• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشرقی ترکستان

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
مشرقی ترکستان


محمود بیومی
مترجم: محمد زکریا

مشرقی ترکستان چین میں مسلم اقلیت پر مشتمل خطے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ چین کے مقبوضات میں سے ایک اسلامی مستقل شناخت رکھنے والے وسیع خطے کا نام ہے۔ سنکیان جو اپنی اسلامی شناخت کو بچانے کیلئے کوشاں ہے تو یہ چین کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ غاصب ملک کے قبضے سے آزادی پانے کی جدوجہد ہے۔ اقوام عالم میں یہ ایک مفتوحہ قوم کا تسلیم شدہ حق ہے اور اسلامی اصطلاح میں جہاد کہلاتا ہے۔
گویا مشرقی ترکستان قصہ پارینہ ہے۔ مسلم اُمہ کے اذہان میں جگہ نہ پا سکنے والے کاشغر کا خطہ۔ اُمت مسلمہ پر پے درپے ایسے مصائب آئے ہیں کہ اُن میں گھر کر کتنے ہی مسائل اپنی طرف توجہ ہی مبذول نہیں کرا سکے۔ انہیں فراموش کردہ مسائل میں مشرقی ترکستان کا بھی شمار ہوتا ہے جو چین کے جابرانہ تسلط میں اپنا اسلامی تشخص گم کرتا جا رہا ہے۔ چین گزشتہ کئی سالوں سے مشرقی ترکستان کے اسلامی شناخت پر مبنی تاریخی ورثے کو مٹاتا چلا جا رہا ہے۔ چین نے اس علاقے پر قبضہ جما کر اسے سنکیان کے نام سے اپنا ایک صوبہ (شينگ) قرار دے دیا ہے۔ چین کے قبضے سے لے کر آج تک اِس غاصبانہ قبضے کے خلاف عالم اسلام سے کوئی آواز نہیں اٹھی ہے۔
مشرقی ترکستان میں اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے چین ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کر رہا ہے، اپنے مذموم مقاصد کیلئے چین مخلوط تربیتی پروگرام ترتیب دیتا ہے تاکہ وہاں بداخلاقی اور زناکاری کو فروغ حاصل ہو اور اسلام مردوزن کو جس اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس کا برسرعام تمسخر اڑا سکے۔ مقامی مسلمان قائدین نے جب ایسے تربیتی پروگرام کے خلاف آواز بلند کی تو چین نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا۔ ان قتل ہونے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے قائدین میں چند نامور نام بھی تھے جنہوں نے ترکستان میں قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں جن میں عبدالرحیم عیسٰی، عبدالرحیم سیری اور عبدالعزیز قاری جیسے نام شامل ہیں۔
دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل مشرقی ترکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے اور بالخصوص عقیدہ اسلام کو مسخ کرنے کیلئے چین نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
چین جیسے دیوہیکل ملک سے اپنے اسلامی تشخص کو بچانے کیلئے وہ تنہا ہی برسرپیکار رہتے ہیں۔ یہاں بسنے والے مسلمان یہ حق رکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں بسنے والے مسلمان ان کی تاریخ، ثقافت اور جہاد سے روشناس ہوں اور دُنیا میں ان پر جو ظلم اور غاصبانہ قبضہ کیا گیا ہے اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک ہنستا بستا مسلم آبادی والا خطہ خاموشی سے چین کے قبضے میں چلا گیا۔
آپ کو نقشے میں مشرقی ترکستان نامی کوئی ملک نہیں ملے گا۔ مشرقی ترکستان سیاسی لحاظ سے سنکیان ہے جو چین کے نقشے میں آپ کو ملے گا۔
متحدہ ترکستان کو ہتھیانے کیلئے روس اور چین کے مابین بارہا چپقلش رہی ہے بالآخر دونوں نے متحدہ ترکستان کو تقسیم کرلیا اور مغربی ترکستان پر روس کا قبضہ اور مشرقی ترکستان پر چین کا قبضہ بلاکسی بین الاقوامی مداخلت کے قبول کرلیا گیا۔
