• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مخلص بریلوی کے لئے حقائق-افادیتِ حب رسول کی شرائط

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم مخلص بریلوی بھائی:
عیسی علیہ السلام کی پیدائش یہودیوں(بنی اسرائیل) کے ہاں ہوئی اس وقت ان میں دو طرح کے لوگ تھے ایک علم رکھنے والے اور دوسرے عام لوگ- عامی چونکہ علم نہیں رکھتے تھے تو وہ علم والوں کی بغیر دلیل ہر بات مانتے تھے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انکا استحصال کرتے تھے جب عیسی علیہ السلام آئے تو انھوں نے عامیوں کو انکے استحصال سے نکالا تو لوگ انکے ساتھ ہوتے گئے اور دعوت بڑھتی گئی جس سے تنگ آ کر علم والوں نے عیسی علیہ السلام کو پھانسی دلوانے کی کوششیں کر دیں جبکہ عامی آپ کے دین میں آتے چلے گئے-پس عامیوں میں خرابی علم نہ ہونا تھی جس کی وجہ سے ان سے حق راستہ گم ہو چکا تھا اسی تناظر میں انکو ولا الضالین کہا گیا جبکہ یہودیوں کو مغضوب علیہ کہا گیا ہے جو اشتروا بایات االلہ ثمنا قلیلا کے تحت اللہ کی آیات بیچتے تھے
اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا واقعہ بیان کروں گا کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا نام آپ نے سنا ہو گا بہت بڑے داعی تھے جنکو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دعوت کے لئے بھیج رکھا تھا آپ کی دعوت سے جب اسلام پھیلنے لگا تو شیطان نے لوگوں کو ابھارا کہ اس طرح تو کام خراب ہو جائے گا انھی ابھارے جانے والوں میں سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنھما بھی تھے سعد رضی اللہ عنہ نے اسید رضی اللہ عنہ کو آپ سے لڑنے کے لئے بھیجا تو آپنے کہا کہ میرے بھائی صرف ایک دفعہ میری بات سن لو اگر آپکو اعتراض ہو تو پھر بات کریں-وہ چونکہ آپکی طرح مخلص تھے پس انھوں نے کہا اس میں کون سی غلط بات ہیں آپ بات کریں میں سن لیتا ہوں پھر جب مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو دل میں بیٹھ گئی وہ واپس اپنے کزن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تو دونوں اسلام لے آئے-اسی طرح طفیل دوسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ جو بہت دانا، شاعر اور سردار تھے مشرکین نے حج پر آنے پر ان سے کہا کہ ایک بندہ ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے کہ انسان گرویدہ ہو جاتا ہے پس کانوں میں روئی ڈال لیں تو انھوں نے ڈال لی- بعد میں طفیل دوسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ طفیل تمھیں کیا ہو گیا ہے تمھیں لوگ دانا اور سردار کہتے ہیں کیا تم اتنے بھی نہیں کہ کھرے کھوٹے میں تمیز کر سکو پس جب انھوں نے روئی نکالی اور بات سنی تو اللہ کے حکم سے دل میں بیٹھ گئی
آج بھی اگر مخلص انسان علم حاصل کر لے تو بہت سی تباہیوں سے بچ سکتا ہے کیونکہ عمل سے پہلے علم انتہائی ضروری ہے-
اسی تناظر میں یہاں ایک موضوع (محبت رسول کب فائدہ دیتی ہے) پر اپنی معلومات اگلی پوسٹ میں آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اللہ اخلاص سے سمجھانے اور سمجھنے کی توفیق عطا کرے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسی تناظر میں یہاں ایک موضوع (محبت رسول کب فائدہ دیتی ہے) پر اپنی معلومات اگلی پوسٹ میں آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اللہ اخلاص سے سمجھانے اور سمجھنے کی توفیق عطا کرے امین
محترم بھائی:
دین میں کچھ چیزیں مطلوب ہوتی ہیں اور کچھ ممنوع جنکا علم انتہائی ضروری ہے مگر ساتھ ہی ساتھ انکی درجہ بندی کا علم بھی اہم ہے
مثلا جیسےایک کہاوت ہے کہ جان جائے مگر دمڑی نہ جائے اب اسکو دین سے ہٹ کر دیکھتے ہیں کہ یہ اس انسان کے لئے کہی جاتی ہے جو پیسے کے لئے جان بھی دے دیتا ہےیعنی اس انسان کے ہاں جان اور دمڑی دونوں اہم ہیں مگر دمڑی جان سے بھی اہم ہے حالانکہ عقل سے سوچنے کی بات ہے کہ جب اسکی جان ہی نہیں رہے گی تو دمڑی اسکے کیا کام آئے گی اصل میں جان ہے تو جہاں ہے کے تحت اصل مقصود جان ہی ہے باقی ساری دنیا کی نعمتیں اس جان کے لئے ہی ہیں
میرے بھائی بالکل اسی طرح دین میں بھی اصل مطلوب اللہ کی توحید اور عبادت ہے باقی تمام چیزیں اسکے لئے ہی ہیں جیسے ارشاد ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
پس فرمایا قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین یعنی میرا سب کچھ اللہ کے لئے ہی ہے
اب اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی طرف آتے ہیں کہ ان سے محبت تو ان کے دور میں بھی بہت سے لوگ کرتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ کرتے ہیں-اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا محبتِ رسول ہی اصل مقصود ہے اور کیا آخرت کے لحاظ سے اس محبت نے مطلقاً سب کوہی فائدہ دیا- تو اسکی وضاحت کے لئے دو شخصیات کی زندگی کودیکھتے ہیں

