محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 10-صفر المظفر- 1435کا خطبہ جمعہ بعنوان " معاشرتی زندگی پر امن و امان کے اثرات " ارشاد فرمایا ،جس میں انہوں نے امن و امان کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کی تلقین کی، اور مضبوط امن وامان کیلئے معاون امور بیان کئے، پھر انہوں نے اس کیلئے ایک اہم طریقہ بھی بیان کیا، اور وہ ہےکہ : کتاب وسنت کی بالادستی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کیا جائے۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اور اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اُسی سے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، اور راہنمائی بھی اسی سے مانگتے ہیں، ہم سب اپنے اور گناہوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمرہ نہیں کرسکتا، اور جسے وہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سربراہ، اور نبی محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، اور صحابہ کرام پردرود ، سلام اور برکتیں نازل فرمائے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھراسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے [النساء: 1].
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102].
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70، 71].
اللہ کے بندو!
امن و امان انسانی اور بشری ضرورت ہے، ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے، اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا، قرآن مجید میں نعمتِ امن کو اللہ تعالی نے بطور احسان بھی جتلایا ہے، فرمایا: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ)کو پرامن بنا دیا ہے جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ [العنكبوت: 67]
اس لئے امن و امان بہت بڑی نعمت ہے، اسی لئے اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت، اور اہل خانہ کے بارے میں پُر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہےکہ آپ نے فرمایا: (جو شخص صبح کے وقت جسمانی طور پر صحیح سلامت اٹھے، اسے اپنے گھر میں کسی کا خوف بھی نہ ہو، اور دو وقت کی روٹی اس کے پاس موجود ہو؛ اس کیلئے دنیا ایک ہی جگہ جمع ہوچکی ہے)
اور کسی دانشور نے کہا ہے: " الأمنُ أهنأُ عيش، والعدلُ أقوَى جيشٍ " پرسکون زندگی امن میں ہےاور طاقتور فوج چاہئے تو عدل کرو۔
اور کسی نے کہا: "امن ہوتو انسان تنہائی میں بھی وحشت محسوس نہیں کرتا، جبکہ خوف کی وجہ سے انسان جلوت میں بھی مانوس نہیں ہوتا"
اور کسی نے یوں کہا: "بد امنی میں تونگری سے امن میں تنگدستی بہتر"
چنانچہ مسلمانو! ہمیں امن و امان قائم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرنی ہوگی، اسکے لئے ہمیں جس چیز کی بھی قربانی دینے پڑے ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے، حتی کہ ہم امن و امان قائم کرلیں۔
دھیان رکھنا! ہر قسم کا امن قائم کرنے کیلئے جو معاشرے کے تمام افراد کیلئے یکساں مفید ہوایک اہم ذریعہ ہے اور وہ ہے: اللہ رب العالمین کے بارے میں عقیدہ توحید ثابت کردیکھائیں، اور اسی کی اطاعت کریں، چنانچہ اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے گا جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے اس دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کی حالت خود کو امن میں تبدیل کردے گا۔ پس وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ [النور: 55]
اس لئے جب ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ اور اسکے رسول کے احکامات پر قائم ہونگے تو اللہ کے کئے ہوئے وعدے کے مستحق ٹھہرے گے، اور ہمیں ہمہ قسم کے خطرات اور اندیشوں سے امن حاصل ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (81) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ دونوں فریقوں میں سے امن و سلامتی کا زیادہ حقدار کون ہوا؟ اگر تم کچھ جانتے ہو (تو جواب دو) [81]جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں [الأنعام: 81، 82]
یقینی بات ہے کہ جب لوگ وحی الہی، اور نبوی منہج کی روشنی میں قدم اٹھائیں گے تو اللہ تعالی انہیں امن وامان کی دولت سے مالا مال کردیگا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ لہٰذا انہیں چاہیے کہ اس گھر (کعبہ) کے مالک کی (ہی) عبادت کریں [٣] جس نے انہیں بھوک (کے دنوں) میں کھانا کھلایا اور انہیں خوف سے (بچا کر) امن عطا کیا [قريش: 3، 4]
ہمیں اس بات کی سچی منظر کشی لوگوں کے موجودہ حالات میں نظر آتی ہے، اسی ملک کو دیکھیں ، کہ پورے جزیرہ عرب میں خوف وہراس کا عالم تھا، پھر اسکے بعد سلفی منہج کی آمد ہوئی اور اس کی وجہ سے پورا ملک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا، تو سب معاملات ٹھیک ہوگئے، اور امن وامان بھی قائم ہوگیا۔
مؤمنو!
