lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
ایک بھائی نے موقوف حدیث کے بارے میں یہ راۓ دی ہے - کیا یہ صحیح ہے یا نہیں پلیز اصلاح کر دیں - شکریہ
میری نظر سے صحیح بخاری کی ایک حدیث گزری جو کچھ یوں ہےسوال
حکم بن نافع شعیب زہری حمید بن عبدالرحمن بن عوف عبداللہ بن عتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ ہوتا تھا اور اب وحی موقوف ہوگئی اس لیے اب ہم تمہارے صرف تمہارے ظاہری اعمال پر مواخذہ کریں گے جو شخص اچھا عمل ظاہر کرے گا تو ہم اسے امن دیں گے اور مقرب بنائیں گے ہمیں اس کے باطن سے کوئی غرض نہیں اس کے باطن کا محاسبہ اللہ تعالیٰ کرے گا اور جس نے برے اعمال ظاہر کیے ہم اسے امن نہیں دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کیں گے اگرچہ وہ کہتا ہو کہ اس کا باطن اچھا ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2466 حدیث موقوف مکررات 1
یہ حدیث میں نے اس پوائینٹ پر سنائی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ سبحان و تعالٰی وحی کے ذریعے کسی بھی شخص کے بارے میں خبر کر سکتے تھے کہ وہ غلط کہہ رہا ہے یا صحیح
مگر مجھے اسکا جواب یہ دیا گیا کہ یہ موقوف حدیث ہے یعنی اسکی سند ایک صحابی (رض) پر جا رکتی ہے اس لئے اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔
تو کیا یہ بات درست ہے کہ اس کی سند ٹھیک نہیں؟
میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ اگر موقوف حدیث، صحت کے اعتبار سے صحیح کے درجے پر تب بھی اس سے حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
مگر کیا ایسی احادیث سے معلومات تو لی جاسکتی ہیں نا؟ جیسےاوپر والی حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے کیا جاتا تھا؟
جزاک اللہِ خیر
جواب
موقوف حدیث کا مطلب ہے کہ یہ صحابی کا قول فعل یا عمل ہے چونکہ اس میں یہ گمان آ سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ صحابی کی اپنی رائے ہواس وجہ سے اس کا درجہ مرفوع سے کم ہے
اگر سند متصل ہو اور راوی ہم عصر اور ثقہ ہوں اور کوئی اور علت نہ ہو تو اس کی سند صحیح ہے
اپ نے جو حدیث حدیث پیش کی ہے وہ بخاری کی ہے اور سندآ صحیح ہے
عموما کسی نہ کسی معاملہ میں کوئی نہ کوئی مرفوع حدیث بھی ہوتی ہے اور موقوف کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے .
جی معلومات لی جا سکتی ہے