• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشاجراتِ صحابہ پر امام احمد بن حنبل رحمه الله کا موقف

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مشاجراتِ صحابہ پر امام احمد بن حنبل رحمه الله کا موقف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

❶ امام ابو عبد الله احمد بن حنبل رحمه الله فرماتے ہیں:

«‌مَنْ ‌تَنَقَّصَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَا يَنْطَوِي إِلَّا عَلَى بَلِيَّةٍ، وَلَهُ خَبِيئَةُ سَوْءٍ، إِذَا قَصَدَ إِلَى خَيْرِ النَّاسِ، وَهُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم»

’’جو شخص رسول الله ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک کی تنقیص کرتا ہے اس نے اپنے اندر مصیبت کو چھپایا ہوا ہے اس کے دل میں برائی ہے اسی وجہ سے اُن پر حملہ کرتا ہے حالانکہ وہ (انبیاء کے بعد) لوگوں میں سب سے بہترین اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب تھے۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤۷۷، رقم: ٦۵۸، إسناده صحيح ]

❷ نیز فرماتے ہیں:

« يَا أَبَا الْحسن؟ ‌إِذا ‌رَأَيْت ‌أحدا ‌يذكر أَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عليه وسلم َ -‌‌ بِسوء فاتهمه عَلَى الْإِسْلَام»

’’اے ابو الحسن؟ اگر آپ کسی شخص کو کسی صحابی کی برائی کرتے سنیں، تو آپ اس کے اسلام پر تہمت لگادیں۔‘‘


[ الحجة في بيان المحجة، ج:۲، ص:٤٢٧، رقم:٨٣١، إسناده صحيح ]

❸ نیز فرماتے ہیں:

«‌مَنْ ‌شَتَمَ ‌أَخَافُ ‌عَلَيْهِ ‌الْكُفْرَ ‌مِثْلَ ‌الرَّوَافِضِ، ‌ثُمَّ ‌قَالَ: ‌مَنْ ‌شَتَمَ ‌أَصْحَابَ ‌النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‌لَا ‌نَأْمَنُ ‌أَنْ ‌يَكُونَ ‌قَدْ ‌مَرَقَ ‌عَنِ ‌الدِّينِ»

’جو (صحابہ کو) برا بھلا کہے، مجھے اس پر کفر کا خدشہ، جیسے روافض ہیں۔ جس نے اصحاب نبی ﷺ کو برا بھلا کہا، مجھے اس کے متعلق خوف ہے کہ وہ دین سے نکل جائے۔‘‘

[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۳، ص:٤٩٣، رقم: ٧٨٠، إسناده صحيح ]

❹ امام احمد بن حنبل رحمه الله سے سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضي الله عنهماکے مابین ہونے والی جنگ کے متعلق پوچھا گیا تو آپؒ نے فرمایا:

«‌ما ‌أقول ‌فيهم إلا الحُسنى»

’میں ان سب کے متعلق اچھی بات ہی کہتا ہوں۔‘‘

[ مناقب الإمام أحمد، ص:۲۲۱، إسناده حسن ]

❺ امام احمد بن حنبل رحمه الله اصحاب رسول کا ذکر کر کے فرمایا:

«رحمهم الله اجمعين، ومعاوية وعمرو وأبو موسى الأشعري والمغيرة كلهم وصفهم الله تعالى في كتابه فقال: (سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ)»

’’الله تعالٰی ان سب پر رحمت فرمائے ،حضرت معاویہؓ، حضرت عمرو بن عاصؓ، حضرت ابو موسیٰؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سب پر الله کی رحمت ہو۔الله تعالٰی نے اپنی کتاب میں ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’سجدوں کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔‘‘


[ مناقب الإمام أحمد، ص:۲۲۱، إسناده حسن ]

❻ امام عبد الملک بن عبد الحمید المیمونیؒ (ثقة فاضل) فرماتے ہیں:

قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: أَلَيْسَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «كُلُّ صِهْرٍ وَنَسَبٍ ‌يَنْقَطِعُ إِلَّا صْهِرِي وَنَسَبِي» ؟ قَالَ: " بَلَى، قُلْتُ: وَهَذِهِ لِمُعَاوِيَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَهُ صِهْرٌ وَنَسَبٌ. قَالَ: وَسَمِعْتُ ابْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: «مَا لَهُمْ وَلِمُعَاوِيَةَ، نَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ»