1.ابو طالب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے وہ آپ سے شدید محبت کرتے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے کہ بھتیجے دشمن میری لاش سے گزر کر آپ تک پہنچے گا جب ابو طالب کو خطرہ لگا کہ کوئی رات کو میرے بھتیجے کو قتل نہ کر دے تو انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر امنے بچوں کو اور بچے کے بستر پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سلانا شروع کر دیا کہ دشمن میرے بچے کو تو قتل کر دے مگر میرے بھتیجے کو نقصان نہ پہنچے-پھر انھوں نے تین سال شعب ابی طالب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پتے کھا کر بھی گزارہ کیا
ابو طالب کی یہ محبت اسلام یا اللہ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ بھائی کی نشانی اور باپ عبدالمطلب کی وصیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی خصوصیات کی وجہ سے تھی پس آئیے ذرا غور کریں کہ اس محبت نے ابو طالب کوآخرت کے لحاظ سے کیا فائدہ دیا
اس کے لئے میں بریلویوں کےہی امام احمد رضا خان بریلوی کی بات آپکے سامنے رکھتا ہوں- ان سے ابو طالب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تناظر میں کافر نہ ہونے کی بابت سوال کیا گیا جس کے جواب میں انھوں ایک رسالہ شرح المطالب فی مبحث ابی طالب لکھا جس کو فتاوی رضویہ کی غالبا 29 جلد میں رکھا اور مندرجہ ذیل ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے
http://aalaahazrat.blogspot.com/2013/01/blog-post_1514.html
http://kinzulemaan.blogspot.com/2011/11/book-page-no-part-29-blog-p-157.html
اس میں انھوں نے قران وحدیث و اسلاف کے دلائل کا ڈھیر لگا کر ابو طالب کا کفر ثابت کیا ہے جس میں یہ بھی بحث کی ہے کہ انکی محبت اللہ یا دین اسلام کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ آپکی صرف ذات کی وجہ سے تھی پس اسنے ابو طالب کو فائدہ نہیں دیا
اسی رسالہ میں وہ ابو طالب کی وفات کے موقع کی مختلف احادیث لائے ہیں مثلا
قال قلت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم انّ عمّک الشیخ الضال قد مات قال اذھب فوار اباک (یعنی علی رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کے مرنے کا بتایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جاؤ اسکو دفنا دو-
آگے احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ ابو طالب کی بیوی جو مسلمان ہو گئی تھی انکا جنازہ پڑھا مگر ابو طالب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر جنازے کے دفنانے کی بات کر رہے ہیں –
اسی میں وہ بخاری کی حدیث لائے ہیں جس میں ابو طالب کے جہنم میں عذاب کا ذکر ہے اسکے ساتھ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین والی آیت کی تفسیر کو لائے ہیں کہ یہ ابو طالب کے بارے نازل ہوئی تھی اسکے علاوہ بھی انھوں نے دلائل کے ڈھیر لگا دیے ہیں
پس ابو طالب کی محبت کو دیکھتے ہوئے یہ پتا چلا کہ مجرد محبتِ رسول مقصود نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے لئے اور اسلام کے لئے محبتِ رسول مقصود ہے

