- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
اس بحث کے دو حصے ہیں
A.محبت کی اقسام
B.وطن کی محبت کا مقام
A.محبت کی اقسام
محبت دو طرح کی ہو سکتی ہے
1-دکھلاوے کی محبت
جو کسی کو صرف دکھلانے کے لئے کی جائے حقیقت میں اس سے محبت نہ ہو اسکا نہ شریعت میں اعتبار ہے نہ دنیاوی اعتبار سے کوئی مقام ہے
2-حقیقی محبت
جو دکھانے کے لئے نہ ہو بلکہ کسی چیز سے حقیقت میں دلی محبت ہو
اس حقیقی محبت کی دو قسمیں ہو سکتی ہیں
i. فطری محبت
1۔اللہ تعالی نے کچھ چیزوں سے محبت ہماری فطرت میں رکھ دی ہے مثلا
زین للناس حب الشھوات من النساء-----
(یعنی لوگوں کے اندر عورتوں سے، بیٹوں (بازوں بننے والی تمام چیزوں) سے، سونے چاندی کے خزانوں (تمام مال و دولت) سے، نشان زدہ گھوڑوں (عمدہ گاڑیوں) سے، مویشی اور کھیتی (کاروبار) سے محبت رکھ دی گئی ہے لیکن یہ ساری چیزیں دنیا کا متاع ہیں
2۔اس محبت میں وہ تمام چیزیں جو ہمارے نفس کو اچھی لگتی ہیں وہ آ جاتی ہیں یعنی اس کے پیچھے وجہ ہمارا نفس ہوتا ہے نہ کہ اللہ کی رضا یا حکم وغیرہ
3۔اس محبت میں کسی علم کی ضرورت نہیں بلکہ صرف نفس کی خواہش کا پتا ہونا ضروری ہے اور نفس کی خواہش کا پتا چلانے کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ہوتی پس اسکے لئے قرآن و حدیث کی نص کی ضرورت نہیں ہوتی
4۔اس محبت کا شریعت میں حکم فی نفسہ مباح ہونا ہے مگر اسکو ایمانی محبت کے تابع رکھنا ضروری ہے پس کسی شرعی حکم کے تحت یہ فطری محبت سے نکل کر ایمانی محبت یا ایمانی نفرت میں بھی داخل ہو جاتی ہے مثلا اپنے علاقے سے محبت مباح کے درجے میں ہے مگر اگر وہاں اسلامی شریعت نافذ ہو تو اس سے ایمانی محبت شروع ہو جاتی ہے
ii. ایمانی محبت
1۔ایمانی محبت اس محبت کو کہتے ہیں جس کی وجہ ہمارا نفس نہ ہو بلکہ اللہ کا حکم یا رضا ہو یہ محبت کسی بھی چیز سے ہو سکتی ہے اور اس سے ہمارے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے جیسا کہ حدیث ہے
من احب للہ و ابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان (یعنی جس نے اللہ کے لئے محبت اسی کےلئے بغض رکھا اور اسی کے لئے کسی کو کچھ عطا کیا اور اسی کے لئے روکا تو اسنے اپنا ایمان کا دعوی پورا کر دیا
2۔اس محبت میں وہ تمام چیزوں کی محبت شامل ہے جس میں اللہ کی رضا شامل ہے
3۔اس محبت کے لئے علم کی لازمی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جب تک یہ نہیں پتا ہو گا کہ اللہ کو ہماری کس سے محبت مطلوب ہے تو ہم اس پر عمل کیسے کر سکیں گے البتہ مختلف چیزوں سے ہمیں محبت مختلف درجوں میں کرنی ہے اور ان درجوں کی حد بندی بھی ہم نے نہیں بلکہ اللہ تعالی نے کرنی ہے جس کا ذریعہ قرآن و حدیث و سیرت اسلاف ہے کیونکہ ان ساری ایمانی محبتوں کا مرکز تو اللہ کی محبت اور رضا ہے جیسا کہ فرمایا
والذین امنوا اشد حبا للہ (یعنی ایمان والے سب سے شدید محبت اللہ سے کرتے ہیں)
4۔اس محبت کا شریعت میں حکم مستحب، واجب یا فرض ہو سکتا ہے
فائدہ
ابھی تک ہم یہ فرق کرنے کے قابل ہوئے کہ جب محبت نفس کی خواہش کی وجہ سے ہو گی تو فطری محبت کہلائے گی اور اگر اللہ کی رضا کی وجہ سے ہو گی تو ایمانی محبت کہلائے گی
لیکن یاد رکھیں کہ ایمانی محبت اور فطری محبت جن چیزوں سے ہوتی ہے انکا مختلف ہونا لازمی نہیں بلکہ محبت کی وجہ کا یا علت کا مختلف ہونا لازمی ہے پس
۔کبھی ایک ہی چیز سے ہماری محبت ایمانی بھی ہوتی ہے اور فطری بھی- مثلا حالت جنگ میں مسلمان بیٹے کا مسلمان باپ سے ایمانی اور فطری محبت رکھنا
۔کبھی ایک چیز سے ہماری ایمانی محبت تو نہیں ہوتی مگر فطری محبت ہوتی ہے مثلا حالت جنگ میں مسلمان بیٹے کا مد مقابل کافر باپ سے ایمانی محبت تو نہ رکھنا مگر فطری محبت رکھنا
B. وطن کی محبت کا مقام