امن و امان کے بعد اگر خوف وہراس پھیل جائے یا خوشگوار زندگی کے بعد پھر بد مزگی پیدا ہوجائے تو اسکے کچھ اسباب ہیں، جن میں سب سے مؤثر سبب شریعتِ الٰہیہ اور امام الانبیاء والمرسلین کی سنت سے اعراض ہے،اس کے بارے میں قرآن مجید نے کہا: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے وسیع مقدار میں پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا [النحل: 112]
پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یہ بھی واضح طور پر کہہ دیا: وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے [الشورى: 30]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "دنیا اور آخرت میں جو کچھ بھی تنگی یا سزا ہوگی اسکا سبب صرف اور صرف گناہ اور نافرمانیاں ہیں"
فاضل سامعین ! یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ زوالِ امن سب سے بڑی سزا ہے، اسکی تائید میں حدیث مبارکہ ہے: "اللہ کے رسول! کیا ہمیں بھی ہلاک ہوجائیں گے، حالانکہ نیک لوگ بھی موجود ہونگے؟ "آپ نے فرمایا: (ہاں! جب برائی بڑھ جائے گی)
اسلامی بھائیو!
امن و امان قائم کرنے کیلئے حکمران اور عوام تمام ایک دوسرے سے نیکی اور تقوی کے کاموں پر تعاون کریں، اور ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو مکمل دیانتداری اور اچھے انداز سے نبھائے، اور سب اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنے والے معاشرے کی تعمیر و ترقی کیلئے فرامینِ الہیہ اور احکامِ نبویہ پر عمل کریں، اور تمام اسلامی احکامات کو اپنی تمام تر روزمرہ سرگرمیوں کیلئے مشعلِ راہ بنائیں۔
تب ہی خوشیاں عام ہونگی، امن و امان پھیلے گا، اور آپس میں محبت، الفت اور پوری امت اسلامیہ کا فائدہ ہوگا، صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم انکے لئے دعائیں کرو، اور وہ تمہارے لئے دعائیں کریں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جنہیں تم ناگوار سمجھو، اور وہ تمہیں ناگوار سمجھیں، تم انہیں لعن طعن کا نشانہ بناؤ اور وہ تمہیں لعن طعن کریں) صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں منصب سے معزول نہ کردیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی بات دہرائی، پھر آپ نے فرمایا: (خبر دار! جو شخص اپنے حکمران میں کوئی گناہ دیکھے تو اس گناہ کو برا جانے، اور خود اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہ کرے)
ایک مسلمان حکمران کا فرض بنتا ہے کہ وہ امت اسلامیہ کیلئے ایسے تمام اقدامات کرے جن سے امن و امان قائم ہو، اس کیلئے سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ ہر قیمت پر معاشرے کے تمام افراد کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے، اور جہاں کہیں بھی ظلم ہو اسے بغیر کسی تمیز کے جڑ سے اکھاڑ پھینکے، ایسے حکمران کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: (یا اللہ! جس شخص نے میری امت کے کسی معاملے کی باگ ڈرر سنبھالنے کے بعد ان پر سختی کی، یا اللہ! تو اس پر سختی فرما، اور جس نے نرمی کی اس پر نرمی فرما)مسلم
جسے اللہ تعالی نے کسی بھی رعایا کا حکمران بنایا اسے چاہئے کہ لوگوں کی شکایات سنے اور اسکا حل کرے، انکی زندگی کے تمام پہلؤوں کی دیکھ بھال رکھے، اور ان کے حالات کی خبرگیری کرتا رہے، ان باتوں پر عمل نہ کرنے والے حکمران کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (اللہ تعالیٰ جس شخص کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنائے اور پھر وہ ان کی ضرورت اور مشکل وقت میں کام میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت کو پورا نہ فرمائے گا اور نہ ہی مشکل وقت میں اس کی مدد کرے گا)
مسلمانو!
