• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ میلاد اسلام کی نظر میں

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
[ اردو ]
تألیف
فضيلة الشيخ أبي بكر جابر الجزائري حفظه الله
بارگاہ نبوی £ کے احترام وتعظیم کی وجہ سے میلاد نبوی کے موضوع پر لکھنے میں مجھے بہت تردّد رہا ,لیکن جب اس سلسلہ میں مسلمان ایک دوسرے کو کا فر بنانے لگے اور باہم لعنت کرنے لگے تو میں یہ رسالہ لکھنے کےلئے مجبور ہوگیا کہ شاید یہ اس فتنہ کی روک تھام کرسکے جو ہر سال ابھارا جاتا ہے اور جس میں کچہ مسلمان ہلاک وبرباد ہوتے ہیں ,ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ.
میں نے ماہ میلاد ربیع الأول سے متعلق کچہ پہلے بی –بی سی لندن کے نشریہ سے یہ خبر سنی کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیر ابن بازحفظہ اللہ ان لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں جو میلا د نبوی کی محفل کریں, اس خبر نے عالمِ اسلام کو غیظ وغضب سے بھر دیا,میں یہ جھوٹی اور خوفناک خبر سن کرحیرت میں پڑگیا , کیونکہ حضرت مفتی صاحب کا جو قول مشہور ومعروف ہے وہ یہ ہے کہ میلاد بدعت ہے اور وہ اس سے منع فرماتے ہیں , جو شخص میلاد کی یاد گار منائے یا اس کی محفل قائم کرے وہ اس کی تکفیر نہیں کرتے ,غالباً یہ ان رافضیوں کا مکروکید ہے جو مملکت سعودیہ سے بغض وحسد رکھتے ہیں کیونکہ وہاں بدعت وخرافات اور شرک وگمراہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے .
بہر حال معاملہ اہم ہے اور اہل علم پر لازم ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ کے متعلق حق بات کو واضح کریں , جس سے یہ نوبت پہنچ گئی ہےکہ مسلمان باہم ایک دوسرے سے بغض رکھنے لگے ہیں اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہیں , کتنے لوگ ازراہ خیرخواہی مجھ سے کہتے ہیں کہ :فلاں شخص کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں ,کیونکہ وہ محفل مولود کا منکرہے , محھے اس کی اس بات سے تعجب ہوتا ہے ,
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میں کہتا ہوں کہ جو شخص بدعت کا انکار کرے اور اس کو ترک کرنے کو کہے, کیا مسلمان اس کو دشمن بنا لیتے ہیں ؟ انہیں تو لازم تھا کہ اس سے محبت کرتے نہ یہ کہ اس سے بغض کرتے , اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اس کی اشاعت کی جاتی ہے کہ جو لوگ مولود کی بدعت کا انکار کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رسول £سے بغض رکھتے ہیںاور آپ سے محبت نہیں کرتے , حالانکہ یہ بدتریں جرم اور گناہ ہے جو کسی ایسے بندہ سے کیسے ہوسکتا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ؟کیونکہ رسول £سے بغض رکھنا یا آپ سے محبت نہ کرنا کھلا ہو کفر ہے , ایسے شخص کو اسلام سے ذرا بھی نستب باقی نہیں رہ جاتی , آخر میں یہ عرض ہےکہ انہیں اسباب کی بناء پر میں نے یہ رسالہ لکھا تاکہ ایک اعتبار سے تو وہ ذمہ داری ادا ہوجائے جو حق کے واضح کرنے کی عائد ہوتی ہے اوردوسری میری یہ خواہش بھی تھی کہ ہر سال ابھرنے اوراسلام کی آزمائش میں اضافہ کرنے والے اس فتنہ کی روک تھام ہو- واللہ المستعان وعلیہ التکلان .