مشرقی ترکستان رقبہ کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے اس کی آبادی دو کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور مسلمان واضح ترین اکثریت میں ہیں۔ مشرقی ترکستان کا دارالحکومت کاشغر ہے جسے قتیبہ بن مسلم باھلی نے فتح کیا تھا۔ اُس زمانے میں ترکستان کا اسلامی شناخت پر مشتمل نیلے رنگ کا پرچم تھا جس میں روپہلی چاند تارا چمکتا دمکتا نظر آتا تھا۔
١٩٤٥ءسے ہی چین نے مشرقی ترکستان کو کئی خطوں میں تقسیم کردیا تھا اور شہروں اور قصبوں کے نام بھی تبدیل کر دیئے تھے۔ ابتدائی سالوں میں مساجد مقفل ہوا کرتی تھیں لیکن بعد میں حکومت کی کڑی نگرانی میں مساجد کھلنے کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔
ترکستانی مسلمان چین کے اس قبضے سے کبھی مطمئن نہیں ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ ترکستان میں چین سے آزادی کی تحریکیں اٹھتی رہتی ہیں۔ چین کا پہلا قبضہ ١٧٦٠ءمیں ہوا تھا ١٨٦٣ءمیں آزادی کی پرزور تحریک اٹھی اور اُس نے مشرقی ترکستان کو واگزار کرا لیا۔ یعقوب خان بادولت کی قیادت میں مشرقی ترکستان ایک مستقل ملک قرار پایا اور یعقوب خان نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان کی بیعت کا اقرار کیا۔
روس اور چین وسطی ایشیا میں بھلا کسی آزاد مسلم اسلامی ملک کو کب گوارا کرتے تھے چنانچہ محض تیرہ برس بعد چین نے مشرقی ترکستان پر قبضہ کرلیا۔
ترکستان کی تاریخ کے مطابق امیر معاویہ کے دور میں ہی اہل کاشغر اسلام سے شناسائی حاصل کر چکے تھے، عبدالکریم صادق بوگرا خان حاکم ترکستان کے قبول اسلام کے ساتھ ہی ٩٦٠ءمیں اسلام پورے ترکستان میں پھیل گیا تھا بلکہ وسطی چین کی طرف دعوت اِسلام پہنچانے کا فریضہ بھی ترکستان نے انجام دیا تھا۔ عربی زبان میں دینِ اِسلام کی تعلیم کا رواج بھی اِسی زمانے میں ہوا تھا۔
ترکستان کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا قطعاً خلاف ضابطہ نہیں ہے اور نہ ایسا سمجھنا چاہیے، مشرقی ترکستان ایک اختلافی مسئلہ ہے جس پر چین کا قبضہ چلا آرہا ہے مشرقی ترکستان چین کا صوبہ نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی ملک پر چین نے قبضہ کیا ہے اور یہاں کی مسلم آبادی کو کسی صورت میں چین کی اقلیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مشرقی ترکستان کے مسلمان کبھی اس قبضے سے مطمئن نہیں ہوئے اور برسوں سے اپنے اسلامی تشخص کے احیاءکیلئے جہاد کر رہے ہیں اور قربانیوں کی داستان لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس طویل جہاد میں اب تک دس لاکھ نفوس قربانی دے چکے ہیں، جہاں مغربی ترکستان روس کے تسلط سے چھٹکارا پاکر آزاد ہو چکا ہے وہاں مشرقی ترکستان بھی پیچھے رہنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ہی خطہ ہے جسے روس اور چین نے اپنے درمیان تقسیم کر رکھا تھا مشرقی ترکستان کے مسلمان ابھی تھکے نہیں ہیں اور نہ ہی اُمت مسلمہ کی ہمدردیوں سے مایوس ہیں۔ اُن کا مبارک جہاد اسلامی مملکت کے قیام تک جاری وساری ہے۔
مشرقی ترکستان میں جہاد کی شمع بجھائی نہیں جا سکی، ١٩٣١ءمیں مشرقی ترکستان کا بیشتر حصہ واگزار کرا لیا گیا تھا۔ ١٩٣٣ءمیں مشرقی ترکستان نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور کاشغر کو دارالحکومت قرار دیا گیا مگر روس چین گٹھ جوڑ سے یہ آزادی برقرار نہ رہ سکی۔ ایک مرتبہ پھر ١٩٤٤ءمیں دو صوبے آزاد کرا لئے گئے اور ایلی کو صدر مقام قرار دیا گیا۔ مشرقی ترکستان کی اِس چھوٹی سی مملکت نے باقی علاقے بھی آزاد کرانے میں پیش رفت جاری رکھی لیکن روسی اور چینی تعاون پھر اِس کی کامیابی میں آڑے آیا، دوسری طرف اسلامی ممالک سے اس تحریک کے لئے کوئی آواز اور حمایت نہ مل سکی اور نہ ہی اِس مسئلہ کو اسلامی ممالک نے کسی بین الاقوامی فورم پر اٹھایا، یہی وجہ ہے کہ مشرقی ترکستان کی تاریخ اور جہادی سرگرمیوں سے مسلمانوں کی کثیر تعداد ناواقف ہے۔
اگرچہ مسئلہ فلسطین اور گیارہ ستمبر جیسے گھمبیر مسائل کے بارے میں مسلمانوں کے ذرائع ابلاغ بہت کچھ لکھتے رہے ہیں اور ابلاغ عامہ میں تقریباً ہر روز ان کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے مشرقی ترکستان مسلمانوں کے ابلاغ عامہ میں کوئی خاص جگہ نہیں پا سکا۔ اس مسئلے کو سیاسی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر فراموش کر دینے کا نتیجہ اس طرح نکلا ہے کہ مسلمانوں کا ایک وسیع قطعہ اراضی چین نے ہتھیا کر وہاں کے مسلمانوں کو باقی اُمت سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کی سرزمین اور وہاں کے باشندے ہرگز اس لائق نہیں کہ اُن کی اسلامی شناخت آہستہ آہستہ چین کے الحاد میں تحلیل ہونے کیلئے چھوڑ دی جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ مشرقی ترکستان میں اسلامی شناخت کو ختم کرنے کیلئے چین ایک طرف تو وہاں چین کے غیر مسلم اقوام کو لا کر بسا رہا ہے تاکہ مسلم آبادی غالب ترین اکثریت نہ رہ سکے یا کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ایک معتدبہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی دکھلائی جا سکے اور دوسری طرف اسلامی عقیدے کو مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کے ذہن سے محو کرنے کیلئے مختلف حربے بھی استعمال کر رہا ہے اور تیسری طرف روس کی طرح چین بھی یہاں کی معدنی اور زرعی پیداوار کو نچوڑ کر دوسرے صوبوں میں لے جاتا ہے۔
مشرقی ترکستان کے معدنی وسائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں ١٢١ اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ کم وبیش ٥٦ کانیں سونے کی دھات حاصل کرنے کیلئے چین کی سرپرستی میں شبانہ روز کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں معدنی تیل، یورینیم، لوہا اور سیسہ بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ خوردنی نمک اس کثرت سے پیدا ہوتا ہے کہ کل عالم کو ایک ہزار سال تک مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حلال جانوروں کی٤٤ انواع پائی جاتی ہیں۔
مشرقی ترکستان کی آبادی ایک ہی نسل اور ایک ہی تاریخ رکھنے والی آبادی پر مشتمل ہے۔ بنا بریں پہلی صدی کے اختتام تک کاشغر سمیت پوری آبادی اسلام میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ سنی العقیدہ ہیں اور وہاں حنفی مذہب رائج ہے۔
اگر ہمیں اپنی تاریخ پڑھنے کا موقع ملے تو ہمیں اپنے علمی اثاثہ سے معلوم ہوگا کہ وسطی ایشیا کی اقوام اتراک کہلاتی ہیں اور اسی وجہ سے اس علاقے کو ترکستان کہا گیا ہے۔ ترک اقوام نے اسلام کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں اُس سے ہم خوب واقف ہیں۔ ترک اقوام اسلامی اُمت کا ایک مستقل جزولاینفک ہیں۔ ترکوں کی ان خدمات میں ماضی قریب تک مشرقی ترکستان کا ایک فعال کردار رہا ہے اگرچہ یہ کردار ہمارے ہاں کوئی بڑی پذیرائی حاصل نہیں کر سکا جس کی وجہ ابلاغ عامہ کی خیانت ہے اور اب بھی وہاں اسلامی سرگرمیاں ختم نہیں ہوئی ہیں بلکہ برابر زور پکڑ رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ اُمت مسلمہ گوناگوں مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن اگر یہ اُمت ایک جسم کی مانند ہے تو پھر ہر زخم اپنا زخم ہے اور ہر زخم مرہم کا متقاضی ہے۔
 
Top