امت کو درپیش مسائل کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ رعایا کے متعلق حکمران طبقہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سنجیدہ نہیں ہے، جسکی وجہ سے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ہم اللہ تعالی سے اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے ہر جگہ پر سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم حکمرانوں کو متنبہ کردیا تھا، اور فرمایا: (جس بندے کو اللہ نے رعایا پر ذمہ دار بنایا اور مرتے دم تک اپنی رعایا کے ساتھ خیانت کرتا رہا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے) اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
پھر قیامِ امن کیلئے مضبوط ترین اقدام یہ ہے کہ رعایا بھی اپنے حکمرانوں کی اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اطاعت کریں، اور آپس میں اتحاد کیلئے کوشش کریں اور اختلافات سے بچیں، اسی بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں [النساء: 59]
صحیح مسلم میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا: "مجھے میرے خلیل نے وصیت کی تھی کہ میں سربراہ کی اطاعت کرونگا چاہے کسی ناک کان کٹے حبشی کو ہی سربراہ کیوں نہ بنا دیا جائے"
اسلامی بھائیو!
امن برقرار رکھنے کیلئے ہمیں اپنے سماجی تعلقات پر زور دینا ہوگا، اس کیلئے معنوی اور مادی تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آپس میں محبت، رحمت، ایمانی بھائی چارہ پیدا کرنے والے تعلقات جوڑنے ہونگے، اللہ تعالی نے مسلم سماج کی تصویر ان لفظوں میں بیان کی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ بے شک تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں[الحجرات: 10]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں جسکی صحت پر سب علماء کا اتفاق ہے، (مؤمنوں کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت کیلئے مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار کی وجہ سے اسکا سارا جسم بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے)
سماجی تعلقات مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پورے معاشرے کے افراد اختلاف کا باعث بننے والے تمام اسباب سے یکسر دور ہوجائیں، اس کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
اس لئے تمام امت اسلامیہ کے افراد پر ضروری ہے کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں، امت کے بارے میں اللہ کا خوف اپنے ذہنوں میں رکھیں، دین کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں، اور متحد ہوکر نیکی اور تقوی کے کاموں کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک ایسی جماعت بن جائیں جو قرآن کریم کو اپنے لئے دستور جانتی ہو، سنت نبوی کو اپنے مشعلِ راہ سمجھتی ہو، اور سلف صالحین کے منہج کوبطورِ نگران جانے، اس لئے کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
مندرجہ بالا اقدامات کے بغیر ہر کوشش ناکام ہوگی، اور پوری کی پوری قوم کو فتنے اور مسائل اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، اسی کا بیان اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [الأنفال: 46]
امتِ اسلامیہ!
تمام اسلامی ممالک پر ضروری ہے کہ آج متحد ہونے کیلئے اکٹھے ہوجائیں، تاکہ بار آور تعاون کیلئے پیش قدمی ہوسکے، اور سب لوگوں کا اس سے فائدہ ہو، دوسری جانب اس اتحاد کی بنا پر اسلام دشمنوں قوتوں کیلئے آہنی دیوار قائم کی جاسکےگی اور یہ دین کے بنیادی مقاصد میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحِ احوال کا بہترین طریقہ بھی ہے۔ اللہ تعالی اسکی توفیق دے۔
اسلام کا بنیادی قاعدہ جو فرمانِ باری تعالی میں بیان ہوا: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرو، اور گناہ و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو[المائدة: 2]
اور دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک مؤمن اپنے دوسرے مؤمن بھائی کیلئے ایک عمارت کی طرح ہے، جسکا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے)
اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
میں اپنے رب کی تعریف بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، اور اُسی کی ثناء خوانی کرتا ہوں، اور درود و سلام بھیجتا ہوں ہمارے نبی سید الخلق محمد پر، یا اللہ! آپ پر ، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
مؤمنو!