ایک اہم علمی مقدمہ
شریعت اسلامیہ میں میلاد نبوی کا حکم معلوم کرنے کے لئے جو شخص اس رسالہ کا مطالعہ کرے میں اسے انتہائی خیرخواہی کے ساتہ یہ کہتا ہوں کہ وہ اس مقدمہ کو بہت ہی توجہ کے ساتہ کئی مرتبہ ضرور پڑھ لے ,یہاں تک کہ اس کو خوب اچھی طرح سمجہ لے , اگرچہ اس کو دس مرتبہ ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے , اور اگرنہ سمجہ میں آئے تو کسی عالم سے خوب سمجہ کر پڑھ لے تاکہ کوئی غلطی نہ رہ جائے , کیونکہ اس مقدمہ کا سمجھنا صرف مسئلہ مولود کے لئے ہی نہیں مفید ہے بکہ یہ بہت سے دینی مسائل میں مفید ہے .جس میں لوگ عام طور سے اختلافات کرتے رہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے یا سنت , اور اگر بدعت ہے تو بدعت ضلالت ہے یا بدعت حسنہ ؟
میں انشاء اللہ قارئین کے سامنے تفصیل سے بیان کروں گا اور اشارات کو قریب کروں گا . اورمثالوں سے وضاحت کروں گا , اور معنی ومراد کو قریب لانے کی کوشش کروں گا , تا کہ قاری اس مقدمہ کو سمجہ لے , جو پیچیدہ اختلافی مسائل کے سمجھنے کے کلید ہے کہ آیا وہ دین وسنت ہیں جو قابل عمل ہیں یا گمراہی اوربدعت ہے جس کا ترک کرنا اور جس سے دور رہنا ضروری اور واجب ہے-
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اب اللہ کانا م لے کر یہ کہتا ہوں کہ اے میرے مسلمان بھائی! تمہیں معلوم ہونا چاھئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول محمد £ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور ان پر لوگوں کی ہدایت اوراصلاح کے لئے اپنی کتا ب قرآن کریم نازل فرمائی تاکہ لوگ اس سے ہدایت یاب ہو کر دنیا وآخرت میں کامیابی وسعادت حاصل کریں , جیساکہ اللہ نے ارشاد فرمایا: [ النساء] اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے , سو جولوگ اللہ پر ایمان لائے , اور انہوں نے اللہ کو مضبوط پکڑا , سو ایسوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کریں گے ,اور اپنے فضل میں , اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ بتلا دیں گے.(1)
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کی ہدایت اور اصلاح جس سے روح میں کمال اور اخلاق میں حُسن وفضیلت حاصل ہو اس وحی الہی کے بغیر نہیں ہوسکتی جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جلوہ گر ہے , کیونکہ اللہ تعالى أحکام کی وحی فرماتے ہیں اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تبلیغ فرماتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں اور اہل ایمان اس پر عمل کرتے ہیں , اور اس طرح وہ کمال وسعادت کی نعمت سے ہم کنار ہوتےہیں –
اے معززقاری! ہم قسم کھا کرکہتے ہیں کہ ہدایت اور اصلاح کے بعد اس راستہ کے سوا کوئی اور راستہ کمال وسعادت کے حصول کا نہیں ہے , اور وہ راستہ ہے وحی الہی پر عمل کرنا جوکتاب وسنت میں موجود ہے
محترم قارئیں !اس کا رازیہ ہے کہ اللہ تعالى سارے جہاں کا رب ہے ,یعنی ان کا خالق ومربی اور ان کے تما م معا ملات کی تدبیر وانتظام کرنے والا اور انکا مالک ہے , سارے لوگ اپنے وجود میں اوراپنی پیدائش میں , اپنے رزق وامداد میں اور تربیت وہدایت اور اصلاج میں دونوں جہاں کی زندگی کی تکمیل وسعادت کے لئے اس کے محتا ج محض ہیں , اللہ تعالى نے تخلیق کے کچہ قوانین مقرر فرمائے ہیں , انہی قوانین کے مطابق وہ انجام پاتی ہے اور وہ قانوں ہے نر اورمادہ کے باہم اختلاط کا , اسی طرح اللہ تعالى نے مخلوق کی ہدایت اوراصلاح کا بھی قانون مقرر فرمادیا ہے اور جس طرح تخلیق کا عمل بغیر اس کے قانون کے نہیں انجام پاسکتا جو لوگوں میں جاری ہے اسی طرح ہدایت اور اصلاح کا کام بھی اللہ تعالى کے قانون کے مطابق ہی انجام پاتا ہے اور وہ قانون ہے ان احکام وتعلیمات پر عمل کرنا جو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول حضرت محمد £کی زبان مبارک پر مشروع فرمادیا ہے ,اور ان کو اس طریقہ کے مطابق نافذ اور جاری کرنا جو طریقہ رسول £نے بیان فرمایا ہے . اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کوئی بھی ایسی ہدایت یا سعادت یا کمال جو اللہ تعالى کے مشروع کئے ہوئے طریق کے علاوہ کسی اور طریق سے آئے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے .
تم باطل دین والوں کو مثلاً یہودونصارى اورمجوسیوں وغیرہ کو دیکھتے ہو تو کیا یہ سب راہ ہدایت پاگئے ہیں یاکمال وسعادت سے حصہ پا چکے ہیں ؟ہرگز نہیں اور وجہ ظاہر ہے کہ یہ سب اللہ تعالى کےنازل کئے ہوئے طریقے نہیں ہیں,اسی طرح ہم ان قوانین کو دیکھتے ہیں جن کو انسانوں نے عدل وانصاف کے حصول , لوگوں کے مال وجان , ان کی عزت وآبرو کی حفاظت اوران کے اخلاق کی تکمیل کے لئے بنائے ہیں ,کیا یہ قوانین جس مقصد کے لئے بنائے گئے تھے وہ مقصد حاصل ہوئے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں , کیونکہ زمین جرائم اورہلاکت خیزیوں سے بھری ہوئی ہے , اسی طرح امت اسلامیہ کے اندر اہل بدعت کو دیکھتے ہیں , بدعتیوں میں بھی زیادہ پست اور گھٹیا درجہ کے لوگ ہیں , نیز اسی طرح اور بھی اکثرمسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون سے ہٹ کر انسان کے بنائے ہوئے قانوں کی طرف مائل ہوئے تو ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا ,ان کا مرتبہ گھٹ گیا اوروہ ذلیل ورسوا ہوگئے ,اور اس کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ وحی الہی کو چھوڑکردوسرے طریقوں پر عمل کرتے ہیں غور سے سنو اور دیکھو کہ اللہ تعالى شریعت اسلامیہ کے علاوہ ہر قانون وشریعت کی کیسی مذمت فرمارہے ہیں .ارشاد باری تعالى ہے : {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} (21) سورة الشورى]
"کیا ان لوگوں نے ایسے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ابھی ہی ان میں فیصلہ کردیا جاتا, یقیناً ان ظالموں کے لئے ہی دردناک عذاب ہے ".
اور رسول £فرماتے ہیں کہ (من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فہوردّ)" جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (یعنی مقبول نہیں ہے " اور فرمایا ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ) (مسلم)" اور جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ رد ہے یعنی مقبول نہیں ہے ". اور اس پر اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا , اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالى نے جس امر کو مشروع نہیں فرمایا ہے وہ عمل نفس کے تزکیہ وتطہیر میں مؤثر نہیں ہوسکتا ,کیونکہ وہ تطہیروتزکیہ کے اس مادہ سے خالی ہے جو اللہ تعالى نے ان اعمال میں پیدا فرمایا ہے , جن کو مشروع کیا ہے اور جن کے کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے .
دیکھو اللہ تعالى نے اناج, پھلوں اور گوشت کے اندر کس طرح غذائیت کا مادہ پیدا فرمادیا ہے , لہذا ان کے کھانے سے جسم کو غذا ملتی ہے جس سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے اور قوت کی حفاظت ہوتی ہے اور مٹی لکڑی اور ہڈی کو دیکھو کہ اللہ تعالی نے ان کو غذائیت کے مادہ سے خالی رکھا ہے .اسلئے یہ غذائیت نہیں پہنچا تیں ,اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ بدعت پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے مٹی , ایندھن اور لکڑی سے غذائیت حاصل کرنا , اگر ان چیزوں کا کھانے والا غذائیت حاصل نہیں کرسکتا تو بدعت پر عمل کرنے والے کی روح بھی پاک وصاف نہیں ہوسکتی اس بناء پر ہر ایسا عمل جس کے ذریعہ اللہ تعالى کے تقرب کی نیت کی جائے تاکہ شقاوت ونقصان سے نجات و کمال اورسعادت حاصل ہو , سب سے پہلے ان اعمال میں سے ہونا چاہئے جن کو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول £کی زبان پر مشروع فرمایا ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ اسی طریقہ سے اداکیا جائے جس طریقہ سے رسول £نے ادا فرمایا ہے , اس میں اس کی کمیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کی تعداد میں زیادتی ہو اور نہ کمی , اور کیفیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کے کسی جزء کو کسی جزءپر مقدم ومؤخرنہ کیا جائے ,اور وقت کی رعایت اسطرح ہو کہ وقت غیرمعینہ میں اس کو نہ کرےاورجگہ کی بھی رعایت ہو کہ جس جگہ کو شریعت نے مقرر کردیا ہے اس کے علاوہ اسکو دوسری جگہ ادانہ کرے , اور کرنے والا اس سے اللہ کی اطاعت وفرمابرداری اوراس کی رضا وخوشنودی اور قرب کے حصول کی نیت کرے اسلئے کہ ان شروط میں سے کسی ایک کے نہ پائے جانے سے وہ عمل باطل ہوجائے گا ,وہ شروط یہی ہیں کہ وہ عمل مشروع ہو اور اس کو اسی طریقہ سے ادا کرے جس طریقہ سے رسول £نے اداکیا ہے اور اس سے صرف اللہ تعالی کی رضامندی کی نیت رکھے کہ غیر اللہ کی طرف توجہ اور التفات نہ کرے , اورجب عمل باطل ہو جائے گا تو وہ نفس کے تزکیہ اور تطہیر میں مؤثر نہیں ہو گا , بلکہ ممکن ہے کہ اس کی گندگی اور نجاست کا سبب بن جائے , مجھے مہلت دیجئے تو میں یہ حقیقت ذیل کی مثالوں سے واضح کردوں :
1-نماز :كتاب الله سے اس کی مشروعیت ثابت ہے , اللہ تعالى کا ارشاد ہے: فَأَقِيمُوا الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (١٠٣) النساء]" پس نماز کو قاعدہ کے مطابق پڑھو ,یقیناًنماز مومنوں پرمقررہ وقتتوں پر فرض ہے"
اور سنت سے بھی ثابت ہے ,رسول £ نے ارشاد فرمایا " خمس صلوات کتبھن اللہ "000 الحدیث (رواہ مالک)"پانچ نمازیں ہیں اللہ نے انھیں فرض کیا ہے " اب غور کرو کہ کیا بندہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے اور جس وقت چاہے اور جس جگہ چاہے نماز پڑھ لے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں :بلكہ دوسری حیثیتوں یعنی تعداد وکیفیت اور وقت وجگہ کی رعایت بھی ضروری ہے ,لہذا اگر مغرب میں جان بوجہ کر ایک رکعت کا اضافہ کرکے چار رکعت پڑھ لے تو نماز باطل ہوجائے گی , اور فجر کی نماز میں ایک رکعت کم کرکے ایک ہی رکعت پڑھے تو وہ بھی صحیح نہیں , اور اسی طرح اگر کیفیت کی رعایت نہ کرے کہ ایک رکن کو دوسرے رکن پرمقدم کردے تو بھی صحیح نہیں , اور اسی طرح وقت اور جگہ کا بھی حال ہے کہ اگر مغرب غروب آفتاب سے پہلے پڑھ لے, یاظہر زوال سے پہلے پڑھ لے تو نماز صحیح نہ ہوگی , اسی طرح اگر مذبح یا کوڑی خانہ میں نماز پڑھےتو بھی نماز صحیح نہ ہوگی , کیونکہ اس کے لئے جیسی جگہ شرط ہے یہ ویسی جگہ نہیں ہے
2-حج: اس کی بھی مشروعیت کتاب وسنت دونوں سے ثابت ہے اللہ تعالى کا ارشاد ہے :وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (٩٧)
آل عمران ]
"اللہ نے ان لوگوں پر جو اسکی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیاہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالى (اس سے بلکہ ) تما م دنیا سے بے پرواہ ہے " اور رسول £نے ارشاد فرمایا کہ "اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے پس تم حج کرو"(رواہ مسلم)
اب یہ دیکھوکہ کیا بندہ کو یہ حق ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے حج کرلے ؟یہاں بھی جواب نہیں میں ہے , بلکہ اس کے ذمہ لازم ہے کہ چاروں حیثیتوں کی رعایت کرے ورنہ تو اسکا حج صحیح نہ ہوگا ,یعنی کمیت (مقدار) کی , پس طواف اور سعی میں شوط(چکّر) کے عدد کی رعایت کرے , اگر عمداً اس میں کمی یا زیادتی کی تو وہ فاسد ہوجائگا , اور کیفیت کی رعایت کرے , چنانچہ اگر طواف احرام سے پہلے کرلیا, یا سعی طواف سے پہلے کرلی تو حج صحیح نہ ہوگا , اور وقت کی رعایت کرے ,چنانچہ اگر وقوف عرفہ 9ذی الحجہ کے علاوہ کسی اوروقت ہو تو صحیح نہ ہوگا , اور جگہ اورمقام کی رعایت کرے , چنانچہ اگربیت الحرام کے سوا کسی اور جگہ کا طواف کرے یا صفا ومروہ کے علاوہ کسی دوسری دو جگہوں کے درمیان سعی کرے یا عرفہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ وقوف کرے تو حج نہ ہوگا .