’’میں نے امام احمدؒ سے کہا: کیا رسول الله ﷺ نے یہ نہیں فرمایا: ’’قیامت کے دن میری قرابت داری اور میرے نسب کے علاوہ ہر ایک کے حسب و نسب کا تعلق منقطع ہو جائے گا؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں یہ رسول الله ﷺ کا فرمان ہے، میں نے کہا تو کیا یہ تعلق داری سیدنا معاویہؓ کو حاصل ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: بالکل یہ شرف ان کو بھی حاصل ہے، فرمایا: جو ان کے لئے ہیں اور وہ سیدنا معاویہؓ کے لئے بھی ہیں، ہم اللہ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٣٢، رقم:٦٥٤، إسناده صحيح ]

❼ امام إسحاق بن إبراهيم بن هانئ النيسابوري (ت ٢٤١ھ) بیان کرتے ہیں:

«وسئل عن الذي يشتم معاوية، أَيُصَلَّى خلفه؟ قال: لا يُصَلَّى خلفه، ولا كرامة»

’’امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ جو شخص سیدنا معاویہؓ کو برا بھلا کہتا ہو، کیا اس کے پیچھے نماز ادا کی جاسکتی ہے؟ فرمایا: اس کے پیچھے نماز ادا نہیں کی جاسکتی، نہ اس کی عزت کی جائے گی۔‘‘


[ مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية إسحاق بن إبراهيم بن هانئ النيسابوري، ج:۱، ص:٦٠، رقم:٢٩٦ ]

❽ امام ہارون بن عبدا للہ بزاز رحمه الله نے امام احمد بن حنبل رحمه الله سے کہا:

«جَاءَنِي كِتَابٌ مِنَ الرَّقَّةِ أَنَّ قَوْمًا قَالُوا: لَا نَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، فَغَضِبَ وَقَالَ: مَا اعْتِرَاضُهُمْ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ، يُجْفَوْنَ حَتَّى يَتُوبُوا»

’مجھے ’’رقہ‘‘ علاقے سے خط آیا کہ ایک گروہ نے کہا ہے: ہم معاویہ رضي الله عنه کو ’’خال المومنین‘‘ (مومنوں کے ماموں) نہیں سمجھتے، تو امام احمد بن حنبل رحمه الله غصے ہوئے اور فرمایا: اس لقب پر انہیں آخر اعتراض کیا ہے؟ ایسے لوگوں سے بایئکاٹ کیا جائے، تا آنکہ وہ توبہ کرلیں۔‘‘

[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٣٤، رقم:٦٥٨، إسناده صحيح ]

❾ امام ابو حارث احمد بن محمد صائغ رحمه الله بیان کرتے ہیں:

«وَجَّهْنَا رُقْعَةً إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ فِيمَنْ قَالَ: لَا أَقُولُ إِنَّ مُعَاوِيَةَ كَاتَبُ الْوَحْيِ، وَلَا أَقُولُ إِنَّهُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ أَخَذَهَا بِالسَّيْفِ غَصْبًا؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُ سَوْءٍ رَدِيءٌ، يُجَانَبُونَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، وَلَا يُجَالَسُونَ، وَنُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ لِلنَّاسِ»

’’ہم نے ابو عبد اللہ امام احمد بن حنبل رحمه الله کو خط لکھا کہ آپ ایسے شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں، جس کا دعویٰ ہو کہ میں معاویہ رضي الله عنه کو کاتب وحی نہیں مانتا اور نہ ہی انہیں خال المومنین (مومنوں کے ماموں) تسلیم کرتا ہوں، انہوں نے بزور شمشیر غصب کی؟ فرمایا: یہ بات انتہائی بری اور ناقابل التفات ہے، ایسوں سے کنارہ کشی کی جائے، ان کی مجلس اختیار نہ کی جائے اور ان کی گم راہیاں عوام الناس میں بیان کی جائیں۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٣٤، رقم:٦٥۹، إسناده صحيح ]

❿ امام احمد بن حمید ابو طالب رحمه الله نے ابو عبد الله احمد بن حنبلؒ سے پوچھا:

«أَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ وَابْنُ عُمَرَ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مُعَاوِيَةُ أَخُو أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَحِمَهُمَا، وَابْنُ عُمَرَ أَخُو حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَحِمَهُمَا، قُلْتُ: أَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ»