امن قائم کرنے کیلئےبڑے ذرائع میں سے یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے مستقل نظام قائم کیا جائے؛ اس کیلئے تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے اہتمام کریں، کیونکہ امن و امان اور سماجی ترقی اسکے بغیر ممکن ہی نہیں، کیونکہ قرآن مجید نے فرمایا: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں۔ وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں [آل عمران: 104]
معاشرے کے تمام افراد پر بھی ضروری ہے کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی کیلئے تعاون کریں، اور احتساب کرنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انکا دست و بازو بنیں تا کہ گناہوں سے بچے رہے اور برائیوں سے دور رہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (اگرلوگ برائی کو دیکھیں اور اسے ختم نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کوئی عذاب نازل کردے)
مسلمانو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ پر ،یا اللہ! خلفائے راشدین ، اور ہدایت یافتہ ائمہ کرام ابو بکر، عمر، عثمان اور علی اورتمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، اور تابعین کرام سےاور جو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلے ان سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! ہمیں اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما،یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! مسلمانوں کو امن وسلامتی کی نعمت عطا فرما، یا اللہ! انہیں امن وسلامتی سے نواز، یااللہ! امن وامان اور اطمینان کی زندگی عنائت فرما، یا اللہ! ان پر اپنی طرف سے سکون نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنی طرف سے سکون نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنی طرف سے سکون نازل فرما۔
یا اللہ! ہمارے بھائیوں کو ہر جگہ تمام خوف و خطر، اور مصیبتوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! شام، لیبیا، مصر، تونس، یمن اور تمام مسلم ممالک سے تکالیف کو ٹالنے کاحکم صادر فرما، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن وامان کی نعمت سے نواز، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن وامان کی نعمت سے نواز، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو جلد از جلد تعمیر و ترقی اور خوشحالی سے نواز، یا حیی! یا قیوم!یا اللہ! انہیں بہت تکلیف پہنچ چکی ہے، اور توں ہی رحم کرنے والا ہے! یا اللہ! اُن پر اپنا خاص رحم فرما، یا اللہ! اُن پر اپنا خاص رحم فرما، یا اللہ! اُن پر اپنا خاص رحم فرما، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن نصیب فرما،یااللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و امان اور خوشحالی والا بنا۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُنکے نائب کوبھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! انکی عمروں میں برکتیں ڈال دے، یااللہ! انہیں خیرکیلئے راہنما بنادے، یااللہ! انہیں خیرکیلئے راہنما بنادے، یا اللہ! انکے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچا، یا ذالجلال والاکرام۔
یا اللہ! تمام مسلمان مرد وخواتین کو معاف فرمادے، یا اللہ! تمام مؤمن مرد وخواتین کو معاف فرما دے، یا اللہ! زندہ افراد کو بھی اور جو فوت ہوچکے ہیں سب کو معاف فرما۔
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائیاں نصیب فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تو ہی ہمارا سچا معبود ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو ہی غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما،یا ذالجلال والاکرام، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش نصیب فرما۔
یا اللہ! ہمیں بارش کی ضرورت ہے، یا اللہ! ہمیں بارش کی ضرورت ہے، یا اللہ! ہمیں بارش کی ضرورت ہے،یا اللہ! ہم پر اپنا کرم فرما، یا اللہ! ہم پر اپنا کرم فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں پر پورے جہان میں اپنا کرم نازل فرما،یا حیی! یا قیوم!
اللہ کے بندو!