3-روزہ: یہ بھی عبادت مشروعہ ہے ,اللہ تعالى فرماتا ہے کہ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (١٨٣)
البقرة] اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے اور رسول £نے ارشاد فرمایا کہ :" چاند دیکھ کرروزہ رکھو اورچاند دیکھکر افطار کرو پس اگر بدلی ہوجائے تو شعبان کو تیس دن پوراکرلو"(بخاری ومسلم)
اب کیا بندہ کویہ حق حاصل ہے جس طرح چاہے اورجب چاہے روزہ رکھے , جواب نہیں میں ہے , بلکہ چاروں حیثیتوں کی رعایت ضروری ہے , یعنی کمیت (مقدار) کی ,پس اگر انتیس یا تیس سے کم رکھے گا تو روزہ صحیح نہ ہوگا , اسی طرح اگر ایک دن یا کئی دن کا اضافہ کرے گا ,تب بھی صحیح نہ ہوگا کیونکہ اس نے مقدار اورتعداد میں خلل پیدا کردیا اور اللہ تعالى کا ارشاد ہے کہ (ولتکملوا العِدّۃ)"اور تاکہ تم شمار پورا کرو" اسی طرح کیفیت کی رعایت بھی ضروری ہے , اگر اس میں بھی اس نے تقدیم وتاخیر کردی کہ رات میں روزہ رہا اوردن میں افطار کیا تو یہ بھی صحیح نہیں اور زمانہ کی بھی رعایت ضروری ہے , چنانچہ اگر رمضان کے بدلہ شعبان یا شوال میں روزہ رہا تو یہ بھی صحیح نہیں, اورجگہ اورمکان کی بھی رعایت ضروری ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہے , جوروزہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو’ لہذا اگر حائضہ یا نفاس والی عورت روزہ رکھے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا –اسی طرح تمام عبادتوں کا حال ہے کہ اسی وقت صحیح اور قبول ہوتی ہیں جب ان کے تمام شرائط کی رعایت کی جائے , اوروہ شرائط یہ ہیں :
1- يہ کہ ان کی مشروعیت وحی الہی سے ہوئی ہو , کیونکہ رسول £کا ارشاد ہے کہ ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ)( مسلم) "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے " یعنی قابل قبول نہیں .
2-یہ کہ اسکو صحیح طور پر اداکرے اورچاروں حیثیات یعنی کمیت ومقدار اور کیفیت یعنی وہ طریقہ جس کے مطابق وہ عبادت اداکی جائے اور زمانہ جواس کے لئے مقرر کیا گیا ہے اورجگہ جو اس کے لئے متعین کی گئی ہے اس کا لحاظ اور اسکی رعایت ہو.
3- اوروہ خالص اللہ تعالى کے لئے ہو اس میں کسی اور کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ کا شریک نہ ٹھرائے ’
اے مسلمان بھائی! اس وجہ سے بدعت باطل اور گمراہی ہے ,باطل تو اسلئے ہے کہ وہ روح کو پاک نہیں کرتی , کیونکہ وہ اللہ تعالى کی مشروع کی ہوئی نہیں ہے , یعنی اس کے لئے اللہ اوررسول £کا حکم نہیں ہے , اور ضلالت وگمراہی اس لئے ہے کہ بدعت نے بدعتی کو حق سے جھٹکا دیا اور اس شرعی عمل سے اس کو دور کردیا جو اس کے نفس کا تزکیہ کرتا اورجس پر اس کا پروردگار اس کو جزاوثواب عطا کرتا .