’’کیا میں کہوں گا: معاویہؓ خال المومنین ہیں؟ اور ابن عمرؓ خال المومنین ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: ہاں، معاویہ نبی ﷺ کی زوجہ امِ حبیبہ بنتِ ابی سفیان کے بھائی ہیں، اور الله ان پر رحمت نازل فرمائے۔ اور ابن عمرؓ نبی ﷺ کی زوجہ حفصہؓ کے بھائی ہیں، اور الله ان پر رحمت نازل فرمائے۔ میں نے کہا: کیا میں کہوں گا: معاویہؓ خال المومنین ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: ہاں۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٣۳، رقم:٦٥۷، إسناده صحيح ]

⓫ امام یوسف بن موسی بن راشد رحمه الله فرماتے ہیں:

«أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ سُئِلَ عَنْ ‌رَجُلٍ ‌شَتَمَ ‌مُعَاوِيَةَ، يُصَيِّرُهُ إِلَى السُّلْطَانِ؟ قَالَ: «أَخْلَقُ أَنْ يُتَعَدَّى عَلَيْهِ»

’’امام ابو عبد الله احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو سیدنا معاویہ رضي الله عنه کو گالی دیتا ہے اس کو کوئی حکمران کے پاس لے جائے؟ آپؒ نے فرمایا لائق ترین یہی ہے کہ اسے سزا دی جائے۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٤۸، رقم:٦۹۲، إسناده صحيح ]

⓬ ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا:

«يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، لِي خَالٌ ذَكَرَ أَنَّهُ يَنْتَقِصُ مُعَاوِيَةَ، وَرُبَّمَا أَكَلْتُ مَعَهُ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُبَادِرًا: «لَا تَأْكُلْ مَعَهُ»

’’اے ابو عبد الله، میرے ماموں کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے کہ معاویہؓ کی تنقیص کرتا ہے، اور میں کبھی کبھار اس کے ساتھ کھاتا ہوں تو ابو عبد الله (امام احمد بن حنبل) نے فوراً فرمایا: اس کے ساتھ مت کھانا۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٤۸، رقم:٦۹۳، إسناده صحيح ]

⓭ امام احمد بن حنبل رحمه الله سے پوچھا گیا:

«أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَدًا»

’’معاویہؓ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیزؒ؟ فرمایا: معاویہؓ ہی افضل ہیں، ہم اصحاب رسول کا کسی کے ساتھ موازنہ نہیں کرتے۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤۳٤، رقم: ٦٦۰، إسناده صحيح ]

⓮ امام ابو عبدا لله احمد بن حنبل رحمه الله سے پوچھا گیا:

«يُكْتَبُ عَنِ الرَّجُلِ، إِذَا قَالَ: مُعَاوِيَةُ مَاتَ عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ أَوْ كَافِرٌ؟ قَالَ:لَا، ثُمَّ قَالَ: ‌لَا ‌يُكَفَّرُ ‌رَجُلٌ ‌مِنْ ‌أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم»

’’کیا ہم اس شخص سے (حدیث) لکھ سکتے ہیں جو کہتا ہے کہ حضرت معاویہؓ بغیر اسلام کے یا کافر ہو کر فوت ہوئی؟ آپؒ نے فرمایا: نہیں، پھر آپؒ نے فرمایا: اصحاب رسول الله ﷺ میں سے کسی کو بھی کافر قرار نہیں دیا جاتا۔‘‘


[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ج:۲، ص:٤٤۷، رقم: ٦۹۱، إسناده صحيح ]

⓯ امام احمد بن جعفر بن یعقوب ابو العباس الاصطخری رحمه الله نے امام احمد بن حنبل رحمه الله سے اھل السنۃ کے عقیدہ کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، ان میں صحابہ کرام رضي الله عنهم کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:

«‌ذكر ‌محاسن ‌أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم أجمعين، والكف عن ذكر مساويهم، والخلاف الذى شجر بينهم. فمن سبّ أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أحدا منهم، أو تنقّصه أو طعن عليهم، أو عرّض بعيبهم، أو عاب أحدا منهم: فهو متبدع رافضى خبيث مخالف، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا. بل حبهم سنة، والدّعاء لهم قربة، والاقتداء بهم وسيلة، والأخذ بآثارهم فضيلة....لا يجوز لأحد أن يذكر شيئا من مساويهم، ولا يطعن على أحد منهم بعيب، ولا بنقص. فمن فعل ذلك فقد وجب على السّلطان تأديبه وعقوبته، ليس له أن يعفو عنه، بل يعاقبه ويستتيبه، فان تاب قبل منه، وإن ثبت عاد عليه بالعقوبة وخلّده الحبس، حتى يموت أو يراجع»