اللہ کا ذکر کثرت سے کرو، اور صبح و شام اسکی پاکیزگی بیان کرو۔
لنک
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 10-صفر المظفر- 1435کا خطبہ جمعہ بعنوان " معاشرتی زندگی پر امن و امان کے اثرات " ارشاد فرمایا ،جس میں انہوں نے امن و امان کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کی تلقین کی، اور مضبوط امن وامان کیلئے معاون امور بیان کئے، پھر انہوں نے اس کیلئے ایک اہم طریقہ بھی بیان کیا، اور وہ ہےکہ : کتاب وسنت کی بالادستی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کیا جائے۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اور اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اُسی سے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، اور راہنمائی بھی اسی سے مانگتے ہیں، ہم سب اپنے اور گناہوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمرہ نہیں کرسکتا، اور جسے وہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سربراہ، اور نبی محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، اور صحابہ کرام پردرود ، سلام اور برکتیں نازل فرمائے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھراسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے [النساء: 1].
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102].
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70، 71].
اللہ کے بندو!
امن و امان انسانی اور بشری ضرورت ہے، ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے، اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا، قرآن مجید میں نعمتِ امن کو اللہ تعالی نے بطور احسان بھی جتلایا ہے، فرمایا: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ)کو پرامن بنا دیا ہے جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ [العنكبوت: 67]
اس لئے امن و امان بہت بڑی نعمت ہے، اسی لئے اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت، اور اہل خانہ کے بارے میں پُر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہےکہ آپ نے فرمایا: (جو شخص صبح کے وقت جسمانی طور پر صحیح سلامت اٹھے، اسے اپنے گھر میں کسی کا خوف بھی نہ ہو، اور دو وقت کی روٹی اس کے پاس موجود ہو؛ اس کیلئے دنیا ایک ہی جگہ جمع ہوچکی ہے)
اور کسی دانشور نے کہا ہے: " الأمنُ أهنأُ عيش، والعدلُ أقوَى جيشٍ " پرسکون زندگی امن میں ہےاور طاقتور فوج چاہئے تو عدل کرو۔
اور کسی نے کہا: "امن ہوتو انسان تنہائی میں بھی وحشت محسوس نہیں کرتا، جبکہ خوف کی وجہ سے انسان جلوت میں بھی مانوس نہیں ہوتا"
اور کسی نے یوں کہا: "بد امنی میں تونگری سے امن میں تنگدستی بہتر"
چنانچہ مسلمانو! ہمیں امن و امان قائم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرنی ہوگی، اسکے لئے ہمیں جس چیز کی بھی قربانی دینے پڑے ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے، حتی کہ ہم امن و امان قائم کرلیں۔
دھیان رکھنا! ہر قسم کا امن قائم کرنے کیلئے جو معاشرے کے تمام افراد کیلئے یکساں مفید ہوایک اہم ذریعہ ہے اور وہ ہے: اللہ رب العالمین کے بارے میں عقیدہ توحید ثابت کردیکھائیں، اور اسی کی اطاعت کریں، چنانچہ اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے گا جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے اس دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کی حالت خود کو امن میں تبدیل کردے گا۔ پس وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ [النور: 55]
اس لئے جب ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ اور اسکے رسول کے احکامات پر قائم ہونگے تو اللہ کے کئے ہوئے وعدے کے مستحق ٹھہرے گے، اور ہمیں ہمہ قسم کے خطرات اور اندیشوں سے امن حاصل ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (81) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ دونوں فریقوں میں سے امن و سلامتی کا زیادہ حقدار کون ہوا؟ اگر تم کچھ جانتے ہو (تو جواب دو) [81]جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں [الأنعام: 81، 82]
یقینی بات ہے کہ جب لوگ وحی الہی، اور نبوی منہج کی روشنی میں قدم اٹھائیں گے تو اللہ تعالی انہیں امن وامان کی دولت سے مالا مال کردیگا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ لہٰذا انہیں چاہیے کہ اس گھر (کعبہ) کے مالک کی (ہی) عبادت کریں [٣] جس نے انہیں بھوک (کے دنوں) میں کھانا کھلایا اور انہیں خوف سے (بچا کر) امن عطا کیا [قريش: 3، 4]
ہمیں اس بات کی سچی منظر کشی لوگوں کے موجودہ حالات میں نظر آتی ہے، اسی ملک کو دیکھیں ، کہ پورے جزیرہ عرب میں خوف وہراس کا عالم تھا، پھر اسکے بعد سلفی منہج کی آمد ہوئی اور اس کی وجہ سے پورا ملک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا، تو سب معاملات ٹھیک ہوگئے، اور امن وامان بھی قائم ہوگیا۔
مؤمنو!
