پیش کردہ احادیث پر ایک نظر:
حیات الانبیاء بیہقی کے حوالہ سے اس مسئلہ میں دس میں سے کوئی استدلال کے قابل نہیں، پھر حیات دنیوی کا ذکر کسی میں بھی نہیں ۔ احادیث کے نام کی اہمیت اور اسلام میں سنت کے مقام کی رفعت کے پیش نظر اس کے متعلق اختصار سےذکر کرنا ضروری معلوم ہوا۔ نامہ نگار کا تعلق دیوبند ایسی علمی درس گاہ سے ہے اس لیے بعض اہم احادیث کو جرح وتوثیق کے لحاظ سے یہاں جانچا جاتا ہے۔
حدیث نمبر۱۔
النبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون(بیہقی کا رسالہ خصائص کبریٰ انباہ)
تحقیق: اس حدیث کی سند میں حسن بن قیتبہ خزاعی ہے جس کے متعلق ذہبی نے میزان العتدال میں ابن عدی کا قول
لا باس بہ ذکر کر کے اپنی اور دوسرے کی رائے ذکر فرمائی ۔
قلت بل ھو ھالک قال الدار قطنی فی روایۃ البرقانی متروک الحدیث قال ابو حاتم ضعیف قال الازدی واھی الحدیث قال العقیلی کثیرالوھم ۱ھ(ص۲۴۱،ج۱) یعنی ائمہ جرح تعدیل کی نظر میں یہ ھالک، متروک الحدیث، ضعیف واھی الحدیث و اکثر الوھم ہے۔"
حافظ ابن حجر نے لسان المیزان ص ۲۴۶ جلد۲ میں ذہبی کی پوری عبارت نقل فرماکر اس جرح کی تصدیق فرمادی ہے۔ حافظ خطیب بغدادیؒ نے بھی اس واھی الحدیث اور متروک الحدیث فرمایا ہے(تاریخ بغداد ص۴۰۵ جلد۷) باقی رہا شوکانی کا تحفہ الذاکرین میں حدیث
رد اللہ علی روحی کی تشریح میں یہ لکھنا
لانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبر وروحہ لاتفارق لماصح ان لانبیاء احیاء فی قبور ھم ط
توسابق مفصل جرح کے موجوود ہوتے "صح" سے مصطلح صحت مراد لینا تو مشکل ہے یہ صح بمعنی ہی ہوسکتا ہے ۔ جب تک حدیث پر وضع کا حکم یقینی نہ ہو۔محدثین کے نزدیک "ثبت" سے اس کی تعبیر ہوسکتی ہے نیل الاوطار میں حافظ شوکانی نے یہی لفظ اختیار فرمایا ہے۔
وقدثبت فی الحدیث ان الانبیاء احیاء فی قبور ھم (ص۳۰۵،جلد۳) ۔ ایسی احادیث کا تذکرہ مواعظ اور فضائل کی مجالس میں تو کیا جاسکتا ہے لیکن عقیدہ کی بنیاد اس پر نہیں رکھی جاسکتی اہل حدیث اور ائمہ فن کے نزدیک اعتقاد کے لیے خبر واحد صحیح ہونی چاہیئے۔
کما ذکرہ ابن القیم فی الصواعق المرسہ۔
اس حدیث کے متعلق ابن القیمؒ فرماتے ہیں۔
وحدیث ذکر حیاتھم بقبورھم لما یصح وظاھر النکران
فانظر الی الاسناد تعرف حالہ ان کنت ذاعلم بھذا الشان
ھذا ونحن لقو لھم احیاء لکن عندنا کحیات ذی الابدان
والتراب تحتھم وفوق روسھم وعن الشمائل ثم عن ایمان
مثل الذی قد قلتمو ھا معاذنا باللہ من انک ومن بھتان
انبیاء کی حیات فی القبور جس حدیث میں مذکور ہے اس کی سند صحیح نہیں اہل فن کو اس کی سند پر غور کرنا چاہیئے اس کے باوجود ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مبارک اجسام کے دائیں بائیں نیچے اوپر مٹی موجود ہے اور جس زندگی کے تم قائل ہو اس جھوٹ اور بہتان سے خدا کی پناہ"