اوپر کی بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے وطن کی محبت کا حکم جاننے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہماری وطن سے محبت فطری ہے یا ایمانی ہے یا مکس محبت ہے اور میرے خیال میں حکم لگانے میں سب سے زیادہ غلطی اس بات میں کی جاتی ہے وطن سے محبت کو آگے مزید فطری محبت اور ایمانی محبت میں تقسیم کیے بغیر حکم لگایا جاتا ہے اور علت کو سامنے رکھتے ہوئے وطن سے محبت کی قسمیں نہیں کی جاتی ہیں
مثلا اور ایمانی محبت کی علت اللہ کی رضا اور مطالبہ ہے اور فطری محبت کی علت نفس کی خواہش ہے اب اگر کوئی انسان کسی وطن سے اپنے نفس کے لئے محبت کرتا ہے تو وہ فطری محبت ہو گی اور اسلام میں مباح ہو گی جب تک کہ کوئی شرعی حکم اسکو ایمانی محبت یا ایمانی نفرت میں نہیں بدل دیتا لیکن اگر وطن سے محبت کی وجہ اللہ کے دین کی سربلندی ہے جو آگے چل کر اللہ کی رضا ہی بنتی ہے تو پھر یہ محبت ہماری ایمانی محبت ہو گی اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں ہی علتیں پائی جاتی ہیں مگر انکا علیحدہ علیحدہ تجزیہ نہیں کیا جاتا جس وجہ سے ہم حکم لگانے میں غلطی کر جاتے ہیں اور ہمارے اندر اختلاف ہو جاتا ہے
اسکی وجہ یہ ہے کہ وطن کا اطلاق دو چیزوں پر ہو سکتا ہے مگر ہم انکو گڈ مڈ کر دیتے ہیں اور غلط حکم لگ جاتا ہے
وطن کا اطلاق
وطن کا اطلاق مندرجہ ذیل دو چیزوں پر کیا جاتا ہے
1-وطن کی زمین
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی زمین سے محبت تھی جو فطری بھی ہو سکتی ہے اور ایمانی بھی-مطلق اپنی زمین سے محبت کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حکم نہیں دیا نہ کسی صحابی نے اپنے علاقے کو ایسا سمجھا
2-وطن پر غالب نظام
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر غالب نظام سے محبت نہیں بلکہ نفرت تھی جو ایمانی نفرت تھی اور اس وجہ سے ہی انھوں نے فطری محبت کو بھی قربان کر دیا مدینہ ہجرت کر گئے
جب ہم ان دونوں چیزوں کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے تو ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے محبت والی احادیث اور دوسری نصوص میں بہترین تطبیق دے سکتے ہیں
وطن کی محبت میں ممکنہ صورتیں
وطن کو اوپر دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہم وطن سے محبت کی مندرجہ ذیل صورتیں دیکھ سکتے ہیں
1-وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت ہو اور اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت بھی ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت ہو گی اور اس میں شریعت نافذ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت ہو گی جیسے سعودی عرب کے باشندوں کی سعودی عرب سے محبت
2۔وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت ہو اور اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت ہو گی اور اس میں شریعت نافذ نہ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو گی جیسے افغانستان کے باشندوں کی افغانستان سے محبت
3-وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت نہ ہو لیکن اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک نہ ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت نہیں ہو گی لیکن اس میں شریعت نافذ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت ہو گی جیسے سعودی عرب سے ہماری محبت
4-وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت نہ ہو اور اسکے نظام سے بھی ہماری ایمانی نفرت ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک نہ ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت نہیں ہو گی اور اس میں شریعت نافذ نہ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو گی جیسے افغانستان سے ہماری محبت
