کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ملک شام میں اسلام کا مستقبل
سرزمین شام کو مبارک سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس خطہ زمین کی برکات اور رحمتوں کی جانب اشارہ کیا گیا، اس سرزمین پر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے قدم پڑے، بلکہ یہ سرزمین پیغامات الِہی کا سرچشمہ رہی، اور اللہ کے رسولوں کا ماوی ومسکن بنی، تاریخ میں جس خطے کو ’بلادِ شام‘ کہا جاتا ہے اس کے چار اقلیم ہیں، حالیہ سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن، جوکہ اس وقت چار الگ الگ ملکوں میں منقسم ہے۔ خطۂ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، بلکہ احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہے اور محدثین عظام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے بےشمار مناقب وفضائل نقل کیے ہیں۔
بیرونی اسلامی فتوحات میں انبیاء کی یہ سرزمین اہل اسلام کیلئے پہلا خدائی تحفہ تھی۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے لشکر کے ہاتھوں یرموک کی فیصلہ کن شکست کے بعد سیزر ہریکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتا ہوا رخصت ہوا تھا’ سلام تجھے اے ارض شام! اب کبھی تجھ سے ملاقات ممکن نہیں‘ اور اس کے ساتھ ہی یہ خطہ اذانوں کی گونج میں عدل فارقی کا نظارہ کرنے لگا!
سرزمین شام قرآن میں:
ارض مبارکہ: قرآن مجید میں بلاد شام کو ارضِ مبارکہ کہا گیا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اپنی کتاب ''مناقب الشام واھلہ'' کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: کتاب وسنت اور آثار علماء سے شام اور اس کے باشندوں کے فضائل ومناقب ثابت ہیں، یہ وہ ملک ہے، جو تاتاریوں کے حملے میں مسلمانوں کی ترغیب کا باعث بنا، اور مسلمانوں نے مصر کی جانب راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے دمشق میں ہی پناہ لی۔ اھ،
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ
اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی۔
(الأنبياء:71)
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: آیت میں برکت والی سرزمین سے مراد ارض شام ہے، یہی روایت مجاہد، ابن زید اور ابن جریج سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے لیے ارض مبارکہ کو نجات گاہ بنایا تھا، اور بلاد شام سے سرزمین فلسطین کا انتخاب فرمایا،
شیخ سعدیؒ آیت بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "آیت میں برکت والی زمین سے مراد شام ہے، کیونکہ اکثر انبیاء کا تعلق اسی سرزمین سے تھا، اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کے لیے مقام ہجرت بنایا، اور اسی سرزمین میں اس کے گھروں میں سے ایک گھر بیت المقدس ہے"۔
بیرونی اسلامی فتوحات میں انبیاء کی یہ سرزمین اہل اسلام کیلئے پہلا خدائی تحفہ تھی۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے لشکر کے ہاتھوں یرموک کی فیصلہ کن شکست کے بعد سیزر ہریکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتا ہوا رخصت ہوا تھا’ سلام تجھے اے ارض شام! اب کبھی تجھ سے ملاقات ممکن نہیں‘ اور اس کے ساتھ ہی یہ خطہ اذانوں کی گونج میں عدل فارقی کا نظارہ کرنے لگا!
