Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
مزارات پر ہونے والی خرافات
سندھ میں پیر لٹن شاہ کا مزار اور مکلی پیروں کی خرافات
یہ 1993 ءکا رمضان المبارک ہے اور میں کراچی شہر سے باہر ”منگا پیر “ کے دربار پہ کھڑا ہوں -پچھلے سال 1992 ءکے رمضان المبارک میں- میں ایران کے شہر ”شیراز“ میں تھا -یہ وہ شہر ہے کہ جس میں تیرہ صدیاں قبل اسلام کا ایک جرنیل محمد بن قاسم خیمہ زن تھا -ناگہاں اس کے چچا حجاج بن یوسف کا پیغام اسے کچھ اس طرح موصول ہوا :
محمد بن قاسم رحمہ اللہ ”شیراز شہر “ سے چلا -بلوچستان کے علاقے مکران میں آیا -یاد رہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور 22 ہجری میں حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ وکے خاران پر قبضے کے ساتھ ہی مکران میں بھی اسلام آیا -چنانچہ اس حوالے سے بعض م رخین نے برصغیر میں ”مکران “ کو ”باب الاسلام“ کہا ہے- چنانچہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ جب مکران میں آیا تو یہاں کے پانچ ہزار جوان اس نے اپنے لشکر میں شامل کئے اور وہ دیبل کی جانب چل کھڑا ہوا -پھر اس نے خشکی اور سمندر دونوں جانب سے راجہ داہر کی ہندو فوج پر حملہ کیا- یہ رمضان المبارک ہی کا مہینہ تھا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے دیبل کو فتح کیا اور یوں رمضان کے مہینے میں جہاد کی برکت سے سندھ کو باب الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا -”دیبل کی بندر گاہ (کہ جو اب کراچی میںپورٹ قاسم کہلاتی ہے)کے قریب مسلمان تاجروں اور بیو گان ویتامی کا مال لوٹ لیا گیا ہے -لہٰذا ان لٹیروں اور ان کے سرپر ست راجہ داہر کو شمشیر جہاد سے سبق سکھادو-“
بلوچستان میں اسلام نے قدم رکھا تو جہاد کے زور سے -سندھ میں اسلام داخل ہوا تو قتال کی قوت سے اور قرآن و حدیث کی دعوت سے -اب حالات نے رخ بدلا-ایک لمبی مدت گزر گئی اور پھر جب سندھ سے عرب حکومتوں کا وجود مٹا اور باطنی فرقوں کو عروج ہوا تو اگلے مرحلے میں ان کی قوت کو جس نے توڑا --اور وسطی ہند میں سومنات اور متھرا وغیرہ کو تاراج کرکے‘ ہندوں کی قوت ختم کرکے‘ اسلام کا راستہ ہموار کیا‘ تو غزنی کے سلطان محمود نے جہاد کے زور سے کیا -سلطان محمودکے بعد سلطان شہاب الدین غوری کو نکال کر برصغیر میں یہ المیہ رونما ہو اکہ ان کے بعد غوری ‘ لودھی اور مغل حکمران آئے تو یہ اپنی اپنی بادشاہتو ں اور سلطنتوں کے لئے کشور کشائی کرتے رہے - اس کیلئے وہ ہندوں سے بھی لڑتے رہے اور آپس میں بھی برسر پیکار رہے ‘ جبکہ اس دور میں انہیں جو دین ملا تو وہ صوفیوں سے ملاجو خانقاہوں میں ذکرو اذکار ‘ چلہ کشیوں‘ تعویزوں اور لنگر خانے جاری کرنےکی حد تک محدود تھا -چنانچہ مذکورہ بادشاہ بھی دین دار بننے کے لئے یہ کرتے کہ ان خانقاہوں کے نام جاگیریں وقف کردیتے -گدی نشینوں کے حضور حاضر ہو کر دعا کروا لیتے اور بس !....چنانچہ وہ دین جو جہاد کی برکت سے بلوچستان اور سندھ میں آیا تھا‘ اب وہ دین نہ رہا تھابلکہ اب دین تو حید کی بجائے دین تصوف رائج ہورہا تھا -مسجدوں کے ساتھ علم حدیث کے مدرسوں کی بجائے اب خانقاہیں بن گئی تھیں-
حدیث کی کتابیں صحاح ستہ کے دروس کی بجائے اب تصوف کے سلسلے قادریہ ‘ چشتیہ ‘ سہر وردیہ اور نظامیہ کی مشقیں جاری ہوگئی تھیں -اب صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ بزرگوں کے مزارات اور مقبرے ہی مرجع خلائق بن گئے تھے-جبکہ ان کے ساتھ مسجدیں محض علامت کے طور پر باقی تھیں --اس صورتحال کے بعد لوگوں کی زبانوں پہ یہ کلمہ جاری ہوگیا کہ” برصغیر میں اسلام پھیلا یا ہی ان اولیا ئے کرام نے ہے -“ انہی خانقاہوں اور درباروں سے اسلام پھیلا ہے اور چونکہ سندھ ان بزرگوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا- اس لئے آج تک یہی کہا جاتا ہے کہ سندھ اور ملتان ولیوں کی سرزمین ہے- یہ صوفیوں کا وطن ہے- یہ گدی نشینوں کی وادی ہے -
قارئین کرام ! میں اس خانقاہی دین کے چشم دید حالات و واقعات آپکی نذر کرتا رہتا ہوں -؟بیشتر احباب کے اصرار پر آج پھر میں” منگا پیر “کے دربار پہ ہوں -میں کراچی شہر سے باہر بلوچستان کو جانے والے اس راستے پہ کھڑا ہوں کہ جہاں سے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی عرب فوج گزری تھی -ہاں تو یہی ہے وہ رمضان کا مہینہ -مگر اب اس رمضان کے مہینے میں مکران کا علاقہ جو کہ باب الاسلام ہونے میں سندھ سے بھی سبقت رکھتا ہے ‘ اس کے ڈویژنل صدر مقام پر ”تربت“ شہر کے دامن میں - میں نے وہ جگہ دیکھی کہ جہاں ”ذکری فرقہ“ کوہ مراد ( پہاڑ) پر رمضان کے مہینے میں حج کرتا ہے- اس سے آگے لسبیلہ کے علاقے میں- میں نے ایک ایسا دربار بھی دیکھا ہے کہ جو” لامکان “کے نام سے معروف ہے -سچ ہے یہ موجودہ خانقاہی دین انہی صوفیوں نے پھلایا ہے- انہی خانقاہی بزرگوں نے اسے رواج دیا ہے اور برصغیر میں ہنوز اسی کا راج ہے-
اَلرَّحمٰنُ عَلٰی العَرشِ استَوٰیصوفیوں نے کتاب وسنت کے عقیدہ کے برعکس اللہ کو لامکان کہہ کر یہ بھی مشہور کیا کہ وہ ہر جگہ خود موجود ہے‘ حالانکہ قرآن میں صاف طور پر اللہ نے فرمایا ہے :
ترجمہ : رحمن عرش پر جلوہ افروز ہے - (طٰہٰ 20 :5)
باقی وہ اپنی صفات کے اعتبار سے علیم بھی ہے ‘ خبیر بھی ہے اور علام الغیوب بھی ہے جبکہ اللہ کو لامکان اور ہر جگہ حاضر کہنا تو کتاب وسنت کے عقیدہ کے منافی ہے -مگر ان صوفیوں نے اپنا یہ غلط نظریہ جو انہوں نے اللہ کے بارے میں اپنا رکھا ہے ‘ اسے ایک صاحب قبر بزرگ پر بھی چسپاں کردیا ہے اور اسے لامکان اور ”نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے “ کہہ کر اپنا رب بنا لیا ہے -(نعوذ باللہ من ذالک)
لسبیلہ کے بعد دیبل کی طرف آئیں کراچی کی طرف سفر اختیار کریں تو راستے میںمنگا پیر کا دربار آئے گا -منگا پیر کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ ایک ڈاکو تھا- اس نے کراچی شہر سے دور اپنا ڈیرہ لگایا تھا اور پھر اس کے مرنے کے بعد اس کا مزار بنا دیا گیا-اب شیدی قوم اس کی مرید ہے- بلوچستان سے بے شمار لوگ یہاں آتے ہیں-