2.دوسری شخصیت عبداللہ بن ابی منافق کی ہے کہا جاتا ہے کہ ہجرت سے پہلے لوگ اسکو سردار بنانے لگے تھے مگر آپکے جانے کےبعد لوگوں نےاسکو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتا تھا اور دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرتا تھا مگر دنیاوی فائدہ کو دیکھتے ہوئے اوپر سے مسلمان ہو گیا-
اب دیکھیں کہ جس نے ظاہری توحید کو مان لیا تھا اور اسلام پر مکمل عمل کرتا تھا نماز، روزہ، جہاد وغیرہ پر عمل تھا حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم درس دیتے تو لوگوں کو اٹھ کر کہتا کہ اسکی بات غور سے سنو- مگر ان سب باتوں کے باوجود دل میں محبتِ رسول نہیں تھی تو توحید سمیت کسی عمل نے انکو فائدہ نہیں دیا

اس بحث سے مندرجہ ذیل دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں
1. حبِ رسول اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود تو اللہ کی محبت اور اطاعت ہے
2. اللہ کی محبت اور اطاعت کے لئے حبِ رسول کا دل میں ہونا لازمی ہے

اب دوسرے نقطے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لازمی ہونے کی دلیل کو ایک اور طرح سے سمجھتے ہیں کہ اگرچہ بظاہر لگتا ہے کہ اللہ کے حکم پرعمل کے لئے نبی صلی اللہ علیہ کی اطاعت ہی کافی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی کی بات پر صحیح عمل تب ہی ہوتا ہے جب بندہ اسکی بات پر دل سے مطمئن ہو اور جس سے انسان سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اسکی ہر بات فوراً دل میں سما جاتی ہے تو اس پر عمل آسان ہوتا ہے جیسے ابوبکر کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ جب معراج والے واقعے پر ابوجہل نے ابو بکر سے پوچھا کہ اگر کوئی دعوی کرے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمان کی سیر کر آیا ہے تو کیا تم اسکو صحیح سمجھو گے تو انھوں نے کہا کہ نہیں –تو ابو جہل نے کہا کہ پھر سن لو آپکے دوست نے یہ بات کی ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر یہ سچ ہے-
اسی لئے اللہ نے قرآن میں فرمایا فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی خالی اطاعت نہیں کرنی بلکہ دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہیں کرنی تب تم مومن ہو سکتے ہو ورنہ تمھارے رب کی قسم تم مومن نہیں ہو گے
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد تو سب کو پتا ہے کہ لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین
کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک سب سے زیادہ محبت مجھ سے نہ کرے
محترم بھائی اب جبکہ آپ حبِ رسول کی افادیت کو سمجھ چکے ہیں تو اسکے فائدہ مند ہونے کی بڑی شرائط پر اگلی پوسٹ میں ان شاءاللہ بات کرتے ہیں اللہ ہم پر رحم فرمائے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم
عبدہ بھائی اگلی پوسٹ ؟
جزاک اللہ محترم بھائی میں مصروفیت اور حج پر جانے کی وجہ سے بالکل بھولا ہوا تھا یاد کرانے کا شکریہ اب آگے لکھتا ہوں

محترم بھائی اب جبکہ آپ حبِ رسول کی افادیت کو سمجھ چکے ہیں تو اسکے فائدہ مند ہونے کی بڑی شرائط پر اگلی پوسٹ میں ان شاءاللہ بات کرتے ہیں اللہ ہم پر رحم فرمائے امین
محترم مخلص بریلوی بھائی اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ تمہیدا تھا تاکہ آپ کے دل میں یہ تڑپ پیدا کی جا سکے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے سے پہلے اس کی شرائط کا جاننا کتنا ضروری ہے ورنہ کہیں ہمارا یہ حال نہ ہو کہ اللہ کے فرمان زین لھم الشیطان اعمالھم کے تحت شیطان محبت رسول کو اپنے انداز سے ہمارے سامنے مزین کر کے پیش کرے اور ہم عاملۃ ناصبۃ کے تحت عمل کر کے تھک جائیں مگر انجام تصلی نارا حامیۃ والا ہو کہ ٹھکانا جہنم بنے (اللہ مجھے اور آپکو اس سے بچائے امین)