امن و امان کے بعد اگر خوف وہراس پھیل جائے یا خوشگوار زندگی کے بعد پھر بد مزگی پیدا ہوجائے تو اسکے کچھ اسباب ہیں، جن میں سب سے مؤثر سبب شریعتِ الٰہیہ اور امام الانبیاء والمرسلین کی سنت سے اعراض ہے،اس کے بارے میں قرآن مجید نے کہا: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے وسیع مقدار میں پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا [النحل: 112]
پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یہ بھی واضح طور پر کہہ دیا: وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے [الشورى: 30]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "دنیا اور آخرت میں جو کچھ بھی تنگی یا سزا ہوگی اسکا سبب صرف اور صرف گناہ اور نافرمانیاں ہیں"
فاضل سامعین ! یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ زوالِ امن سب سے بڑی سزا ہے، اسکی تائید میں حدیث مبارکہ ہے: "اللہ کے رسول! کیا ہمیں بھی ہلاک ہوجائیں گے، حالانکہ نیک لوگ بھی موجود ہونگے؟ "آپ نے فرمایا: (ہاں! جب برائی بڑھ جائے گی)
اسلامی بھائیو!
امن و امان قائم کرنے کیلئے حکمران اور عوام تمام ایک دوسرے سے نیکی اور تقوی کے کاموں پر تعاون کریں، اور ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو مکمل دیانتداری اور اچھے انداز سے نبھائے، اور سب اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنے والے معاشرے کی تعمیر و ترقی کیلئے فرامینِ الہیہ اور احکامِ نبویہ پر عمل کریں، اور تمام اسلامی احکامات کو اپنی تمام تر روزمرہ سرگرمیوں کیلئے مشعلِ راہ بنائیں۔
تب ہی خوشیاں عام ہونگی، امن و امان پھیلے گا، اور آپس میں محبت، الفت اور پوری امت اسلامیہ کا فائدہ ہوگا، صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم انکے لئے دعائیں کرو، اور وہ تمہارے لئے دعائیں کریں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جنہیں تم ناگوار سمجھو، اور وہ تمہیں ناگوار سمجھیں، تم انہیں لعن طعن کا نشانہ بناؤ اور وہ تمہیں لعن طعن کریں) صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں منصب سے معزول نہ کردیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی بات دہرائی، پھر آپ نے فرمایا: (خبر دار! جو شخص اپنے حکمران میں کوئی گناہ دیکھے تو اس گناہ کو برا جانے، اور خود اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہ کرے)
ایک مسلمان حکمران کا فرض بنتا ہے کہ وہ امت اسلامیہ کیلئے ایسے تمام اقدامات کرے جن سے امن و امان قائم ہو، اس کیلئے سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ ہر قیمت پر معاشرے کے تمام افراد کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے، اور جہاں کہیں بھی ظلم ہو اسے بغیر کسی تمیز کے جڑ سے اکھاڑ پھینکے، ایسے حکمران کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: (یا اللہ! جس شخص نے میری امت کے کسی معاملے کی باگ ڈرر سنبھالنے کے بعد ان پر سختی کی، یا اللہ! تو اس پر سختی فرما، اور جس نے نرمی کی اس پر نرمی فرما)مسلم
جسے اللہ تعالی نے کسی بھی رعایا کا حکمران بنایا اسے چاہئے کہ لوگوں کی شکایات سنے اور اسکا حل کرے، انکی زندگی کے تمام پہلؤوں کی دیکھ بھال رکھے، اور ان کے حالات کی خبرگیری کرتا رہے، ان باتوں پر عمل نہ کرنے والے حکمران کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (اللہ تعالیٰ جس شخص کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنائے اور پھر وہ ان کی ضرورت اور مشکل وقت میں کام میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت کو پورا نہ فرمائے گا اور نہ ہی مشکل وقت میں اس کی مدد کرے گا)
مسلمانو!