نوٹ: اہل علم سے اصلاح کی درخواست ہے جزاکم اللہ خیرا
A.محبت کی اقسام
B.وطن کی محبت کا مقام
A.محبت کی اقسام
محبت دو طرح کی ہو سکتی ہے
1-دکھلاوے کی محبت
جو کسی کو صرف دکھلانے کے لئے کی جائے حقیقت میں اس سے محبت نہ ہو اسکا نہ شریعت میں اعتبار ہے نہ دنیاوی اعتبار سے کوئی مقام ہے
2-حقیقی محبت
جو دکھانے کے لئے نہ ہو بلکہ کسی چیز سے حقیقت میں دلی محبت ہو
اس حقیقی محبت کی دو قسمیں ہو سکتی ہیں
i. فطری محبت
1۔اللہ تعالی نے کچھ چیزوں سے محبت ہماری فطرت میں رکھ دی ہے مثلا
زین للناس حب الشھوات من النساء-----
(یعنی لوگوں کے اندر عورتوں سے، بیٹوں (بازوں بننے والی تمام چیزوں) سے، سونے چاندی کے خزانوں (تمام مال و دولت) سے، نشان زدہ گھوڑوں (عمدہ گاڑیوں) سے، مویشی اور کھیتی (کاروبار) سے محبت رکھ دی گئی ہے لیکن یہ ساری چیزیں دنیا کا متاع ہیں
2۔اس محبت میں وہ تمام چیزیں جو ہمارے نفس کو اچھی لگتی ہیں وہ آ جاتی ہیں یعنی اس کے پیچھے وجہ ہمارا نفس ہوتا ہے نہ کہ اللہ کی رضا یا حکم وغیرہ
3۔اس محبت میں کسی علم کی ضرورت نہیں بلکہ صرف نفس کی خواہش کا پتا ہونا ضروری ہے اور نفس کی خواہش کا پتا چلانے کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ہوتی پس اسکے لئے قرآن و حدیث کی نص کی ضرورت نہیں ہوتی
4۔اس محبت کا شریعت میں حکم فی نفسہ مباح ہونا ہے مگر اسکو ایمانی محبت کے تابع رکھنا ضروری ہے پس کسی شرعی حکم کے تحت یہ فطری محبت سے نکل کر ایمانی محبت یا ایمانی نفرت میں بھی داخل ہو جاتی ہے مثلا اپنے علاقے سے محبت مباح کے درجے میں ہے مگر اگر وہاں اسلامی شریعت نافذ ہو تو اس سے ایمانی محبت شروع ہو جاتی ہے
ii. ایمانی محبت
1۔ایمانی محبت اس محبت کو کہتے ہیں جس کی وجہ ہمارا نفس نہ ہو بلکہ اللہ کا حکم یا رضا ہو یہ محبت کسی بھی چیز سے ہو سکتی ہے اور اس سے ہمارے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے جیسا کہ حدیث ہے
من احب للہ و ابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان (یعنی جس نے اللہ کے لئے محبت اسی کےلئے بغض رکھا اور اسی کے لئے کسی کو کچھ عطا کیا اور اسی کے لئے روکا تو اسنے اپنا ایمان کا دعوی پورا کر دیا
2۔اس محبت میں وہ تمام چیزوں کی محبت شامل ہے جس میں اللہ کی رضا شامل ہے
3۔اس محبت کے لئے علم کی لازمی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جب تک یہ نہیں پتا ہو گا کہ اللہ کو ہماری کس سے محبت مطلوب ہے تو ہم اس پر عمل کیسے کر سکیں گے البتہ مختلف چیزوں سے ہمیں محبت مختلف درجوں میں کرنی ہے اور ان درجوں کی حد بندی بھی ہم نے نہیں بلکہ اللہ تعالی نے کرنی ہے جس کا ذریعہ قرآن و حدیث و سیرت اسلاف ہے کیونکہ ان ساری ایمانی محبتوں کا مرکز تو اللہ کی محبت اور رضا ہے جیسا کہ فرمایا
والذین امنوا اشد حبا للہ (یعنی ایمان والے سب سے شدید محبت اللہ سے کرتے ہیں)
4۔اس محبت کا شریعت میں حکم مستحب، واجب یا فرض ہو سکتا ہے
فائدہ
ابھی تک ہم یہ فرق کرنے کے قابل ہوئے کہ جب محبت نفس کی خواہش کی وجہ سے ہو گی تو فطری محبت کہلائے گی اور اگر اللہ کی رضا کی وجہ سے ہو گی تو ایمانی محبت کہلائے گی
لیکن یاد رکھیں کہ ایمانی محبت اور فطری محبت جن چیزوں سے ہوتی ہے انکا مختلف ہونا لازمی نہیں بلکہ محبت کی وجہ کا یا علت کا مختلف ہونا لازمی ہے پس
۔کبھی ایک ہی چیز سے ہماری محبت ایمانی بھی ہوتی ہے اور فطری بھی- مثلا حالت جنگ میں مسلمان بیٹے کا مسلمان باپ سے ایمانی اور فطری محبت رکھنا
۔کبھی ایک چیز سے ہماری ایمانی محبت تو نہیں ہوتی مگر فطری محبت ہوتی ہے مثلا حالت جنگ میں مسلمان بیٹے کا مد مقابل کافر باپ سے ایمانی محبت تو نہ رکھنا مگر فطری محبت رکھنا
B. وطن کی محبت کا مقام