سرزمین شام قرآن میں:
ارض مبارکہ: قرآن مجید میں بلاد شام کو ارضِ مبارکہ کہا گیا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اپنی کتاب ''مناقب الشام واھلہ'' کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: کتاب وسنت اور آثار علماء سے شام اور اس کے باشندوں کے فضائل ومناقب ثابت ہیں، یہ وہ ملک ہے، جو تاتاریوں کے حملے میں مسلمانوں کی ترغیب کا باعث بنا، اور مسلمانوں نے مصر کی جانب راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے دمشق میں ہی پناہ لی۔ اھ،
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ
اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی۔
(الأنبياء:71)
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: آیت میں برکت والی سرزمین سے مراد ارض شام ہے، یہی روایت مجاہد، ابن زید اور ابن جریج سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے لیے ارض مبارکہ کو نجات گاہ بنایا تھا، اور بلاد شام سے سرزمین فلسطین کا انتخاب فرمایا،
شیخ سعدیؒ آیت بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "آیت میں برکت والی زمین سے مراد شام ہے، کیونکہ اکثر انبیاء کا تعلق اسی سرزمین سے تھا، اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کے لیے مقام ہجرت بنایا، اور اسی سرزمین میں اس کے گھروں میں سے ایک گھر بیت المقدس ہے"۔
مسجد اقصی اُسی سرزمین میں واقع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بابرکت بنایا،
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کو اپنی قوم کے ساتھ سرزمین شام کی جانب جانے کا حکم دیا تھا، لیکن قوم نے داخل ہونے سے انکار کیا :
ارشاد ہے:
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو
بلاد شام اللہ کے نیک بندوں کی میراث ہے، ارشاد باری ہے :
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا
اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس سرزمین کے مشرق مغرب کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہواؤں کو ارض مبارک یعنی شام کی جانب رخ کرنے کا حکم دیں،
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔
ابن جریر طبری کہتے ہیں: سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ارض مبارک کی ہوائیں چلتی تھیں، اور ارض مبارک سے مراد ملک شام ہے،
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سِینِین کی اور اس امن والے شہر کی.
بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیت میں لفظ تین سے مراد بلاد شام ہے اور لفظ زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سرزمین شام کو سچائی کا ٹھکانہ قرار دیا، ارشاد ربانی ہے:
وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا۔
ابن کثیر ؒ نے آیت کی تفسیر میں کہا کہ مبوا صدق سے مراد بلاد مصر وشام ہے جو بیت المقدس کے اردگرد واقع ہے، اور طبری نے قتادہ کے حوالے سے کہا: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شام اور بیت المقدس میں ٹھکانہ عطا کیا تھا،
بلاد شام احادیث رسول صلی اللہ علیہ میں:
شام میں سکونت اختیار کرنے کی وصیت:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے: فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اخیر زمانے میں حضر موت سے تم پر ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکھٹا کرے گی، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے وقت آپ کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کا رخ کرنا۔
(رواه الترمذي وصححه الألباني)
حضرت عبداللہ بن حوالہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہو گا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ ﷲ تعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘
(أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب : فی سکنی الشام، 3 : 4، رقم : 2483)
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام سے متعلق وصیت فرماتے ہوئے فرمایا: تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘
(رواه أبو داود وأحمد، بسند صحيح.)
ارشاد ہے:
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو
بلاد شام اللہ کے نیک بندوں کی میراث ہے، ارشاد باری ہے :
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا
اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس سرزمین کے مشرق مغرب کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہواؤں کو ارض مبارک یعنی شام کی جانب رخ کرنے کا حکم دیں،
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔
ابن جریر طبری کہتے ہیں: سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ارض مبارک کی ہوائیں چلتی تھیں، اور ارض مبارک سے مراد ملک شام ہے،
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سِینِین کی اور اس امن والے شہر کی.
بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیت میں لفظ تین سے مراد بلاد شام ہے اور لفظ زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سرزمین شام کو سچائی کا ٹھکانہ قرار دیا، ارشاد ربانی ہے:
وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا۔
ابن کثیر ؒ نے آیت کی تفسیر میں کہا کہ مبوا صدق سے مراد بلاد مصر وشام ہے جو بیت المقدس کے اردگرد واقع ہے، اور طبری نے قتادہ کے حوالے سے کہا: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شام اور بیت المقدس میں ٹھکانہ عطا کیا تھا،
بلاد شام احادیث رسول صلی اللہ علیہ میں:
شام میں سکونت اختیار کرنے کی وصیت:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے: فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اخیر زمانے میں حضر موت سے تم پر ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکھٹا کرے گی، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے وقت آپ کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کا رخ کرنا۔
(رواه الترمذي وصححه الألباني)
حضرت عبداللہ بن حوالہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہو گا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ ﷲ تعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘
(أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب : فی سکنی الشام، 3 : 4، رقم : 2483)
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام سے متعلق وصیت فرماتے ہوئے فرمایا: تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘
(رواه أبو داود وأحمد، بسند صحيح.)
