ایک چھوٹی سی نصیحت
جب آپکو آپکی امی اپنے کسی ذاتی کام کے لیے بلاتی ہیں جبکہ ان کے سامنے آپکے دیگر بہن بھائی بھی موجود ہیں تو اس وقت اس بات کا احساس کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی اطاعت کے لیے چنا ہے اور دوسروں پر فوقیت دی ہے تو آپ عبادت میں کوتاہی نہ کیجیے
جب آپکی عمر ایک سال تھی ماں آپکو کھلاتی پلاتی تھی اور آپ اس کے بدلے میں پوری رات (رو رو کر) اس کی نیند خراب کرتے تھے اور آج آپکو اس کی خدمت کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے
جب آپ دو سال کے ہوئے تو اس عظیم ہستی نے ہی آپکو چلنا سکھایا اور اب جب کہ اسے آپکی ضرورت ہے آپ اس سے دور بھاگ کر اس کا بدلہ چکا رہے ہو
جب آپ نے اپنی زندگی کے تیسرے سال میں قدم رکھا تو ماں آپکو لذیذ سے لذیذ تر کھانے بنا کر کھلاتی تھی
اور آج جب کبھی آپکو کھانا مرضی کے مطابق نہ ملے تو آپ پلیٹ کو زمین پھر پھینک کر اسکا شکریہ ادا کرتے ہیں
جب آپ اپنی عمر کی چوتھی بہار میں تھے تو اس نے آپکو لکھنا سکھانے کے لیے قلم دی
اور آپ نے دیواروں کو خراب کر کے اسکا شکریہ ادا کیا اور آج بھی آپ کی قلم اس ماں کے شکریہ میں چند کلمات لکھنے سے محروم ہے
جب آپ پانچ سال کے تھے آپ کی ماں ہی تھی جو خود محروم رہ کر بھی آپ کو سب سے خوبصورت لباس پہناتی تھی
اور آپ چند گھنٹوں میں اسے خراب کر کے اسکا شکریہ ادا کرتے تھے
آج جب اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کپڑے خریدتے ہو تو اس ماں کو بھول جاتے ہو
جب آپکی عمر چھ سال تھی اس نے اپنا پیٹ کاٹ کر آپکو سکول داخل کروایا
جبکہ آپ اس وقت نہ جانے کے لیے چیختے چلاتے تھے
اور آج اپنی تعلیم پر فکر کرتے ہوئے اسے حقیر سمجھتے ہو
جب آپ ۱۰ سال کے ہوئے تو ماں بے تابی سے آپکی سکول واپسی کی منتظر ہوتی تھی تاکہ آپکو گلے لگائے اور دن بھر کی روداد سنے جبکہ آپ اس سے دور بھاگتے تھے اس سے بات کرنے سے کترارتے تھے
اور آج بھی وہ آپ سے باتیں کرنے کے لیے ترستی ہے لیکن دوستوں یا سوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہو
جب آپ پندرہ سال کے ہوئے وہ رو رو کر آپکی کامیابی کے لیے اللہ سے دعائیں کرتی
اور آپ کامیاب ہونے پر اس سے تحائف مانگتے اور نہ دینے پر اپنے دوستوں کی ماؤں کی مثالیں دے کر اس کے جگر کو چھلنی کرتے تھے
اور آج جب وہ آپکو اپنی بڑی سے بڑی خوشی کی خبر دیتی ہے تو آپ کو خوشی کا اظہار کرنا بھی مشکل لگتا ہے
جب آپ اپنی عمر کی بیسوی بہار میں پہنچے تو وہ آپکے فارغ وقت کی منتظر رہتی کہ آپکو اپنے رشتہ داروں کے ہاں لے جائے
لیکن آپ نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو اپنے رشتہ داروں پر ترجیح دے کر اسکا شکریہ ادا کیا
اور آج بھی۔۔۔۔
جب آپکی عمر پچیس سال ہوئی تو اس نے بھاگ دوڑ کر کے آپ کے لیے دلہن ڈھونڈھی اور سب ذمہ داریاں برداشت کی
جبکہ آپ نے اپنے آپکو اور اپنی بیوی کو ماں سے دور کر کے اس کے اس عظیم احسان کا بدلہ چکایا
جب آپ تیس برس کے ہوئے تو آپکی والدہ نے آپکو بچوں کے معاملہ میں نصیحت کرنے کی کوشش کی
اور آپ نے یہ کہہ کر انکا شکریہ ادا کیا کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی مت کیجیے ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں
جب آپ پینتیس برس کے ہوئے تو ماں نے آپکے دیدار کے لیے آپکو دوپہر کے کھانے پر دعوت دی اور آپ یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ آپ آجکل کام کاج میں مصروف ہیں
جب آپ چالیس برس کے ہو گئے تو ماں نے آپکو خبر دی کہ وہ بیمار ہے اور آپکی تیماداری کی محتاج ہیں تو آپ نے یہ کہہ کر ان کے احسانات کا شکریہ ادا کیا کہ والدین بڑھاپے میں اولاد پر بوجھ بن جاتے ہیں
اور ایک دن وہ اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی لیکن آپکی محبت اسکے دل میں ہمیشہ رہے گی
اگر آپکی والدہ زندہ ہیں آپکے قریب ہیں تو ان سے جدا مت ہوں ان کی محبتوں کو نہ بھولیے انہیں راضی کرنے کے لیے محنت کریں
کیوں کہ دنیا میں صرف ایک ہی ماں ہوتی ہے
اور جب ماں فوت ہو جائے گی تو فرشتے پکاریں گے کہ آج وہ ہستی دنیا سے چلی گئی جس کی دعاؤں کی بدولت تم پر رحم کیا جاتا تھا
ماؤں کے بارے میں اللہ سے ڈرو
ماں
ہسپتال بن جاتی ہے جب میں تکلیف میں ہوتی ہوں
ہوٹل بن جاتی ہے جب میں بھوکی ہوتی ہوں
پارٹی بن جاتی ہے جب میں خوش ہوتی ہوں
الارم بن جاتی ہے جب میں سو رہی ہوتی ہوں
آسمانی دعائیں ہے جب میں سفر پر ہوتی ہوں
کیا میں نے اس سے حسن سلوک کیا ہے؟؟
ہم گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھتے ہیں::امی جان کہاں ہیں؟؟
حالانکہ ہمیں امی سے کوئی ضرورت نہیں ہوتی
گویا کہ وہ وطن عزیز ہوں!!جس سے ہم دور ہونے کے بعد پھر اس کی مٹی کو چومنے کے لیے لوٹتے ہیں!!
اے اللہ میری ماں کو سب کی ماؤں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمانا۔ آمین
عبدالعلام