• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لہو۔ ۔ ۔ !

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
آیات بینات
مضمون نگار۔ ۔ ۔سبوخ سید
لہو
بچپن میں جب محرم آتا ،تو میری دادی کہا کر تی تھیں کہ قیامت بھی دس محرم کو ہی آئے گی تاہم اس دس محرم کو جمعہ ہو گا ۔
راولپنڈی میں دس محرم کو قیامت کا ہی منظر تھا ،لوگ جس خدا کو معبود برحق مانتے ہو ئے اس کے سامنے سجدہ شکر ادا کر نے مرکزتوحید ’دارلعلوم تعلیم القرآن راجا بازار گئے تھے ،وہاں ان پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ کوئی جل گئے ، کوئی مر گئے ،کوئی ذبح ہو ئے، کوئی قتل ہوئے، کسی کی لاش نہ ملی ، کو ئی لاپتا ہو گیا ، بچوں کے کٹے ہو ئے سر ، مسجد تاراج ،منبر اداس ، محراب خاموش ،جلے ہوئے قرآن ،دینی کتب کی خاک بنتی ہوئی راکھ ۔ سفید سنگ مر مر پر چار سو لہو کے چھینٹے ، یہ سجدہ بھی سجدہ شبیری سے کسی طور کم نہیں ، یہ بھی قرآن بچانے نکلے تھے،یہ بھی اسلام کو زندہ کرنے کا دعویٰ لےکر نکلے تھے لیکن اللہ نے انہیں دلیل بنا دیا ، وقت یہاں بھی ظہر اور عصر کے درمیان کا ہی تھا ۔ جنازے مانگے تو نہ ملے ، ایمبولینسز ااور فائر برگیڈ کا راستہ بند کر کے تعلیم القرآن جانے سے روک دیا گیا ۔ کاروبار تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ بٹگرام میں جب معصوم بچوں کی لاشیں پہنچیں تو ایک ماں نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھنے کے بجائے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا ’’اللہ میں نے تو اپنا لعل تیرے گھر میں تیرا قرآن پڑھنے بھیجا تھا لیکن تو نے کیا کیا ‘‘
اور پھر وہ جری جوان جن کے صبر کا امتحان پہاڑ بھی لینے سے ڈرتے تھے، پھٹ پڑے،بٹ گرام ایسا چیخا کہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ بھی شرما کے رہ گئی ۔مسجد اقصیٰ اور بابری مسجد کی خوش قسمتی کہ انہیں جلانے والے کلمے کے انکاری تھے لیکن لال مسجد اور دار العلوم تعلیم القرآن کی مظومیت کہ انہیں جلانے والے سینہ تان کر ،نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری لگاتےہوئے مسجدوں پر حملہ آور ہوئے تھے ۔
راوی کہتا ہے کہ کربلا میں جلنے والے خیمے شام تک جل کر راکھ ہو گئے تھے لیکن راولپنڈی کی کربلا میں ابلیسی غنڈوں کے ہاتھوں جب رسول اللہ ؐ کا خیمہ جلا تو آگ کے مرغولے خدا سے شکوہ کناں تھے ۔ آگ جو ابھی تک نہ بجھ سکی ، وہ آگ جو اٹھارہ کروڑ لوگوں کے سینوں میں جل رہی ہے ،وہ کیسے بجھ سکتی ہے ۔ نہ ملّاں کی ڈیل سے نہ قاتل ذلیل سے ۔
لاکھ موجوں میں گھرا ہوں ،مگر ڈوبا تو نہیں
مجھے ساحل سے پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
میرے مقتل کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
میرے قاتل کو پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
لوگ مجھ سے شکوہ کر تے ہیں کہ آپ فیس بک سے غائب ہیں ۔ آپ چپ کیوں ہیں ۔میں کیا لکھوں ،میں درد کا یہ قرآن کیسے پڑھوں ،کیونکہ میں نے جس کو بھی اپنا رہبر سمجھا وہ راہزن نکلا ،اسی نے میرا قافلہ لوٹا۔ میں نے جب بھی تیر کھا کر کیمن گاہ کی طرف دیکھا تو دشمن کوئی نہیں تھا ،وہ میرا ہی دوست تھا ،جی ہاں میرا بروٹس ، میرا اعتماد اور میرا یقین ۔ میرے دشمن کو سلام ہے کہ وہ جب بھی مجھے مارتا ہے ، سامنے سے مارتا ہے ۔ میں کمزور ہوں ، بہت کمزور ،،،،
بچپن میں جب محرم آتا ،تو میری دادی کہا کر تی تھیں کہ قیامت بھی دس محرم کو ہی آئے گی تاہم اس دس محرم کو جمعہ ہو گا۔ میں قیامت کے ذکر سے ہی ماں کی گود میں چھپ جاتا تھا ۔ میں اب بھی چھپ گیا تھا ۔
 
Top