خطۂ شام طائفۂ منصورہ کا مسکن:
حضرت معاویہ بن ابوسفیان ؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جائے کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے ۔
(متفق علیہ)
مالک بن یخامر کہتے ہیں: میں نے حضرت معاذ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہوگا۔
اور ایک روایت میں ہے:
میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا، حتی کہ ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائی کرے گا۔ یہ بات مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین میں باب لد کے پاس مسیح دجال کا سامنا کریں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام کو قیامت تک اللہ کے حکم کے قائم کرنے اور قیامت تک ان میں طائفہ منصورہ کے وجود کی وجہ سے امتیازی طور پر ذکر فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل شام سے متعلق اس طرح فرمانا ان میں دائمی کثرت وقوت کے ہونے کی دلیل ہے، اہل شام کے علاوہ اسلام کی کسی زمین کے باشندوں میں یہ وصف بیان نہیں کیا گیا، حالانکہ سرزمین حجاز ایمان کا اصل مرکز ہے، لیکن آخری زمانے میں وہاں بھی علم، ایمان، نصرت اور جہاد کم ہوجائے گا، یمن ، عراق اور مشرق میں بھی یہی صورتحال ہوگی، لیکن شام میں علم وایمان باقی رہے گا اور اس کے لیے لڑنے والوں کو ہر وقت تائید ونصرت حاصل رہے گی۔
مجموع الفتاوی (4/449)
حضرت معاویہ بن ابوسفیان ؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جائے کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے ۔
(متفق علیہ)
مالک بن یخامر کہتے ہیں: میں نے حضرت معاذ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہوگا۔
اور ایک روایت میں ہے:
میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا، حتی کہ ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائی کرے گا۔ یہ بات مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین میں باب لد کے پاس مسیح دجال کا سامنا کریں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام کو قیامت تک اللہ کے حکم کے قائم کرنے اور قیامت تک ان میں طائفہ منصورہ کے وجود کی وجہ سے امتیازی طور پر ذکر فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل شام سے متعلق اس طرح فرمانا ان میں دائمی کثرت وقوت کے ہونے کی دلیل ہے، اہل شام کے علاوہ اسلام کی کسی زمین کے باشندوں میں یہ وصف بیان نہیں کیا گیا، حالانکہ سرزمین حجاز ایمان کا اصل مرکز ہے، لیکن آخری زمانے میں وہاں بھی علم، ایمان، نصرت اور جہاد کم ہوجائے گا، یمن ، عراق اور مشرق میں بھی یہی صورتحال ہوگی، لیکن شام میں علم وایمان باقی رہے گا اور اس کے لیے لڑنے والوں کو ہر وقت تائید ونصرت حاصل رہے گی۔
مجموع الفتاوی (4/449)
ملک شام پر فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں:
صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: آپ نے فرمایا: شام کیلئے بھلائی ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے۔ آپ نے فرمایا: اس لئے کہ رحمن کے فرشتے ان پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔
(رواہ الترمذی وصححہ الالبانی)
فتنوں کے دور میں ایمان شام میں ہو گا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھر سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔
(رواه الإمام أحمد وصححه الألباني.)