امت کو درپیش مسائل کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ رعایا کے متعلق حکمران طبقہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سنجیدہ نہیں ہے، جسکی وجہ سے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ہم اللہ تعالی سے اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے ہر جگہ پر سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم حکمرانوں کو متنبہ کردیا تھا، اور فرمایا: (جس بندے کو اللہ نے رعایا پر ذمہ دار بنایا اور مرتے دم تک اپنی رعایا کے ساتھ خیانت کرتا رہا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے) اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
پھر قیامِ امن کیلئے مضبوط ترین اقدام یہ ہے کہ رعایا بھی اپنے حکمرانوں کی اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اطاعت کریں، اور آپس میں اتحاد کیلئے کوشش کریں اور اختلافات سے بچیں، اسی بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں [النساء: 59]
صحیح مسلم میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا: "مجھے میرے خلیل نے وصیت کی تھی کہ میں سربراہ کی اطاعت کرونگا چاہے کسی ناک کان کٹے حبشی کو ہی سربراہ کیوں نہ بنا دیا جائے"
اسلامی بھائیو!
امن برقرار رکھنے کیلئے ہمیں اپنے سماجی تعلقات پر زور دینا ہوگا، اس کیلئے معنوی اور مادی تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آپس میں محبت، رحمت، ایمانی بھائی چارہ پیدا کرنے والے تعلقات جوڑنے ہونگے، اللہ تعالی نے مسلم سماج کی تصویر ان لفظوں میں بیان کی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ بے شک تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں[الحجرات: 10]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں جسکی صحت پر سب علماء کا اتفاق ہے، (مؤمنوں کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت کیلئے مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار کی وجہ سے اسکا سارا جسم بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے)
سماجی تعلقات مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پورے معاشرے کے افراد اختلاف کا باعث بننے والے تمام اسباب سے یکسر دور ہوجائیں، اس کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
اس لئے تمام امت اسلامیہ کے افراد پر ضروری ہے کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں، امت کے بارے میں اللہ کا خوف اپنے ذہنوں میں رکھیں، دین کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں، اور متحد ہوکر نیکی اور تقوی کے کاموں کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک ایسی جماعت بن جائیں جو قرآن کریم کو اپنے لئے دستور جانتی ہو، سنت نبوی کو اپنے مشعلِ راہ سمجھتی ہو، اور سلف صالحین کے منہج کوبطورِ نگران جانے، اس لئے کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
مندرجہ بالا اقدامات کے بغیر ہر کوشش ناکام ہوگی، اور پوری کی پوری قوم کو فتنے اور مسائل اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، اسی کا بیان اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [الأنفال: 46]
امتِ اسلامیہ!
تمام اسلامی ممالک پر ضروری ہے کہ آج متحد ہونے کیلئے اکٹھے ہوجائیں، تاکہ بار آور تعاون کیلئے پیش قدمی ہوسکے، اور سب لوگوں کا اس سے فائدہ ہو، دوسری جانب اس اتحاد کی بنا پر اسلام دشمنوں قوتوں کیلئے آہنی دیوار قائم کی جاسکےگی اور یہ دین کے بنیادی مقاصد میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحِ احوال کا بہترین طریقہ بھی ہے۔ اللہ تعالی اسکی توفیق دے۔
اسلام کا بنیادی قاعدہ جو فرمانِ باری تعالی میں بیان ہوا: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرو، اور گناہ و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو[المائدة: 2]
اور دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک مؤمن اپنے دوسرے مؤمن بھائی کیلئے ایک عمارت کی طرح ہے، جسکا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے)
اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
میں اپنے رب کی تعریف بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، اور اُسی کی ثناء خوانی کرتا ہوں، اور درود و سلام بھیجتا ہوں ہمارے نبی سید الخلق محمد پر، یا اللہ! آپ پر ، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
مؤمنو!