’’یعنی رسول الله ﷺ کے صحابہ کے محاسن ذکر کئے جائیں اور ان کی خطاؤں کو ذکر کرنے اور ان کے مابین ہونے والے مشاجرات بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے، جو کوئی صحابہ کرام رضي الله عنهم یا ان میں سے کسی ایک کو گالی دیتا ہے یا ان کی تنقیص کرتا ہے یا ان پر طعن و ملامت کرتا ہے یا ان کو عیب ناک کرنے کے درپے ہوتا ہے یا ان میں سے کسی ایک کو عیب لگاتا ہے تو وہ خبیث بدعتی رافضی ہے، اللہ تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا نہ نفل، بلکہ صحابہ کرام رضي الله عنهم سے محبت سنت ہے ان کے لئے دعا قربت کا ذریعہ ہے ان کی اقتداء وسیلہ ظفر ہے اور ان کے آثار کی اتباع میں بڑا درجہ ہے۔۔۔کسی کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ ان کی کمزوریوں کو ذکر کرے اور کسی عیب اور نقص کی بنا پر ان میں سے کسی ایک پر بھی طعن کیا جائے۔ جو ایسا کرے حاکم پر واجب ہے کہ وہ اس کو سزا دے اسے معاف نہ کرے اور اس سے توبہ کرائی جائے، اگر تو بہ کرے فبھا ورنہ پھر اسے سزادے اور ہمیشہ قید خانہ میں رکھے تا آنکہ وہ اس سے رجوع کرے یا مر جائے۔‘‘


[ طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى –ت الفقي، ج:۱، ص:۳۰ ]

⓰ امام احمد بن حنبل رحمه الله کے ایک اور شاگرد امام محمد بن حبیب الاندرانی رحمه الله امام صاحب سے اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

«وترحم على جميع أصحاب محمد صغيرهم ‌وكبيرهم. وحدث بفضائلهم وأمسك عما شجر بينهم»

’’حضرت محمد رسول الله ﷺ کے سب صحابہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے کے حق میں رحمت کی دعاء کرو، ان کے فضائل بیان کرو اور ان کے درمیان ہونے والے مشاجرات سے اجتناب کرو۔‘‘


[ طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى –ت الفقي، ج:۱، ص:٢٩٤ ]

⓱ امام احمد بن حنبل رحمه الله کے ایک اور شاگرد امام مسدد بن مسرهد مسربل البصری رحمه الله نے جب امام احمد بن حنبلؒ سے اہل السنتہ کے عقیدہ کی وضاحت چاہی تو امام صاحب نے اس کی جو تفصیل بیان کی اس میں یہ بھی فرمایا:

«‌والكف ‌عن ‌مساوئ أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، تحدثوا بفضائلهم وأمسكوا عما شجر بينهم»

’’رسول الله ﷺ کے صحابہ کرام رضي الله عنهم کی خطاؤں سے خاموشی اختیار کی جائے، ان کے فضائل کو بیان کیا جائے اور ان کے آپس میں مشاجرات سے اجتناب کیا جائے۔“


[ طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى –ت الفقي، ج:۱، ص:۳٤٤ ]

⓲ امام محمد بن احمد ابو علی الھاشمی القاضی رحمه الله کا شمار امام احمدؒ کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے۔ موصوف عقیدہ اہل السنتہ کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

«ولا ‌نبحث ‌عن ‌اختلافهم فى أمرهم، ونمسك عن الخوض فى ذكرهم، إلا بأحسن الذكر لهم۔۔۔ولا ندخل فيما شجر بينهم »

’’ہم ان کے کسی معاملہ میں اختلاف کے متعلق بحث نہیں کرتے اور اچھے ذکر کے علاوہ ان کے ذکر میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور ان کے باہم مشاجرات میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتے۔‘‘


[ طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى –ت الفقي، ج:۲، ص:۱۸۵ ]
 
Top