پس محترم بھائی اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ حب رسول کی افادیت کی کیا شرائط ہیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا فائدہ کب ہو گا
میں انشاءاللہ باری باری شرائط بھی بتاوں گا اور ساتھ ساتھ وضاحت بھی کروں گا کہ ہمارے اندر اس سلسلے میں کیا کمی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں اور کون سے مغالطے پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے کچھ بھائی محبت رسول کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اسکے حقیقی فائدے سے محروم رہ جاتے ہیں

1-حب رسول کی افادیت کی پہلی شرط: عقیدہ توحید
محترم بھائی اس سلسلے میں سب سے پہلی شرط عقیدہ توحید کا ہونا ہے اسکی اہمیت تو اوپر تمہید میں بیان ہو چکی ہے اور ابو طالب کی مثال سے اسکی وضٓحت بھی ہو چکی ہے کہ توحید کے بغیر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی شدید محبت کی جائے وہ ہماری اخروی نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ
ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک
(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے نبیوں پر یہ وہی کی گئی کہ اگر تم نے بھی شرک کیا تو تمھارے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے)
اور دوسری جگہ فرمایا کہ
ومن یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ
(کہ مشرک پر جنت حرام کر دی گئی ہے)
اور فرمایا
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ
(یعنی شرک کو معاف نہیں کیا جائے گا)

پس جب اتنی اہم بات ہے کہ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی افادیت پر ہم بات کر رہے ہیں وہ خود بھی اس (توحید) کی خلاف ورزی کریں تو انکی باقی تمام عبادتوں کی افادیت ختم ہو جائے گی تو پھر ہم جب اس توحید کی خلاف ورزی کریں گے تو ہماری کسی عبادت (بشمول محبت رسول) کی کوئی افادیت باقی بچے گی
یہ تو محبت رسول کی افادیت کے لئے پہلی ناگزیر شرط یعنی توحید کی اہمیت کی بات تھی لیکن مسئلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ جب شیطان یہ دیکھتا ہے کہ میں نے جو محبت رسول کا اپنا انداز ان مسلمانوں کے سامنے رکھا تھا اور اسکو توحید سے بھی زیادہ مزین کر دیا تھا وہ تزئین و آرائش تو کسی داعی نے تباہ کر دی ہے اور لوگ شرک سے بچنے کو محبت رسول کے فائدہ مند ہونے کے لئے ضروری سمجھنے لگے ہیں تو پھر وہ تلبسوا الحق بالباطل کے تحت شرک اور توحید کو کغ مڈ کر دے گا اور ہمارے کچھ شیخ الاسلام ہمیں یہ سبق پڑھانے لگ جائیں گے کہ آج تو کوئی مسلمان شرک کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح بخاری میں اسکی گارنٹی دے دی ہے
لیکن اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے کہ
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا
(یعنی اگر ہم کوشش کریں تو سیدھا راستہ ڈھونڈنا مشکل نہیں)

پس اس سلسلے میں اب میں آپ کے سامنے شرک کی کچھ وضاحت رکھوں گا کہ آج کے دور میں شرک کیسے ہوتا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پس اس سلسلے میں اب میں آپ کے سامنے شرک کی کچھ وضاحت رکھوں گا کہ آج کے دور میں شرک کیسے ہوتا ہے
محترم مخلص بریلوی بھائی میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے اکثر بریلوی بھائی شرک نہیں کرتے البتہ انہوں نے شرک کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا یا انکو بتایا ہی نہیں گیا ہوتا پس یہ سب کچھ انکے لاشعور میں تو ہوتا ہے مگر اسکو ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ کے تحت شعور میں لانے کے کام پر توجہ نہیں دی گئی ہوتی
پس میں آپ کے ساتھ کچھ تبادلہ خیال کرنا چاہتا ہوں کہ جس میں آپ کے ذہن اور خیالات کو لے کر ہی چلا جائے گا اور پھر یہ دیکھا جائے گا کہ شرک کیا ہوتا ہے
آپ کا ذہن یہ تو مانتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شرک ہوتا تھا اسی لئے انکو مشرکین مکہ کے نام سے ہم یاد کرتے ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اسی شرک اور عقیدہ اخرت کی اصلاح کے سلسلے میں دعوت شروع کی
پس میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ وہ مشرکین مکہ کے جس عمل کو شرک کہا گیا وہ کیا تھا
میرے خیال میں آپ کا لازمی یہ جواب ہو گا (کیونکہ آپ کے حلقوں میں یہی کہا جاتا ہے) کہ وہ جو شرک کرتے تھے وہ بتوں کو پوجنا تھا یعنی شرک سے آپ کی مراد "بتوں کو پوجنا" ہے

میں الحمد للہ آپکی بات کی تائید کرتا ہوں لیکن ساتھ ساتھ آپکے جملے "بتوں کو پوجنا" کی تھوڑی سی وضاحت بھی مجھے چاہیئے وہ ایسے کہ اس جملے میں دو لفظ یعنی "بت" اور "پوجنا" کی علیحدہ علیحدہ وضاحت قرآن اور سیرت النبی سے چاہئے کہ بت سے آپکی کیا مراد ہے اور پوجنا سے آپ کی کیا مراد ہے

مجھے پتا ہے کہ آپکو اس بارے میں سوچنے کا شاید نہ موقع ملا اور نہ آپکو موقع دیا گیا کیونکہ جب انسان تفصیل میں جاتا ہے تو خؤد بخؤد راز منکشف ہوتے جاتے ہیں اور یہی باطل نہیں چاہتا کیونکہ وہ باطل کی موت ہوتی ہے کہ اگر حق لوگوں کے سامنے آ گیا تو میرا وہاں ٹھرنا ممکن نہ ہو گا اسی لئے مزرکین مکہ حاجیوں کے کانوں میں روئی ڈلواتے تھے اور اسی لئے آج بھی میڈیا پر حق کو نہیں آنے دیا جاتا کیونکہ قل جاء الحق وزھق الباطل

اب میں آپ کو ان دو لفظوں کے بارے بتاتا ہوں کہ باطل ان دولفظوں سے آپ کو کیا باور کراتا ہے اور قرآن و حدیث میں ان سے کیا مراد لی گئی ہے اور آپ کا مشاہدہ اور ذاتی تجربہ کیا کہتا ہے

بتوں سے مراد
محترم بھائی بتوں سے مراد عام طور پر باطل خالی پتھر کی مورتیاں باور کراتا ہے کہ مشرکین مکہ خالی مورتیوں کی عبادت کرتے تھے نیک بندوں کی عبادت نہیں کرتے تھے پس مورتیوں کی عبادت کرنا شرک ہے مگر مورتیوں کی بجائے نیک بندوں کی عبادت شرک نہیں

مگر محترم بھائی نیچے ہم دیکھیں گے کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ اور آپ کا اپنا مشاہدہ اور تجربہ اسکی تردید ہی کرے گا اور ہم یہ جان لیں گے کہ مشرکین مکہ دراصل مورتیوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ جن نیک بزرگوں اور ولیوں کی وہ مورتیاں ہوتی تھیں انکی عبادت کرتے تھے
اس سلسلے میں مثالیں تو ہزاروں ہو سکتی ہیں مگر میں اختصار کے صرف چند پر اکتفا کروں گا کیونکہ آپ جیسے بھائی کے لئے کوالٹی کی ضرورت ہے کوانٹٹی کی ضرورت ابھی نہیں

پہلے قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں قرآن میں نوح علیہ السلام کی قوم کے مشرکین کا قول اللہ ذکر کرتا ہے وہ کہتے ہیں
وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا
یعنی مشرک سردار اپنی قوم سے کہتے کہ تم نوح علیہ السلام کی باتوں میں آ کر اپنی ان 5 ہستیوں کی عبادت نہ چھوڑ دینا
اسکی تفسیر میں صحیح بخاری میں مفسر قرآن عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ یہ 5 نام نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک ولیوں کے ہیں جنکی پہلے خالی تصویریں بنائی گئیں پھر ان سے مانگنا شروع کر دیا
اسی طرح صحیح بخاری میں ہی سورۃ نجم کی آیت افرایتم اللات والعزی کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس کہتے ہیں
كان اللات رجلا يلت سويق الحاج یعنی لات حاجیوں کو ستو پلاتا تھا
یہ جب مر گیا تو لوگ اسکی قبر پر مجاور بنے اور اسکی عبادت کرنے لگے
اسی طرح قرآن میں ہے ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم (کہ یہ تمھاری طرح کے بندے ہیں جنکی تم عبادت کرتے ہو)
اسکی تفسیر میں احمد رضا خان بریلوی نے بھی انکو بندے ہی لکھا ہے اور اس میں عیسی علیہ السلام کو بھی شامل کیا ہے

اب آپ کے مشاہدے اور تجرے کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں آپ سے سوال ہے کہ کیا آج دنیا میں کہیں بتوں کی عبادت کرنے والے پائے جاتے ہیں آپ کا جواب ہو گا کہ یقینا ہمارے پڑوس میں ہی انڈیا میں ہندو آج بھی بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور پاکیستان میں بھی یہ پائے جاتے ہیں
تو پھر آپ سے پوچھنا ہے کہ میں آپکو ایک بت بنا کر دیتا ہوں یا بازار سے ایک گڑیا کھلونا خرید کر دیتا ہوں آپ پاکستان میں کسی ہندو کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ وہ اس بت کی عبادت کرے آپ کا مشاہدہ اور تجربہ کیا کہتا ہے کہ کیا وہ اس بت یا گڑیا کی پوجا شروع کر دے گا
سوفیصد وہ انکار کرے گا بلکہ پوچھے گا کہ پہلے یہ بتاؤ کہ مجھ سے جس بت کی عبادت کروانا چاہتے ہو یہ ہمارے کس خدا کا ہے رام چندر، کرشنا، برہما یا شیوا کا بت ہے جو ہم اسکی عبادت کریں یعنی وہ محض بت کی عبادت نہیں کر رہے ہوتے بلکہ کسی پہنچی ہوئی ہستی کی عبادت کر رہے ہوتے ہیں پس آج کے دور کا مشاہدہ بھی آپکو یہ بتائے گا کہ کوئی بھی انسان کسی مورتی یا بت کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اصل میں وہ کسی نیک ہستی کی عبادت کرتا ہے
جاری ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب میں آپ کو ان دو لفظوں کے بارے بتاتا ہوں کہ باطل ان دولفظوں سے آپ کو کیا باور کراتا ہے اور قرآن و حدیث میں ان سے کیا مراد لی گئی ہے اور آپ کا مشاہدہ اور ذاتی تجربہ کیا کہتا ہے
محترم مخلص بریلوی بھائی دو لفظوں یعنی بتوں اور عبادت میں سے اوپر بتوں کی وضاحت آپ کو کر دی ہے اب عبادت کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کہیں ہم بھی وہی بتوں کی عبادت میں ملوث تو نہیں ہو رہے
اس کے لئے آپ سے سوال ہے کہ آج ہم بڑی بڑی کون سی عبادات کرتے ہیں آپ بھی یقینا مندرجہ ذیل بڑی عبادتوں کا ذکر کریں گے
1-نماز
2-روزہ
3-حج
4-صدقات و زکوۃ یا نذر و نیاز
5-دعا

اب آپ جب یہ کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ اللہ کے علاوہ بتوں کی عبادت کرتے تھے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ عبادت ان اوپر ذکر کردہ عبادات میں سے کون سے نمبر والی تھی یہ سوچنے کی ہمیں ضرورت ہے اور اس سلسلے میں خالی لوگوں کی اپنی رائے ہی نہیں چاہئے بلکہ اس دور کے واقعات اور اس سے بھی بڑھ کر قرآن سے پوچھنا ہو گا کہ مشرکین مکہ جو بتوں کی عبادت کرتے تھے وہ کون سی عبادت تھی
پس جہاں قرآن میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے تو وہیں اکثر جگہ پر اسکی بھی وضاحت ملتی ہے کہ وہ کون سی عبادت کرتے تھے پس میری معلومات کے مطابق مشرکین مکہ اوپر ذکر کردہ عبادات میں سے آخری دو یعنی نذر و نیاز اور دعا میں غیر اللہ کو شریک کرتے تھے آپ اسکو دیکھ لیں اور تحقیق کر لیں کہ میرا موقف اس سلسلے میں درست ہے کہ نہیں کیونکہ میں اسی موقف کے پس منظر میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کل کے مشرک بھی انہیں دو چیزوں میں عموما غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں
میرے موقف کے دلائل
میرے خیال میں عمومی طور پر مشرکین مکہ صرف آخری دو عبادتوں میں ہی اللہ کے ساتھ بتوں کو شریک کرتے تھے جبکہ اور عبادتوں میں (شاذ کیسز کو چھوڑ کر) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے تھے چنانچہ مسلمان ہونے سے پہلے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اللہ کی نماز پڑھتے تھے اسی طرح مشرکین مکہ عاشورہ کے روزے بھی اللہ کے لئے رکھتے تھے اور حج بھی اللہ کے لئے ہی کرتے تھے کہتے تھے لبیک اللھم لبیک -----مگر نذرو نیاز صدقہ وغیرہ میں اور دعا میں وہ صرف اللہ پر اکتفا نہیں کرتے تھے
محترم مخلص بریلوی بھائی میرے اس موقف کی تحقیق کے لئے جب ہم قرآن کا مطالعہ کھلے دل سے کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ قرآن میں غیر اللہ کی عبادت کا بیان دو طرح سے ہوا ہے ایک خبر کے طور پر کہ مشرکین فلاں عبادت غیر اللہ کی کرتے تھے اور دوسرا حکم کے طور پر کہ تم فلاں عبادت غیر اللہ کے لئے نہ کرو
مزید تحقیق کریں تو یہ پتا چلتا ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کا یہ بیان (چاہے خبر میں ہو یا حکم میں ہو) اوپر بیان کی گئی صرف آخری دو عبادتوں کے بارے ملتا ہے یعنی
1-غیر اللہ کی نذر و نیاز والی عبادت کا بیان ملتا ہے مثلا
وَجَعَلُوْا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَکَآئِنَا
فما کان لشرکائھم فلا یصل الی اللہ وما کان للہ فھو یصل الی شرکائھم
یعنی جب انکی کھیتی باڑی یا مویشی تیار ہو جاتے تو اس میں اللہ کے ساتھ غیر اللہ کی بھی نذر و نیاز نکالتے تھے بلکہ جب کبھی بتوں کے حصے کو کوئی نقصان کی وجہ سے کمی کا سامنا ہوتا تو اللہ کے حصے میں سے اس طرف منتقل کر دیتے مگر جب اللہ کے حصے میں کبھی کمی ہو جاتی تو بتوں کے حصے میں سے اللہ کے حصے میں منتقل نہ کرتے کہ بت ناراض نہ ہو جائیں اللہ کی خیر ہے اللہ کہتا ہے کہ ساء ما یحکمون یعنی کتنا برا فیصلہ کرتے تھے (ایسا ہی ملتا جلتا کچھ آج کل بھی کیا جاتا ہے کہ اللہ کہے کہ بیچتے ہوئے دودھ میں ملاوٹ نہیں کرنی تو کوئی پروا نہیں خوب پانی ملا کر دودھ بیچتے ہیں اور جب جمعرات والے دن گیارویں پر فری میں غیر اللہ کے نام کی نذر ہو تو مجال ہے کہ ملاوٹ ہو جائے چاہے گیارویں والے کا ملاوٹ نہ کرنے کا حکم ہی نہ ہو مگر اس کا ڈر اور طمع ہی ایسا ہوتا ہے کہ وادعوہ خوفا و طمعا کے تحت اسکو الہ بنایا ہوتا ہے اسی طرح اس سے محبت بھی یحبونھم کحب اللہ والی آیت کے مطابق اللہ جتنی کر رہے ہوتے ہیں بلکہ حقیقت میں اس سے بھی زیادہ )

2-اسی طرح قرآن میں جگہ جگہ غیر اللہ سے مانگنے کا ذکر ملتا ہے خبر کے طور پر بھی اور نہی کے طور پر بھی مثلا
حَتَّىٰ إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لہ الدین
یعنی جب وہ ڈوبنے لگتے تھے تو خالص اللہ کو پکارتے تھے مگر
ﻓَﻟَﻣﱠﺎ ﻧَﺟﱠﺎھُمْ إِﻟَﯽ اﻟْﺑَرﱢ إِذَا ھُمْ ﯾُﺷْرِﮐُونَ
یعنی جب انکو ہم نجات دے دیتے تو پھر شرک کرنے لگ جاتے یعنی اوروں سے بھی مانگنے لگ جاتے ہیں آج کل تو کشتی میں ڈوبتے ہوئے بھی اللہ سے نہیں مانگتے بلکہ کہتے ہیں بہاول الحق بیڑا دھک
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا
قل ارایتکم ان اتاکم عذاب الله او اتتکم الساعة اغیر الله تدعون ان کنتم صادقین
یعنی جب کوئی مشکل آئے تو اللہ کے علاوہ کسی کو پکارو گے اگر اپنے عقیدے میں سچے ہو
بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ۔
بلکہ تم اللہ کو ہی پکارو گے اور پھر وہ تمھاری تکلیف دور بھی کرے گا اور تم اس وقت شرک یعنی دوسروں سے مانگنا بھول جاؤ گے
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ کچھ لوگ آپ کو کہیں کہ قرآن میں عربی کے لفظ تدعون کا معنی خالی دعا نہیں بلکہ عبادت بھی ہے تو ہم کہیں گے کہ یہی تو آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ اگر تدعون کا معنی عبادت بھی کریں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی عبادت ہوتی تھی جو مشرکین مکہ غیر اللہ کی کرتے تھے پس غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اوپر آیت میں تدعون کا معنی عبادت بمعنی دعا ہی بنتا ہے کیونکہ اللہ کہتا ہے کہ یکشف ما تدعون الیہ یعنی جس چیز کی فرمائش کی گئی وہ دور کر دے گا یا نجات دے دے گا تو ظاہر ہے فرمائش دعا کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے اسی لئے احمد رضا ان بریلوی نے بھی پکارنا یعنی مانگنا ہی کیا ہے دعا کے عبادت ہونے پر حدیثِ رسول بھی ہے کہ الدعاء ھو العبادہ یا مخ العبادہ پس دعا تو عبادت کا نچوڑ ہوا
اسی طرح قرآن کی ایک آیت اوپر بتوں کی وضاحت میں ذکر کی ہے کہ ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم کہ جنکی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھاری طرح کے بندے (عیسی علیہ اسلام وغیرہ) ہیں اب جب ہم دیکھنا چاہیں کہ اس آیت میں جو ذکر ہے کہ بندوں کی عبادت کی جاتی تھی تو وہ اوپر پانچ عبادتوں میں سے کون سی تھی تو اسکا جواب اسی آیت میں اگلے الفاظ میں ملتا ہے کہ فادعوھم فلیستجیبولکم ان کنتم صدقین کہ پھر انکی عبادت (یعنی دعا) کرو پس پھر ان بتوں کو (تمھاری عبادت یعنی دعا) قبول کرنی چاہئے پس پتا چلا کہ وہ دعا ہی مانگ رہے تھے جس کے قبول نہ ہونے کا آگے ذکر ہے
اسی طرح کی سیکڑوں آیات غیر اللہ سے مانگنے اور اسکی نذر و نیاز کے رد میں ہیں سب کا ذکر ممکن نہیں آپ کو زیادہ تر غیر اللہ کی عبادت کی تفصیل میں یہی مانگنے والی عبادت یعنی دعا کا ہی ذکر ملے گا پس ہمیں چاہئے کہ اپنے اعمال پر غور کریں کہ ہم بھی لاشعور طور پر غیر اللہ سے مانگنے میں ملوث تو نہیں

غیراللہ سے مانگنے پر اکسانے والے غلط عقائد
اسی غیر اللہ سے مانگنے کے غلط عقیدے کی اللہ نے جہاں قرآن میں اصلاح کی ہے وہاں اس عقیدے کا سبب بننے والے کچھ اور عقائد کی بھی قرآن میں اصلاح کی گئی ہے تاکہ وہ اسباب نہ رہیں گے تو لوگ غیر اللہ سے نہیں مانگیں گے مثلا غیر اللہ کے عالم الغیب ہونے اور نفع نقصان کا مالک ہونے وغیرہ کا عقیدہ رکھنا
اب ان شاءاللہ اگلی پوسٹ میں ان عقائد کی کچھ وضاحت قرآن سے کروں گا تاکہ غیر اللہ سے مانگنے والے شرک سے بچا جا سکے کیونکہ میرے خیال میں اکثر شرک اسی مانگنے میں پایا جاتا ہے
 
Last edited:
Top