تنبیہ: برادر مسلم !آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو عبادت کتاب وسنت سے مشروع ہے یعنی جس کے لئے اللہ ورسول کا حکم ہے کبھی کبھی اس میں بدعت خواہ اس کی کمیت میں یا اس کی کیفیت یا زمان ومکان مین داخل ہوجاتی ہے , اوروہ اس عبادت کرنے والے کے عمل کو غارت کردیتی ہے اوراس کو ثواب سے محروم کردیتی ہے ,یہاں پر ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں " ذکراللہ " اللہ کے ذکرکی یہ ایک عبادت ہے جوکتاب وسنت سے مشروع ہے, اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( یآأیہا اللذین آمنوا أذکرواللہ کثیرا) "اے ایمان والو!اللہ کا کثرت سے ذکر کرو" اور رسول£نے ارشاد فرمایا کہ " اس شخص کی مثال جو رب کا ذکر کرتا ہے اور جوذکر نہیں کرتا,زندہ اورمردہ کی مثال ہے "(بخاری)(1)
اور اس کی مشروعیت کے باوجود بہت سے لوگوں کےیہاں اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے , اور اس بدعت نے ان کے ذکر کو تباہ کردیا اوران کو اسکے ثمرہ اور فائدہ یعنی تزکیہ نفس , صفائے روح اور اس پر چلنے والے اجروثواب اورخوشنودی الہی سے ان کو محروم کردیا , کیونکہ بعض لوگ غیر مشروع الفاظ سے ذکر کیا کرتے ہیں مثلاً "اسم مفرد" اللہ,اللہ , اللہ,یاضمیر غائب مذکر ھو ,ھو ,ھو سے ذکر کرنا , اور بعض لوگ دسیوں مرتبہ حرف نداء کے ساتہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں , اوراس سے کچہ سوال ودعا نہیں کرتے , اس طرح جیسے یا لطیف ,یا لطیف ,یالطیف اور بعض آلات طرب کے ساتہ ذکر کرتے ہیں ,اور بعض لوگ الفاظ مشروعہ مثلاً " لاإلہ إلا اللہ " کے ساتہ ہی ذکرکرتے ہیں لیکن جماعت بناکر ایک آواز کرتے ہیں یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جس کو شارع نے نہ خودکیاہے, نہ اسکے کرنے کا حکم دیا ہے, اورنہ اسکی اجازت دی ہے, ذکر تو ایک فضیلت والی عبادت ہے
لیکن اس کی کمیت اور کیفیت اورہیئت وشکل میں جو بدعت داخل ہوگئی اس کی وجہ سے اس کا کرنے والا اس کے اجروثواب سے محروم ہوگیا ,
اب آخر میں معززقارئین کے سامنے اس مفید مقدمہ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے عرض کررہا ہوں کہ :بندہ جس عمل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تاکہ دنیا میں فضائل نفس کی تکمیل اور اپنے معاملہ کی درستگی کرلینے کے بعد آخرت میں اللہ کے عذاب سے نجات پائے اور اس کے قرب میں دائمی نعمت سے سرفراز ہو, وہ عمل اورعبادت وہی ہوسکتی ہے جو مشروع ہو , اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں جس کا حکم فرمایا ہو, یا اپنے رسول £کی زبانی جس کی ترغیب دی ہو اور یہ کہ مومن اس کو صحیح طریقہ سے ادا کرے اور چاروں حیثیات یعنی کمیت و کیفیت اور زمان ومکان کی رعایت کرے اور ساتہ ہی اس میں اللہ تعالى کے لئے اخلاص بھی ہو, پس اگر عبادت کی مشروعیت وحی الہی سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت اور ضلالت ہے, اور اگر مشروع ہے لیکن اس کی ادائیگی میں خلل اور رخنہ ہے کیونکہ اس میں اس کی چاروں حیثیات کی رعایت نہیں ہے یا اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے تو بھی وہ قربت فاسدہ اور عبادت فاسدہ ہے ,اور اگر اس میں شرک کی آمیزش ہوگئی تو پھر وہ غارت ہوجانے والی اوربالکل باطل عبادت ہے جس سے نہ کوئی راحت پہنچ سکتی ہے, اور نہ وہ کوئی بلا اور مصیبت دور کرسکتی ہے, والعیاذ باللہ
 
Last edited by a moderator:
Top