکے لئے تقلید کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔اس لئے ثابت ہوا کہ موجودہ دور کا ہر مقلد لامذہب ہے۔
۲۔ اسی کتاب کے باب التعزیر میں شامی تفصیل سے لکھتے ہیں: وایضاً قالوا العامی لامذہب لہ بل مذھبہ مذہب مفتیہ و عللہ فی شرح التحریر بان المذھب انما یکون لمن لہ نوع نظر و استدلال و بصر بالمذاھب علی حسبہ اولمن قراٗ کتابا فی فروع ذلک المذہب وعرف فتاوی امامہ و اقوالہ واما غیرہ ممن قال: انا حنفی او شافعی لم یصر کذلک بمجرد القول کقولہ وانا فقیہ او نحوی۔
عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جیسے حنفی، شافعی نہیں بن سکتا بلکہ وہ تو زندہ انسان کے فتوے پر چل رہا ہوتا ہے، مقلد تو وہ ہوسکتا ہے جو کسی امام کی کتاب پڑھ لے یا اقوال یاد کرلے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ، تو صرف اپنے آپ کو حنفی شافعی کہہ دینے سے حنفی شافعی نہیں بن سکتا۔ جس طرح اگر کوئی عامی اپنے آپ کو نحوی یا فقیہ کہہ دے تو یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اس سے کوئی نحوی او ر فقیہ نہیں بن سکتا۔(ردالمحتار للشامی،باب التعزیر ۳/۱۹۰)
آل تقلید کے قابل فخر فقیہ شامی کی اس گواہی سے جو مقلدوں کے حق میں انتہائی ذلت آمیز ہے ،ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حنفیوں کا حنفی مذہب سے انتساب کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے۔مقلد اپنی جہالت کے سبب ہر گز اس لائق نہیں کہ خود کو کسی مذہب کی طرف منسوب بھی کرسکے وہ تو کوئی مذہب ہی نہیں رکھتا یعنی لامذہب ہوتاہے۔
۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں: ابوالفتح ہروی جو امام ابوحنیفہ کے تلامذہ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ ہمارے اکثر ائمہ کا اصول میں یہ مذہب ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں۔(عقدالجید،صفحہ88، بحوالہ فرمودات شاہ ولی اللہ اور تقلید شخصی،صفحہ 44)
مذکورہ بالا ناقابل تردید حقائق کے باوجود بھی لامذہب مقلدین کا اہل حق اہل حدیث کو لامذہبیت کا طعنہ دینا محض دھوکہ اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے ۔ حنفی مذہب کے فقہاء اور علماء کا عامی (مقلد) کے لامذہب ہونے پر اتفاق ہے۔ جو خود کوئی مذہب نہیں رکھتا وہ آخر کس منہ سے اہل حدیث کو لامذہب ہونے کا طعنہ دیتا ہے؟ مقلدوں میں ذرہ برابربھی دیانت ،امانت،سچائی ،غیرت ،شرم کچھ باقی ہے ؟ یا بے حیائی کی نظر ہوکر عنقاہوگئی؟ آل تقلید کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ فراڈ اور دھوکہ سے اسی دنیا میں عارضی طور پر کام چلایا جاسکتا ہے ۔ آخرت میں جو عدالت لگنے والی ہے وہاں آل تقلید کے یہ شیطانی ہتھکنڈے ان کے کسی کام نہیں آئیں گے کم ازکم اللہ کی عدالت کی باز پرس سے ہی ڈر جاؤ!