امن قائم کرنے کیلئےبڑے ذرائع میں سے یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے مستقل نظام قائم کیا جائے؛ اس کیلئے تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے اہتمام کریں، کیونکہ امن و امان اور سماجی ترقی اسکے بغیر ممکن ہی نہیں، کیونکہ قرآن مجید نے فرمایا: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں۔ وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں [آل عمران: 104]
معاشرے کے تمام افراد پر بھی ضروری ہے کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی کیلئے تعاون کریں، اور احتساب کرنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انکا دست و بازو بنیں تا کہ گناہوں سے بچے رہے اور برائیوں سے دور رہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (اگرلوگ برائی کو دیکھیں اور اسے ختم نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کوئی عذاب نازل کردے)
مسلمانو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ پر ،یا اللہ! خلفائے راشدین ، اور ہدایت یافتہ ائمہ کرام ابو بکر، عمر، عثمان اور علی اورتمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، اور تابعین کرام سےاور جو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلے ان سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! ہمیں اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما،یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! مسلمانوں کو امن وسلامتی کی نعمت عطا فرما، یا اللہ! انہیں امن وسلامتی سے نواز، یااللہ! امن وامان اور اطمینان کی زندگی عنائت فرما، یا اللہ! ان پر اپنی طرف سے سکون نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنی طرف سے سکون نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنی طرف سے سکون نازل فرما۔
یا اللہ! ہمارے بھائیوں کو ہر جگہ تمام خوف و خطر، اور مصیبتوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! شام، لیبیا، مصر، تونس، یمن اور تمام مسلم ممالک سے تکالیف کو ٹالنے کاحکم صادر فرما، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن وامان کی نعمت سے نواز، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن وامان کی نعمت سے نواز، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو جلد از جلد تعمیر و ترقی اور خوشحالی سے نواز، یا حیی! یا قیوم!یا اللہ! انہیں بہت تکلیف پہنچ چکی ہے، اور توں ہی رحم کرنے والا ہے! یا اللہ! اُن پر اپنا خاص رحم فرما، یا اللہ! اُن پر اپنا خاص رحم فرما، یا اللہ! اُن پر اپنا خاص رحم فرما، یا ذالجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن نصیب فرما،یااللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و امان اور خوشحالی والا بنا۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُنکے نائب کوبھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! انکی عمروں میں برکتیں ڈال دے، یااللہ! انہیں خیرکیلئے راہنما بنادے، یااللہ! انہیں خیرکیلئے راہنما بنادے، یا اللہ! انکے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچا، یا ذالجلال والاکرام۔
یا اللہ! تمام مسلمان مرد وخواتین کو معاف فرمادے، یا اللہ! تمام مؤمن مرد وخواتین کو معاف فرما دے، یا اللہ! زندہ افراد کو بھی اور جو فوت ہوچکے ہیں سب کو معاف فرما۔
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائیاں نصیب فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تو ہی ہمارا سچا معبود ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو ہی غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما،یا ذالجلال والاکرام، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش نصیب فرما۔
یا اللہ! ہمیں بارش کی ضرورت ہے، یا اللہ! ہمیں بارش کی ضرورت ہے، یا اللہ! ہمیں بارش کی ضرورت ہے،یا اللہ! ہم پر اپنا کرم فرما، یا اللہ! ہم پر اپنا کرم فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں پر پورے جہان میں اپنا کرم نازل فرما،یا حیی! یا قیوم!
اللہ کے بندو!
اللہ کا ذکر کثرت سے کرو، اور صبح و شام اسکی پاکیزگی بیان کرو۔
لنک