اوپر کی بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے وطن کی محبت کا حکم جاننے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہماری وطن سے محبت فطری ہے یا ایمانی ہے یا مکس محبت ہے اور میرے خیال میں حکم لگانے میں سب سے زیادہ غلطی اس بات میں کی جاتی ہے وطن سے محبت کو آگے مزید فطری محبت اور ایمانی محبت میں تقسیم کیے بغیر حکم لگایا جاتا ہے اور علت کو سامنے رکھتے ہوئے وطن سے محبت کی قسمیں نہیں کی جاتی ہیں
مثلا اور ایمانی محبت کی علت اللہ کی رضا اور مطالبہ ہے اور فطری محبت کی علت نفس کی خواہش ہے اب اگر کوئی انسان کسی وطن سے اپنے نفس کے لئے محبت کرتا ہے تو وہ فطری محبت ہو گی اور اسلام میں مباح ہو گی جب تک کہ کوئی شرعی حکم اسکو ایمانی محبت یا ایمانی نفرت میں نہیں بدل دیتا لیکن اگر وطن سے محبت کی وجہ اللہ کے دین کی سربلندی ہے جو آگے چل کر اللہ کی رضا ہی بنتی ہے تو پھر یہ محبت ہماری ایمانی محبت ہو گی اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں ہی علتیں پائی جاتی ہیں مگر انکا علیحدہ علیحدہ تجزیہ نہیں کیا جاتا جس وجہ سے ہم حکم لگانے میں غلطی کر جاتے ہیں اور ہمارے اندر اختلاف ہو جاتا ہے
اسکی وجہ یہ ہے کہ وطن کا اطلاق دو چیزوں پر ہو سکتا ہے مگر ہم انکو گڈ مڈ کر دیتے ہیں اور غلط حکم لگ جاتا ہے
وطن کا اطلاق
وطن کا اطلاق مندرجہ ذیل دو چیزوں پر کیا جاتا ہے
1-وطن کی زمین
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی زمین سے محبت تھی جو فطری بھی ہو سکتی ہے اور ایمانی بھی-مطلق اپنی زمین سے محبت کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حکم نہیں دیا نہ کسی صحابی نے اپنے علاقے کو ایسا سمجھا
2-وطن پر غالب نظام
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر غالب نظام سے محبت نہیں بلکہ نفرت تھی جو ایمانی نفرت تھی اور اس وجہ سے ہی انھوں نے فطری محبت کو بھی قربان کر دیا مدینہ ہجرت کر گئے
جب ہم ان دونوں چیزوں کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے تو ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے محبت والی احادیث اور دوسری نصوص میں بہترین تطبیق دے سکتے ہیں
وطن کی محبت میں ممکنہ صورتیں
وطن کو اوپر دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہم وطن سے محبت کی مندرجہ ذیل صورتیں دیکھ سکتے ہیں
1-وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت ہو اور اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت بھی ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت ہو گی اور اس میں شریعت نافذ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت ہو گی جیسے سعودی عرب کے باشندوں کی سعودی عرب سے محبت
2۔وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت ہو اور اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت ہو گی اور اس میں شریعت نافذ نہ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو گی جیسے افغانستان کے باشندوں کی افغانستان سے محبت
3-وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت نہ ہو لیکن اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک نہ ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت نہیں ہو گی لیکن اس میں شریعت نافذ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت ہو گی جیسے سعودی عرب سے ہماری محبت
4-وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت نہ ہو اور اسکے نظام سے بھی ہماری ایمانی نفرت ہو
یہ وہاں ہو گا جو ہمارا اپنا ملک نہ ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت نہیں ہو گی اور اس میں شریعت نافذ نہ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو گی جیسے افغانستان سے ہماری محبت
نوٹ: اہل علم سے اصلاح کی درخواست ہے جزاکم اللہ خیرا
Last edited: