• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مزارات پر عرس اور میلے

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85

مزارات پر عرس اور میلے۔
بزگان دین اور اولیائے کرام کےمزارات ار مقابر پر عرس اور میلوں کا سالا نہ انعقاد کرنا بھی برصغیر کے بدعتی مسلمانوں کے رسم و رواج میں فرائض دین کی مانند شامل و داخل ہے ۔ ہر سال جب ان بزرگوں کی تاریخ وفات یا میلاد آتی ہے تو نہ صرف ان کی قبروں بلکہ ان کی چلہ گاہوں پر او ر ان کے سلسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر بھی ان عرسوں کے اہتمام ہوتے ہیں جن میں قرآن خوانیوں منقبتوں اور قوالیوں کےساتھ ساتھ لنگر و تبرک بھی تقسیم ہوتا ہے ۔ عرس کی یہ محفل ایک کار ثواب کے طور پر منعقد کی جاتی ہیں۔
جہلا ء ان میں ثواب دارین حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے شرکت کرتے ہیں ۔ قبروں پر چراغاں ہوتا ہے ۔ عود و عنبر اور اگر بتیاں سلگائی جاتی ہیں ۔ عقیدت مندوں کی طرف سے چادریں چڑھتی ہیں۔ کچھ قبروں پر غلاف کعبہ کی مانند نہ صرف غلاف چڑھائے جاتےہیں بلکہ غسل کعبہ کی طرح انہیں عرق گلاب وغیرہ سے غسل دیا جاتا ہے ۔ چند قبریں سرکاری سر پرستی میں پوجی جاتی ہیں غسل دی جاتی ہیں اور وزرائے اعلیٰ و اعظم ان مقدس و متبرک محافل میں بڑی عقیدت سے شریک ہو کر ان فرائض کو ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مزرات میں نام نہاد بہشتی دروازے بھی بنے ہوئے ہیں جو عرس کے مواقع پر کھولے جاتے ہیں ۔ ان دروازوں سے گزر کر جہلا سمجھتے ہیں کہ اب ان پر بہشت واجب ہوگئی ہے۔ شیطان نے انہیں الٹا سبق پڑھا دیا ہے ۔ اگر یہ لوگ توبہ کیئے بغیر مر ے تو ان پر ان نام نہاد بہشت کے دروازوں سے گزرنے کے سبب جنت نہیں بلکہ جہنم واجب ہو جائے گی۔
مسجد حرام جہاں اللہ کا گھر ہے مسجد نبوی جسے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر کیا ہے جن کا مقدس ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ان کے دروازوں سےگزر نے والے کے بارے میں یہ ضمانت نہیں ہے کہ اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ جب ان مقدس مسجدوں کا یہ عالم ہے تو پھر ان شرک کے اڈوں میں بنے دروازوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
عرس اور میلے جو مزاروں پر منعقد ہوتے ہیں اسلامی تعلیمات کے بلکل خلاف ہیں قبروں پر عمارتیں بنان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی صریخ خلاف ورزی ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ۔
جو قبر اونچی نظر آئے اس کو زمین کے برابر کردو ۔
یہ ترجمہ حدیث کے الفاظ ہیں اسی طرح مسند احمد وغیرہ میں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی جو قبروں پر مسجد بناتے ہیں۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ آج خود کو اہل سنت کہتے ہیں وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کو قابل ااعتنا ء لائق توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھتے ۔ نہیں معلوم یہ بروز محشر کس منہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے جائیں گے اور کس طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کےحقدار بن سکیں گے؟
مزاروں پر عرس اور میلے دراصل دور جاہلیت کی رسم ہے جسے شیطان اور اس کے چیلوں نے پھر سے مسلمانوں کے درمیان پھیلا دیا ہے ۔ عرب علاقے میں جب اس کا بازاردوبارہ گرم ہونے لگا تو شیخ محمد بن عبدالواہاب رحمہ اللہ کی مساعی جمیلہ نے اس شیطانی کاروبار کو ہوں چلنے نہیں دیا چنانچہ شیطان نےبرصغیر ، ایران ، عراق اور ترکی و مصر وغیرہ میں ان مزرارات کی صورت میں اپنے اڈے قائم کر دیئے آج بندگان الہٰی اپنے الہٰ حقیقی کی عبادت سے بے خبر شیطان کی راہوں پر چلتے ہوئے قبروں کی پوجا ان پر سجدے کرنے چادریں چڑھانے منتیں ماننے ، نذرو نیاز کرنے ، شفا مانگنے ، اولاد مانگنے ، فتح مانگنے او ر ان ہی سے اپنی حاجتیں مانگنے میں کھو رہ گئے ہیں ۔ نہ تو انہیں اللہ یاد آتا ہے اور نہ مسجد کی یاد آتی ہے انہیں اگر کچھ یاد آتا ہے تو ہر جمعرات کو درگاہوں ، مزاروں اور آستانوں پر حاضریاں دینی یاد آتی ہیں ۔ ان سے نماز پنجگانہ چھوٹ سکتی ہے لیکن جمعرات کو مزار پر حاضری نہیں چھوٹ سکتی ۔ لوگ انہیں عقیدت کی جگہیں سمجھتے ہیں اور مزارات میں مدفون بزرگان دین کو اپنا فریاد رس ، غریب نواز، مشکل کشاء ، حاجت روا ، اور دستگیر وغیرہ سمجھتے ہیں حالانکہ عالم یہ ہے کہ ان مزاروں پر منشیات فروخت ہوتی ہیں ، زنا کاری بکثرت ہوتی ہے ہیجڑے اور کنجریں عرسوں میں ان مزارات پر اپنے ڈیرے ڈال کر ناچ رنگ کےپروگرام کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ان مزارات کے احاطوں کے اندر ہوتا ہے ، مگر یہ بزگان دین اس حرام کاری سے لوگوں کو منع کرنے کی قوت نہیں رکھتے پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جو اپنے مزار سے ان خرافات کو نہ ہٹا سکتا ہو وہ کسی اور کے بھی کام آسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ مبارک میں بھی نیک لوگوں ﴿ انبیائے کرام ﴾ قبور موجود تھین مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ان قبروں پر پھول چڑھائے ، نہ چراغ جلائے نہ ان کو غسل دیا اور نہ ہی ان پر عرس و میلے وغیرہ کروائے پھر یہ کام ہمارے لئے کیوں کر جائز ہوگیا ؟
مسلمانوں میں الحمد اللہ باشعور افراد کی کمی نہیں ہے مگر شیطان نے ایسا چکر چلایا ہے کہ سب توحید بھلا دی ہے ۔ عقل و خرد سے بے گانہ کر دیا ۔ جو اسلام سارے ادیان پرغالب آنے کےلئے آیا تھا آج وہ جمعرات کی حاضریوں میں محدود کر دیا گیا ۔ وہ مسلمان جن کی پیشا نیوں پر اللہ تعالیٰ نے عالم کی حکمرانی کی آیات ثبت کیں آج وہ پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی ہیں۔
برادران اسلام یہ عرس اور یہ میلے قبر پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔
ہندوبتوں کی پوجا کرتا ہے اور مسلمان قبر کی پوجا کر رہے ہیں کیا فرق رہ گیا ؟
سنو مولانا حالی تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنا رہے ہیں۔
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم ۔
نہ کرنا میری قبر پہ سر کو خم تم ۔
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم۔
کہ بے چارگی میں برابر ہم تم۔
مجھے دی ہے اس نے بس اتنی بزرگی ۔
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پیغام سے ثابت ہوتا ہے کہ جب قبر نبوی سجدہ گاہ نہیں بن سکتی تو پھر دیگر افراد کی قبریں کس کھاتے میں آ سکتی ہیں؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”مزارات و عرس و میلے“کا بھی اگر ”اسلام “ کےساتھ کوئی ”تعلق“ہے تو ”ہندو“ہمارے ”دینی بھائی“ہیں۔
 
Top