جب اہل شام فساد کا شکار ہو جائیں تو پھر مسلمانوں میں کوئی خیر نہیں :
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے“۔
( رواه الإمام أحمد وصححه الألباني. )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارض مقدس کے رہنے والوں کے فساد کا شکار ہونے پر امت کے خیر کی نفی فرمائی، لہذا ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ضروری ہے، مقدس مکان کے ساتھ مقدس عمل کا اجتماع کیا ہی خوبصورت ہوگا۔
اہل شام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے کہا : اور ہمارے نجد میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں ؟ صحابہ کا ارادہ تھا کہ آپ اہل نجد کے لیے بھی دعا کریں، لیکن آپ نے ان کے لیے دعا نہیں فرمائی، البتہ یہ فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہیں سے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی۔
جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ دمشق میں ہوگا:
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈ ہیڈ کواٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ”الغوطہ“ کے مقام پر ہوگا۔
(سنن ابی داود، مستدرک حاکم)
شام سرزمین ہے حشر کی اور نشر کی:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام حشر اور نشر کی سرزمین ہے۔
لہذا سرزمین شام ہی مقدس اور مبارک سرزمین ہے، اللہ کی زمین میں یہی خطہ زمین اللہ کی بہترین زمین ہے، یہ سرزمین جہاد ورباط ہے، یہ اللہ کے بندوں کی جماعت کا مرکز ہے، اللہ کے بندوں کی یہی جماعت طائفہ منصورہ ہے۔
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈ ہیڈ کواٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ”الغوطہ“ کے مقام پر ہوگا۔
(سنن ابی داود، مستدرک حاکم)
شام سرزمین ہے حشر کی اور نشر کی:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام حشر اور نشر کی سرزمین ہے۔
لہذا سرزمین شام ہی مقدس اور مبارک سرزمین ہے، اللہ کی زمین میں یہی خطہ زمین اللہ کی بہترین زمین ہے، یہ سرزمین جہاد ورباط ہے، یہ اللہ کے بندوں کی جماعت کا مرکز ہے، اللہ کے بندوں کی یہی جماعت طائفہ منصورہ ہے۔
آخری زمانے میں بلاد شام خلافت اسلامیہ کا مرکز ہوگا:
ابوحوالہ ازدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر یا میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر فرمایا: اے ابن حوالہ ! جب دیکھو کہ ارض مقدسہ میں خلافت قائم ہوچکی تو اس دن زلزلے، بلائیں، مصیبتیں، بڑے بڑے حادثات، اور قیامت لوگوں سے اس سے زیادہ قریب ہونگے جتنا میرا ہاتھ تمہارے سرسے قریب ہے۔
صحيح الجامع.
ارض مبارکہ میں عمارت کا حقدار کون؟
ارض مبارکہ میں عمارت کے حقدار صرف موحدین مسلمان ہونگے، اور یہ سرزمین قیامت تک مسلمانوں کی چھاونی اور شہر جہاد ہوگا، لہذا احادیث میں اس سرزمین میں رہائش اختیار کرنے، دعوت توحید کو عام کرنے اور اس میں رہائش پذیر اہل حق کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
عسقلان شام کی سرحدوں میں سے ایک سرحد ہے:
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے نبوت ورحمت ہوگی، پھر خلافت اور رحمت ہوگی ، پھر ملوکیت اور رحمت ہوگی، پھر لوگ اس پرگدھوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے، لہذا (اس وقت) تم پر جہاد لازمی ہوگا، اور تمہارا رباط میں جہاد کرنا افضل ہوگا، اور تمہارا افضل رباط عسقلان ہوگا۔
(اخرج الطبرانی فی المعجم الکبیر، سلسلہ الصحیحہ:3270)
’رِباط‘ کا مطلب ہے آدمی کا حالتِ جنگ کیلئے کسی جگہ پر تیار اور حاضر پایا جانا۔ اس کیفیت میں ہونا کہ جنگ اب چھڑ سکتی۔ یا یہ کہ آدمی کو کسی جھڑپ کیلئے ابھی طلب کر لیا جائے گا یا ذرا ٹھہر کر۔ جنگ کے لئے آدمی کا محاذ پر ہونا اور مورچہ زن ہو رہنا۔