حدیث نمبر ۲،۳،۴: حضرت موسیؑ کی نماز: حدیث ۴،۳،۲میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے آپ نے انہیں قبر میں نماز ادا فرماتے دیکھا یہ بھی حیات دنیوی نہیں برزخی ہے قبر میں بھی دیکھا بیت المقدس میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی نماز میں شریک ہوئے پھر آسمان پر بھی آپ سے ملاقات فرمائی اور مفید مشورے دیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا دجال کو بحالت احرام کے لیے جاتے دیکھا عمروبن لحئ کو جہنم میں دیکھا یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رویت ہیں اگر اسے دنیوی حیات سے تعبیر کیا جائے جو دجال ایسے خبیث لوگوں کو بھی حاصل ہوئی تو انبیاءکی فضیلت کیا باقی رہی انبیاء کی حیات اہل سنت کے نزدیک شہداء سے بھی بہتر اور قوی تر ہے برزخ میں عبادت ، تسبیح ، تہلیل اور رفعت درجات ان کو حاصل ہے اور بعض واقعات صرف مثالی ہیں جو آنحضرت ﷺ کو آیات کبریٰ کے طریق پر دکھائے گئے ان سے زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا نے کتاب الروح لابن القیم سے بعض حکایت نقل فرمائی ہیں تعجب ہے۔
حافظ ابن القیم ؒ نے امام ابن حزم کا ایک حوالہ ان کی کتاب الفصل سے نقل فرما کر اس کے بعض حصص پر تنقید فرمائی ہے اس میں اس حیات کا واضح تذکرہ فرمایا ہے۔
قلت ماذکرہ ابن حزم فیہ حق وباطل اما قولہ من ظن ان المیت یحیی فی قبرہ فخطا فھذا فیہ اجمال ان ارادبہ الحیاۃ المعحودۃ فی الدنیا التی تقوم فیہ الروح بالبدن وتد بیرہ وتصرفہ ویحتاج معھا الی الطعام والشراب فھذا خطاء کما قالہ والحس والعقل یکذبہ کما یکذبہ النص وان ارادبہ حیاۃ اخریٰ غیر ھذہ الحیاۃ بل تعاد الروح الیہ غیر العادۃ المالوفۃ فی الدنیا الیسئل ویمتحن فی قبرہ فھذا حق ونفیہ خطاء قد دل علیہ النص الصریح فتعادروحہ فی جسدہ ۱ھ(کتاب الروح ص۵۲)۔
یعنی اگر زندگی سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازم مراد ہیں تو یقیناً یہ غلط ہے ایسی زندگی میت کو حاصل نہیں ہوتی اگر اس سے مراد دنیوی زندگی کے علاوہ جس میں روح کے اعادہ معتاد زندگی کی طرح نہ ہو اس کا مقصد صرف سوال امتحان ہوتو یہ درست ہے اس کا انکار کرنا غلطی ہے یہ زندگی نص صریح سےثابت ہے۔
پھر ص۵۳ میں فرماتے ہیں جسم کے ساتھ روح کا تعلق پانچ طرح کا ہوتا ہے۔
۱۔ ما ں کے پیٹ میں بصورت جنین۔
۲۔ پیدائش کے بعد۔
۳۔ نیند کے وقت من وجہ تعلق ، من وجہ علیحدگی۔
۴۔ برزخ کا تعلق ، اس میں گو علیحدگی ہوجاتی ہے لیکن تجردکلی نہیں ہوتا بلکہ سلام کے جواب کے لیے اسے لوٹایا جاتا ہے لیکن یہ دنیوی زندگی نہیں ہوتی جو اسے قیامت سے پہلے حاصل تھی۔
۵۔ قیامت کے دن کا یہ کامل ترین تعلق ہر پہلے چاروں قسم کے تعلق کو اس سے کوئی نسبت نہیں حافظ ابن القیمؒ نے اہل سنت کے مسلک کی اس میں پوری وضاحت فرمادی ہے۔
دنیوی زندگی کا ائمہ سنت کے سلف امت میں کوئی بھی قائل نہیں معلوم نہیں شیخ عبد الحق اور مولانا حسین احمدؒ نے یہ مصیبت کہاں سے خرید فرمائی درحقیقت یہ بات بے تکی سی ہے جو کسی پہلو سے بھی درست نہیں بیٹھی ،
عفا اللہ عنہما
حدیث نمبر۵:
ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد النبیاء
رواہ اصحاب السنن وابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ میں بعض ائمہ سے اس حدیث کی تصیحح نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔
وللحدیث طرق جمعھا المنذری فی جزء فتعدد الطرق یشد بعظھا بعضاً
حافظ ابن القیمؒ نے بھی جلاء الافہام میں ابن حاتم کی جرح کے جواب میں کوشش فرمائی ہے جس کی بنیاد عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر اور عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم کے اشتباہ پر رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جلاء الافہام کی ساری بحث پڑھنے کےبعد بھی ذہن صاف نہیں ہوتا۔
اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کے نذر کردی جائے حافظ عبد العظیم منذری مختصر ، سنن ابی داود ص۴، جلد ۲ میں اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں۔
اخرجہ النسائی وابن ملحۃ ولہ علۃ دقیقۃ اشارا لیھا البخاری وغیرہ قد جمعت طرقہ فی جزء ۱ھ
(۱۔جہاں تک
ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں۔
حدیث نمبر ابی المدرواء پر امام بخاری اور امام ابو حاتم ؒ جیسے بالغ نظر ائمہ حدیث کی جرح کو نظر انداز کرنا بہت شکل ہے۔
۲۔سنن ابن ماجہ کی سند کا حال علامہ سندھی کے کلام سے معلوم کرلیجئے ایک روایت (۳) طبرانی کے حوالے سے حافظ سخاویؒ نے ذکر کی مگر ساتھ حافظ عراقی سے نقل کردیا ہے۔
لایصع القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع ص۱۱۹)
اسی طرح انہوں نے الترغیب والتر ہیب (ص۱۲۹ جلد اول مصری) میں فرمایا ہے اس
"علۃ وقیقہ" کی وضاحت علامہ تقی سبکیؒ اور حافظ سخاوی نے کردی ہےسبکی لکھتے ہیں:
وعلتہ ان حسین ابن علی الجعفی لم یسمع من عبد الرحمٰن بن یزید بن جابروانما سمع من عبد الرحمان بن یزید من تملیم وھو ضعیف ۔ فلما حدث بہ الجعفی غلط فی اسم الجد فقال ابن جابر (شفاء السقام ص۴۷)
اسی کے قریب قریب حافظ سخاویؒ لکھ کر فرماتے ہیں
ولھٰذا قال ابو حاتم ان الحدیث منکر (القول البدیعص۱۱۹)
امام بخاریؒ کا وہ اشارہ التاریخ الکبیر اور التاریخ الصغیر میں ہے۔
اول الذکر میں بہ ذیل ترجمہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم لکھتے ہیں۔
یقال ھوالذی روی عنہ اھل الکوفۃ ابو اسامۃ وحسین فقالو ا عبد الرحمان بن یزید بن جابر (التاریخ الکبیر ص۳۶۵ جلد ۳ قسم اول)۔
اور التاریخ الصغیر (ص۱۷۹) میں فرماتے ہیں۔
وما اھل الکوفۃ فرد واعن عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ابن یزید بن تملیم لیس بابن جابر وابن تمیم منکر الحدیث ۱۔
حافظ ابو حاتم کا ارشاد ان کے صاحبزادے حافظ عبد الرحمٰن نے نقل کیا ہے
سمعت ابی یقول عبد الرحمان بن جابر لااعلم احدًا من اھل العراق یعدث عنہ والذی عندی ان الذی یروی عنہ ابوا سامۃ وحسین الجعفی واحد وھو عبد الرحمٰن بن یزید بن تملیم پھر اس علت کو بنیاد بنا کر زیر بحث روایت نقل کیا اور لکھا ہے۔
وھو حدیث منکر لااعلم احدًا رواہ غیر حسین الجعفی (علل حدیث لا بن ابی حاتم ،ص۱۹۷ جلد ۱)
ان ائمہ کے علاوہ علامہ ابوبکر ابن العربی المالکی فرماتے ہیں
ان الحدیث لم یثبت (نیل ،ص۳۰۴، جلد ۳)
اسی مضمون کی دوسری حدیث سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ارواء ؓ سے مروی ہے جس میں
فنبیُّ اللہ حی یرزق کی زیادتی مرقوم ہے(ص ۱۱۹ کتاب الجنائز) شوکانیؒ نے غالباً اس کو پسند جید لکھا اور صاحب ینقح الرواۃ نے بھی ان کی متابعت میں اس کو سند جید فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں حافظ سخاوی لکھتے ہیں
رجالہ ثقات لکنہ منقطع (القول البدیع ص۱۱۹)
تعلیق سندھی حنفی علی ابن ماجہ(ص۵۰۳، جلد ۱) میں ہے۔
منقطع فی موضعین لان عبارۃ روایۃ عن ابی الدرداء مرسلۃ وزید بن الیمن عن عبارۃ مرسلۃ قالہ البخاری۱ھ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔
قال البخاری زید بن الیمن عن عبارہ مرسل ۱ھ(تہذیب ص۳۹۸ جلد ۳)
امام بخاریؒ کا یہ ارشاد التاریخ الکبیر ص۳۵۴ جلد ۲ قسم اول طبع حیدر آباد میں ہے حضرت ابوالدردا کی حدیث بروایت ابن ماجہ
فنبی اللہ حی یرزق زائد ہیں حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ مدرج ہیں ۔ مجدبن تیمیہ نے منتقی میں اس کا ذکر نہیں فرمایا شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اشعۃ اللمعات میں اندراج کو بطور شبہ قبول فرمایا ہے (جلد۱،ص۵۰۹)خان صاحب بریلوی نے بھی اس زیادتی کو مدرج تسلیم کیا ہے(حاشیہ حیات الموات ص۱۷۸) خود ابن ماجہ میں یہ حدیث اوس بن اوس اور شداد بن اوس سے مروی ہے اس میں یہ زیادتی نہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کی سند کو جید کہنا تسامح سے خالی نہیں۔
برتقدیم تسلیم یہ احادیث صحیح بھی ہوں تو ان سے دنیوی زندگی ثابت نہیں ہوتی لیکن میں نے کسی قدر تفصیلی تذکرہ اس لیے ضروری سمجھا تاکہ ان احادیث کی حقیقت معلوم ہو جائے جنہیں حضرات اجلہ دیوبند دبی ذبان سے متواتر فرما دیتے ہیں اور مدارج النبوۃ اور حافظ سیوطیؒ کی تصنیفات پر اس قدر اعتماد کیا جاتا ہے جو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے متوسلین سے انتہائی موجب استعجاب ہے۔
ان احادیث میں ضعیف اور انقطاع موجود ہے لیکن مسئلہ چونکہ درود کے فضائل کا ہے اس میں حلال وحرام یا عقائد کی بحث نہیں اس لیے ابن القیمؒ ایسے ائمہ حدیث تک نے تسامح سے کام لیا ہے۔ بنابریں تعدد طرق سے اس کی تصیحح کی گئی اور عوام میں مشہور تھے کہ فضائل میں اس قسم کی احادیث کو قبول کرلیتے ہیں اہل تحقیق کے نزدیک یہ اصل بھی خود محل نظر ہے۔
جلاء الافھام میں جیسا کہ اوپر ذکر ہواہے حدیث میں ابوالدرواء پر طویل بحث فرمائی ہے انقطاع اور تصنیف کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے انقطاع کے لیےشواہد جمع فرماتے ہیں گووہ شواہد خود محل نظر ہیں ۔ خود حافظ ابن قیم ؒ نے ان شواہد کے متعلق بھی علل کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن یہ تمام شواہد کترت صلوٰۃ کے متعلق جمع فرمائے گئے اور یوم الجمعہ کی تخصیص کو زیادہ تر پیش نظر رکھا گیا ہے اس حد تک کوئی حرج نہیں کے دن کثرت صلٰوۃ کے متعلق ان شواہد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