ایک حدیث میں ہے:
رِبَاطُ یَوْمٍ فی سبیل اللہ خیرٌ مّنَ الدُّنُیَا وَمًا عَلَیْہَا
(متفق علیہ)”
اللہ کے راستے میں ایک دن کا رباط دنیا وما فیہا سے بہتر ہے“۔
عسقلان ایک مشہور جگہ ہے، تاریخ میں اسے عروس الشام کہا گیا ہے، اور فلسطین کے شہروں سے متعلق انسائیکلوپیڈیا میں تحریر ہے: عسقلان اپنی طویل تاریخ میں معیشت کا حامل ایک ساحلی شہر شمار کیا جاتا رہا، اس کی سمندری بندرگاہ اور فلسطین ومصر کی سرحدوں سے قریب اس کے اسٹرٹیجک جائے وقوع کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے، سمندر سے گذرنے والے تمام تجارتی اور جنگی قافلوں کو اسی شہر سے گذرنا پڑتا ہے۔ تاریخ میں کوئی بھی لشکر عسقلان پر کنٹرول حاصل کیئے بغیر فلسطین کو فتح نہیں کر سکا، اسی طرح اسلامی ادوار میں بھی عسقلان کی اہمیت میں کمی نہیں آئی۔
مذکورہ بالا حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی عظیم دلیل ہے، جس میں آپ نے فرمایا کہ " پھر قومیں اقتدار پر گدھوں کی مانند ٹوٹ پڑیں گی" مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی جانب یہ آپ کا اشارہ تھا کہ مسلمان اختلاف اور آپسی خلفشار کی وجہ سے اقتدار کے لیے لڑیں گے، اس وجہ سے آپ نے فرمایا: "تمہارا افضل رباط عسقلان ہے" جس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یہ رباط بلاد شام ہے اور بلاد شام کو کفار للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے، بلاد شام کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سرزمین ہر زمانے میں اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل رہی، اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے سے مراد فلسطین کے شمالی وجنوبی اور مشرقی تمام علاقوں تک اپنا کنٹرول آسان کرنا ہے۔
غنائم اور رزق کی سرزمین:
ابو امامۃ الباھلی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔
(ترمذی اور اس کو البانی نے صحیح الجامع میں صحیح کہا ہے)
بالآخر انجام کار مسلمانوں کے ہی حق میں ہوگا :
اللہ تعالیٰ کی سنتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انجام کار مسلمانوں کے حق میں ہوگا، گرچہ اس کے لئے ایک زمانہ بھی لگ سکتا ہے یا پھر بہت بھی ہوسکتا ہے، اللہ کا دین چاہے ہمارے ذریعے یا کسی اور کے ذریعے ضرور غالب ہو کر رہے گا،
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون
اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگر چہ مشرک برا مانیں۔
اللہ تعالیٰ نے مومنین سے دشمنوں کےمقابلے مدد کا وعدہ فرمایا ہے، لیکن اس مدد کی آمد ممکن ہے بندوں کی نظر میں معجل ہو یا موخر، بہر حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارض مقدس کی اصل بنیاد اسلام قرار دیا ہے، اسلام ہی ارض مقدس کا مستقبل اور زندگی ہے، ارض مقدس کی ترقی وخوشحالی اور اس سرزمین میں امن وامان دین اسلام کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور اس سرزمین کے باشندے توحید، نماز اور فرائض اسلامی کی ادائیگی میں نمایاں رہیں گے، معاصی سے بچنے والے ہوں گے، سجد ہ ریز پیشانیوں ، متحدہ قلوب اور باوضو ہاتھوں میں اللہ کی مدد آکر رہے گی،
ارشاد باری تعالی ہے:
وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم، وليبدلنهم من بعد خوفهم أمناً يعبدونني لا يشركون بي شيئاً فمن كفر بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون
(النور: 55)
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں۔
تحریر: عيسى القدومي
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی